لازمی وجودی حقائق
اب محترم زاہد مغل صاحب کی دو عظیم دریافتوں یعنی ”لازمی وجودی حقائق“ اور ”حقائق کا اضطراری شعور“ کو دیکھ لینا بھی ضروری ہے۔ اوپر عقل کی جو تعریف گزری ہے اس میں یہ بات ضمناً آ گئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ”ان اولیات کے عقلی ہونے یا لازمی وجودی حقائق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شے کے وجودی احکام تین ہیں: واجب، محال و ممکن۔“
محترم زاہد مغل صاحب نے جدید فلسفہ، کلاسیکل علم الکلام اور عرفان (تصوف کی مابعدالطبیعات) کی اصطلاحات کا ایک ملغوبہ سا بنا دیا ہے جس سے وہ حجت الاسلام معلوم ہوتے ہیں۔ اب اسی فقرے کو لے لیں۔ وہ فرمائیں گے کہ ناچیز کو سمجھ نہیں آیا۔ لیکن یہ فقرہ وہ آدمی لکھ سکتا ہے جس کو فلسفے، کلام اور عرفان سے مس نہ رہا ہو اور وہ ان کے امتیازات سے بھی بے خبر ہو۔ ہونا یہ چاہیے ان کو اپنی یہ نئی دریافتیں الگ سے اور نئی اصطلاحات کی تعریفات کے ساتھ پیش کرنی چاہییں۔ میں نے ان سے استفسار کیا تھا کہ اولیات سے وہ کیا مراد لیتے ہیں۔ انہوں نے بس اتنا فرمایا کہ First Principles۔ اگر تو یہ اولیاتِ عقلی ہیں تو pre-rational ہیں اور عقلی نہیں ہو سکتیں، جیسا کہ وہ فرما رہے ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ وجودی کہا جا سکتا ہے۔ اگر یہ اولیاتِ عقلیات ہیں تو ان کی نوعیت کچھ اور ہو گی، کیونکہ اولیاتِ عقلی اور اولیاتِ عقلیات ایک نہیں ہو سکتے۔ عقلیات سے میں عقلی علوم سمجھا ہوں، اور ان کی اولیات وہ نہیں ہو سکتیں جو عقل کی ہوں گی۔ کسی بھی عقلی علم کی تشکیل میں اصول داخل ہوتا ہے، جو جامع اور مانع ہوتا ہے اور جسے عقل ہی اپنے عقلی وسائل سے متعین کرتی ہے اور وہ قطعی اور مکمل عقلی ہوتا ہے جیسے کہ فزکس کے بنیادی اصول ہیں۔ لیکن کوئی بھی عقلی علم صرف عقلی اصول پر قائم نہیں ہو سکتا اس لیے عقل اپنے تشکیل کردہ ہر علم میں وجودی اصول لازماً داخل کرتی ہے جو اس علم کے مقاصد اور معانی کو متعین کرتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ عقل کا ”علمی تجربہ“ اس کے وجودی اصول سے خارج نہ ہو جائے۔
یہاں ”حقائق“ کے معنی پر بھی کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ عقل کی حد بس یہ ممکنات ہیں، اور عقل کا پیدا کردہ علم بھی ممکنات کا ہے۔ عقلی علم کی یہ تقدیر ہے کہ وہ ”حقائق“ کا محتویٰ (container) نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ وجوبات عقل کا موضوع نہیں ہیں۔ وجوبات سے مراد ”حقائق“ ہی ہیں۔ حقائق کا لفظ جن کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے وہ سب ضروری ہیں، اور وہ جہانِ ممکنات ”میں“ نہیں ہیں اور یہ موقف علم الکلام کا ہے۔ حقائق غیب میں ہیں، یہ خبر غیب سے پتہ چلا، کیونکہ یہ کوئی علمی بات نہیں ہے، ایمانی ہے۔ عقل ان کے اثبات یا رد پر قادر نہیں ہے، انکار ضرور کر سکتی ہے۔ اس لیے حقائق کو ”ضروری“ یا ”لازمی“ کہنا سفاہت ہے، ازبس کہ وہ ضروری اور لازمی ہی ہیں کیونکہ وہ ”غیرضروری“ اور ”غیرلازمی“ نہیں ہو سکتے۔ علم الکلام واجب الوجود کی سلبی دلیل لانے تک ”حقائق“ سے تعرض نہیں کرتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ علم الکلام اسما و صفات، وجود باری، معاد، جنت دوزخ وغیرہ کی بحث بھی کرتا ہے۔ یہ عقل تسلیم کی ابحاث ہیں۔ عقلِ محض کے عقلِ تسلیم بننے سے اس کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کا دائرہ کار یقیناً تبدیل ہو جاتا ہے۔ عقل تسلیم جائز طور پر اپنے ایمانی محتویات پر عقلی گفتگو کی مجاز ہے۔ علم الکلام حقائق کا علم نہیں ہے۔ وہ عرفان یا عرفانی مابعدالطبیعات ہے۔ اب زاہد مغل صاحب علم الکلام کو ”ریشنل میٹافزکس“ کہتے ہیں۔ اب میں کیا کروں، دعا ہی کر سکتا ہوں کیونکہ محترم زاہد مغل صاحب میرے لیے بھی دعا ہی کرتے ہوں گے۔
حقائق کا اضطراری شعور، شریعت اور تکلیف
حقائق کا لفظ شرعی نہیں ہے، عرفانی اور مابعدالطبیعاتی ہے اور جیسا کہ اوپر گزر چکا ”حقائق“ عالم غیب میں ہیں۔ عقل ان کی براہ راست کوئی خبر نہیں رکھتی، لیکن ان کی قبولیت کی استعداد سے ضرور بہرہ ور ہے۔ میں ”اضطراری شعور“ جس میں ”کوئی انتخاب نہیں ہے“ کا جو مطلب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح کا.فر و مسلم کے لیے آفاق ایک ہے، اسی طرح غیب بھی ایک ہے۔ یعنی ہر صاحبِ عقل، جو کہ ہر کا.فر و مسلم ہے، اس امر پر مجبور ہے کہ وہ ان کا ادراک اور شعور بالکل ایک طرح سے حاصل کر لے۔ کا.فر و مسلم میں آفاق مشترک ہے، جبکہ انفس اور غیب مشترک نہیں ہے۔ محترم زاہد مغل صاحب فرماتے ہیں کہ ہر انسان کے لیے کچھ لازمی وجودی حقائق ہوتے ہیں، اور صاف ظاہر ہے وہ غیب میں ہوتے ہیں، اور ہر انسان ان کے یکساں ادراک و شعور پر مجبور ہے۔ اگر غیب بھی ہر انسان کے لیے اسی طرح given ہے جس طرح کہ آفاق ہے تو نبی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اور جبری شعور سے تکلیف کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ کوئی نبی اس لیے تو مبعوث نہیں ہوا کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ وہ آفاق میں ہیں، وہ تو غیب کی خبر ہی لاتا ہے، اور نبی کے مخاطب اس کے ماننے یا نہ ماننے میں آزاد ہیں۔
اب ان کی بات کو ایک اور انداز میں سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ عقل محض=اولیات اور اولیات = لازمی وجودی حقائق، اور لازمی وجودی حقائق عقلی ہیں تو عقل محض=عقلی۔ خدارا کوئی تو ان سے پوچھے کہ یہ کیا ہفوات ہیں، اور یہ کون سا علم الکلام یا عرفان ہے جو انہوں نے دریافت کیا ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ”ان اولیات کے عقلی ہونے یا لازمی وجودی حقائق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شے کے وجودی احکام تین ہیں: واجب، محال و ممکن۔“ یہ فقرہ پڑھ کر میرے بھی چھکے چھوٹ گئے اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ اب مساوات عظیم ملاحظہ فرمائیں: عقل محض=اولیات = لازمی وجودی حقائق=عقلی=وجودی احکام=واجب، محال و ممکن۔ میں جس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ان کے متن کو توجہ اور دیانت داری سے پڑھا جائے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ وہ بہت چالاکی سے ایک نئی لَغوی اور الغائی اصطلاح لے کے آتے ہیں: لازمی وجود احکام۔ اب حقائق میں واجب کے ساتھ محال اور ممکن بھی شامل ہو گیا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ علم الکلام میں عقل کی تشقیقات pre-rational نہیں ہوتیں بلکہ post-rational ہیں۔ اب وہ حاصلات تعقل یا حاصلات عقل کو بھی لازمی وجودی حقائق میں شمار کر رہے ہیں۔ یہ تشقیق صرف حاصلِ شعور ہے، اور شعور میں ہے اور باہر اس کا بعینہٖ کوئی مصداق نہیں ہے کیونکہ اس میں محال داخل ہے۔ اگر حاصلات شعور بھی ”لازمی وجودی حقائق“ ہیں تو سائنٹزم والے کیا گناہ کرتے ہیں جنہوں نے فزکس کو ہی علم الحقائق بنایا ہوا ہے۔
جہانتک میں سمجھ پایا ہوں میرا محترم زاہد مغل صاحب اور دیگر حجج الاسلام سے بنیادی جھگڑا یہ ہے:
(۱) میں عقل انسانی کو ایک ممیز ملکۂ شعور مانتا ہوں، اور وہ اس کا مطلب موقع محل کے مطابق صوابدیدی لیتے ہیں۔
(۲) وہ علم الکلام اور عرفان/ عرفانی مابعدالطبیعات /شیخ اکبرؒ کی مابعدالطبیعات کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں جبکہ میں ان کو قطعی الگ الگ علوم شمار کرتا ہوں۔
(۳) میں علم الکلام کو فزکس کی طرح کا عقلی علم شمار کرتا ہوں ایک فرق کے ساتھ جو میں بیان کر چکا۔
(۴) وہ جدید فلسفے کو سوفسطائیت سمجھتے ہیں۔ انہیں جدید فلسفیانہ مباحث کی کوئی سمجھ ہی نہیں آتی۔
(۵) وہ عقل اور علم دشمنی کو ثواب سمجھتے ہیں۔
(۶) میں عرفان یا مابعدالطبیعات کو ایک قطعی غیرعقلی علم سمجھتا ہوں جس کا ذریعہ انسان کا ملکۂ خیال ہے جو ایمانیات کے ممیز حقائق کو مربوط اور مدارج میں تقسیم کرتا چلا جاتا ہے۔ تصوف اصلاً خیال کی تنقیح اور تزکیہ ہے۔ ایمان کی کوئی معنویت حس یا عقل وغیرہ سے قیام میں نہیں لائی جا سکتی۔ اس کا ذریعہ صرف خیال ہے۔ یہ خیال ہی کی بدولت ہے کہ ایمانی محتویات/ حقائق انفس انسانی میں ایک ایسی presence رکھتے ہیں جو ”دنیا“ سے زیادہ یقینی، قریب اور بامعنی ہوتی ہے۔ تصوف دو ذرائع سے خیال کی توسیعات پیدا کرتا ہے: عرفان اور سلوک۔ خیال انفس انسانی میں غیب کی irruption کی locale ہے، یعنی خیال انفس انسانی میں مبشرات، فیوضات اور تجلیات کی locale ہے۔ شیخ اکبرؒ کا عرفان/ مابعدالطبیعات ہمیں ان روحانی تجربات کے درست تعین میں معاون و رہنما ہوتی ہے۔
میں نے بہت مشقت سے یہ کچھ سطریں گھسیٹی ہیں۔ غلطی یا اغلاط کی معافی خواستگار۔
کمنت کیجے