محترم جناب دین جوھر صاحب کا فرمانا ہے کہ اہل کلام نے وجود باری پر جو دلیل قائم کی ہے وہ سلبی نوعیت کی ہے۔ ان کی جانب سے یہ دعوی کرنے کامقصد یہ کہنا ہے کہ متکلمین بھی کانٹ کی طرح ایک سلبی نتیجے تک پہنچے تھے جس سے آگے ہر اثباتی دعوی نبی کی خبر پر موقوف ہے۔ چنانچہ اپنی تحریر میں آپ لکھتے ہیں:
“ہر حادث ممکن ہے، اور ممکن کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بس عقلی استدلال یہاں تک ہے کیونکہ عقل کا مدرک صرف حادث اور ممکن ہے۔ اس سے آگے منطقی استدلال سلبی ہے کہ ممکن کا واجب کے بغیر ہونا محال ہے لہٰذا واجب الوجود کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ اب ممکن اور واجب کی سطح وجود مختلف ہے، ممکن شہود میں ہے جبکہ واجب ”ماورا“ میں ہے، اور یہ ”ماورا“ عقل کی براہ راست رسائی سے خارج ہے۔ کلامی اور فلسفیانہ ”ماورا“ اور مذہبی ”غیب“ دو مختلف چیزیں ہیں۔ کلامی عقل یا کسی بھی فلسفیانہ تصور سے متعین انسانی عقل واجب الوجود تک براہِ راست کوئی حسی یا عقلی رسائی نہیں رکھتی۔”
وہ مزید فرماتے ہیں:
“کانٹ کا موقف دو بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ایک، انتقادِ عقلِ محض اور دوم، اس سے پیدا ہونے والا تصورِ علم۔ اگر اس میں تشبیہی اور تنزیہی علم کا قضیہ داخل کر دیا جائے تو صورتِ حال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ کانٹ کے مطابق عقلاً صرف تشبیہی اور مادی علم ممکن ہے اور تنزیہی علم یا علم الحقائق کی تشکیل عقل کی استعداد سے باہر ہے۔ ایک مذہبی آدمی کے لیے کانٹ کا یہ موقف ہر لحاظ سے مفید ہے اور آدمی اگر واجب الوجود کی کلامی بحث سے واقف ہو تو کانٹ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ علم الکلام میں کارفرما عقل اور کانٹ کی عقل محض میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے کہ کلامی عقل ممکن کے ادراک پر رک جاتی ہے اور واجب الوجود کے ارادی یا اضطراری شعور و اثبات کا دعویٰ نہیں کرتی اور اس کو سلباً ثابت کرتی ہے۔ یہاں سے آگے ذات و صفات کے مباحث عقلِ تسلیم کے پیدا کردہ ہیں۔ ”
جوھر صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علم کلام میں بھی عقل کی نوعیت و دائرہ کار پر اسی قسم کی تنقید ڈویلپ کی گئی جو کانٹ نے ڈویلپ کی، البتہ علم کلام میں یہ نقد مضمر (implicit) نوعیت کا ہے جبکہ کانٹ کے ہاں ظاہر (explicit)۔ اس تجزیہ کاری کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ریشنل تھیالوجی پر جو موقف جوھر صاحب نے کانٹ کی پیروی میں اختیار کیا ہے، وہ گویا متکلمین اسلام کے دل کی آواز ہے جسے وہ خود اس طور پر بیان نہ کرسکے جس طرح جناب کے ممدوح ایمانیول کانٹ نے بیان کیا، لہذا اس تنقیح کے لئے مسلمانوں کو کانٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
تبصرہ
اہل کلام کے مقدمے کے بارے میں محترم کا یہ دعوی غلط ہے۔ جوھر صاحب نے یہاں تک تو ٹھیک لکھا کہ:
“ہر حادث ممکن ہے، اور ممکن کا ہونا ضروری نہیں ہے”
لیکن اس کے بعد یہ بات لکھنے اور اس پر غور کرنے سے آپ سے ذھول ہوگیا کہ
“ممکن وہ ہے جو وجود و عدم کے ساتھ مساوی نسبت رکھے”
وہ شے جو اپنی ذات کے اعتبار سے ان دونوں جانب مساوی نسبت رکھے مگر پھر بھی موجود ہو تو معلوم ہوا کہ اس کی وجود کی جانب نسبت ترجیح یافتہ ہوگئی اور یہ ترجیح اس کی ذاتی صفت نہیں بلکہ اس پر زائد ہے۔ حادث پر وجود کی یہ ترجیح کیسے قائم ہوئی نیز کیا یہ ترجیح وجودی شے ہے یا عدمی؟ جوہر صاحب نے اس نکتے کو اگنور کرتے ہوئے واجب الوجود کے اثبات کو ایک سلبی مقدمہ بنانے کی کوشش کی جبکہ متکلمین کے نزدیک یہ ثبوتی مقدمہ ہے اس لئے کہ ترجیح ایک ثبوتی امر ہے لہذا وجہ ترجیح بھی لازماً ثبوتی ہوگی (عدم سے ثبوت و وجود کا دعوی اخذ ہونا نری حماقت ہے)۔ چنانچہ واجب الوجود کے اثبات کا دعوی کسی شے کے محال ہونے کی سلبی بنیاد پر قائم نہیں ہے بلکہ اس اثباتی و وجودی بنیاد پر قائم ہے کہ وجود وجود سے ہوتا ہے، عدم وجود نہیں ہوتا۔ نیز ترجیح اگر ثبوتی و وجودی حقیقت ہے تو وجہ ترجیح بھی ثبوتی حقیقت ہے۔ پھر اگر یہ ترجیح تخصیص کو ظاہر کرنے والی ہے تو یہ ثبوتی وجہ ترجیح مخصص یا ارادہ ہے کیونکہ ارادہ نام ہی تخصیص قائم کرنے کا ہے۔ چنانچہ متکلمین دلیل حدوث سے کائنات کی ایک ایسی ثبوتی و وجودی علت ثابت کرتے ہیں جسے صفت ارادہ کہتے ہیں، اور ارادہ قدرت، علم و حیات کو لازم کرتا ہے۔ یوں دلیل حدوث سے یہ چار صفات عقلاً ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ذات باری کے لئے صفت سمع، بصر و کلام کو بھی متکلمین دلیل عقلی سے ثابت کرتے ہیں۔ پھر چونکہ صفت بدون موصوف کا کوئی مطلب نہیں، یوں صفات سے ذات یا موصوف کا اثبات ہوتا ہے۔ الغرض جنہیں صفات ذاتیہ کہتے ہیں (حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر و کلام اور ماتریدیہ کے نزدیک آٹھویں صفت تکوین)، یہ سب ذات باری کی “ثبوتی صفات” ہیں نہ کہ سلبی نیز یہ سب دلائل عقلیہ سے ثابت ہیں۔ علم کلام کی کتب میں صفات باری کو اسی طرز پر تقسیم کیا جاتا ہے: ثبوتی، سلبی اور خبریہ۔ اول الذکر دونوں عقلی ہیں (سلبی صفات میں ذات باری کا قدیم ہونا، واحد ہونا، مخالفة الحوادث وغیرہ شامل ہیں جبکہ صفات خبریہ میں ذات باری کے لئے ید (ہاتھ)، عین (آنکھ) وغیرہ جیسی صفات شامل ہیں جو صرف دلیل سمعی سے ثابت ہوسکتی ہیں)۔
محترم جوھر صاحب کا یہ دعوی کہ اہل کلام کی یہ دلیل صرف اس سلبی مقدمے پر قائم ہے کہ واجب الوجود کے بغیر ممکن کا وجود محال ہے، اس کی غلطی کو ایک پہلو سے سمجھئے۔ محترم نے شاید اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ محال قضیہ از خود لازمی وجودی حقیقت کی بنیاد پر ہی مفہوم ہوتا ہے۔ محال ایک ایسے دعوے سے عبارت ہے جس میں واجب کی نفی کی جاتی ہے، واجب وہ حقیقت یا وجود ہے جو صرف ہوتا ہے اور اس کا نہ ہونا (یا کچھ اور ہونا) ناممکن ہوتا ہے۔ یعنی واجب کا تصور نہ ہو تو محال مفہوم نہیں ہوسکتا کیونکہ محال اثباتی نہیں سلبی دعوی ہے۔ محال وہ ہے جس کا ہونا ناممکن ہو، یعنی “جو صرف نہیں ہوتا” اور یہ کسی ایسی حقیقت کے برعکس دعوی ہوتا ہے جس کا ہونا لازم ہو (یعنی جو صرف ہو)۔ یاد رہنا چاہئے کہ از خود محال قضئے کا نفس الامر میں کوئی مصداق نہیں ہوتا، یہ ایسے نفس الامر “جو صرف ہوتا ہے” پر غلط طور پر یہ حکم جاری کرنے کی کاوش سے عبارت ہے کہ “وہ نہ ہو یا کچھ اور ہو”۔ تو ہر محال قضیہ ایک واجب قضیے کی نفی ہے اور اسی لئے اسے محال کہتے ہیں، یعنی واجب پر کوئی متبادل تجویز لاگو کرنے کی کوشش کرنا حالانکہ واجب ایک تقدیر کے سوا کوئی اور تقدیر قبول ہی نہیں کرتا۔ مثلاً جب کہتے ہیں کہ “جمع بین النقیضین محال ہے” تو اس کی بنیاد یہ وجوبی حقیقت و اضطراری علم ہے کہ وجود الگ ہے اور عدم (یعنی لاوجود) الگ، اسی سے یہ لازمی قضیہ حاصل ہوتا ہے کہ “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”۔ جمع بین النقیضین اس لازمی وجودی تقدیر پر یہ امکان لاگو کرنے کا نام ہے کہ وجود کا مطلب عدم بھی ہوسکتا ہے اور اس لئے یہ دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جب کہتے ہیں کہ دو خدا کا ہونا محال ہے تو یہ اس وجودی بنیاد پر ہے کہ خدا صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ الغرض ہر محال قضیہ کسی وجوبی وجودی قضیے کی نفی یعنی اس پر کوئی متبادل تجویز لاحق کرنے سے جنم لیتا ہے اور چونکہ وجوبی قضیہ کسی متبادل تقدیر کو قبول نہیں کرتا اس لئے از خود محال قضئے کا نفس الامر میں کوئی ریفرنٹ نہیں ہوتا، اس کا حوالہ وجوبی قضیہ ہوتا ہے جس کی یہ نفی کرتا ہے، اگر یہ وجوبی قضیہ نہ ہو تو محال مفہوم نہیں ہوسکتا۔ جو وجود متبادل تقدیر کا جواز قبول کرے وہ واجب نہیں ممکن ہوتا ہے اور اسی لئے ممکن کے لئے متبادل تجویز سے محال لازم نہیں آتا۔ نفس الامر میں “جمع بین النقیٖضین” کا کوئی ریفرنٹ نہیں ہے اور نہ ہی دوسرے خدا کا۔ ان کا ریفرنٹ “وجود و عدم الگ مفہوم ہیں” نیز “خدا ایک ہی ہوتا ہے” کے وجودی قضایا ہیں جن کی یہ غلط طور پر نفی کررہے ہیں۔ ان لازمی وجودی حقائق کو اگنور کرتے ہوئے کانٹ نامینا اور فنامینا کی تقسیم میں یہ قرار دیتا ہے کہ فنامینا میں تو جمع بین النقیضین محال ہے لیکن نامینا میں یہ جائز ہوسکتی ہے، اس قسم کے سوفسطائیت ذدہ خیالات سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی بعض حضرات یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جسے ہم محال کہتے ہیں یہ صرف ہمارے موجودہ ذہن کی ساخت کی بنا پر ہے نیز ذہن کی ایک ایسی ساخت ممکن ہے جہاں محال ممکن ہوجائے! یہ خیال اسی غلط فہمی سے جنم لیتا ہے کہ محال قضیے کی گویا کوئی وجودی بنیاد نہیں ہے، یہ صرف ذہن کی ساخت پر مبنی کوئی اختراع ہے اور یا پھر صرف کوئی لسانی قضیہ، اور اسی لئے یہ فضول بات جائز سمجھ لی جاتی ہے کہ کوئی ایسی ادراکی ساخت بھی ہوسکتی ہے جہاں محال ممکن ہوجائے۔ با الفاظ دیگر کوئی ایسی ادراکی ساخت بھی ممکن ہے جہاں وجود عدم کے ہم معنی ہوجائے، فیا للعجب! محال تو وہ عدم ہے جو وجود قبول ہی نہیں کرسکتا، اگر آپ یہ مان رہے ہیں کہ محال بھی وجود قبول کرسکتا ہے تو وہ محال کب رہا، وہ تو ممکن ہوگیا۔
اگر یہ بات سمجھ آگئی تو اب سمجھئے کہ جب جوھر صاحب کہتے ہیں کہ “حادث کا وجود واجب الوجود کے بغیر ہونا محال ہے” تو دراصل یہ سلبی قضیہ نہیں ہے بلکہ اثباتی قضیہ ہے جس کی بنیاد یہ وجوبی حقیقت ہے کہ “وجود وجود سے آسکتا ہے، عدم (لاوجود) وجود نہیں ہوسکتا”، اسی بنا پر عقل اصرار کرتی ہے کہ جس وجود کا آغاز ہے (یعنی جو حادث ہے) اس کے لئے ایسا وجود لازم ہے جو وجود کے آغاز کے لئے محتاج نہیں۔ اسے واجب الوجود کہتے ہیں۔
آئیے ہم یہاں متکلمین کی لینگویج میں ان کے انداز بحث کا مختصر تعارف کراتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ جوھر صاحب کی بات ان کے مقدمے سے کتنی دور ہے۔ متکلمین یوں کہتے ہیں کہ ممکن کی وجہ ترجیح یا خود اس کی ذات سے ہوگی اور یا اس کے غیر سے ہوگی اور یا “نہ ذات سے ہوگی اور نہ غیر سے”، اس کے سوا کوئی چوتھا امکان نہیں:
- خود اس کی ذات سے ہو نہیں سکتی اس لئے کہ ممکن کی ذاتی صفت دو جانب مساوی ترجیح رکھنا ہے
- “نہ اس کی ذات سے ہوگی اور نہ غیر سے” یہ بھی درست نہیں کیونکہ یہ وجود و لاوجود نیز اثبات و نفی کے مابین واسطہ لانا ہے جو غلط ہے
- اگر اس کے غیر سے ہوگی تو یہ غیر یا عدمی ہوگا، یا وجودی اور یا نہ عدمی اور نہ وجودی۔ عدمی ہونا درست نہیں کیونکہ عدم کا وجود ہوجانا یا عدم کا غیر کو وجود کردینا بے معنی بات ہے، “نہ عدمی نہ وجودی” یہ بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے مابین واسطہ نہیں۔ پس یہ غیر لازماً ثبوتی یا وجودی فیکٹر ہوگا اس لئے کہ وجود وجود سے ہوتا ہے نہ کہ عدم سے
- پھر یہ ثبوتی وصف (جسے وجہ ترجیح کہا گیا) وجوبی یا موجب (necessitating) ہوگا اور یا اختیاری یا موجد (creating)۔ وجوبی ہو نہیں سکتا کیونکہ اس صورت میں عالم قدیم ہوگا اور یہ محال ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ فیکٹر اختیار یا موجد ہوگا (کیونکہ حادث تخصیصات سے عبارت ہے اور تخصیص مخصص کی متقاضی ہے اور مخصص فاعل مختار ہوتا ہے)۔
پس یہ کہنا کہ متکلمین کے ہاں وجود باری کی دلیل سلبی نوعیت کی دلیل ہے ایک بے بنیاد بات ہے۔
آخر میں ہم محترم جوھر صاحب اور ان کی طرح دیگر مفکرین کی دلچسپی کے لئے محقق متکلمین کا یہ قول بھی بیان کرنا چاہیں گے کہ ان کے مطابق ذات باری کی وہ صفات (جیسے کہ حیات، علم، قدرت، ارادہ) جن کے صدق پر نبی کے دعوی نبوت کی صداقت کی تصدیق منحصر ہے، اگر وہ صفات عقل سے ثابت نہیں ہوسکتیں تو وہ وحی سے بھی ثابت نہیں ہوسکتیں اس لئے کہ خود نبوت کا ثبوت ان کے ثبوت پر موقوف ہے۔ اسے یوں کہتے ہیں کہ وہ قضایا جن کا صدق علمیاتی طور پر نبوت کی تصدیق سے بایں معنی مقدم ہے کہ دعوی نبوت کی صداقت ان پر منحصر ہے، وہ براہ راست وحی سے ثابت نہیں ہوسکتے کہ اس دلیل میں سرکولیریٹی ہے۔ آئیے گروہ متکلمین کے سرخیل قاضی ابوبکر باقلانی (م 403 ھ) کی ایک عبارت کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ جدید ذہن کے برعکس متکلمین اس معاملے میں کتنے صاف ذہن پر تھے۔ آپ کتاب “التقریب والارشاد” میں لفظ علم اور حکم کے متعلقات کو کھولتے ہوئے لکھتے ہیں:
جميع أحكام الدين المعلومة لا تنفك من ثلاثة أضرب۔ فضرب منها لا يصح أن يعلم إلا بالعقل دون السمع. وضرب آخر لا يصح أن يعلم عقلاً بل لا يصح العلم به إلا من جهة السمع. والضرب الثالث منها يصح أن يعلم عقلاً وسمعاً
مفہوم: دین سے متعلق (کل حقائق کے) احکام (کا علم) تین اقسام میں بند ہے: وہ جو صرف عقل سے جانے جاسکتے ہیں نہ کہ سمع سے، وہ جو صرف سمع سے جانے جاسکتے ہیں نہ کہ عقل سے اور وہ امور جن کا علم عقل و سمع دونوں سے ممکن ہے۔
پہلی قسم کی تفصیل آپ یہ بتاتے ہیں:
فأما ما لا يصح أن يعلم إلا بالعقل دون السمع فنحو حدوث العالم وإثبات محدثه ووحدانيته، وما هو عليه من صفاته ونبوة رسله، وكل ما يتصل بهذه الجملة مما لا يتم العلم بالتوحيد والنبوة إلا به
مفہوم: وہ امور جن کا علم صرف عقل سے ممکن ہے اس کی مثالیں یہ ہیں: حدوث عالم اور اس کے محدث کا وجود اور اس محدث کی وحدانیت کا علم، اور اس کی صفات کا علم اور اس کے رسولوں کی نبوت (کی صداقت کے پیمانے) کا علم اور اس نوع کے ان سب امور کا علم جن پر توحید اور نبوت کا اثبات موقوف ہے
ملاحظہ کیجئے کہ قاضی صاحب کتنی صراحت سے وہ بات کہہ رہے ہیں جو کانٹ کے پیروکاروں کے لئے گرہ بن گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ لوگ امام غزالی (م 505 ھ) کے نام سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو اسی خیال کی بازگشت آپ کی کتاب “الاقتصاد فی الاعتقاد” میں ملاحظہ کیجئے:
أن ما لا يعلم بالضرورة ينقسم إلى ما يعلم بدليل العقل دون الشرع، وإلى ما يعلم بالشرع دون العقل، وإلى ما يعلم بهما. أما المعلوم بدليل العقل دون الشرع فهو حدث العالم ووجود المحدث وقدرته وعلمه وارادته، فإن كل ذلك ما لم يثبت لم يثبت الشرع، إذ الشرع يبنى على الكلام فإن لم يثبت كلام النفس لم يثبت الشرع. فكل ما يتقدم في الرتبة على كلام النفس يستحيل إثباته بكلام النفس وما يستند إليه ونفس الكلام أيضاً فيما اخترناه لا يمكن اثباته بالشرع. ومن المحققين من تكلف ذلك وادعاه
مفہوم: وہ امور جوعلم ضروری (یعنی اولیات عقلیات) سے سوا ہیں تین اقسام کے ہیں: جو صرف دلیل عقلی سے معلوم ہوتے ہیں نہ کہ دلیل شرعی سے، وہ جو صرف دلیل شرعی سے معلوم ہوتے ہیں نہ کہ دلیل عقلی سے اور وہ جو دونوں سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ پہلی قسم میں ان امور کا علم شامل ہے: حدوث عالم اور اس کے محدث کا علم، اس محدث کی صفات جیسے کہ قدرت، علم و ارادہ کا علم۔ ایسا اس لئے ہے کہ اگر یہ امور ثابت نہ ہوں تو شرع کا اثبات ممکن نہیں کیونکہ شرع کلام (یعنی خطاب الہی) سے عبارت ہے، جب تک (ذات باری کی صفت) کلام نفسی ثابت نہ ہو شریعت ثابت نہیں ہوسکے گی۔ اصول یہ ہے کہ ہر وہ شے جو (ترتیب میں) کلام نفسی پر مقدم ہے اس کا اثبات کلام نفسی اور اس پر مبنی امور سے ہونا محال ہے۔ بعض محققین نے البتہ تکلف سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کا دعوی کیا ہے۔
امام غزالی نے جو یہ آخری جملہ لکھا ہے کہ بعض حضرات نے ایسا دعوی کیا ہے، وہ دراصل اسلامی تاریخ کے ان چند مفکرین کی جانب اشارہ ہے جن کے خیال میں نبی کی نبوت کے اثبات کے لئے کسی ریشنل تھیالوجی کی ضرورت نہیں، امام صاحب ان کی اس بات پر تکلف سے کام لینے سے زیادہ کوئی تبصرہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے (جبکہ کانٹ کی پیروی میں جدید مفکرین اس تکلف کو ایمان و عقل کی معراج ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں)۔ متکلمین یہ بات اس لئے کہتے ہیں کیونکہ نبوت سے متعلق علم دراصل ذات باری کے علم کی فرع ہے (قاضی صاحب لکھتے ہیں: العلم بأن القول قول له والرسول رسول له فرع للعلم به سبحانه)۔
الغرض عقیدے کے مسائل میں یہ اہل اسلام کا مانا و آزمایا ہوا منہج ہے جسے جوھر صاحب کانٹ کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس معاملے میں محترم جوھر صاحب کا رویہ ان مفکرین جیسا ہی ہے جو کسی جدید فکر یا فنامینا سے متاثر ہوکر یہ ثابت کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کی علمی روایت بھی یہی کہتی ہے چاہے اس کے لئے کیسی ہی تاویلات بنانا پڑیں۔ ایسی تاویلات بنانے کے بجائے ان حضرات کے لئے زیادہ آسان راستہ یہ کہہ کر متکلمین اسلام سے دامن چھڑا لینا ہے کہ ان کے بجائے اب ہمیں جدید فلسفے سے راھنمائی لینا چاہئے اور اس کے بعد نیا اجتہاد کرکے اس نئے اجتہاد کی بنا پر متکلمین کے بیان کردہ قدیم عقائد میں جہاں ترمیم کی ضرورت ہو اسے واضح کرنا چاہئے۔
کمنت کیجے