Home » کیا صفات باری ماننے سے ذات باری “ممکن” بن جاتی ہے؟ قدم عالم کی ایک دلیل پر تبصرہ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فلسفہ کلام

کیا صفات باری ماننے سے ذات باری “ممکن” بن جاتی ہے؟ قدم عالم کی ایک دلیل پر تبصرہ

اہل اسلام کا عام عقیدہ ہے کہ الله کی ذات تمام صفات کمال سے متصف ہے جیسے کہ حیات، علم، قدرت، ارادہ وغیرہ، انہیں صفات ذاتیہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسلم فلاسفہ تاہم ان صفات کو بطور ثابت شدہ حقائق کے مفہوم میں قبول نہیں کرتے تھے۔ علامہ ابن سینا (م 1037 ء) اور ان کے موقف کے حامیوں کا استدلال ہوتا ہے کہ اگر ذات باری کو ایسی علت محضہ نہ قبول کیا جائے جس سے معلول بطریق لزوم صادر ہو بلکہ یہ کہا جائے کہ مخلوق کا ظہور اس کی صفت ارادہ و اختیار کے تحت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صفات دراصل ذات باری پر کچھ اضافی حقیقت کے طور پر مانی جارہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ذات باری کثرت کی حامل ہے اور کثرت کا مطلب یہ ہوا کہ اس مرکب میں سے کوئی ایک یا دونوں اپنے ہونے کے لئے دوسرے کی محتاج ہوگی اور یا نہیں ہوگی۔ اگر دونوں محتاج نہ ہوں تو دو واجب یا مستقل وجود ہونا لازم آئے گا، اگر دونوں ایک دوسرے کی محتاج ہوں تو یہ دور (circularity) ہوگا اور اگر ایک دوسرے کی محتاج ہو تو یہ احتیاج علتی احتیاج (causal       dependence) ہی ہوگی۔ ذات اور صفات میں سے یہ محتاجی صفات ہی کو لاحق ہوسکتی ہے جس سے لازم آیا کہ صفات معلول ہیں اور جو معلول ہو وہ ممکن (contingent) ہوتا ہے۔ پس اگر صفات ذات کی حقیقت پر زائد ہیں تو خدا میں امکان (contingency) ماننا لازم آئے گا اور یہ جائز نہیں کہ اس کے بعد خدا اور مخلوق میں فرق نہ رہے گا۔ لہذا صفات باری کا الگ سے کوئی تشخص نہیں بلکہ صرف ذات ہی ذات ہے جس سے امور صادر ہوتے ہیں اور نتیجتاً ایسے تعلقات (relations) قائم ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے ذات کو عالم، قادر و مرید کہنا تو درست ہوسکتا ہے مگر انہیں بطور حقائق علم، قدرت و ارادہ وغیرہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان تعلقات کی کوئی الگ حقیقت نہیں۔ جنہیں صفات باری کہا جاتا ہے یہ صرف ذات کے ساتھ اشیاء کے تعلقات ہیں اور ذات چونکہ ہر لحاظ سے کامل علت ہے لہذا اس سے فی الفور و لزومی طور پر معلول ظاہر ہوجانا عقلی طور پر لازم ہے کیونکہ ذات کے سوا ایسی کوئی حقیقت نہیں جس پر معلول کا ظہور موقوف کہا جاسکے، اگر ارادہ و اختیار نامی کسی صفت کا کوئی کردار مانا جائے تو ذات باری کو ممکن ماننا ہوگا کہ اس سے کثرت لازم آئے گی۔ یہاں سے فلاسفہ یہ استدلال لاتے ہیں کہ یا تو خدا کو علت موجبہ مان کر عالم کو قدیم کہو اور یا پھر خدا کو ممکن مانو۔

تبصرہ

فلاسفہ کا یہ دیرینہ اعتراض ہے جس کا جواب امام غزالی (م 1111 ء) نے “تھافت الفلاسفة” باب نمبر 6 میں دیا ہے۔ متکلمین اسلام کی نظر میں فلاسفہ کا یہ موقف صفات باری کے انکار کے ہم معنی ہے اور مسلم فلاسفہ کی جانب سے فعل باری کا انکار کرنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ صفات کے انکار کرنے کا ان کا یہ موقف بھی ہے۔ صفات کا یہ انکار یہ حضرات البتہ حکمائے معتزلہ کی طرح توحید کے غلبے کی وجہ ہی سے کیا کرتے تھے۔ درج بالا استدلال متعدد غیر ثابت شدہ و غیر عقلی مفروضات پر مبنی ہے، سر دست ہمیں سب سے سروکار نہیں۔ یہاں ہم صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ یہ استدلال فلاسفہ کے ایک ایسے مفروضے پر قائم ہے کہ جس پر سوال اٹھتے ہی اس کی جڑ کٹ کر رہ جاتی ہے۔

اسے سمجھنے کے لئے یہ سوال اٹھائیے کہ ممکن کسے کہتے ہیں؟ ممکن وہ ہے جو عدم و وجود کے مابین دائر ہوسکے۔ متکلمین اسلام کا کہنا ہے کہ امکان ایک اعتباری امر یا تعلق ہے جس کا انتزاع حدوث سے ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر ممکن وہ ہوتا ہے جو حادث ہو۔ حادث شے کی حالت وجود میں اس کے امکان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ جائز تھا کہ یہ شے وجود میں نہ آتی بلکہ معدوم ہی رہتی نیز وجود میں آجانے کے بعد بھی یہ جائز ہے کہ یہ معدوم ہوجائے یا اگلے لمحے بھی موجود رہے، جبکہ حالت عدم میں امکان کا مطلب وجود کے اعتبار سے تقدیری ہوتا ہے یعنی یہ جائز ہے کہ نیست (نہ ہونا) ھست (ہے) ہوجائے۔ الغرض امکان حادث کے ساتھ وابستہ ان تعلقات کا نام ہے، چاہے یہ تحقیقاً وابستہ ہو یا تقدیراً۔ پس حدوث (یعنی شے کے نیست و ہست کاشکار ہونے، تبدیلی، زمان و مکان میں پائے جانے یا کسی اور شے میں پائے جانے وغیرہ) کے بغیر امکان کا کوئی سوال نہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شے قدیم ہو وہ حادث نہیں ہوا کرتی اور اس لئے وہ ممکن بھی نہیں ہوتی۔ امکان سے متعلق یہ متکلمین کا عام موقف ہے۔

اس کے برعکس مسلم فلاسفہ چونکہ قدم عالم کے قائل تھے اس لئے وہ حدوث کو کسی شے کے ممکن ہونے کی بنیاد نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ قدیم شے حادث (یعنی مسبوق بالعدم) نہیں ہوا کرتی۔ عالم کو یہ فلاسفہ بھی ممکن ہی کہتے تھے لیکن اس کی بنیاد انہوں نے الگ قرار دی۔ چنانچہ امکان کا پیمانہ یہ حضرات “کثرت” قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ ہر کثرت ممکن ہوتی ہے جسے علت کی حاجت ہوتی ہے۔ کثرت کیوں کر امکان کو لازم ہے، اس کے لئے یہ حضرات چند طرح کے دلائل دیتے ہیں۔ فی الوقت ہمیں ان دلائل اور ان کے پس پشت مقدمات و مفروضات کی صحت و عدم صحت سے تعرض نہیں کرنا، علم کلام کی کتب میں یہ بحثیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ یہاں نوٹ کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ متکلمین ہر کثرت کو ممکن نہیں کہتے بلکہ صرف اس کثرت (جیسے کہ “جسم” کہ وہ جواھر کا مجموعہ ہوتا ہے) کو ممکن کہتے ہیں جس پر حدوث جائز ہو۔ ایک سے زیادہ حقائق میں علتی احتیاج (causal       dependence) کے سوا بھی تعلق ہوسکتا ہے جیسے صفت اپنے وجود و بقا کے لئے اس طور پر موصوف کی محتاج تو ہوتی ہے کہ یہ اس کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے مگر موصوف صفت کی علت نہیں ہوتا۔ الغرض یہ کہہ دینا کہ “کیونکہ یہ کثرت ہے اس لئے یہ ممکن ہے”، یہ کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ کثرت از خود ممکن ہونے کی دلیل نہیں یہاں تک کہ ہم یہ سوالات اٹھائیں کہ کیا ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک پر عدم جائز ہے؟ کیا ان میں سے ایک دوسرے کے بغیر پایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ کسی اور طرح بھی پایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ کسی اور ذات میں بھی پایا جاسکتا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی قدیم ذات اپنی صفات سمیت اس طرح موجود ہو کہ اس کی صفات قدیم اور اس کے لئے لازم ہوں نیز وہ کبھی اس سے جدا بھی نہ ہوں تو محض کثرت کا حوالہ اسے ممکن ثابت نہیں کرسکتا۔ صفات باری خدا کے حقائق کی طرح ہیں اور حقائق کی تعلیل نہیں ہوتی۔ خدا اپنی صفات کمال کے ساتھ واجب ہے۔

یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک چونکہ امکان کی بنیاد کثرت ہے لہذا وہ اصرار کرتے ہیں کہ خدا میں ذات و صفات جیسی کثرت بھی وجوب باری کے خلاف ہے جبکہ متکلمین کے نزدیک یہ دعوی بلا دلیل ہے۔ معلوم ہوا کہ فلاسفہ دراصل اپنے ماڈل کی مشکل متکلمین کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ “دیکھو امکان کثرت ہی سے ثابت ہوتا ہے اور تمہارے نظرئیے سے خدا میں کثرت آرہی ہے لہذا وہ ممکن ہوگیا، پس تم مان لو کہ اس کی کوئی صفات نہیں بلکہ وہ ایسی ذات ہے جو نری علت موجبہ و محضہ ہے”۔ اس پر متکلمین کا جواب بالکل صاف ہے: امکان (یعنی علت سے متعلق احتیاج) کثرت سے نہیں حدوث سے ثابت ہوتا ہے، جس پر حدوث جائز نہیں وہ ممکن بھی نہیں۔ چونکہ صفات باری حادث نہیں بلکہ قدیم ہیں اور کبھی ذات باری سے جدا نہیں ہوتیں نیز وہ اس کے لئے لازم ہیں لہذا وہ ممکن نہیں۔ کسی شے کی “ذات سے غیریت” کا پیمانہ اس پر عدم طاری ہونے، وجودی طور پر علیحدہ پائے جاسکنے، کسی اور طرح پائے جاسکنے، کسی اور ذات میں پائے جاسکنے، زمان و مکان میں پائے جاسکنے وغیرہ کا امکان ہے جبکہ متکلمین صفات کے باب میں “لاعین و لاغیر” کی ترکیب میں “لاغیر” کہہ کر اسی امکان کی نفی کرتے ہیں۔ قاضی باقلانی (م 1013 ء) کتاب “الانصاف فیما یجب اعتقاده” میں لکھتے ہیں:

انه سبحانه لیس بمغایر لصفات ذاته، وانھا فی انفسھا غیر متغایرات، اذ کان حقیقة الغیرین ما یجوز مفارقة احدھما الآخر بالزمان والمکان والوجود والعدم، وانه سبحانہ یتعالی عن المفارقة لصفات ذاته وان توجد الواحدۃ منھا مع عدم الاخری

معلوم ہوا کہ غیریت کا پیمانہ زمانی و مکانی یا وجودی و عدمی طور پر اس طرح قابل جدا ہونا ہے کہ ایک شے دوسری کے بغیر بھی پائی جاسکے اور صفات اس مفہوم میں ذات باری کا غیر نہیں۔ پس نری کثرت ذات باری کی بارگاہ میں محال نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے، فلاسفہ کے اس مقدمے کے دلائل حد درجہ کمزور ہیں۔

خلاصہ یہ کہ متکلمین کے نزدیک امکان کی حقیقت سے متعلق فلاسفہ کا وہ مفروضہ ہی درست نہیں جسے بنیاد بنا کر وہ صفات کو ماننے سے لازم آنے والی کثرت سے خدا پر امکان لاگو ہونے کا الزام لاتے ہیں۔ پس جب عقلاً ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تو خدا کی صفت قدرت و ارادے کا وہ مفہوم ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں جو مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے۔ اسی کے لئے کہتے ہیں: نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ صفات کے باب میں اس کے بعد فلاسفہ چند اور اشکالات بھی پیش کرتے تھے، ضرورت پڑنے پر کبھی ان پر پھر گفتگو کریں گے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں