علت و معلول کی بحثوں کے ضمن میں امام غزالی (م 505 ھ) کے ہمارے دیسی ناقدین کی جانب سے “تھافت الفلاسفة” پر عام طور پر یوں کلام کیا جاتا ہے گویا امت مسلمہ میں یہ خاص نظریہ، جسے خلق مستمر یا occasionalism کہا جاتا ہے، امام غزالی نے پہلی مرتبہ ایجاد کیا تھا کہ اشیاء کے مابین اقتران ان میں پیوست کسی قسم کی طبعی تاثیرات پر دلالت نہیں کرتا بلکہ یہ اقتران اللہ کے فعل کا اثر ہوتا ہے نیز اشیاء کا ایک ہی طرز پر ظہور ہونا اللہ کی عادت کی بنا پر ہے جس کے تحت وہ انہیں مسلسل اسی ترتیب میں تخلیق کرتا ہے جبکہ اس سے قبل ساری امت مسلمہ گویا فلاسفہ کے نظرئیے پر تھی۔ اس کے برعکس معاملے کی نوعیت یہ ہے کہ میسر ذرائع کی روشنی میں اس نظرئیے کے خدو خال و تفصیلات تیسری و چوتھی صدی ہجری میں گزرنے والے متکلمین کے ہاں پوری طرح موجود تھیں۔ اس ضمن میں معتزلی عالم ابو الھذیل (م 227 ھ)، صالح بن ابی صالح (م 245 ھ)، احمد بن علی الشطوی (م 297 ھ) اور ابو علی جبائی (م 303 ھ) وغیرہ کے خیالات معلوم ہیں (یہ وہی ابو علی جبائی ہیں جو امام اشعری کے استاد تھے اور جن کے ساتھ مشہور مناظرے کے بعد آپ نے اعتزال سے رجوع کیا تھا)۔ امام اشعری (م 324 ھ) و امام ماتریدی (م 334 ھ) بھی اس نظرئیے کے قائل تھے جن کے بعد ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ اسے بیان کرتے رہے یہاں تک کہ امام غزالی نے “تھافت الفلاسفة ” کے باب 17 میں اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں فلاسفہ کے نظرئیے کا نقد لکھا۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ چند اہم شخصیات کے خیالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
• ابو الھذیل
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں دھریے فرقے اللہ تعالی کے قادر مطلق اور خالق کائنات ہونے کا انکار کیا کرتے اور خدا کی قدرت کے تصور پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کیا کرتے تھے (مثلا کیا خدا ایک اور خدا بنانے پر قادر ہے اگر نہیں تو وہ قادر مطلق نہیں، کیا وہ انگوٹھی کے چھلے سے اونٹ گزار سکتا ہے، کیا وہ آگ سے اقتران پر روئی کو جلنے سے روک سکتا ہے وغیرہ)۔ یہ سوالات دراصل اللہ کی قدرت کی عمومیت و حد بندی سے متعلق تھے اور ان کا جواب اس بات کا متقاضی تھا کہ خدا اور اس کائنات کے مابین تعلق کو بیان کرنے والے ان مادی امور کی وضاحت کی جائے جس سے یہ بات مفہوم ہوسکے کہ خدا کس معنی میں اور کس حد تک اس عالم پر قادر ہے۔ یاد رہے کہ علمائے معتزلہ غیر اسلامی فرقوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے اور ابو الھذیل ایسی شخصیات میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔
ابو الھذیل کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اٹامسٹ نظرئیے کے تحت یہ کہا کہ پورا عالم جواہر (atoms) اور اعراض (accidents or modes) کا مجموعہ ہے نیز جواہر و اعراض کا یہ ملاپ از خود نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی تخلیق سے ہوتا ہے جو انہیں عدم سے وجود دیتا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر ابو الھذیل کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ کسی بھاری پتھر کو زمین پر گرے بغیر فضا میں قائم رکھے نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آگ و روئی کے ملاپ پر روئی نہ جلے، یہاں تک کہ ابو الھذیل نے یہ بھی کہا کہ اللہ چاہے تو نابینا پن کے باوجود ادراک پیدا کردے (دیکھئے مقالات الاسلامیین)۔ تاہم ابو الھذیل کے مطابق یہ سارا معاملہ ہمہ وقت بالفعل (actual) نہیں بلکہ علی سبیل تقدیر (hypothetical) ہے، یعنی خدا اگر چاہے تو جواہر و اعراض کے مابین کوئی اور تعلق و ترتیب بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس توجیہہ کی وجہ یہ ہے کہ انسانی افعال کی ڈومین میں دیگر معتزلہ کی طرح ابو الھذیل بھی انسان کے اپنے افعال کے خالق ہونے نیز “نظریہ تولد” کے قائل تھے۔ “تولد” (generation) کا مطلب انسانی افعال سے ظاہر ہونے والے اثرات ہیں جیسے پتھر کو پھینکے پر اس کا لڑھکتے چلے جانا یا کسی کو مکا رسید کرنے پر اسے درد محسوس ہونا وغیرہ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پتھر پھینکنے کے فعل کی نسبت اور اس سے پیدا ہونے والے اثر (یعنی پتھر کے لڑھکنے) کی نسبت کس کی جانب کی جائے؟ انسانی تکلیف و ذمہ داری نیز خدا کے خیر محض ہونے کے پیش نظر معتزلہ کا کہنا تھا خدا کی جانب سے پہلے سے عطا کردہ قدرت کی بنا پر انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، تاہم اس کے فعل سے سامنے آنے والے فعل متولدہ (generated effect) پر ان کا اختلاف ہوا۔ نظریہ تولد کے قائلین کے مطابق اس فعل متولدہ کی براہ راست نسبت بندے کی جانب ہونی چاہئے کیونکہ یہ اثر بندے کی جانب سے اسباب اختیار کرنے سے پیدا ہوا ہے جبکہ خدا کی جانب اس کی نسبت بالواسطہ ہوگی کیونکہ ان اسباب کا خالق خدا ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات میں ہر چیز کا بالفعل خالق صرف خدا نہیں ہے بلکہ انسان بھی اپنے افعال اور ان کے اثرات کا کسی معنی میں خالق ہے۔ چنانچہ اس بنا پر ابو الھذیل کے لئے یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ وہ درج بالا تمام امور کو بالفعل امر واقع کے طور پر دیکھتے بلکہ وہ انہیں علی سبیل تقدیر قرار دیتے ہیں۔ ابو الھذیل کے بارے میں میسر اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی دنیا میں بھی وہ اشیاء کے اندر بوجہ تخلیق باری تاثیرات کے قائل تھے جس کا اظہار یوں ملتا ہے کہ ان کے نزدیک اعراض کو دو زمانوں میں بقا حاصل ہوتی ہے۔ نظریہ تولد کے قائلین کے لئے یہ بات کہنا قرین از قیاس تھی کہ کائنات کی اشیاء تاثیرات کی حامل ہیں جو انسانی فعل سے ظاہر یا ایکٹو ہوجاتی ہیں۔ ابراھیم النظام معتزلی (م 230 ھ) کا کہنا تھا کہ پتھر اس لئے لڑھکتا اور اونچائی سے گرتا ہے کیونکہ اللہ نے اس کے مزاج میں یہ ودیعت کیا ہے۔
اٹامسٹ نظریہ کائنات کے بارے میں یہ کہنا ممکن بناتا ہے کہ چونکہ عالم جواہر کے مجموعے سے بننے والے اجسام اور انہیں لاحق ہونے والی حادث اعراض سے عبارت ہے، لہذا یہ نہیں مانا جاسکتا کہ یہ جواہر و اعراض از خود کسی خاص تاثیر کے حامل ہیں جن کی بنا پر یہ خاص مجموعوں و تراکیب کی صورت ظاہر ہوسکتے ہیں۔ عالم اپنی توجیہہ میں ایک ایسی باارادہ ہستی کا تقاضا کرتا ہے جو جواہر و اعراض کی تراکیب و تاثیرات کا سبب ہے۔ چونکہ یہ تاثیرات ایک باارادہ ہستی کی قدرت کے تابع ہیں، لہذا وہ چاہے تو انہیں کسی اور طرح بھی ترتیب دے سکتا ہے۔ یوں ابو الھذیل وغیرہ ثانوی علل کے تصور کو برقرار رکھتے ہوئے تمام ممکن امور کو اختیار باری تعالی کے تابع قرار دیتے تھے۔ چنانچہ اگرچہ یہ حضرات خلق مستمر کے خاص مفہوم کے قائل نہ ہوں، تاہم اس کے بنیادی اجزاء ان کے ہاں موجود تھے۔
• صالح بن ابی صالح
ابو الھذیل کے بعد اس نظرئیے میں اضافہ کرنے والی ایک اہم شخصیت صالح بن ابی صالح تھی جن کا سن وفات لگ بھگ 245 ہجری ہے (انہیں “صالح قبہ” بھی کہا جاتا ہے)۔ انسانی افعال کے باب میں ابو الھذیل کے برعکس ان کا کہنا تھا کہ انسان کا فعل صرف اپنی ذات کی حد تک مؤثر ہے اور ان کی اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن بیرونی امور کو افعال متوالدہ کہا جاتا ہے وہ انسانی فعل کا نتیجہ یا اثر نہیں ہوتے بلکہ وہ ان افعال کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جن کا خالق دراصل خدا ہے۔ گویا افعال متوالدہ کا انسانی افعال کے ساتھ تعلق تاثیر یا سببیت کا نہیں بلکہ اقتران (concurrence) کا ہے۔ اسے واضح کرنے کے لئے وہ کئی مثالیں دیتے ہیں، مثلا یہ کہ پتھر پھینکے جانے کے بعد خدا پتھر کے لڑھکنے کا فعل پیدا کرتا ہے، جب کسی جاندار کو مکا مارا جائے تو اللہ مکا لگنے والے جسم میں درد کی کیفیت پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ یہاں امام اشعری کی کتاب “مقالات الاسلامیین” کا متعلقہ اقتباس دیکھ لینا مفید ہوگا جو آپ نے مسائل تولد کے تحت لکھا ہے:
قال صالح قبة: أن الإنسان لا يفعل إلا في نفسه وأن ما حدث عند فعله كذهاب الحجر عند الدفعة واحتراق الحطب عند مجامعة النار والألم عند الضربة فالله – سبحانه – الخالق له وكذلك المبتدئ له وجائز أن يجامع الحجر الثقيل الجو الرقيق ألف عام فلا يخلق الله فيه هبوطاً ويخلق سكوناً وجائز أن يجتمع النار والحطب أوقاتاً كثيرة ولا يخلق الله احتراقاً وأن توضع الجبال على الإنسان فلا يجد ثقلها وأن يخلق سكون الحجر الصغير عند دفعة الدافع له ولا يخلق إذهابه ولو دفعه أهل الأرض جميعاً واعتمدوا عليه وجائز أن يحرق الله – سبحانه – إنساناً بالنار ولا يألم بل يخلق فيه اللذة وجائز أن يضع الله – سبحانه – الإدراك مع العمى والعلم مع الموت
مفہوم: صالح قبہ نے کہا کہ انسان کا فعل محض داخلی نوعیت کا ہے اور اس فعل کے ساتھ جو شے وجود میں آتی ہے اسے اللہ پیدا کرتا ہے، جیسے پتھر کو ھٹانے پر اس کا ھٹ جانا یا لکڑی کو آگ کے پاس کرنے سے اس کا جل جانا یا کسی جاندار کو مارنے پر اسے تکلیف ہونا۔ ان امور کے علاوہ اس فعل کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک چھوٹا سا پتھر ہزار سال تک ہوا میں معلق رہے کیونکہ اللہ اس میں گرنے کے بجائے سکون کا عمل پیدا کردے، یہ بھی ممکن ہے کہ آگ اور لکڑیاں ایک عرصے تک ایک ساتھ ہوں مگر ان میں جلنے کا عمل نہ ہو، یا یہ کہ پہاڑ کسی کے سر پر رکھ دیا جائے مگر اسے بوجھ محسوس نہ ہو یا یہ کہ سب لوگوں کی جانب سے پتھر ھٹائے جانے کی کوشش کے باوجود وہ اپنی جگہ برقرار رہے، یہ بھی جائز ہے کہ اللہ کسی انسان کو آگ میں جلائے مگر تکلیف کے بجائے اللہ اس میں لذت کا احساس پیدا کردے اور یہ بھی جائز ہے کہ اللہ نابینا پن کے باوجود ادراک اور مردے میں علم پیدا کردے (یعنی اہل قبور کا اپنے اعمال سے واقف ہونا ممکن ہے)
یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ ابو الھذیل کے برعکس صالح ان مثالوں کو قدرے مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں، موخر الذکر کے نزدیک اللہ کی قدرت کا یہ معاملہ “علی سبیل تقدیر” نہیں بلکہ بالفعل ہے کہ اللہ ہر لمحے امور کو براہ راست خلق فرماتے ہیں۔ اس اعتبار سے صالح کے نزدیک ثانوی علت بمعنی تاثیر کا وہ کردار نہیں رہتا جو ابو الھذیل یا ابراھیم النظام کے ہاں ملتا ہے نیز عالم پر خدا کی قدرت کی حکمرانی بذریعہ یا بالواسطہ اسباب نہیں بلکہ براہ راست قائم ہوتی ہے۔
• ابو علی جبائی
ابو علی جبائی ابو الھذیل کی طرح نظریہ تولد کے قائل تھے نیز وہ اس کی تفصیلات میں کئی اضافے بھی کرتے ہیں، تاہم عالم میں جاری طبعی امور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی قسم کی طبعی تاثیرات کے تحت نہیں بلکہ براہ راست خدا کی قدرت و تخلیق سے ظاہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ خدا ہی پانی پینے پر انساں میں پیاس بجھنے کا احساس پیدا کرتا ہے، بیج بوئے جانے پر خدا ہی اسے درخت میں تبدیل کرتا ہے وغیرہ (دیکھئے کتاب “المغنی” لقاضی عبد الجبار)۔ یہ سب امور ایک خاص ترتیب میں خدا کی عادت کی بنا پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ابو علی جبائی کا یہ بیان خلق مستمر کی سنی تعبیر سے اس پہلو سے مختلف تھا کہ ابو علی جبائی کے نزدیک انسان بہرحال اپنے افعال کا خود خالق ہے، باالفاظ دیگر ان کے نزدیک خدا بہرحال واحد براہ راست علت نہیں۔
• الشطوی
نظریہ خلق مستمر میں ایک اہم جہت کا ادراک و اضافہ احمد بن علی الشطوی نے ہر قسم کی اعراض کے دو زمانوں میں بقا کے تصور کی تردید کرکے کیا ، اس بارے میں اس سے قبل مختلف اقوال تھے(ان نظریات کے لئے دیکھئے کتب “مقالات الاسلامیین” یا “المغنی”)۔ یہ بات دراصل اٹامسٹ نظرئیے کی کوکھ میں ابتدا ہی سے پیوست تھی جو عالم کو جواہر کے چھوٹے چھوٹے اجزاء کے مجموعے کی صورت دیکھتا ہے۔ تاہم ابو الھذیل نے اس نظرئیے کے زمانے سے متعلق پہلو کو اس صراحت کے ساتھ نہیں دیکھا جس طرح الشطوی نے دیکھا(ابو الھذیل بعض اعراض کی بقا کے قائل اور بعض کی بقا کے قائل نہ تھے)۔ الشطوی کے مطابق اعراض کا ایک زمانے سے دوسرے زمانے کا سفر یا اس کی بقا از خود ممکن نہیں یہاں تک کہ قادر اسے ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں خلق کرے یا اس پر بقا کی عرض وارد کرے (اعراض کی بقا کے مختلف تناظرات رہے ہیں، بعض کے مطابق بقا از خود ایک عرض ہے اور کسی عرض کا دوسرے لمحے میں وجود اس پر بقا کی عرض کا وارد ہونا ہے جبکہ بعض کے نزدیک بقا از خود عرض نہیں بلکہ بقا دو لمحات میں شے کا پایا جانا ہے جس کی وجہ ہر لمحے میں عین اس عرض کا از سر نو تخلیق ہونا ہے)۔ اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالم از خود ایک لمحے کے لئے بھی وجود نہیں رکھ سکتا یہاں تک کہ خدا ہر لمحے اسے تخلیق کرے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ نظریہ خلق مستمر کے تمام خدو خال تیسری صدی ہجری میں واضح ہوچکے تھے۔ امام اشعری چونکہ تقریباً چالیس برس معتزلہ کے کیمپ میں رہے تو آپ ان سب نظریات سے بخوبی واقف تھے اور سنی اسلام کی جانب رجوع کے بعد آپ نے ان امور کو منظم انداز میں بیان کرنے کے علاوہ انہیں صفات و افعال باری کے ضمن میں سنی نظام فکر کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ مثلاً وہ نہ صرف طبعی امور میں تاثیرات کا انکار کرتے ہیں بلکہ نظریہ تولد کا انکار کرتے ہوئے اس کے ساتھ “قدرت محدثة” کی بھی بات کرتے ہیں (جسے “القدرۃ مع الفعل” کہتے ہیں) جس سے انسان افعال کا کسب کرتا ہے نہ کہ ان کا خالق بنتا ہے (قدرت محدثة کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے پیدا کردہ کسی فعل کا کسب جس قدرت سے کرتا ہے وہ قدرت بھی ہر لحظہ خدا کی جانب سے اس میں خلق کی جاتی ہے)۔ اس سب کے نتیجے میں انسان کے افعال، ان افعال سے سامنے آنے والے ظاہری نتائج سمیت کائنات میں جاری سب طبعی امور براہ راست خدا کی قدرت کا ظہور قرار پاتے ہیں جن میں نظم و ترتیب کا سبب خدا کی عادت ہے، امام اشعری نے بھی عادت الہیہ کے اجراء کے اس اصول کو بیان کیا ہے۔ اعراض کا کسی خاص زمانی لمحے میں وجود پزیر ہونا ہی اشیاء میں تاثیری تعلقات کے نظرئیے کے غلط ہونے کی کافی دلیل ہے۔ امام اشعری کے علاوہ امام ابو منصور ماتریدی کی تعلیمات بھی ان امور پر تقریباً اسی نہج پر ہیں (مسئلہ جبر و قدر میں ایک خاص پہلو پر اختلاف کے ساتھ)۔ ان کے بعد ائمہ اشاعرہ و ماتریدیہ نے ان تعلیمات کو آگے بڑھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنی ومعتزلی نظامہائے فکر ہر ہر پہلو سے ایک دوسرے سے یکسر الگ نہ تھے بلکہ ان میں بہت سے امور مشترک بھی تھے۔ اس تفصیل کے پیش نظر اگر امام غزالی کی “تھافت الفلاسفة” کے باب نمبر 17 کا وہ اقتباس ملاحظہ کیا جائے جسے لے کر بعض ناقدین پریشان خیال رہتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں کسی نئی بات کا اظہار نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ عقیدے کے باب میں اہل سنت کے ہاں طے شدہ و مانوس اصولوں کا اطلاق تھا۔ آئیے آخر میں امام غزالی کا وہ اقتباس پڑھ لیتے ہیں:
الاقتران بين ما يعتقد في العادة سبباً وما يعتقد مسبباً ليس ضرورياً عندنا بل كل شيئين ليس هذا ذاك ولا ذاك هذا، ولا إثبات أحدهما متضمن لإثبات الآخر ولا نفيه متضمن لنفي الآخر، فليس من ضرورة وجود أحدهما وجود الآخر ولا من ضرورة عدم أحدهما عدم الآخر مثل الري والشرب والشبع والأكل والاحتراق ولقاء النار والنور وطلوع الشمس والموت وجز الرقبة والشفاء وشرب الدواء وإسهال البطن واستعمال المسهل وهلم جرا إلى كل المشاهدات من المقترنات في الطب والنجوم والصناعات والحرف، وإن اقترانها لما سبق من تقدير الله سبحانه يخلقها على التساوق لا لكونه ضرورياً في نفسه غير قابل للفرق بل في المقدور خلق الشبع دون الأكل وخلق الموت دون جز الرقبة وإدامة الحيوة مع جز الرقبة وهلم جرا إلى جميع المقترنات، وأنكر الفلاسفة إمكانه وادعوا استحالته
مفہوم: ایک ساتھ ظاہر ہونے والی ایسی چیزیں جنہیں عادتا سبب اور اثر کہا جاتا ہے، ہمارے نزدیک ان کا یہ باہمی تعلق لازمی نہیں ہے۔ ایسی چیزیں جو ‘یہ وہ اور وہ یہ نہیں’ (یعنی جن میں عینیت کی نسبت نہیں) یا ایک کا اثبات دوسرے کی نفی یا دوسرے کی نفی پہلے کے اثبات پر محمول نہ ہو، ان کے علاوہ دیگر سب اشیاء میں کسی ایک کا وجود دوسری شے کے وجود کو لازم نہیں کرتا اور نہ ہی کسی ایک کا عدم دوسرے کے عدم کو لازم کرتا ہے، جیسے مثلاً پانی پینے سے پیاس کا بجھنا، کھانے سے بھوک ختم ہونا، آگ سے ملاپ پر جلنا، روشنی اور سورج کے طلوع ہونے کا تعلق، سر قلم ہونے سے موت واقع ہونا، دوا کھانے سے صحت یاب ہونا یا دست آور دوا کے استعمال سے پیٹ ہلکا ہونا جیسے وہ سب مشاھداتی امور جو علم طب و نجوم و صنعت کاری وغیرہ کی رو سے ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کے مابین یہ اقترانی تعلق خدا کی جانب سے مقدر کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے جو انہیں ایک ساتھ پیدا کرتا ہے نہ کہ اس بنا پر کہ ان کے مابین کوئی لازمی (تاثیری) تعلق ہے جس کا ختم ہونا ناممکن ہو، بلکہ یہ بات اللہ کی قدرت میں ہے کہ کچھ کھائے بغیر شقم سیری کی کیفیت پیدا کردے، یا سر کٹے بغیر موت وارد کردے یا سر کٹنے کے باوجود زندگی باقی رہے اور اسی طرح وہ سب امور جن کا معاملہ اقتران کا ہے۔ فلاسفہ اس کا انکار کرتے ہوئے اسے محال کہتے ہیں۔
امام غزالی کا یہ اقتباس ایک طویل علمی روایت کے دلائل سے سامنے آنے والے نتائج اور مواقف کی بازگشت تھا، تاہم جدید دور کے بعض ناواقف اس اقتباس کو اس روایت سے الگ تھلگ رکھتے ہوئے یوں پڑھتے ہیں گویا غزالی نے علت و معلول سے متعلق یکایک کسی خیال کا اظہار کردیا ہو اور چونکہ انہیں ان مقدمات کی نوعیت کا علم نہیں ہوتا جس میں یہ موقف مفہوم ہوتا ہے تو نتیجتاً یہ لوگ اس پر سوقیانہ و سطحی اعتراضات وارد کرتے رہتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ علت و معلول کی بحث میں خلق مستمر کا نظریہ اہل اسلام کا اوریجنل اضافہ تھا۔
کمنت کیجے