Home » حدوث عالم سے صفات باری معطل ہونے کے الزام پر تبصرہ
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

حدوث عالم سے صفات باری معطل ہونے کے الزام پر تبصرہ

متکلمین اسلام کا کہنا ہے امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عالم حادث ہے، یعنی یہ معدوم تھا اور پھر ہوا۔ اس پر مسلم فلاسفہ و بعض دیگر محققین جیسے کہ علامہ ابوبکر بغدادی (م 560 ھ) وغیرہ کا اعتراض تھا کہ متکلمین کے نظرئیے کی رو سے اللہ کی قدرت اور صفات فعلیہ کی تعطیل لازم آتی ہے، یعنی وہ ازل سے بالقوۃ (potentially) تو خالق ہوسکتا ہے مگر بالفعل (actually) خالق نہیں ہوسکتا نیز صرف بالقوۃ خالق ہونا کمال نہیں بلکہ کمال تو بالفعل خالق ہونا ہے جبکہ متکلمین اس کمالیت کا انکار کرکے گویا خدا کی جانب ایک نقص کی نسبت کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق خدا ازل سے کائنات ظاہر نہیں کرسکتا۔ اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ عالم کے بارے میں “حوادث لا اول لھا” (ایک کے بعد دوسرے حادث وجود کا لامتناہی سلسلہ)ماننا ہی درست عقیدہ ہے، یعنی اللہ تعالی ازل سے بلا تعطل ایک کے بعد دوسری مخلوق ظاہر کئے چلے جارہا ہےنیز کائنات ازل سے اس کے ساتھ ہے۔

تبصرہ

متکلمین کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ کئی حقائق کو خلط ملط کرنے سے جنم لیتا ہے، ذیل میں انہیں ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔

  • پہلی بات: محال مقدور نہیں ہوتا

شبہ کی بنیاد یہ تصور ہے کہ دیکھو اللہ ازل سے خالق بالقوۃ ہونے کی صفت سے متصف ہے، تو اگر وہ بالفعل ازل سے (یعنی بلا کسی ابتداء) مخلوق ظاہر کرنے پر قادر نہ ہو تو یہ اسکی قدرت میں نقص ہوا کہ اس کی قدرت معطل (dysfunctional) ہوجائے گی۔ لیکن اس شبہے میں پیوست تعطیل تب مفہوم ہوگی جب ازل سے تخلیق ممکن ہو مگر یہ محال ہے (جس کے الگ سے دلائل ہیں)۔ جو چیز محال ہو وہ تحت القدرت ہوتی ہی نہیں اور جب وہ تحت القدرت نہیں ہوتی تو اس سے قدرت کی تعطیل لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ خدا ایک اور خدا نہیں بنا سکتا، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ خدا کی قدرت اس فعل کے لحاظ سے محدود و معطل کردی گئی؟ ہرگز نہیں۔ دیکھئے:

  • واجب وہ وجود ہے جو بلا علت ہو
  • محال وہ عدم ہے جو بلا علت ہو اور
  • ممکن وہ وجود و عدم ہے جو بالعلت ہو

تو جو وجود قدرت کی علت کے تحت ہے یہ وہ وجود ہے جو ممکن ہو۔ جو واجب ہو وہ بالقدرت نہیں ہوتا کیونکہ وہ صرف ہوتا ہے اور قدرت اسے “نہ ہونا” نہیں کرسکتی (اگر کرسکتی تو پھر وہ واجب نہیں ممکن ہوتا)، اسی طرح محال کہ وہ صرف “نہیں ہوتا” اور قدرت اسے “ہونا”  نہیں کرسکتی (اگر کرسکتی تو پھر وہ محال نہیں ممکن ہوتا)۔ اب نفس مسئلہ یہ ہے کہ عالم کا قدیم ہونا ہی چونکہ محال ہے تو یہ بالقدرت ہے ہی نہیں۔ اسی لئے متکلمین کہتے ہیں کہ جو یہ سوال کرے کہ کیا خدا ایک اور خدا بنا سکتا ہے تو یہ ایک لغو سوال ہے، اس لئے کہ خدا واجب ہے اور واجب بالقدرت ہوتا ہی نہیں۔ جو بنایا گیا ہو وہ واجب کب ہوا؟ واجب تو وہ وجود ہے جو بغیر علت ہو۔ پس عالم کا قدیم نہ ہوسکنا خدا کی قدرت میں کسی قسم کا نقص نہیں، اگر یہ نقص ہے تو یہ ایسا ہی نقص ہے جیسے کوئی کہے کہ خدا کا ایک اور خدا نہ بنا سکنا نقص ہے۔ نقص تب ہوتا جب تحت القدرت ہوتا اور پھر خدا نہ کرسکتا۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ وہ کائنات کو ازل سے تخلیق کرسکے وہ دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ “خدا کے لئے ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایسی شے جو قدیم نہ ہو اسے قدیم بنا سکے” (یعنی یہ ممکن ہونا چاہئے کہ جس چیز کی ابتداء ہو اسے ابتدا نہ ہونے والا بھی بنا سکے)۔ ظاہر ہے یہ ایک بے معنی جملہ ہے کیونکہ قدیم کو قدیم بنایا نہیں جاتا بلکہ وہ قدیم ہوتا ہے اور جو قدیم ہو وہ واجب ہوتا ہے نہ کہ ممکن۔ الغرض یہ مقدمہ حقائق کو خلط ملط کرنے سے عبارت ہے۔

  • دوسری بات: ناقدین کا اعتراض مفہوم نہیں

یہ اعتراض دراصل اس حقیقت کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے کہ زمان بھی حادث و مخلوق ہے، لہذا اس سے ماوراء (transcendent) ذات کے حق میں یہ بات مفہوم ہی نہیں کہ “خلق سے پہلے” وہ کیا کررہا تھا۔ پس اس کے بارے میں “تعطیل” و فراغت جیسے تصورات بامعنی نہیں۔ اس کی تفصیل دو نکات پر مبنی ہے۔

1۔          خدا پر زمانہ لاگو نہیں

ناقد کا اعتراض اس مفروضے پر مبنی ہے کہ عالم سے قبل بھی زمانہ تھا اور وہ زمانہ خدا پر بھی لاگو تھا، تبھی تو اس پر “ماضی” و “مستقبل” کے احوال جاری کرتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ خدا “پہلے” یہ نہیں کررہا تھا اور “بعد “میں کررہا تھا۔ گویا ناقد کے مطابق عالم سے قبل خدا پر جاری ایک “خالی زمانہ” (void time) تھا جب خدا کچھ نہیں کررہا تھا اور پھر اس پر وہ زمانہ آیا جب وہ کچھ کررہا تھا اور یوں وہ خالی زمانہ مخلوق سے بھر گیا! لیکن جس ذات باری کی بارگاہ میں زمانہ ہی لاگو نہیں، یعنی وہ اس سے ماوراء و اس کا خالق ہے، تو اس پر پہلے اور بعد کے یہ زمانی تصورات کیسے بامعنی ہوگئے؟ ناقدین جس تعطل کی بات کررہے ہیں وہ تبھی مفہوم ہے:

الف)      جب خدا پر زمانہ لاگو کیا جائے جبکہ یہ بات ہی غلط ہے۔ خدا کی بارگاہ میں خالی زمانے کا کوئی تصور نہیں جسے حوالہ بنا کر “تعطیل فعل” اور پھر “فعل کرنے” کی بات قابل فہم ہوسکے۔ یہ اشکال زمانے سے قبل زمانے اور اللہ کے اس زمانے میں ہونے کے غلط مفروضے پر قائم ہے،

ب)         ازل سے فعل ہونا قابل فہم ہو لیکن یہ ناممکن ہے (جس کے الگ سے دلائل ہیں، یہاں ان سے تعرض نہیں کیا گیا)۔ اس آسان سی بات پر ہی غور کیجئے کہ فاعل مختار کا مطلب ہی بطریق قصد و اختیار (یعنی چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے) فعل کرنا ہے اور شے کا قصد تبھی متحقق ہوتا ہے جب وہ شے یا معدوم ہو اور یا حالت حدوث (becoming) میں ہو۔ چنانچہ “اختیاری فعل” مفعول کی ابتداء کو متضمن ہے اور جو مفعول قدیم ہو وہ کسی کے اختیاری فعل کا اثر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایک  علت موجبہ (necessitating        cause)  کا معلول ہوتا ہے جس سے معلول لزومی طور پر صادر ہوتا ہے۔ یہی بات امام غزالی “تھافت الفلاسفۃ” کے باب نمبر 3 میں فلاسفہ کو کہتے ہیں کہ قدم عالم کا تمہارا یہ نظریہ دراصل خدا کے فاعل مختار ہونے کے انکار کے ہم معنی ہے، خدا کے لئے فاعل مختار کے معنی تبھی ثابت ہوتے ہیں جب یہ مانا جائے کہ عالم حادث ہے  لیکن تم لوگ مسلمانوں کی اصطلاحات بول کر اپنی اس بے بس “علت اولی” پر فاعل کا لیبل چسپاں کرکے مسلمانوں کو چکما دینے کی کوشش کرتے ہو (قدم عالم کے نظرئیے پر غزالی کی جانب سے ان فلاسفہ کی تکفیر کی بنیاد یہی نکتہ تھا)۔ پس “مخلوق کا ازل سے ہونا” ایک متضاد اصطلاح ہے اس لئے کہ ازلی وہ ہے جس کی ابتدا نہ ہو جبکہ فعل سے متعلق مفعول وہ ہے جس کی ابتدا ہو اور ان دونوں باتوں کا اجتماع محال ہے کہ یہ اجتماع ضدین ہے۔ چونکہ ازلی فعل کا تصور ہی ممکن نہیں، لہذا اس غیر مفہوم تصور کو بنیاد بنا کر صفات کے معطل ہونے کا الزام عائد کرنا بھی غیر مفہوم ہے۔

2۔          خدا کو عالم سے زمانی معیت نہیں

قدم عالم کے حامیوں کی دلیل میں ایک ابہام یہ ہے کہ یہ حضرات عالم کے قدم کو ذات باری کے قدم سے خلط ملط کردیتے ہیں۔ ناقد کے استدلال کی ساخت پر غور کیجئے:

الف)      اگر خدا ازل سے فعل کرتا ہے تو عالم ازل سے اس کے ساتھ ہے۔

ب)         اگر عالم حادث ہے تو یہ ازل سے خدا کے ساتھ نہیں بلکہ پہلے خدا فعل نہیں کررہا تھا اور پھر کرنے لگا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ صفت قدرت پہلے معطل تھی۔

یہاں ناقد سے ہمارا سوال یہ ہے کہ ان دونوں جملوں میں آپ نے ازل سے کیا مراد لی؟ یہ بات دلیل سے ثابت ہے کہ ذات باری زمانے سے ماوراء ہے، اس لئے اس کا قدیم نیز عالم سے مقدم ہونا ماضی کی غیر متناہی ساعتوں کے تسلسل سے عبارت نہیں ہوسکتا۔ اس کے قدیم ہونے کا مطلب واجب الوجود یعنی از خود بغیر ابتداء قائم ہونا ہے، اسے “قدم ذاتی” کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ناقدین جسے عالم کا قدیم ہونا کہتے ہیں وہ ماضی کے زمانے کی لامتناہی ساعتوں سے متعلق قدم ہے جسے “قدم زمانی” کہتے ہیں (یعنی زمانے کی ابتداء نہیں)۔ معلوم ہوا کہ جملہ (الف) اور (ب) میں ازل یا قدیم دراصل دو الگ معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اب اگر مخالفین کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ عالم زمانی طور پر قدیم ہے، تو بھی اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ ازل سے ذات باری کے ساتھ ہے؟ یعنی دونوں کے لئے جب ازل کا مطلب ہی الگ ہے تو دونوں میں یہ “ازلی معیت” چہ معنی دارد؟ عالم کے قدیم زمانی ہونے کا انکار کرنے سے صفات فعلیہ میں تعطل کی بات لازم نہیں آتی اس لئے کہ ذات باری اور عالم کا ازلی ہونا ایک معنی میں مراد ہی نہیں۔ عالم کا زمانی طور پر قدیم ہونا یا حادث ہونا ہر دو صورت اسے خدا کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کو ثابت نہیں کرتی، خدا ہر دو صورت زمانی عالم سے ماوراء ہے۔ لہذا ناقدین کا یہ استدلال بے معنی ہے کہ اگر ازل سے فعل نہ مانا تو پھر مخلوق ازل سے خدا کے ساتھ نہ ہونے کی بنا پر صفت قدرت معطل ٹھہرے گی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عالم کا قدیم زمانی ہونا اسے خدا کے ساتھ ہونا ثابت نہیں کرتا، اور جو چیز (یعنی زمانی قدیم ہونا) اسے خدا کے ساتھ ہونا ثابت نہیں کرتی، اس کی نفی کرنے سے خدا کے ساتھ ازلی معیت نہ ہونے کو کیسے مستلزم ہوئی کہ تعطیل کا الزام درست ہو؟ یاد رہنا چاہئے کہ جیسے عالم کو ذات باری سے مکانی معیت نہیں ہے (کہ یہ کہا جاسکے کہ ذات باری عالم سے اوپر نیچے یا دائیں بائیں ہے)، اسی طرح زمانی بھی نہیں ہے (کہ یہ کہا جاسکے کہ وہ زمانی طور پر اس سے قبل یا ساتھ ہے)۔

  • تیسری بات: غیر کی محتاجی کمال نہیں

خدا کے قادر مطلق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فعل خود اس کے سوا کسی خارجی مرجح پر موقوف نہیں، اور وہ جس ممکن کو چاہے موجود کرے اور جسے چاہے موجود نہ کرے۔ اس کے ازل سے قادر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ازل سے اس پر قادر ہے کہ حادث کائنات تخلیق کرے اور چاہے تو نہ کرے، یہی اس کی شان کمال و غنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ خدا کا کمال اس کا فعل کرتے رہنا ہے لیکن یہ محض ایک دعوی ہے اور ایسا ہی دعوی دوسری بات کہہ کر بھی کیا جاسکتا ہے اوروہ اس سے زیادہ قرین از قیاس ہوگا اس لئے کہ ناقدین کے مفروضے کے مطابق خدا اگر فعل کرکے مخلوق پیدا کرے تو کامل ہے اور نہ کرے تو ناقص ہے۔ گویا خدا کا کمال مخلوق کو پید اکرنا ہےاور وہ مخلوق پیدا کرکے کمال حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ غیر کی محتاجی پر مبنی کمال اس کمال سے کم تر ہے جو غنا سے حاصل ہوتا ہے۔ پس خدا اگر عالم پیدا نہ کرتا یا سارا عالم فنا کردے وہ تب بھی اتنا ہی باکمال ہے جتنا خلق کرنے کے ساتھ ہے۔  خدا کے قادر ہونے کا یہ مفہوم متعین کرنا کہ وہ ازل سے اس بات پر قادر ہے کہ کائنات کو ازلی بنا دے تو یہ ایک غیر مفہوم و بے معنی جملہ ہے اور ایسے بے معنی جملے سے خدا کے کمال کا کوئی وصف کشید کرنا بھی بے معنی ہے۔ یہ جملہ یہ کہہ رہا ہے کہ خدا کا کمال یہ ہے کہ وہ چاہے تو جو محال ہے اسے بھی ممکن کردے! پھر کل کو کوئی کہے گا کہ خدا کا کمال یہ ہے کہ وہ چاہے تو ایک اور خدا بنا دے اور اس کی شان یہ ہے کہ چاہے تو خود کو ہلاک کردے (معاذ اللہ)۔ وجودی حقائق قدرت کے تحت نہیں ہوتے، اس بات کو سمجھو۔

خلاصہ بحث

الغرض ناقدین جس تعطل کی بات کرتے ہیں وہ مفروضے کے طور پر زمانے کو خدا پر لاگو کرکے عالم کی اس کے ساتھ معیت نیز خدا کی صفات فعلیہ کے تعطل کا نتیجہ پیدا کرتا ہے جبکہ یہ زمانی تصور ہی خدا کی بارگاہ میں غیر مفہوم ہے۔ عالم سے قبل جس زمانے کو فرض کرکے یہ اعتراض کیا جاتا ہے، امام غزالی بتاتے ہیں کہ وہ انسانی ذھن کی اس فیکلٹی کی اختراع ہے جسے وھم کہتے ہیں۔ پھر جب ازلی فعل محال ہے تو وہ مقدور نہیں ہوسکتا اور محال کی عدم مقدوریت کی بنا پر تعطلی کا الزام بے معنی ہے۔ پس ہم ناقدین سے کہتے ہیں کہ پہلے آپ اپنے سوال پر غور کرکے اس کی صحت ثابت کیجئے، غلط سوال کا جواب مانگنے پر اصرار کرتے رہنا علمی طریقہ نہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں