Home » زاہد مغل صاحب کے نظریۂ علت پر دس اعتراضات
شخصیات وافکار فلسفہ

زاہد مغل صاحب کے نظریۂ علت پر دس اعتراضات

جہانگیر حنیف 

پہلا اعتراض: آپ کے نظریۂ علت کی بنیاد “لازمی وجودی حقائق” کا تصور ہے۔ اس تصور کو آپ جس شدومد سے پیش فرماتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تصور آپ کے نزدیک کس قدر اہم ہے۔ لیکن اس کا کوئی ایک مبسوط بیان ہمیں آپ کی جانب سے میسر نہیں۔ اس اصطلاح سے آپ کی مراد کیا ہے؟ علت سے اِس اصطلاح کا تعلق کیا ہے؟ بظاہر “لازمی وجودی حقائق” سے وجود کی لزومی حقیقت مراد لگتی ہے۔ یعنی وہ امر جو وجود کی تعریف میں داخل ہو اور جسے منہا کریں، تو وجود غیرِ وجود ہو جائے۔ اگر آپ کی مراد یہ یے، تو اس کا “علت” سے کیا تعلق ہے۔ لہذا پہلا اعتراض یہ ہے کہ آپ کے نظریۂ علت کی اساس ایک مجہول اور مبھم تصور ہے۔
دوسرا اعتراض: “لازمی وجودی حقائق” کے علم کو زاہد صاحب نے اضطراری قرار دیا ہے۔ اضطراری علم کی شرطِ اول “قصد و اختیار” کی نفی ہے۔ یعنی وہ علم جو قصد و اختیار کے بغیر حاصل ہو۔ چونکہ یہ علم بلا ارادہ اور بغیر اکتساب کے حاصل ہوتا ہے، لہذا اس میں شراکت پائی جاتی ہے۔ اس علم میں خاص و عام کی تفریق نہیں ہوتی۔ زاہد صاحب کے “لازمی وجودی حقائق” کے تصور میں خود زاہد صاحب بھی شریک دکھائی نہیں دیتے۔ ہما شما دور کی بات ہے۔
تیسرا اعتراض زاہد صاحب کے موقف اور اس موقف کے حق میں ان کے استدلالی منہج سے پیدا ہوتا ہے۔ نظریۂ علت ان کے بقول “لازمی وجودی حقائق” کی دین ہے۔ بالفاظِ دیگر علت کا علم اضطراری ہے۔ لیکن جب وہ اس کے حق میں استدلال فرماتے ہیں، تو روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ یہ نظری علم ہے۔ اضطراری نہیں۔ جناب دعوی اضطراری کا فرماتے ہیں اور دعوی کے ثبوت میں نظری استدلال پیش کرتے ہیں۔ اضطرار پر ثبوت کی نوعیت ہی مختلف ہوتی ہے۔ یعنی اس میں شراکت اور تسلسل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ کا انتاج درست ہے یا غلط ہے۔ اس سے قطع نظر ہم گزارش کررہے ہیں کہ آپ کا نظریۂ علت انتاج (inference) پر مبنی ہے۔ یہ آپ ہم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ inferred knowledge کو اضطراری کہنا کس قدر ب
لا علمی کی بات ہے۔
چوتھا اعتراض: علت پر زاہد صاحب کا نظریہ مخصوص داخلیت کا شکار ہے۔ اس پر آپ جناب خود بھی مطلع دکھائی نہیں دیتے۔ آپ علت کو مانتے ہیں اور ہم سے زیادہ یقین سے مانتے ہیں۔ لیکن مشاہدے میں آنے والی ہر علت کے منکر ہیں۔ آپ کا نظریۂ علت مطلق تجرید کا شکار ہے۔ اس کی concrete        form بھی تصوراتی ہے۔ اس کی کوئی تصدیق میسر نہیں۔ آپ نے راقم کی پیش کردہ دلیل (1) پر محض یہ تبصرہ فرمایا کہ دوسری صدی ہجری کے معتزلہ بھی اس دلیل کو پیش کرتے تھے۔ لہذا تم اس دلیل پر اپنے کاپی رائٹس ثبت مت کرو۔ نہیں کرتے جناب۔ لیکن آپ اس دلیل سے نظریں کیوں چراتے ہیں۔ آپ نے تصدیقات کے معمول میں شامل تمام علل کی نفی فرماتے ہوئے، علت کے ایسے تصور کو ثابت کیا ہے، جو علمی کم اور عقیدہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ جس کو محض ماننا ہے، جاننا قطعاً نہیں۔ حتی کہ اس کے آثار بھی ہمیں میسر نہیں۔ کیا یہ تکلیف مالا یطاق نہیں؟ مسلم عقیدہ میں کونسی ایسی چیز پائی جاتی ہے، جو اپنے آثار سے بھی عاری ہو۔ لہذا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ آپ کا نظریۂ علت ہر طرح کی تصدیق سے عاری ہے اور اس کے کوئی آثار بھی ہمیں میسر نہیں۔
پانچواں اعتراض: ہر حادث کا محدث ہے۔ یہ آپ کی favourite دلیل ہے۔ مجھ جیسا ایک عام فہم آدمی اس کو تمام happenings پر وارد کرتا اور سمجھتا ہے۔ لیکن آپ اس کی بھی تحدید و تخصیص رکھتے ہیں۔ ہر حادث کا محدث ہے، کے مقولہ میں حادث سے مراد یہ کل کائنات اپنی کلیت میں مراد ہے اور محدث سے مراد اس کائنات کی وجہ تخلیق ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں دکھائی دینے والی ہر طرح کی علت، علت نہیں، معلول ہے۔ کیونکہ وہ علت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔ علت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کسی علت سے معلول نہ ہو۔ چناچہ مشاہدے میں آنے والی تمام عِلَل محض آنکھوں کا دھوکا ہیں۔ آپ کے مطابق جب ہم ان غور کرتے ہیں، تو ان کا عدمِ علت ہونا واضح ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ ہم اس علت اولٰی تک پہنچ جاتے ہیں، جو اصلی علت ہے اور وہی علت ہے۔ لہذا ہر حادث کا محدث ہے۔ اس میں حادث بھی واحد ہے اور محدث بھی واحد۔ گویا ظہور علت واحد واقعہ ہے۔ بعد از تخلیق چیزیں آپس میں تعلیل کے کسی اصول کی پابند نہیں۔ آپ اس سوال کو unanswered چھوڑ دیتے ہیں کہ بعد از تخلیق چیزوں کے درمیان جو cause and        effect کا تعلق ہے، وہ اگر علت نہیں تو کیا ہے اور وہ کیونکر ہر حادث کا محدث ہے کے کلیہ کے تحت نہیں۔
چٹھا اعتراض: آپ کے نظریۂ علت کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس سے تکلیفِ دین کے مقدمہ کو زَک پہنچتی ہے۔ اللہ تعالٰی پر ایمان ہمارے اختیار میں ہے۔ جو ایمان لاتا ہے، وہ اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جو ایمان نہیں لاتا، وہ سزا کا مستحق بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہی اختیار ہے۔ جبر کی صورت میں جزا و سزا کا قانون ظلم قرار پاتا ہے۔ کائنات کے مبداء کا اضطراری علم اس اختیار کی نفی کر دیتا ہے اور ایمان کو جبر بنا دیتا ہے۔
ساتواں اعتراض: علم کی قوت ظَن ہے۔ اضطرار نہیں۔ نظری علم اور اضطراری علم میں یہی بنائے امتیاز ہے۔ آپ کا نظریۂ علت اس امتیاز کو کمزور کرتا ہے۔ جب آپ فرماتے ہیں کہ عقل کے حاصلات اس کے انتاج کی بجائے، اس کے اضطرار کے پیدا کردہ ہیں، تو نہ عقل باقی بچتی ہے اور نہ علم۔
آٹھواں اعتراض: آپ کے نظریۂ علت سے دنیا کے نظام تعامل کو زک پہنچتی ہے۔ آپ کے بقول مشاہدے میں آنے والی تمام علتیں، علت نہیں، تو دنیا کے نظام عمل کو کس قانون کے تحت چلایا جائے گا۔ اس میں ذمہ داروں کا تعین کیسے ہوگا اور اس پر جواب دہی کیسے ممکن ہوگی۔
نواں اعتراض: آپ نے مشاہداتی علت کو محض سائن بورڈ تک reduce کردیا ہے۔ یہ سائن بورڑ نہیں، چیزوں کے وقوع اور عدمِ وقوع کی توجیہات ہیں۔
دسواں اعتراض: آپ کے نظریۂ علت سے اخلاق معطل قرار پاتے ہیں۔ اخلاق انسان کے اپنی ذمہ داریوں پر آگاہ ہونے اور ان کے مطابق عمل کی صلاحیت رکھنے کا عنوان ہیں۔ اگر انسان ایک عامل کی حیثیت نہیں رکھتا، اس کے اعمال محض سائن بورڑ ہیں، تو ذمہ داری کا احساس کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مزید برآں اس پر جوابدہی کے کوئی معنی نہیں۔ جزا و سزا کا کوئی جواز نہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں