کانٹ (d. 1804) اپنے سے ماقبل فلاسفہ سے شکوہ کرتا ہے کہ ان لوگوں نے عقل کے ان وسائل پر غور و فکر نہیں کیا جن کے ذریعے وہ الہیات و مابعد الطبعیات سے متعلق احکام جاری کرتے ہیں اور اس اعتبار سے کانٹ انہیں ڈاگمیٹک قرار دیتا ہے، مگر خود اپنی فکر اور نتائج کو عین اسی ڈاگمیٹزم کے ساتھ سچائی فرض کرلیتا ہے جبکہ خود اس کے اپنے تنقیدی منہج کا تقاضا یہ تھا کہ اپنی فکر کو بھی اس پر جانچے مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ چنانچہ کانٹ یہ نہیں بتاتا کہ جن علمی حقائق کو وہ حقائق قرار دیتا ہے، ان تک رسائی کا ذریعہ کیا ہے؟ کانٹ کی فکر میں اس بنیادی تضاد کو اس کے معاصر مفکرین نے ہی بھانپ لیا تھا کہ ایک طرف کانٹ اپنے تنقیدی تجزئیے کی بنیاد پر جن نتائج تک پہنچا وہ انہیں حقیقت قرار دیتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ شے فی نفسہ (thing in itself) کا علم ممکن نہیں۔
کانٹ کا ہم ایک عصر Hamann (d. 1788) کہتا ہے کہ یہ محض کانٹ کا مفروضہ ہے کہ عقل کی ساخت پر غور و فکر سے عقل جیسی کہ وہ ہے جاننا ممکن ہے۔ یہ تنقید جرمن فلسفی Wolff (d. 1754) کی روایت کے حاملین (جنہیں Wolffians کہا جاتا ہے) نے زیادہ واضح انداز میں کی۔ انہیں کانٹ کے اس مفروضے سے اختلاف تھا کہ علم بذریعہ ماقبل تجربی فارمز پر حسی مشاہدات پیش ہونے سے آگے پھیلتا ہے، ان کے نزدیک عقل و حقیقت کی ساخت میں دوئی نہیں بلکہ اولیات عقلیات (first principles of reason) وجود کی ساخت کا مظہرہیں۔ Wolffians کہتے ہیں کہ کانٹ کے فلسفے کے مطابق منطق اور عقل سے متعلق خود اس کے بیان کردہ قوانین appearances سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جرمن فلسفے کے معتبر شارح Fredrick Beiser اپنی کتاب The Fate of Reason: German Philosophy from Kant to Fichte میں اس پہلو سے کانٹ پر نقد کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
it is self-refuting to maintain that the principles of logic are true only for appearances, they argue, for such a proof has to be true of us not only as appearances but also as things-in-themselves
یعنی کانٹ کا تنقیدی منہج متناقض و self-defeating ہے، اس لئے کہ منطق و عقل کے قوانین appearances سے زیادہ قرار دینے کی کانٹ کے پاس کوئی توجیہہ نہیں، لیکن ان قوانین کو appearances ثابت کرنے کے لئے خود انہی قوانین کو حقیقت فرض کرکے ان سے مدد لینا ہوگی۔ چنانچہ کانٹ کو اپنی اس بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کہ “منطق کے قوانین محض appearances سے متعلق ہیں” تجربہ اور ان منطقی قوانین سے ماورا کسی ماخذ کی طرف جانا ہوگا لیکن ایسا کوئی ماخذ موجود نہیں۔ اسی طرح Earnst Platner (d. 1818) کہتاہے کہ کانٹ اپنے تنقیدی منہج سے مابعد الطبعیات کے ناممکن ہونے پر جس قدر دلائل پیش کرتا ہے وہ دلائل خود اس کی اپنی فکر پر اتنی ہی قوت کے ساتھ لاگو ہیں نیز مابعد الطبعیات کے ڈاگمیٹک ہونے کا اس کا دعوی خود اس کی فکر پر اسی طرح لاگو ہے۔ Fredrick Beiser اس نقد کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
Kant’s negative statements about things-in-themselves are just as dogmatic as the positive statements of the metaphysician. The negative statement that things-in-themselves do not exist in space and time, for example, trespasses against Kant’s limits upon knowledge … Kant is much too hasty and dogmatic in his attempt to demonstrate that all our knowledge is limited to experience. Such a demonstration, if not carefully qualified, is self-refuting, for it cannot be justified through experience
کانٹ کے ایک اور ہم عصر Ernst Schulze (d. 1833) کہتے ہیں کہ کانٹ کے نزدیک روایتی میٹافزکس پر گفتگو سے قبل ہمیں میسر ذرائع علم کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا وہ ہمیں اس کی گنجائش فراہم کرتے ہیں یا نہیں لیکن کانٹ خاموشی کے ساتھ خود اپنے منہج کو اس پیمانے پر جانچنے سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کانٹ کی یہ بات درست ہے کہ انسان کا تمام علم appearances تک محدود ہے تو خود اس کا یہ دعوی بھی اسی نوعیت کا ہوگا لیکن کانٹ اپنے اس دعوے کو سچ و حقیقت مانتا ہے، اور اگر یہ دعوی بھی appearance ہے تو اس کی بنیاد پر نقد کا کوئی مطلب نہیں۔
الغرض ان ناقدین کی بات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کانٹ علمی قضایا کے بامعنی ہونے کے لئے تجربے کی جو شرط مقرر کرتا ہے خود اس کا یہ دعوی نہ کسی تجربے سے ماخوذ ہے (کیونکہ کیٹیگریز وغیرہ کی صورت فارمز اس کے نزدیک ماقبل حسی تجربہ ہیں اور اس لئے یہ تجربے سے ماخوذ نہیں ہوسکتیں) اور نہ ہی کسی ماقبل تجربی فارمز سے (اس لئے کہ از خود ماقبل تجربی فارمز سے کوئی حقیقت و سچائی معلوم نہیں ہوتی، تاوقتیکہ وہ کسی حسی مشاھدے پر لاگو ہوں)۔ پھر اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کے دعوے کو کسی تجربے سے ویریفائی کیا جاناممکن ہے، تب بھی خود کانٹ کے پیمانے پر یہ محض appearance کا علم ہوگا نہ کہ کسی حقیقت کا۔ کانٹ اپنی فکر میں جس تضاد کا شکار تھا وہ دراصل سوفسطائی فکر کا دیرینہ المیہ رہا ہے کہ سوفسطائی جس بات کے مدعی ہوتے ہیں، عین وہ دعوی ان کے مدعا کی نفی کررہا ہوتا ہے۔
کمنت کیجے