26 ویں آئینی ترمیم کے دیگر پہلوؤں پر تو بات ہوتی رہی ہے لیکن سود کے خاتمے کے متعلق شقوں پر بحث میں کچھ پہلو تشنہ رہ گئے ہیں۔ ان پہلوؤں پر کچھ اہم نکات پیشِ خدمت ہیں۔
پاکستان میں سود کے خاتمے کی آئینی و قانونی جدوجہد کا آغاز
سب سے پہلے یہ نوٹ کیجیے کہ سود کے خاتمے کی جدوجہد پاکستان بننے سے قبل، بلکہ تحریکِ پاکستان شروع ہونے سے بھی قبل، شروع ہوئی تھی۔ 1930ء کی دہائی میں علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے مکاتیب میں دیگر مسائل کے علاوہ یہ مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی آزادی ان کی معاشی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی اور معاشی آزادی کےلیے ضروری ہے کہ ان کی معیشت کو ہندو ساہو کار کے قبضے سے چھڑایا جائے۔ چنانچہ جب یکم جولائی 1948ء کو بینک دولت پاکستان، یعنی سٹیٹ بینک آف پاکستان، کا افتتاح کیا گیا، تو اس موقع پر اپنی تقریر میں قائدِ اعظم نے خصوصاً اس بات پر زور دیا کہ دنیا مغربی نظامِ معیشت کا تجربہ کرکے اس کی تباہ کاریاں دیکھ چکی اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی اصولوں پر معاشی نظام کھڑا کرکے دکھا دیا جائے۔ انھوں نے بینک دولت پاکستان کے شعبۂ تحقیق کو خصوصاً اس پر کام کی ذمہ داری دی۔ بانیِ پاکستان، باباے قوم، کے مقرر کردہ اس ہدف کے حصول کےلیے بینک دولت پاکستان نے عملاً کیا کیا، یہ ایک افسوسناک داستان ہے۔ قائدِ اعظم کی اس تقریر کو قوم اور ریاست کے نام ان کی وصیت کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے 2 مہینے 10 دن بعد ان کا انتقال ہوا۔
بہرحال، 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان میں بھی دنیاے اسلام کے باقی ممالک کی طرح یہ بحث چلتی رہی کہ بینک کا سود ربا کی تعریف میں داخل ہے یا نہیں؟ کیا شریعت نے صرف سودِ مرکب کو حرام کیا ہے یا سودِ مفرد بھی حرام ہے؟ نیز کیا صرف نجی قرضوں پر سود ممنوع ہے یا تجارتی قرضوں پر سود بھی ربا ہے؟ علمی حلقوں میں اس کے علاوہ یہ بحث بھی چلتی رہی کہ کیا قرآن کے ربا اور سنت کے ربا میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ ان دو دہائیوں میں ریاستی سطح پر خواہ ابتدا میں قائم شدہ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ ہو، 1956ء کے آئین کے تحت بنایا گیا قوانین میں اصلاح کا کمیشن ہو، 1962ء کے آئین کے تحت قائم کی گئی اسلامی نظریے کی مشاورتی کونسل ہو یا سرکاری ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی،سود کے خاتمے کےلیے عملی اقدامات ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے اور صرف علمی مباحثے ہی ہوتے رہے، اور علمی مباحثہ بھی انھی سوالوں تک محدود رہا۔
پہلے اور دوسرے آئین میں بندوبست
1956ء کے آئین میں دو بنیادی اصول طے کیے گئے: ایک یہ کہ پاکستان میں رائج الوقت تمام قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے ہم آہنگ کیا جائے گا، اور دوسرا یہ کہ آئندہ ان احکام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ یہی دو اصول 1962ء کے آئین میں بھی دہرائے گئے۔ اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں تھا کہ اسلامی احکام کی رو سے ربا حرام ہے لیکن ، جیسا کہ ذکر کیا گیا، اس وقت تک ابھی اس پر بحث جاری تھی کہ کیا ربا کے مفہوم میں بینک کا سود یا سود مفرد یا تجارتی سود شامل ہے یا نہیں؟ اس لیے ان دو اصولوں کے طے کیے جانے کے باوجود پاکستان میں نہ صرف سرکاری سطح پر، بلکہ نجی سطح پر بھی سود کا کاروبار جاری رہا اور نجی قرضوں پر بھی 8 فی صد تک سود کی باقاعدہ اجازت پرائیویٹ منی لنڈنگ آرڈی نینس کے تحت دی گئی تھی۔
1956ء کے آئین کے تحت قوانین کی اصلاح کےلیے بنائے گئے کمیشن کو 1962ء کے آئین میں ”اسلامی نظریے کی مشاورتی کونسل“ کہا گیا۔ اس کمیشن/کونسل کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ قوانین کی اسلام کاری کے متعلق مذکورہ بالا دو آئینی اصولوں کی روشنی میں پارلیمان کو سفارشات پیش کرے، یا جب پارلیمان کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ اس کمیشن/کونسل سے رہنمائی حاصل کرے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں اس سلسلے میں کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔
1973ء کے آئین میں مزید اصول
1973ء کے آئین میں بات کچھ آگے بڑھ گئی۔ اب مذکورہ دو آئینی اصولوں پر عمل، یعنی تمام قوانین کی اسلام کاری، کےلیے مدت کا تعین بھی کیا گیا اور کونسل کو، جسے اب ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کا نام دیا گیا، پابند کیا گیا کہ وہ سات سال میں تمام قوانین کے متعلق اپنی حتمی رپورٹ دے اور اس دوران میں ہر سال اپنی عبوری رپورٹ بھی دیتی رہے۔ اسی طرح پارلیمان اور صوبائی اسمبلی کےلیے طے کیا گیا کہ کونسل کی حتمی یا عبوری رپورٹ موصول ہونے پر اسے چھ مہینے کے اندر ایوان میں پیش کیا جائے گا اور پھر حتمی رپورٹ کے مطابق پارلیمان یا صوبائی اسمبلی دو سالوں کے اندر قانون سازی کرے گی۔
ان عمومی احکام کے ساتھ 1973ء کے آئین میں خصوصاً ربا کے متعلق “پالیسی کے اصولوں“ کے باب میں یہ اعلان کیا گیا کہ ریاست کا یہ فریضہ ہوگا کہ وہ ”جتنی جلد ممکن ہو، ربا کا خاتمہ کرے“۔
ان دو نئے کاموں کے باوجود عملی طور پر کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں:
ایک یہ کہ کونسل کو تو سالانہ عبوری اور سات سال میں حتمی رپورٹ دینے کا پابند کیا گیا، اور پارلیمان ور صوبائی اسمبلی کو کہا گیا کہ وہ چھ مہینے کے اندر ایوان میں رپورٹ پیش کرے اور دو سال کے اندر قانون سازی کرے، لیکن اگر پارلیمان یا صوبائی اسمبلی اس شق پر عمل نہ کرے، تو کیا ہوگا؟ آئین نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ چنانچہ عملاً ہوا یہی کہ کونسل نے اگر رپورٹ پیش بھی کی، تو پارلیمان یا صوبائی اسمبلی نے اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ اور تو اور، جب 2002ء سے 2007ء تک صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد، یعنی متحدہ مجلسِ عمل، کی حکومت تھی، تو اس نے بھی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کے بجاے اپنی ایک الگ نفاذِ شریعت کونسل بنا کر اسے یہ کام سونپا کہ وہ صوبائی اسمبلی کو اس ضمن میں سفارشات پیش کرے۔ خیر، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ربا کے خاتمے کے متعلق ریاست کا جو فریضہ مقرر کیا گیا، وہ پالیسی کے اصولوں کے باب میں تھا اور انتظامیہ یا مقننہ کے کسی عمل کو پالیسی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، باوجود اس کے کہ انتظامیہ کا ایسا حکم نامہ یا مقننہ کا ایسا قانون آئین کی اس شق کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہو۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس پر کچھ بحث کی ضرورت ہے۔
پالیسی کے اصولوں کا عملی نفاذ
پالیسی کے اصولوں کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ یہ بس اچھی باتیں ہیں، اقوالِ زرّیں ہیں، اور ان کی کوئی عملی اہمیت نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی اس بنیاد پر ہے کہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کو عدالتی حکم کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔ مثلاً یہ اصول کہ ربا کو جلد از جلد ختم کیا جائے گا اس بات کا متقاضی ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ ربا کے خاتمے کےلیے اقدام اٹھائیں لیکن اس کے برعکس اگر مقننہ نے کوئی ایسا قانون بنایا جس سے ربا کو تحفظ ملتا ہو، یا انتظامیہ نے اس طرح کا کوئی اقدام اٹھایا، تو اس قانون یا اس اقدام کو عدالت کے ذریعے کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم یہ ادھوری سچائی ہے۔ کسی آئینی فریضے کے نفاذ کےلیے عدالت ہی تنہا فورم نہیں ہے۔ کئی امور ایسے ہیں جن کےلیے کسی اور فورم کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً کسی موضوع پر قانون کی ضرورت ہے تو اس کےلیے عدالت کا رخ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ مقننہ (وفاقی یا صوبائی) کی طرف ہی جایا جائے گا۔ عدالت کسی قانون کو، یا اس کے کسی جزو کو، بنیادی حقوق یا اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم تو کرسکتی ہے، لیکن مقننہ کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتی (اگرچہ ہماری عدالتیں کئی بار اس اصول کو نظر انداز کرکے پارلیمان کو مخصوص قانون سازی کےلیے کہہ چکی ہیں)، یعنی عدالت کے پاس سلبی پہلو سے قانون سے کچھ حذف کرنے کا اختیار ہے، نہ کہ ایجابی پہلو سے قانون میں کسی اضافے کا۔
مزید یہ کہ پالیسی کے اصولوں کے نفاذ کےلیے آئین نے لازم کیا ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ اور ہر ادارے کا ہر فرد اپنے اپنے دائرۂ کار میں ان اصولوں کے مطابق کام کرے۔ نیز یہ وفاق کی سطح پر صدر اور صوبے کی سطح پر گورنر ہر سال ایس رپورٹ تیار کروائے گا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ان اصولوں کے نفاذ کےلیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، اور یہ رپورٹ پارلیمان یا صوبائی اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔ رہا یہ سوال کہ اگر کوئی ادارہ یا فرد ان اصولوں کے مطابق کام نہ کرے، تو کیا اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے ادارے یا فرد کے خلاف عدالت میں تو نہیں جایا جاسکتا لیکن اس ادارے کے اندر اس سے مذکورہ کام کروانے، یا خلاف ورزی روکنے، کا طریقِ کار تو موجود ہوتا ہے۔ مثلاً مقننہ کو ربا کے خاتمے کےلیے قانون سازی پر عدالت مجبور نہیں کرسکتی، لیکن اگر مقننہ میں ربا کے تحفظ کےلیے قانون سازی کی جارہی ہو، تو اسے روکنےکےلیے مقننہ کے اندر متعدد راستے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔اسی طرح صدر اور گورنر پر ان اصولوں کے متعلق رپورٹ تیار کروانے کی ذمہ داری مسلسل ان کو یاد دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور رپورٹ پیش ہونے پر پارلیمان یا صوبائی اسمبلی میں اس پر بھرپور بحث ہونی چاہیے۔ گویا ہر کام عدالت کے ذریعے کرنے کےلیے نہیں ہوتا۔
ان امور کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ربا کے خاتمے کےلیے کوشش کی بات پالیسی کے اصولوں کے باب میں کیوں کی گئی؟ معیشت سے ربا کا خاتمہ کوئی ایک دن یا ایک مہینے یا ایک سال کا کام نہیں، بلکہ اس کےلیے ایک ہمہ گیر کوشش اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جس کی عدم موجودگی میں اس کے خاتمے کےلیے کسی مدت کا تعین اور پھر اسے عدالت کے ذریعے جبری نفاذ سے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔
1970ء کی دہائی میں یہ عذر قابلِ فہم تھا، لیکن کیا اس کے بعد بھی اس عذر میں کچھ وزن باقی رہا؟ اب اس پر بات کرتے ہیں۔
1977ء کے بعد قوانین اور معیشت کی اسلام کاری کےلیے اقدامات
1977ء تک اسلامی نظریاتی کونسل نے کچھ خاص کرکردگی نہیں دکھائی اور قوانین کی اسلام کاری کے حوالے سے حکومت نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ تاہم جب جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیاتو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی بھی تشکیلِ نو کی اور ہر مکتبِ فکر سے ایسے علماء کو اکٹھا کیا جن کا اپنے اپنے حلقے میں اچھا خاصا اثر تھا۔ اس کے بعد کونسل نے قوانین کی اسلام کاری کے حوالے سے بہت تیزی سے کام کیا۔ ان کاموں میں ایک اہم کام معیشت کی اسلام کاری کےلیے اقدامات کا بھی تھا۔
1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایک جانب حدود قوانین نافذ کیے (جن کا مسودہ کونسل نے ہی بنایا تھا) اور دوسری جانب ہر ہائی کورٹ میں ایک ”شریعت بنچ“ بنایا۔ ان شریعت بنچوں میں ایک تو حدود قوانین کے تحت مقدمات کی اپیلیں آتی تھیں، لیکن دوسرا کام اس سے زیادہ اہم تھا۔ اگر کوئی شہری کسی قانون کو اسلامی احکام سے متصادم سمجھتا، تو وہ اس کے خلاف شریعت بنچ میں ”شریعت پٹیشن“ دائر کرکے اس کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کرسکتا تھا۔ یوں پہلی دفعہ ”خلافِ اسلام“ قوانین کے خاتمے کےلیے عملی طریقِ کار وجود میں لایا گیا۔ تاہم ان شریعت بنچوں کے اختیار سے بعض قوانین کو مستثنیٰ کیا گیا، جن میں مالیاتی امور سے متعلق قوانین بھی شامل تھے اور اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ مالیاتی امور سے ربا کے خاتمے کےلیے عملی اقدامات اور متبادل نظام وضع کرنے کےلیے کچھ وقت درکار ہے۔ اس مقصد کےلیے اسلامی قانون، اسلامی معاشیات اور بینکاروں کا پینل قائم کرکے اسے یہ کام سونپا گیا۔
1980ء میں ہائی کورٹوں سے شریعت بنچ ختم کردیے گئے اور ان کی جگہ مرکزی سطح پر ایک ”وفاقی شرعی عدالت“ قائم کی گئی اور اسے وہی اختیارات دیے گئے جو اس سے قبل شریعت بنچوں کو حاصل تھے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت سے بھی مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو مستثنیٰ کیا گیا، لیکن اس استثنا کےلیے دو سال کی مدت رکھی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ ان دو سالوں میں ان قوانین سے ربا کو ختم کردیا جائے گا۔
ربا کے خاتمے کےلیے مقرر کی گئی مدت میں اضافہ
دو سالوں میں ان قوانین سے ربا ختم نہیں کیا جاسکا کیونکہ پینل اور کونسل کی سفارشات پر وزارتِ قانون اور وزارتِ خزانہ کو کئی تحفظات تھے۔چنانچہ دو سال کی مدت ختم ہونے سے کچھ قبل ایک صدارتی حکم کے ذریعے مالیاتی قوانین کو حاصل استثنا کی مدت دو سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی۔ اس مدت میں بینکوں میں ”نفع و نقصان شراکت“ (Profit and Loss Sharing/PLS) اکاؤنٹ کھول دیے گئے اور مضاربہ ماڈل پر بھی کچھ کام ہوا۔ ایسے چند نمائشی نوعیت کے اقدامات سے کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔اس لیے آٹھویں آئینی ترمیم کے موقع پر 1985ء میں پانچ سال کی مدت کو بڑھا کر دس سال کردیا گیا۔
اس دوران میں وفاقی شرعی عدالت نے کچھ ایسے فیصلے دیے تھے جن سے اچھی خاصی ہلچل مچ گئی تھی۔ مثلاً محمد ریاض کیس کے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ قتل کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات اسلامی احکام سے متصادم ہیں اور اگر ان دفعات کو تبدیل نہ کیا جائے، تو مخصوص مدت گزرنے پر یہ کالعدم ہوجائیں گی۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں قائم خصوصی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی جس نے یہ فیصلہ معطل کردیا۔ (اس کیس کا حتمی فیصلہ شریعت اپیلیٹ بنچ نے 1989ء میں دیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کے نتیجے میں حکومت بالآخر مجبور ہو کر 1990ء میں ایک آرڈی نینس کے ذریعے ان دفعات کی جگہ قصاص و دیت سے متعلق دفعات لے آئی۔) اسی طرح 1981ء میں حضور بخش کیس میں وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا کہ رجم کی سزا حد نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف شدید ردّ عمل سامنے آیا، تو اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت کو اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ چنانچہ نظرِ ثانی میں اس نے 1983ء میں اپنا یہ فیصلہ خود ہی کالعدم کردیا۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو غیر مؤثر کرنے کےلیے اہم ترمیم
1983ء میں ہی وفاقی شرعی عدالت کے متعلق باب میں ایک اور اہم شق کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت یہ قرار پایا کہ جب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی جائے، تو جب تک اس اپیل کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، تب تک وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوگا۔ گویا اب فیصلے کے معطل کرنے کےلیے شریعت اپیلیٹ بنچ سے سٹے آرڈر لینے کی بھی ضرورت نہیں رہی، بلکہ صرف اپیل دائر کرنے سے ہی وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوجاتا ہے۔ اس شق نے نہ صرف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی اہمیت ختم کردی (کیونکہ فیصلے کے بعد صرف اپیل دائر کرنے پر ہی فیصلہ معطل ہوجاتا ہے) بلکہ شریعت اپیلیٹ بنچ کو بھی عضو معطل بنا کر رکھ دیا کیونکہ اب اس کی جانب سے سٹے آرڈر کے بغیر بھی وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوجاتا ہے، تو شریعت اپیلیٹ بنچ سے فیصلہ کرانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ البتہ اگر چیف جسٹس آف پاکستان نے شریعت اپیلیٹ بنچ بنا کر مقدمے کی سماعت شروع کی، تو وہ الگ بات ہے۔ گویا اب اس سارے نظام کا انحصار صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی مرضی پر ہوگیا۔
ربا کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا پہلا فیصلہ
1990ء میں وہ دس سال کی مدت بھی ختم ہوگئی جس کےلیے مالیاتی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت سے مستثنیٰ کیا گیا تھا۔ چنانچہ ایسے قوانین جن میں سود کو تحفظ دیا گیا تھا، کے خلاف کئی شریعت پٹیشنز وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی گئیں۔ تفصیلی سماعت کے بعد عدالت نے یہ طے کیا کہ ربا کی تعریف میں سود شامل ہے اور یہ کہ اس بنا پر ایسے تمام قوانین اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ حکومت کو ان قوانین میں تبدیلی کےلیے وقت دیا گیا اور قرار دیا گیا کہ مذکور وقت گزرنے پر یہ قوانین از خود کالعدم ہوجائیں گے۔
حکومت نے ایک جانب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل کی، اور یوں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوگیا، اور دوسری طرف ’معیشت کی اسلام کاری کےلیے کمیشن‘ بنا دیا۔ یہ وہ دور تھا جس میں پاکستان میں ’اسلامی بینکاری‘ کو ترویج حاصل ہوا۔
ربا کے متعلق شریعت اپیلیٹ بنچ کا فیصلہ اور پھر اس پر نظرِ ثانی
شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلیں کئی سال تک معلق رہیں۔ بالآخر 1999ء میں بنچ نے ان اپیلوں کی سماعت شروع کی اور دسمبر 1999ء میں چار رکنی بنچ نے متفقہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سود کو ربا کے مفہوم میں شامل قرار دیا اور ایسے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا جن میں سود کو تحفظ دیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں حکومت کو ان قوانین کو ختم کرنے کےلیے ڈیڑھ سال کا وقت (جون 2001ء تک) دیا گیا۔ اس مدت کے اختتام سے کچھ قبل حکومت نے دو سال کا مزید وقت مانگا، تو شریعت اپیلیٹ بنچ نے اسے ایک سال کا مزید وقت دیا۔ یہ مدت جون 2002ء میں ختم ہونی تھی، لیکن اس سے قبل جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کے ججوں سے اپنی وفاداری کا حلف لیا اور جن ججوں نے ان کی وفاداری کا حلف نہیں لیا، ان کو فارغ کیا۔ ان میں دو وہ جج بھی تھے جو شریعت اپیلیٹ بنچ کا حصہ تھے اور جنھوں نے سودی قوانین کے خلاف فیصلہ دیا تھا، یعنی جسٹس وجیہ الدین احمد اور جسٹس خلیل الرحمان خان۔ نیز جنرل مشرف نے مفتی محمد تقی عثمانی کے بطورِ عالم رکن شریعت اپیلیٹ بنچ معاہدے کی تجدید نہیں کی۔ (ایک عالم رکن کی جگہ پہلے ہی خالی تھی۔ 25 مئی 2002ء کو جنرل مشرف نے دو علماء ارکان کی تعیناتی کی، علامہ خالد محمود اور ڈاکٹر رشید احمد جالندھری۔) اب وہ بنچ جس نے سودی قوانین کے خلاف فیصلہ دیا تھا، اس میں صرف ایک جج جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے۔ بنچ کے سامنے یونائیٹڈ بینک کی جانب سے نظرِ ثانی کی درخواست پہلے ہی سے زیرِ التوا تھی۔ اب نئے بنچ نے نظرِ ثانی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نہ صرف اپنے دسمبر 1999ء کے فیصلے کو کالعدم کیا، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کا فیصلہ بھی کالعدم کرتے ہوئے مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا (اسے ریمانڈ کہا جاتا ہے) تاکہ وہ از سرِ نو مقدمہ سنے!
ربا کے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا دوسرا فیصلہ
2002ء سے 2022ء تک یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں معلق رہا ۔ تقریباً 20 سال بعد 28 اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے بالآخر اس مقدمے کا فیصلہ کیا اور تقریباً وہی فیصلہ دیا جو اس نے 1991ء میں دیا تھا جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے اور اس وجہ سے سود کو تحفظ دینے والےتمام قوانین اسلامی احکام سے متصادم ہیں ۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی، (عالم جج) جسٹس ڈاکٹر سید انور اور جسٹس خادم حسین شیخ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے دیا۔ اس فیصلے میں سودی قوانین کے خاتمے کےلیے 5 سال کی مدت مقرر کی گئی۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت، بینکوں اور نجی سطح پر افراد نے اپیلیں کیں۔ بعد میں حکومت نے اپیلیں واپس لیں لیکن چونکہ دیگر اپیلیں موجود ہیں، اس لیے وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ ہنوز معلق ہے۔
سالہا سال سے غیر فعال شریعت اپیلیٹ بنچ
سپریم کورٹ میں شریعت اپیلیٹ بنچ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آج تک اس بنچ کے سامنے 1989ء سے دائر کی گئی اپیلیں معلق ہیں لیکن بنچ کی تشکیل کرکے ان مقدمات کی سماعت نہیں کی جارہی۔ کورٹ فیس ایکٹ کے متعلق وفاقی شرعی عدالت نے 1992ء میں فیصلہ سنایا ہے لیکن اپیل دائر ہونے کی وجہ سے وہ معلق ہے۔ اسی طرح عائلی قوانین کے متعلق وفاقی شرعی عدالت نے 1999ء میں فیصلہ سنایا ہے لیکن وہ آج تک معلق ہے۔ سودی قوانین کے متعلق تفصیل پہلے ہی دی گئی۔ چونکہ ہماری مذہبی جماعتوں نے بھی کافی عرصے سے وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ کے امور میں دلچسپی لینی چھوڑی دی ہے، اس لیے حالت یہ ہے کہ سالہا سال تک شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل ہی نہیں کی جاتی اور یوں شریعت پٹیشینیں تو ایک طرف فوجداری اپیلیں بھی معلق رہتی ہیں۔
ایک افسوسناک مثال یہ ہے کہ ایک مقدمے میں فریقین کے درمیان صلح ہوگئی جس کے بعد صلح کی دستاویز کی توثیق سیشن عدالت نے بھی کی اور پھر یہ دستاویز شریعت اپیلیٹ بنچ میں 2019ء میں پیش کی گئی لیکن چونکہ شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل ہی نہیں ہوئی اور 2020ء میں صرف ایک ہفتے کےلیے اس نے کچھ مقدمات سنے جن میں اس مقدمے کی باری ہی نہیں آئی، تو درخواست گزار اس کے بعد بھی قید میں رہا یہاں تک کہ اگست 2024ء میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے مقدمات سنے تو یہ درخواست بھی سنی گئی اور قیدی کی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔ اپنے فیصلے میں قاضی صاحب نے اس بات پر معذرت بھی کی کہ 5 سال کا عرصہ قیدی نے جیل میں صرف اس وجہ سے گزارا کہ اس کی درخواست سننے کےلیے عدالت بیٹھی ہی نہیں!
عدالت کیسے بیٹھتی جبکہ اس کے بیٹھنے کا فیصلہ چیف جسٹس کی مرضی پر منحصر تھا اور 2020ء سے 2024ء تک کسی چیف جسٹس کو یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل کرتے۔ ستمبر 2023ء میں قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس بننے کے بعد شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل کا ارادہ کیا اور استاد گرامی جناب ڈاکٹر محمد الغزالی کی رہنمائی میں، جو کہ شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن تھے، ہم نے زیرِ التوا مقدمات کے متعلق تفصیلی نوٹ بھی تیار کرلیے لیکن دسمبر 2023ء میں غزالی صاحب کا انتقال ہوا، تومعاملہ پھر لٹک گیا۔ اس دوران میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کے قانون کے نفاذ کے بعد بنچوں کی تشکیل کا اختیار بھی چیف جسٹس سے کمیٹی کے پاس چلا گیا۔
پانچ سال بعد ایک ہفتے کےلیے فعالیت
جون 2024ء میں بالآخر استاد گرامی ڈاکٹر قبلہ ایاز کو شریعت اپیلیٹ بنچ کا رکن بنایا گیا تو اس کے بعد جولائی میں قاضی صاحب نے رجسٹرار کو کہا کہ وہ کمیٹی میں شریعت مقدمات کی فہرست پیش کریں تاکہ کمیٹی اس کےلیے شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل کرے۔ قاضی صاحب کی خواہش تھی کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں جبکہ باقی مقدمات کم ہوتے ہیں، شریعت اپیلیٹ بنچ بنا کر شریعت مقدمات سنے جانے چاہئیں۔ تاہم کمیٹی کے دیگر دو ارکان،جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر، نے کہا کہ ان مقدمات کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہو، اور انھوں نے جو بنچ تجویز کیا اس میں قاضی صاحب کو شامل بھی نہیں کیا۔ نیز جو بنچ انھوں نے تشکیل دیا اس کےلیے طے کیا کہ وہ صرف فوجداری اپیلیں ہی سنے گا، شریعت اپیلوں کو اس کے سامنے لگانے کی بات ہی نہیں ہوئی۔ کمیٹی میں اکثریت انھی دو ججوں کو حاصل تھی لیکن قاضی صاحب نے بڑی مشکل سے انھیں قائل کیا کہ گرمیوں میں بھی کم از کم ایک ہفتہ یہ بنچ بیٹھ سکتا ہے اور اس میں وہ خود شامل ہوں گے جو فوجداری مقدمات کے علاوہ شریعت مقدمات بھی سنے گا۔
چنانچہ اگست 2024ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے ایک ہفتہ بیٹھ کر ان مقدمات کی سماعت شروع کی جو کئی دہائیوں سے معلق تھے۔ اصول یہ طے کیا کہ قدیم ترین مقدمات سے شروع کریں گے اور روزانہ دو شریعت اپیلیں اور تین فوجداری اپیلیں سنیں گے۔ چنانچہ قدیم ترین شریعت اپیل، بیگم رشیدہ پٹیل کیس (1989ء)، جس میں زنا بالجبر اور خواتین کی گواہی پر حدود سزاؤں کے متعلق حدود قوانین کی بعض شقوں پر فیصلہ دیا گیا تھا، بھی سنی گئی، کورٹ فیس ایکٹ کے خلاف فیصلے پر اپیل بھی سنی گئی اور دیگر کچھ مقدمات بھی سنے گئے۔
قاضی صاحب کے جانے کے بعد، اور پھر بالخصوص 26 ویں ترمیم کے بعد، اب شریعت اپیلیٹ بنچ اور اس کے سامنے معلق اپیلوں کا کیا ہوگا، اب اس پر بات کرتے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے غیر مؤثر کردینے والی شق کے خاتمے کی کوشش
1983ء میں جنرل ضیاء الحق نے جو شق شامل کرکے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو غیر مؤثر اور شریعت اپیلیٹ بنچ کے وجود کو عضو معطل کی حیثیت دے دی، اس شق کے خاتمے کےلیے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میں ایک ترمیمی بل پیش کیا، لیکن آئینی ترمیم بل اگر حکومت کی جانب سے نہ آئے تو اس کا منظور کیا جانا ناممکن حد تک مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ بل سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی سے آگے گیا ہی نہیں اور اسے کمیٹی نے ہی ختم کردیا۔
26 ویں ترمیم نے اس شق کے ساتھ کیا کیا؟
جب 26 ویں ترمیم کا غلغلہ اٹھا، تو میں نے بھی چند تجاویز بعض اہلِ علم تک پہنچائیں جن میں ایک تجویز اس شق کے حذف کرنے کی تھی۔ جمعیت علماے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان صاحب کی جانب سے ترامیم کے مسودے میں یہ تجویز شامل کی گئی تھی لیکن حتمی صورت میں جس طرح ترمیم منظور ہوئی، اس میں اس شق کو مکمل طور پر حذف کرنے کے بجاے درج ذیل اصول طے کیے گئے ہیں:
ایک یہ کہ جب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں دائر کی جائے، اور اس اپیل کا فیصلہ ایک سال میں نہیں کیا گیا، تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا، الا یہ کہ شریعت اپیلیٹ بنچ اسے معطل کردے۔ گویا اب وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سالہا سال تک از خود معطل نہیں ہوگا، بلکہ اپیل دائر ہونے پر صرف ایک سال کےلیے معطل ہوگا، اور اس کے بعد اس کے معطل کرنے کےلیے شریعت اپیلیٹ بنچ کی جانب سے سٹے آرڈر کا ہونا ضروری ہوگا۔ یہ مثالی پیش رفت نہ سہی، لیکن اچھی پیش رفت ضرور ہے اور اس کی تحسین ہونی چاہیے۔ تاہم دوسرے اصول نے اس کی افادیت کم کردی ہے۔
دوسرا اصول یہ طے پایا ہے کہ پہلے اصول کا اطلاق شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے برسوں سے معلق پرانی اپیلوں پر نہیں ہوگا، بلکہ 26 ویں ترمیم کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل پر ہی ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1989ء سے 2024ء تک دائر کی جانے والی اپیلیں بدستور معلق ہی رہیں گی۔ ان اپیلوں میں عائلی قوانین کے متعلق فیصلے اور ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ کے خلاف فیصلے کی اپیلیں بھی شامل ہیں اور سودی قوانین کے خلاف دیے گئے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں بھی۔ یہ فیصلے اسی طرح بغیر کسی سٹے آرڈر کے معلق رہیں گے۔
اس لیے آئندہ دائر کی جانے والی اپیلوں کی حد تک ایک اچھی پیش رفت تو ہوگئی ہے، لیکن پرانی اپیلوں، بالخصوص سودی قوانین کے مقدمے کی اپیلوں کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یہ پہلو افسوسناک ہے۔ کیا اس پہلو کی طرف جمعیت علماے اسلام کی مذاکراتی ٹیم کی توجہ نہیں گئی، یا:
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں!
یکم جنوری 2028ء تک ربا کا خاتمہ
دوسری اہم شق، جس پر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی خوشی کا اظہار کیا،یہ اضافہ کی گئی کہ پالیسی کے اصولوں کے باب میں جہاں یہ لکھا گیا تھا کہ ربا کا خاتمہ ’جتنی جلدی ممکن ہو‘ کیا جائے گا، اب وہاں یکم جنوری 2028ء کی تاریخ مقرر کردی گئی ہے۔ اس شق کے ابتدائی مسودے میں بھی ڈنڈی مارنے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ اس میں ’جہاں تک ممکن ہو‘ کے الفاظ بڑھا دیے گئے تھے جس سے یہ نتیجہ نکلتا کہ سودی قوانین کے خاتمے کے بجاے ان کے تحفظ کا راستہ کھل گیا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس پر آواز بلند کی۔ بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس میں حصہ ڈالا، اور الحمد للہ، آخری صورت میں یہ الفاظ نکال دیے گئے۔ چنانچہ اب ربا کے خاتمے کےلیے یکم جنوری 2028ء کی ہی تاریخ مقرر ہے۔
البتہ اس پر کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پالیسی کے اصولوں میں اس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس اعتراض پر ہم اس سلسلۂ مضامین کے شروع میں تبصرہ کرکے واضح کرچکے ہیں کہ پالیسی کے اصولوں کو عدالت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے نفاذ کےلیے دوسرے راستے موجود ہیں اور ان کو اختیار کرکے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہنا چاہیے تاکہ یہ بات محض اقوالِ زرّیں کی فہرست میں ہی شامل نہ سمجھی جائے بلکہ واقعتاً ریاست کی پالیسی اس اصول پر چلائی جائے۔ اس لیے ضرورت مسلسل جاگتے رہنے اور جگاتے رہنے کی ہے۔
26 ویں ترمیم کے بعد شریعت اپیلیٹ بنچ کا اختیارِ سماعت
اس بحث کے اختتام پر میں یہ سوال چھوڑ دیتا ہوں کہ 26 ویں ترمیم نے تو آئینی مقدمات کو آئینی بنچ کی طرف منتقل کردیا ہے اور اب سپریم کورٹ کے عام بنچ آئینی مقدمات کی سماعت نہیں کرسکیں گے۔ جیسا کہ ابتدا میں واضح کیا گیا، شریعت اپیلیٹ بنچ میں دو طرح کی اپیلیں آتی ہیں: حدود قوانین کے تحت مقدمات میں فوجداری اپیلیں، اور شریعت درخواستوں میں جب وفاقی شرعی عدالت کسی قانون کو شریعت سے متصادم یا غیر متصادم قرار دے، تو ایسے فیصلوں کے خلاف اپیلیں۔ یہ مؤخر الذکر اپیلیں تو آئینی نوعیت کی ہیں کیونکہ ان میں کسی قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہوتا ہے۔ اب یہ اپیلیں شریعت اپیلیٹ بنچ کیسے سنے گا؟ چونکہ شریعت اپیلیٹ بنچ سے متعلق دفعات کو 26ویں ترمیم میں چھیڑا نہیں گیا، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مخصوص دائرۂ سماعت میں یہ بنچ اب بھی مقدمات سنے گا، خواہ وہ مقدمات آئینی ہوں؟ یا اگر یہ مقدمات آئینی بنچ میں جائیں گے، تو کیا آئینی بنچ میں عالم جج کا ہونا ضروری نہیں ہے؟ کیا اس کےلیے 27 ویں ترمیم کی کوشش ہونی چاہیے؟
کمنت کیجے