Home » تصورِ عقل، لازمی وجودی حقائق، اور محترم زاہد مغل صاحب : قسط دوم
شخصیات وافکار فلسفہ

تصورِ عقل، لازمی وجودی حقائق، اور محترم زاہد مغل صاحب : قسط دوم

محترم زاہد مغل صاحب کا عقل کا تصور

اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں جہاں سے میں بات شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ وہ اپنا تصورِ عقل ارشاد فرمائیں اور ”لازمی وجودی حقائق اور ان کے اضطراری شعور“ کی وضاحت فرمائیں۔ ان کی بندہ نوازی سے وہ وضاحت آ گئی ہے اور وہی زیرِ گفتگو ہے۔ وہ عقل کی تعریف یوں فرماتے ہیں ”(۱) عقل کا لفظ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی یہ اولیاتِ عقلیات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی تجرباتی معلومات کے، کبھی اس صلاحیت و ملکہ کے [لیے] جس سے یہ معلومات حاصل ہوتی ہے اور کبھی نتیجے کے لحاظ سے عاقبت اندیشانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے لیے۔ (۲) لازمی وجودی حقائق سے ھماری مراد اولیاتِ عقلیات ہیں جسے علم ضروری یا اضطراری بھی کہتے ہیں۔ میں نے اپنے کمنٹ میں اسے ہی عقلِ محض کہا تھا۔ عقل محض کی اس اصطلاح پر کانٹ کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے، ھمارے متکلمین اسے اولیات عقلیات کے معنی میں برتتے ہیں، خود امام غزالی نے برتا ہے۔“

اب اس سے پہلے کہ میں مولانا ایوب دہلویؒ کے حوالے سے عقل کی تعریف نقل کروں، محولہ بالا پیرا گراف کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے متن کی خواندگی کی کم از کم استعداد درکار ہے، اور دوسری جو چیز درکار ہے وہ کم از کم اخلاقی اور علمی دیانت ہے۔ اس متن کی میری ریڈنگ یہ ہے کہ:

(۱) اس میں عقل کی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔

(۲) عقل کو جن چیزوں کے مساوی یا مماثل قرار دیا گیا ہے وہ خود تعریف کی محتاج ہیں۔

(۳) خلط مبحث کیا گیا ہے۔

(۴) ایک چیز کو دوسری چیز سے متعین کرنے کی دوری حرکت چلائی گئی ہے۔

(۵) وجود اور علم دو نوعی طور پر مختلف چیزیں ہیں، یعنی علم بھلے وہ عقلی ہو یا عرفانی وہ یا axioms ہوں گے یا حاصلاتِ شعور، جبکہ وجود خارج از شعور کسی شے کا نام ہے۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ لازمی وجودی حقائق (جس سے ان کا بیان خارج ہے) اولیاتِ عقلیات ہیں۔ اب یہاں وہ بیان اور بیان کردہ شے کو ایک ہی قرار دے رہے ہیں۔

(۶) شکر ہے انہوں نے کانٹ کے بھی گھونسا لگایا اور ان سے ”عقلِ محض“ کی ترکیب کی اجارہ داری چھین لی۔ لیکن گھونسا مارتے ہی سہم گئے اور تالیفِ قلب کے لیے امام عالی مقام الغزالیؒ کا دامن دبوچ لیا۔ بھئی عقل نہ ہو تو قلب کی تالیف سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے اجارہ داری گھونسا لگانے اور اس طرح اصطلاح پر قبضہ کرنے سے نہیں ٹوٹتی۔ انہوں نے اصطلاح تو نوچ لی معنی سارے ادھر چھوڑ آئے ہیں۔ یاد رہے کہ پشم قلندر اکھاڑنے کا تجربہ اصطلاحات کی نوچا نوچی میں کام نہیں آتا۔

(۷) یہ جملہ صریح بددیانتی سے لکھا گیا ہے: ”عقل محض کی اس اصطلاح پر کانٹ کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے، ھمارے متکلمین اسے اولیات عقلیات کے معنی میں برتتے ہیں، خود امام غزالی نے برتا ہے۔“ سوال یہ ہے کہ امام غزالیؒ نے کیا برتا ہے؟ عقل محض جدید فلسفے کی اصطلاح ہے، اور اسے اولیاتِ عقل کے معنی میں استعمال کرنا صریح بددیانتی ہے۔ عقلِ محض اور a priori بھی دو مختلف چیزیں ہیں، یعنی ان میں امتیازات ہیں، اور مقولات بھی باہم ممیز ہیں۔

(۸) علم حسی ادراک اور عقل کی یکتائی سے پیدا ہوتا ہے اور اس میں intention شامل ہوتی ہے۔ انفس و آفاق میں کوئی وجود ایسا نہیں ہے جو لازمی اور ضروری ہو۔ اور انفس و آفاق میں کوئی علم ایسا نہیں ہے جو لازمی اور ضروری ہو۔ اگر لزوم کو وجوب کے معنی میں لیا جائے تو وجوب، عقلی دائرہ کار سے ویسے ہی خارج ہے جو میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ (وہ واجب الوجود کو لازمی وجودی حقائق میں شامل کرتے ہیں، اور یہ وجوب عقل کے دائرے سے ویسے ہی خارج ہے جیسا کہ مولانا ایوب دہلویؒ کا آگے حوالہ آتا ہے)۔ ہمارے متکلم المعروف حجت الاسلام نے دفاع اسلام کے لیے یہ جو نئی اصطلاحات گھڑی ہیں لازمی وجودی حقائق اور اضطراری علم کی، یہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ فلسفے، کلام یا عرفان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ نہ علمی بات ہے اور نہ مذہبی، نہ فلسفیانہ اور نہ عرفانی۔ اتنا اچھا لزانیا بنانا، فیس بک اس کی تصویر چڑھانا، اکیلے اکیلے کھانا اور پھر ایسی اصطلاحات گھڑنا تو حسِ جمالیات کے بھی عین منافی ہے۔

(۹) اولیاتِ عقلی سے مراد ایسے pre        rational        axioms ہیں جن سے عقل اپنی گفتگو کا آغاز کرتی ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو عقل کے ”کھڑے ہونے کی جگہ“ کہلا سکتی ہیں۔ یہ a priori نہیں ہیں کیونکہ وہ structural ہیں اور شعور کی بنتر میں داخل ہیں۔ اب اولیاتِ عقلی کو عقل محض کہنا تو صرف اس وقت ممکن ہے جب عقل ہو نہ عقل محض ہو، صرف محض ہی محض ہو۔ اب کسی ملکہ یا faculty سے خارج میں کسی چیز کو اس ملکہ کا نعم البدل کہنا کلام ہے نہ فلسفہ اور نہ ہی عرفان۔ لگتا ہے مابعدالطبیعات کے غلبے میں یہاں شاہد و مشہود ایک ہو گئے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ ایسے دفاع اسلام سے لزانیا بنانا ہزار درجے بہتر اور مستحب عمل ہے۔

(۱۰) تو عرض کر رہا تھا کہ ایک اصطلاح ہے اولیاتِ عقلی یا اولیاتِ عقل۔ وہ یہ استعمال نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں اولیاتِ عقلیات۔ عقلیات سے بالعموم عقلی علوم مراد لیے جاتے ہیں۔ تو وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ عقلی علوم کی اولیات مراد لے رہے ہیں؟ یا وہ عقل کی اولیات مراد لے رہے ہیں؟ اولیاتِ عقل عام طور پر limiting        concepts کے طور پر کام کرتے ہیں اور انسانی تجربے اور عقل کی ججمنٹ سے ورا ہوتے ہیں۔ یعنی ایسے تصورات عقل کی تحدید کا کام کرتے ہیں اور عقل محض سے الگ اور ممتاز ہوتے ہیں۔ اولیات عقل کو عقل محض کے مساوی قرار دینا عقلاً محال ہے۔ مجھے اس امر کا یقین ہے کہ زاہد مغل صاحب امام غزالیؒ کا متن پڑھنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔

مولانا ایوب دہلویؒ کی عقل کی تعریف

اب میں عرض کرتا ہوں کہ مولانا ایوب دہلویؒ نے عقل کی کیا تعریف کی ہے اور علم الکلام کے حوالے سے وہ عقل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ ان کا پورا خطبہ سہ ماہی ”جی“ کے پہلے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ زاہد مغل صاحب نے عقل کی جو تعریف کی ہے اس کا مولاناؒ کے ارشاد سے موازنہ کرتے ہی علم و جہل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ مولاناؒ کے موقف کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) دراصل عقل وہ شے ہے جو مخاطب رب العالمین ہے۔ پوری کائنات میں کوئی اس قابل نہیں ہے جو خطاب رب العالمین کو قبول کرے، یہ صلاحیت صرف عقل ہی میں ہے۔ انسان میں جو قوت خطاب الہٰی کو قبول کرنے اور مخاطب بننے کے قابل ہو اس قوت کا نام عقل ہے۔ عقل کے علاوہ جتنے اجزا انسان میں ہیں کسی میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ خطاب قبول کرے۔

(۲) شرع میں عقل کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔

(۳) اب پہلے آپ اس کو سمجھ لیں کہ عقل کا اصول کیا ہے؟ اس سے عقل کا عمل معلوم ہو جائے گا کہ عقل کہاں سے کہاں تک عمل کرتی ہے۔ نفی اور اثبات یعنی ہونے نہ ہونے میں جو حصر ہے، یہ عقل کا پہلا اصول ہے۔ یا شے ہو گی یا نہ ہو گی۔ عقل نے ہونے اور نہ ہونے کا ادراک کیا۔ تمام علوم اسی قاعدہ پر مبنی ہیں اور اسی کے معنی ہیں کہ اجتماع النقیضین محال ہے۔ اور انتفاع النقیضین محال ہے۔ اجتماع اور انتفاع دونوں محال ہیں، کیونکہ حصر ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہے۔ یعنی نہ تو یہ ممکن ہے کہ ایک شے ”ہو“ بھی اور ”نہ ہو“ بھی اور نہ یہ ممکن ہے کہ نہ تو وہ ”ہو“ اور نہ وہ ”نہ ہو“۔ ایک بات ہو گی یا تو (۱) وہ شے ہو گی یا (۲) وہ شے نہ ہو گی۔ یہ ہے بنیاد تمام عقلی علوم کی۔[یہ عقل کی متداول تعریف ہے کہ وہ         being         and nothingness پر ججمنٹ دیتی ہے۔ یہانتک زاہد مغل صاحب کی مکمل صفائی ہو گئی ہے۔)

(۴) اس کو آپ سمجھ لیں کہ یہ نفی اور اثبات میں جو حصر ہے، یہ ان اشیا میں ہے جن میں ہونے اور نہ ہونے، دونوں کی صلاحیت موجود ہو اور جس شے میں یہ دونوں صلاحیتیں بیک وقت موجود نہ ہوں اس شے میں یہ تقسیم نہیں ہو گی۔ تقسیم کی جو قسمیں ہوں گی وہ ایک دوسرے کی غیر ہوں گی اور مقسوم میں جا کر جمع ہو جائیں گی۔ اس تقسیم کو تشقیق کہتے ہیں۔ تو یہ تشقیق وجود کے جتنے اقسام ہیں اور عدم کے جتنے اقسام ہیں، ان میں یہ حصر ہوتا چلا جائے گا۔ کمالات وجود جتنے ہیں سب آجائیں گے، عقل ہے، علم ہے، قدرت ہے، جتنے بھی اوصاف ہیں یہ سب ایک لائن میں آ جائیں گے اور عدم کے جتنے اوصاف ہیں وہ سب ایک لائن میں آ جائیں گے۔ ان دونوں میں برابر حصر ہوتا چلا جائے گا۔ یا یہ ہے یا یہ نہیں ہے۔ یہ صلاحیت اور قابلیت صرف ممکن کی صفت ہے تو ممکن کی تقسیم ہو گی۔ تو عقل کی حد صرف ممکنات میں ہے اور واجبات میں عقل جاری نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں قانون عقل یعنی حصر کا قانون لازم نہیں ہے۔ [یہانتک محترم زاہد مغل صاحب کی صفائی ”مطلق“ کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔]

(۵) عقل کا استعمال صرف ممکنات میں ہو گا، واجبات میں نہیں ہو گا۔ واجب اس کو کہتے ہیں جس کا ہونا ضروری ہے اور جس شے کا صرف ہونا ہی ضروری ہے اس کی یہ تقسیم کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ ہے یا نہیں ہے؟ تشقیق ممکنات میں ہو گی، واجبات میں نہیں ہو گی۔ عقل کا عمل ممکنات میں ہو گا، واجبات میں نہیں ہو گا۔ [جبکہ محترم زاہد مغل صاحب واجب الوجود کو عقلی مانتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کو یہ باتیں سمجھ نہیں آ رہیں اور نہ آ سکتی ہیں۔ مجھے بھوسہ ڈھونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔]

(۶) اگر عقل واجبات میں دخل دے گی، غلطی کرے گی، جیسے جزیات میں عقل سے یہ معلوم نہیں ہو گا کہ فلاں شے اگالدان ہے، یہ حس سے معلوم ہو گا۔ جتنی جزیات مشخصہ یعنی مشخص چیزیں ہیں ان کا ادارک عقل نہیں کر سکتی، ان کا ادارک حس کرے گی۔ جزوی چیز کا ادارک، خواہ وہ ملائکہ ہوں، جن ہوں، اور جتنے محسوسات ہیں خواہ ممکنات میں سے ہوں خواہ واجبات سے ہوں، ان کا ادارک عقل نہیں کرے گی۔ حس کی بھی حد ہے، حس اس شے کا ادراک کرے گی جس میں رنگ ہو اور سطح ہو، جس شے میں رنگ اور سطح نہ ہو حس اس کا ادراک نہیں کرے گی۔ اسی وجہ سے حس تمام جسمانی چیزوں کا اور مادی چیزوں کا ادراک کرتی ہے اور خود اپنا ادراک نہیں کرتی۔ حس خود اپنے کو محسوس نہیں کرتی اور دوسری چیزوں کو محسوس کرتی ہے، جس میں رنگ ہو اور سطح ہو۔ حس ہوا کو جس وقت وہ چلتی ہے محسوس کرتی ہے، مگر ہوائے ساکن کو محسوس نہیں کرتی، باوجودیکہ وہ جسمانی چیز ہے۔ اور جو چیز غیر جسمانی ہے اس کو نہ حس محسوس کرسکتی ہے نہ عقل محسوس کر سکتی ہے۔ عقل کا تعلق جزیات سے ہے ہی نہیں۔

(۷) عقل کا جو تعلق ہے وہ صرف مخلوق سے ہے۔ عقل میں وہ آ نہیں سکتا۔ اب اس ٹکرے کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ عقل میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے کہ ”ھو الاول ھو الآخر ھو الظاھر ھو الباطن“ وہی اول ہے وہی آخر” (الحدید۔۳)، تو یہ بات کبھی عقل میں نہیں آ سکتی کہ جو شے اول ہو، وہی شے آخر بھی ہو اور وہ ایسی شے ہے کہ وہی اول ہے وہی آخر ہے، تو وہ عقل میں کیسے آ سکتا ہے؟ کیونکہ اولیت اور بعدیت کے پانچ علاقہ ہیں۔ … … جتنے قوانین جاری ہیں وہ سب ممکنات میں جاری ہیں۔

(۸) اب تو عقل کے متعلق بیان کرنا ہے کہ عقل کیا شے ہے، اس کا کیا فعل ہے؟ اور عقل دینیات میں لاگو نہیں ہے۔

(۹) اب جو چیزیں ایسی ہیں کہ عقل کے سامنے ہی نہیں آ سکتیں وہاں یہ کام بھی نہیں کرے گی۔ اب جو چیزیں ایسی ہیں کہ عقل کے سامنے آ سکتی ہیں وہ ہیں صرف عکس ان اشیا کے، ان اشیائے محسوسہ کے، جو نقوش وہ دماغ میں آتے ہیں بس، اور کوئی شے نہیں ہے۔ ان نقوش کو حکایات کہتے ہیں، تصورات کہتے ہیں اور وہ کلیات کہلائے۔ تو عقل کلیات میں کارفرما ہے باقی کسی جزئی میں نہیں ہے، نہ جزئی مادی میں، نہ جزئی روحانی میں، نہ جزئی جسمانی میں، نہ خالق جزیات و کلیات میں اور خدا خالق جزیات و کلیات ہے۔ تو آج کا سبق صرف یہ تھا کہ عقل کا کام کہاں ہے؟ کلیات میں۔ [میں square barackets میں کچھ تبصرے شامل کر دیے ہیں۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔]

گزارش ہے کہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جدید عقلی علوم میں کارفرما عقل کا تصور بھی وہی ہے جو مولاناؒ نے ارشاد فرمایا ہے۔ محترم زاہد مغل صاحب کا پروجیکٹ زیادہ ریڈیکل ہے۔ وہ علم الکلام کو میٹافزکس مانتے ہیں، اور میٹا فزکس کو عقلی کہتے ہیں۔ میں نے جب ان کی کرامت کا ذکر کیا تھا تو احباب نہ جانے کیوں برا مان گئے تھے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ وہ عقل کے بغیر صرف کرامت کے زور پر یہ کام کر کے احباب کو دکھا کر حجت الاسلام بن رہے ہیں۔ ع: ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔ خوشا وہ علم کہ ہمارے دلدر کا بھی درماں ہوا۔

 

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں