عمران شاہد بھنڈر
جناب ذاکر نائیک صاحب!
آپ سے ہمارے معاشرے کے ایک نوجوان واجد احساس نے سوال کیا تھا کہ وہ عملی طور پر ایک غیر مذہبی انسان ہے۔اس کے تمام معاملات اچھے طریقے سے چل رہے ہیں۔ وہ ایک اچھا طالبِ علم بھی ہے۔ اچھا بیٹا بھی ہے۔ اس کا دوستوں اور معاشرے میں کردار اچھا ہے۔ وہ کسی سے کچھ لیتا ہے تو وقت پر واپس بھی کر دیتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس نے یہ سوال کیا کہ اگر ”میرے سارے معاملات ٹھیک ہیں تو مجھے کیوں مذہبی ہونا چاہیے اور مجھے ایک ملحد یا غیر مذہبی ہونے کا کیا نقصان ہے جو ایک مذہبی انسان کو نہیں ہے“؟
نوجوان نے آپ سے یہ بھی درخواست کی کہ آپ کا جواب عقلی ہونا چاہیے نہ کہ مابعد الطبیعات کو بنیاد بنا کر جواب دیا جائے۔ ایک مذہبی انسان پر ایسی قدغن لگانا نامناسب ہے۔ کیونکہ اگر ”مذہبی عالم“ یہ تسلیم کر لے کہ خدا کے علاوہ عقل بھی اخلاقی عمل کی بنیاد بن سکتی ہے تو اس کا اپنا مذہبی مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اخلاقیات ہی ایک ایسا میدان رہ گیا ہے جس پر ”مذہبی علما“ اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ”دنیا کا کوئی لاجک چور کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔“ آپ نے اسی فکر کا اعادہ یوں کیا کہ ”جو لوگ خدا کو یا آخرت کو نہیں مانتے وہ ثابت ہی نہیں کر سکتے کہ چوری کرنا غلط ہے، زنا بالجبر کرنا غلط ہے۔“ غیر مذہبی ممالک میں چور کے لیے یا زنا بالجبر کرنے والے کے لیے سزا متعین ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدید ترقی یافتہ سیکولر ممالک میں ان دونوں اعمال کو غلط سمجھا جاتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ آپ جدید معاشروں میں اخلاقیات پر ہونے والے کام سے یکسر نابلد ہیں، ورنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ خدا یا آخرت کے بغیر چوری یا زنا بالجبر کو غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ میں زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جدید مغربی فکر میں اخلاقیات سے متعلق مختلف نظریات رائج ہیں۔ ان میں سے ایک تھیوری کو Consequentialism کہتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ اگر کسی عمل کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے تو وہ اچھا عمل کہلاتا ہے۔ اس کے سماج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جھوٹ بولنا یا چوری کرنا غیر اخلاقی عمل اس لیے ہیں کہ ان اعمال کے نتائج بُرے ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو اس کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔ اخلاقیات سے متعلق دوسری تھیوری کو Deontology کہتے ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں پر عمل کرے۔ اس میں نتیجہ نہیں بلکہ اصول کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ انہی دو تھیوریوں کی مختلف اشکال مغربی ممالک میں رائج ہیں۔ آپ کی مذہبی آئیڈیالوجی کے مطابق اخلاقی عمل کی بنیاد خوف ہے، جبکہ ہمارے نزدیک خوف اپنی سرشت میں ایک منفی اور غیر اخلاقی “بنیاد” ہے۔ ممکن ہے بعض صورتوں میں بہتر نتائج بھی پیدا کرتا ہو۔ تاہم خوف کو اخلاقیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں خوف کی جگہ ذمہ داری اور لالچ کی بجائے احساسِ فرض کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ فرض کی ادائیگی اپنی سرشت میں ایک اخلاقی عمل ہے، لیکن یہ فرائض ایک انسان کے دوسرے انسان اور سماج کی طرف متعین ہیں۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ابتدائی تعلیم کے دوران اجاگر کر دیا جاتا ہے۔
اخلاقی عمل کو مذہب سے جوڑنے کا یہ دعویٰ صرف مذہبی معاشروں تک محدود ہے۔ اپنی کُلیت میں یہ دعویٰ قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔ الحادی ممالک میں رائج اخلاقیات جو کہ مذہبی اخلاقیات سے بنیادی طور پر مختلف ہے، جب کہ اس کی عملی شکلیں مذہب کے نظری مقدمے کے ابطال کا جواز ہیں۔ مذہبی معاشروں میں عملی انسانی اخلاقیات سے کُھلا انحراف مذہبی مقدمے کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ اخلاقیات محض خیالات اور احکامات کی جگالی کرنے کا نام نہیں ہے۔ نظری اخلاقیات کا اصل امتحان عمل میں ہوتا ہے۔ نظری اخلاقیات میں جو ”ہونا چاہیے“ وہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ اگر وہ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی عمل کی قوتِ محرکہ کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی ملک میں عبادات پورے زوروں پر ہوں، اور اخلاقی عمل کا کُلی فقدان ہو تو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ عبادات کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عبادات فرد کا ذاتی معاملہ ہے، جبکہ اخلاقیات سماجی ہوتی ہے۔اسی طرح عقیدہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ عقیدہ ہو یا نہ ہو، سماج پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا، لیکن اخلاقیات کا بحران سماج کا زوال اور انحطاط بن جاتا ہے۔ جدید مغربی معاشروں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اخلاقیات بنیادی ہے، جب کہ عقیدہ ثانوی ہے۔
آپ نے نوجوان کو جواب دیا کہ اچھا ہونا آپ کے معیار سے نہیں، بلکہ ”خالق“ کے معیار سے ہونا چاہیے۔ جو شخص ”خالق“ کو نہیں مانتا اس کے لیے یہ جواب سرے سے کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ یہ جواب آپ کسی مذہبی انسان کو دے سکتے ہیں، لیکن ملحد سے یہ کہنا مکمل طور پر غیر متعلقہ ہے۔ دوسرا اہم نکتہ جس کو آپ سمجھ نہ پائے یہ تھا کہ نوجوان خود کو اپنے معیار پر نہیں پرکھ رہا تھا، بلکہ اس نے تو اپنے عمل کی وضاحت ”دوسروں“ کے حوالے سے کی تھی۔ وہ امانت میں خیانت نہیں کرتا، وقت پر چیز واپس کر دیتا ہے، اچھا بیٹا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب خارجی معیارات ہیں۔ اس حوالے سے آپ نے ایک اچھے سماجی عمل کو سمجھنے میں غلطی کی۔ آپ نے کہا ”اچھا وہ ہے جو ایمان رکھتا ہے اور عملِ صالح کرتا ہے۔“ آپ کا یہ کہنا اخلاقیات کا معروضی یا یونیورسل معیار نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کے مذہب کا قائم کردہ معیار ہے۔ معروضی معیار وہ ہوتا ہے جس پر کسی بھی سماج میں رہنے والے تمام انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، متفق ہوں۔ ایمان رکھنا مذہب کا تقاضا ہے، اخلاقی عمل کی شرط ہرگز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص مذہب پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اپنی سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے عمل کو معروضی معیار پر نہ پرکھا جائے۔ آپ نے صرف عقیدے کی حدود متعین کیں، اور عقیدے کی حدود اخلاقی عمل کا جواز نہیں ہوتیں۔ ہر وہ عمل اخلاقی عمل کہلاتا ہے جس سے اجتماعی سطح پر خیر کو فروغ ملے۔ اس حوالے سے اخلاقی عمل یونیورسل ہوتا ہے، اسے عقیدے کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔
ایک طرف آپ نے نوجوان سے یہ کہا کہ وہ اگر اپنے عمل سے خوش ہے تو اس کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے کافی نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف آپ نے ایک چور کی خوشی کو بطور مثال پیش کیا۔ اگر ایک شخص کی اپنے اچھے عمل سے حاصل ہونے والی خوشی آپ کے لیے غیر اہم ہے تو چور کی چوری کرنے کے بعد والی خوشی کو بطور مثال کیونکر پیش کیا جا سکتا ہے؟ ایک شخص جو ایک غریب کو کھانا کھلاتا ہے، ایک ضرورت مند کی مدد کرتا ہے، اسے خوشی ملتی ہے۔ وہ خوشی ہی اس کے عمل کا محرک ہوتی ہے۔ ایک شخص سماج اور انسانیت کو نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے، دوسرا سماج اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیا دونوں کا عمل اپنے نتائج کے اعتبار سے مساوی ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک اچھے اور بُرے عمل سے حاصل ہونے والی خوشی کو ممیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نوجوان نے آپ سے جو سوال پوچھا وہ کسی بھی ترقی یافتہ لبرل اور سیکولر معاشرے میں سرے سے کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ ہمارے ہاں جس عمر میں بچوں کے اذہان میں الٰہیاتی تصورات راسخ کیے جا رہے ہوتے ہیں، الحادی معاشروں میں اسی عمر کے بچوں کو ”احساسِ ذمہ داری“ سکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ بچوں کو اگر مکمل طور پر تجریدی تصورات کا سبق پڑھایا جا سکتا ہے، جن کی تفہیم بہت مشکل ہوتی ہے، تو تجربی اور عملی اخلاقیات زیادہ آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ نیکی اس لیے نیکی ہے کہ وہ خدا کا حکم ہے۔ سیکولر معاشروں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ نیکی اس لیے نیکی ہے کیونکہ اس کے سماج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں نیکی اس لیے کرتا ہوں تاکہ میرے ساتھ بھی نیکی کی جائے۔ میں اگر خیر کا طالب ہوں تو خیر کو عام کرنے کے عمل میں مجھے خود بھی شامل ہونا چاہیے۔ انسان کی اگر کوئی فطرت ہے تو یہی کہ وہ ”سماجی حیوان“ ہے۔ اس لیے ہر وہ عمل جو سماجی وحدت کے لیے نقصان دہ ہو، جو اپنی سرشت میں ردِ سماج ہو وہ غیر اخلاقی عمل کہلاتا ہے، جو خیر اور نیکی کی بجائے بُرائی کو پروان چڑھاتا ہے۔ سیکولر ممالک میں بنیادی اخلاقیات سے متعلق قضایا منطقی طور پر حل کر لیے گئے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک ”اسلامی ملک“ ہے، جس میں رہنے والے مسلمان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات کی بنیاد صرف خدا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات مکمل طور پر غلط ہی نہیں اس میں گہرا تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ اگر خدا اخلاقیات کی بنیاد ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے تو پھر خدا کو دنیا میں سزائیں مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر خدا کا نام جرائم کو روک سکتا ہے تو پھر اسے روکنا چاہیے۔ لیکن جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے اور ان کی سزائیں بھی متعین ہیں۔ اور جہاں قانون سخت ہو وہاں زیادہ لوگ سزاؤں کے ڈر سے غلط کام نہیں کرتے اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کا نام جرائم کو روکنے یا اخلاقی عمل کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس پس منظر میں نوجوان کا سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا ہمیں لوگوں کو مذہبی بنانے میں دلچسپی ہے یا ان کے کردار و عمل کو سنوارنا زیادہ ضروری ہے؟
نوجوان نے وضاحت کی وہ ایک اچھا شہری ہے۔ مطلب یہ کہ وہ انسانوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے۔ سماجی سطح پر یہی اخلاقی عمل کی انتہا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی سطح پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ذاتی معاملات ہیں۔ آپ نے نوجوان کی سماج کے حوالے سے اخلاقی ذمہ داری کا مذاق اڑایا۔ آپ نے کہا کہ ایک چور بھی چوری کر کے خوش ہوتا ہے۔ آپ نے چور کے ذاتی اور غلط عمل کو اس انسان کے سماجی اور اخلاقی عمل پر ترجیح دی، صرف اس لیے کہ مذہب کے لیے گنجائش پیدا کر لی جائے۔ بجائے اس کے کہ آپ اسے یہ کہتے کہ اگر آپ اپنے معاملات میں بہت اچھے ہیں تو یہ بہت اعلیٰ اخلاقی عمل ہے۔ اُلٹا آپ نے اس کی تحقیر کی۔ اگر خدا یا مذہب کا حوالہ نکال لیا جائے تو کیا ایک چور کا عمل اور سماجی فلاح کا عمل اپنے نتائج میں مساوی ہوتے ہیں؟ آپ کی ترجیحات کے مطابق تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن وہ ممالک جہاں خدا یا مذہب پر اخلاقیات کی بنیاد نہیں رکھی جاتی ان ممالک میں یہ دونوں عمل ایک دوسرے کی مخالف سمت میں موجود ہوتے ہیں۔ سماجی فلاح کا عمل پھیلتا جائے تو اس کے اعلیٰ نتائج برآمد ہوتے ہیں، اور اگر چوری کا عمل وسعت اختیار کر لے تو سماج میں بے چینی اور بے یقینی پیدا ہو جاتی ہے۔
اگر خدا اخلاقیات کی بنیاد نہیں ہے اور تمام خدائی احکامات کے باوجود جرائم اور گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقی سدھار کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ سیکولر معاشروں میں اس بنیاد کو عقل تلاش کرتی ہے، جب کہ مذہب کے پاس صدیوں پرانے گھڑے گھڑائے فارمولے ہوتے ہیں، جو جدید معاشروں میں اپنے جواز کی نظری اور عملی بنیادوں کو کھو چکے ہیں۔ نظری جواز سے مراد یہ کہ اخلاقی احکامات جس سماجی ماحول میں لاگو ہوئے وہ سماجی بنیاد موجود ہی نہیں ہے، اور جب نظری احکامات کی سماجی بنیاد موجود نہیں ہے، تو ان پر عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جدید شعور ماورائیت کے خوف کے حصار سے ماورا ہو چکا ہے۔ جوں جوں عقلی و منطقی فکر پروان چڑھتی جائے گی، خوف رخصت ہوتا جائے گا۔ خوف کی رخصتی مزید منطقی فکر کو پروان چڑھائے گی۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔یہ محض خیالی باتیں نہیں ہیں، بلکہ جدید ترقی یافتہ معاشروں کی ”کنڈیشن“ ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز جدیدیت کے ساتھ ہو گیا تھا، تاہم مابعد جدید فکر اور ثقافتی حالت نے مذہبی ”مہا بیانیوں“ کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ آج ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ صدیوں پرانی کتابوں میں کیا ”اخلاقی احکامات“ درج ہیں۔ بلکہ ہمارے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت کی ”بنیاد“ کو سمجھنا زیادہ اہم ہے۔ ایک مذہبی عالم کے پاس جدید معاشرے کو دینے کے لیے کوئی قابلِ قدر چیز نہیں ہے۔ وہ معاشروں کے بدلتے کردار، ان کی متغیر نظریاتی اساس اور عمل کی نوعیت کے جواز کا کوئی علم نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ”مذہبی عالم“ آج کے انسان کو اس کے اپنے عہد اور معاشرے سے نکال کر ماضی کے دھندلکوں میں لے جا کر ماورائی کہانیوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا کہ عقل و شعور کا ارتقا اساطیر و ماورائیت کی موت کے مترادف ہے۔ وہ مذہبی عالم یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو کہانیوں سے متاثر کرے، وہ کہانیاں جو اپنی اساس اور اپنے ہونے کا جواز کھو چکی ہیں۔
آپ نے تصورِ انصاف کو خدا اور آخرت سے جوڑ دیا۔ آپ نے مثال کے طور پر ہٹلر کو پیش کر دیا کہ اگر ہٹلر نے ساٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا تھا تو دنیا کا قانون اسے صرف ایک ہی بار سزائے موت دے سکتا ہے، لیکن خدا اسے بار بار زندہ کر کے مارتا رہے گا۔ مجھے انتہائی افسوس ہوا کہ آپ انتقام اور انصاف کے مفاہیم سے آگاہ نہیں ہیں۔حالانکہ قرآن میں ”انتقام“ کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ یاد رکھیے کہ سزا انصاف کا متبادل نہیں ہوتی۔ سزا صرف جرم کی سزا ہوتی ہے، جو مجرم کو دی جاتی ہے۔ جس کے ساتھ جُرم ہوا ہو اور جُرم کے دوران وہ جس اذیت سے گزرا یا گزری ہو، اس کا ازالہ ناممکن ہے۔ انصاف صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب جرائم کا قلع قمع کر دیا جائے۔ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہو جہاں جرائم مفقود ہوں۔ جہنم کی آگ کو ’انصاف‘ سمجھنا اپنے آپ میں غلط ہے۔ وہ سزا ہے، انصاف نہیں۔ افراد سے متعلقہ جرائم میں انصاف مسلسل”ہونے“ کا عمل ہے۔ یہ جاری و ساری ہے، اور کُلی انصاف ممکن نہیں ہے۔ اس کائنات کی بنتر ہی ایسی ہے۔ شاید کبھی وہ وقت بھی آئے کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جائے جو جرائم سے پاک ہو۔ اگر تو آپ کی بات سے اتفاق کر لوں تو پھر اس وقت سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب ایک لونڈی جسے بیسیوں جگہوں پر فروخت کیا جاتا تھا، وہ بھی انصاف کا مطالبہ نہ کر لے۔ کیونکہ انصاف تو وہی ہے جو انصاف کے مطابق ہے، اور اگر وہ انصاف کے اصولوں سے انحراف ہے تو اس پر کسی مطلق العنان کے حکم کا ٹھپا لگا کر اسے انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آپ نے اخلاقیات کو مذہب سے غیر ضروری طور پر جوڑا اور آخر میں یہ الفاظ ادا کیے،
”کافر کے لیے دنیا جنت ہے۔ تیرے لیے دنیا جنت ہے واجد۔تو کہتا ہے کہ اسلام چھوڑ دیا، مطلب کافر ہے، مرتد ہے، اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر رہا ہے، شرم بھی نہیں آتی۔“
آپ نے اخلاقیات پر طویل گفتگو کرنے کے بعد ایک نوجوان کے بارے میں جو الفاظ ادا کیے، وہ جدید انسانی اخلاقیات سے کُھلا انحراف ہیں۔ جدید اخلاقیات کے مطابق اخلاقی عمل کا تعین’نتیجہ‘ کرتا ہے، جیسا کہ میں نے Consequentialism کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔ کسی بھی انسان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے کردار کو اس کے عقائد کے حوالے سے جج کرے اور اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالے۔ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آپ کے مذہب میں ’مرتد‘ کی کیا سزا متعین کی گئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی ایک ایسے مُلک میں کسی کو ’مرتد‘ کہنا ایک غیر اخلاقی عمل ہی نہیں بلکہ جُرم پر اکسانے کے مترادف ہے، جہاں ہر تیسرا شخص ’غازی‘ بننے کا خواہاں ہے۔ آپ کے انہی نفرت انگیز خیالات کی وجہ سے مختلف انسان دوست ممالک میں آپ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیکولر ملک میں اس قسم کے نفرت انگیز اور کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے الفاظ کسی مخصوص انسان کے بارے میں ادا کرتے تو آپ پر مقدمہ قائم کر دیا جاتا۔
آخر میں میں منطقی طور پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ جب کوئی بچہ کسی گھر میں جنم لیتا ہے تو اس پر اس کے والدین کا عقیدہ مسلط کر دیا جاتا ہے۔ وہ عقیدہ اس کا انتخاب نہیں ہوتا۔ جب وہ بچہ شعور کی سطح پر پہنچتا ہے تو اس میں موروثی عقیدے کی ’سچائی‘ کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جس عقیدے میں پیدا ہوتے ہیں، اسی میں مرتے ہیں۔ اگر چند لوگ اپنے موروثی عقیدے کو چھوڑ کر کسی دوسرے عقیدے یا الحاد کو اختیار کرتے ہیں تو انہیں ’مرتد‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ ارتداد کا معیار ہے تو ماضی بعید میں چلے جائیں تو ہر نئے عقیدے کی بنیاد رکھنے والا اپنے گزشتہ عقیدے کا ‘مرتد’ کہلائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عقیدے میں انسان پیدا ہوتا ہے وہ اس کا شعوری انتخاب نہیں ہوتا، بلکہ سماجی جبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ موروثی عقیدے پر قائم رہنا یا اسے ترک کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ فطری طور پر تو ہر انسان ملحد ہی پیدا ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو جو بچہ فطری طور پر کسی عقیدے کے بغیر پیدا ہوا ہے، اس پر اپنا عقیدہ مسلط کرنے کی سزا متعین کی جانی چاہیے، نہ کہ اس مسلط کردہ عقیدے کو ترک کرنے کی سزا مقرر ہو۔ جدید مہذب ممالک میں ماں باپ کسی اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔ فرانسیسی فلسفی روسو نے کہا تھا کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ ہر طرف پابہ زنجیر ہے۔ میرا کہنا ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، اسے عقائد میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ جس طرح زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان کو آزاد ہونے کا حق ہے، اسی طرح عقائد میں قید انسان کو بھی آزاد ہونے کا حق ہے۔ اسے ’مرتد‘ قرار دے کر قابلِ گردن زدنی ٹھہرانا نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے، بلکہ غیر منطقی بھی ہے۔ اگر مذہب میں جبر نہیں، تو جبراََ کسی کو اپنے عقیدے کی پیروی پر مجبور کرنا ایک ایسے تضاد کو جنم دیتا ہے جس کی تحلیل ممکن نہیں!
کمنت کیجے