Home » تفسیر قرآن میں فہم سلف حجت ہے یا نہیں
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث شخصیات وافکار

تفسیر قرآن میں فہم سلف حجت ہے یا نہیں

بلاشبہ فہم سلف کا بڑا درجہ ہے لیکن وہ مصدر دین [source           of           Sharia] نہیں ہے۔ اصولیین نے جتنے بھی مصادر دین بیان کیے ہیں، ان سب کو پہلے کتاب وسنت سے مصدر ثابت کیا ہے، بھلے وہ اجماع ہو یا قیاس، قول صحابی ہو یا شرائع من قبلنا۔ یعنی دلیل کی حکمرانی ہر جگہ قائم ہے۔ سلف کا فہم دین، ہمارے فہم دین کا مصدر ہو سکتا ہے لیکن ان کا فہم دین ہمارے حق میں حجت نہیں ہے۔ بس اسی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ باقی اصولی اور نظری بحثیں بعض اوقات بہت خوبصورت اور مدلل معلوم پڑتی ہیں لیکن جب آپ ان کے اطلاق (application) میں جاتے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف نظریہ سازی کی حد تک خوبصورت باتیں ہیں، عملی تطبیقات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

قرآن مجید ہمارے دین کا اصل الاصول (The        Prime         Principle) ہے۔ اس کے سمجھنے کے لیے ہمیں صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ما بعد کے تمام مفسرین کی تفاسیر کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ممکن حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ ہم قرآن مجید کے معانی ومفاہیم صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں ہی سمجھیں اور سمجھائیں اور اس کے خلاف نہ جائیں۔ خلاف نہ جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کوئی نئی تفسیر نہیں کر سکتے۔ آپ قرآن مجید کے اصول تفسیر کی روشنی میں نئی تفسیر کر سکتے ہیں البتہ وہ صحابہ وتابعین کی بیان کردہ تفسیر کے خلاف نہ ہو۔ یہ ہم کہنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی آپ قرآن مجید کی آیات کے معانی کی ایک نئی جہت کو بیان کر سکتے ہیں کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین کی اکثر تفاسیر کلام الہی کے کل معانی کا احاطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ نص کے معانی میں سے ایک معنی کا بیان ہوتا ہے۔ اسی لیے سلف کی تفسیر میں اختلاف تنوع بہت زیادہ ہے اور تفسیر طبری، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ جیسی تفاسیر اس قسم کے اختلافات سے بھری پڑی ہے۔

مثال کے طور پر صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “الکوثر” سے مراد جنت کی ایک نہر ہے۔ سعید بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ “الکوثر” سے مراد “خیر کثیر” ہے۔ تو سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ “الکوثر” سے مراد جنت کی نہر ہے اور آپ ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ تفسیر بیان فرما رہے ہیں! تو سعید بن جبیر نے کہا کہ جنت کی نہر بھی اس خیر کثیر میں ہی داخل ہے جو آپ علیہ السلام کو آخرت میں دیا جائے گا۔ یعنی ابن عباس کی تفسیر، نبوی تفسیر کے مخالف نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات سلف کی تفسیر، حدیث کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ حدیث ہی کا بیان ہوتی ہے۔

یہی معاملہ بعد کے مفسرین کا بھی ہے کہ کچھ لوگ ہر تفسیر کو حدیث کے خلاف سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ تفسیر اس حدیثی تفسیر ہی کی ایک نوع کا بیان ہوتا ہے۔ اور پھر حدیث سے تفسیر بھی دو طرح کی ہے، ایک شارع کا بیان ہے اور دوسرا مفسر کا فہم ہے یعنی بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی آیت کی تلاوت کے بعد اس کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور کبھی کوئی مفسر کسی حدیث کو کسی آیت کی تفسیر بنا دیتے ہیں۔ دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔ دوسری قسم کی تفسیرِ حدیث بعض اوقات تفسیر بالرائے کی قبیل سے ہوتی ہے کہ جو حجت نہیں ہے۔

لیکن کیا ہر مقام پر صحابہ یا تابعین کی تفسیر لینا ضروری ہے اور اسی کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھنا لازمی ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اگر آپ اس رستے پر چل پڑیں گے تو بعض مقامات پر قرآن مجید کی صحیح منشا ومراد کو نہ پا سکیں گے۔ لیکن یہ بات جذباتی مزاج کو سمجھ نہیں آئے گی، اس کو سمجھ میں آئے گی کہ جو تفسیر بالماثور کے ذخیرے کا وسیع مطالعہ رکھتا ہو کہ اسے یہ معلوم ہو کہ تفسیر بالماثور یعنی اثری تفسیر میں کس قدر رطب ویابس بھی جمع ہو گیا ہے۔ اس رطب ویابس کا بڑا مصدر اسرائیلیات ہیں۔ صحابہ کی ایک بڑی تعداد اسرائیلیات سے نقل کر لیا کرتی تھی اور اپنے مصدر کا ذکر بھی نہیں کرتی۔ بعض محققین کے نزدیک صرف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر میں دس فیصد اسرائیلیات مروی ہیں۔

شیخ عبد العزیز الراجحی کے بقول ہاروت اور ماروت کے قصے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثقہ راویوں سے یہ قول مروی ہے کہ زہرا ستارہ ایک فارسی عورت تھی کہ جسے ہاروت اور ماروت فرشتوں نے ورغلایا تو اس نے کہا کہ میں اپنا نفس اس وقت تمہارے حوالے کروں گی جبکہ تم مجھے وہ کلام سکھا دو کہ جس کو پڑھ کر میں آسمانوں پر چڑھ جاؤں۔ دونوں فرشتوں نے وہ اسے سکھا دیا تو وہ اسے پڑھ کر آسمانوں پر چڑھ گئی اور ستارہ بن گئی۔ تفسیر طبری وغیرہ میں اس قسم کے اقوال حضرت عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف سلف کی تفسیر کو اس لیے حجت کہا جاتا ہے کہ لوگ قرآن مجید میں فتنہ پیدا کرنے سے رک جائیں گے، دوسری طرف فتنہ پیدا کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سلف ہی کو حجت بنا کر فتنہ پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ساحل عدیم اپنی پورٹل والی کہانیوں کی سائنسی تفاسیر میں سلف کے اقوال کو بنیاد بناتے ہیں۔ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت ذو القرنین ثریا پر اپنا گھوڑا باندھتے تھے، تو اس کی دلیل سلف ہی کے قول سے لاتے ہیں۔ قرآن مجید کے ایک اور مفسر فرقان قریشی صاحب ایک آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ قول ان سے صحت سے ثابت ہے لہذا اس کے خلاف تفسیر کرنا جائز نہیں ہے۔ اور وہ قول ایسا ہے کہ اس کے مطابق شاید ہی کوئی سلفی تفسیر کرتا ہو۔ تو قرآنسٹ کی ایک جماعت فہم سلف کو جس طرح حجت بنا رہی ہے، سلفی حضرات بھی نہیں بنا رہے اور نہ ہی بنا پائیں گے۔

فرقان قریشی صاحب کا کہنا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی آیت (ومن الأرض مثلهن ) کی تفسیر میں کہا کہ اس زمین کے علاوہ سات زمینیں ہیں کہ جن میں اسی زمین کی طرح تمہارے نبی جیسے نبی، آدم جیسے آدم، نوح جیسے نوح، ابراہیم جیسے ابراہیم اور عیسی جیسے عیسی ہیں، علیہم السلام۔ اب یہاں سے قرآنسٹ کی ایک جماعت ملٹی ورس، متوازی زمینوں یا متوازی کائناتوں کے تصورات کو ثابت کرتی ہے۔ امام بیہقی اور امام حاکم نے اس اثر کو صحیح کہا ہے۔ لیکن مفسرین نے اس کو قبول نہیں کیا کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔ مجاہد جب یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے تو بیان کرنے سے پہلے کہتے تھے کہ اگر میں بیان کر دوں تو تم لوگ اس کا انکار کر دو گے۔ یہ قول طبری میں ہے۔

پھر اسرائیلیات صرف تخلیق کے باب میں نہیں بلکہ قصص الانبیاء میں بھی نقل ہو گئیں اور اخلاق سے گری ہوئی ایسی گھٹیا باتوں کی نسبت انبیاء کی طرف ہونے لگی کہ جنہیں قرآن مجید کی تفسیر کے طور قبول کرنا ناممکن امر ہے۔ اب سلف نے انہیں کیوں نقل کیا، تو شاید اس لیے کہ بعد والے اسے تنقیدی نظر سے دیکھیں اور اس میں قرآن فہمی میں کچھ معقول بات ان کو فائدہ دے سکتی ہے تو اس سے فائدہ اٹھا لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق وتکذیب کے بغیر روایت کی اجازت دی تھی کہ حدثوا عن بنی اسرائیل ولاحرج، نہ کہ اس لیے کہ سلف کے تقدیس کا قول لگا کر انبیاء کی عصمت کو مجروح کر دیں۔ حضرت داود علیہ السلام کے قصے میں اسرائیلیات سے عجیب وغریب اقوال کتب تفسیر میں منقول ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک قول، عکرمہ، مجاہد، عطا، سعید بن جبیر، مسروق، قتادہ، حسن، شعبی، مقاتل، زید بن اسلم، زہری، قاسم، مکحول وغیرہ وغیرہ سے مروی ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ ذبیح اسحاق تھے۔ کتنے سلف ہوں تو ان کا فہم حجت ہو جاتا ہے؟ کیا اتنے سلف کسی آیت کے فہم کے حجت ہونے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ تو پھر اس قول سے اختلاف کیسا! ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قطعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہی تھے۔ یہ قطعی دلائل سلف کے سامنے نہیں تھے؟ کوئی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو یہ کہہ سکتا ہے؟ ہم پھر یہ کہیں گے کہ اصولی بحث آسان اور فیسی نیٹنگ ہو سکتی ہے لیکن عملا تطبیق پر آئیں گے تو پھنس جائیں گے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ “والعادیات ضبحا” کا کیا معنی ہے؟ انہوں نے سائل سے کہا کہ مجھ سے پہلے بھی کسی سے پوچھا ہے تو اس نے کہا کہ جی ہاں، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد میدان جنگ کے گھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابن عباس کو بلوا لائیے۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلا لایا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جس بات کا علم نہ ہو، وہ آگے نہ کیا کریں۔ اس آیت سے مراد میدان جنگ کے گھوڑے کیسے ہو سکتے ہیں کہ آیت مکی ہے اور جہاد مدینہ میں فرض ہو۔ اور بدر پہلا غزوہ تھا، اس میں بھی دو گھوڑے تھے۔ اس سے مراد عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منی کی سواریاں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ اس سے مراد حج کے اونٹ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دلیل سن کر اپنے قول سے رجوع کر لیا۔

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ میں اصل دلیل ہوتی تھی نہ کہ محض فہم۔ اور وہ دلیل کبھی لغت ہوتی تھی، کبھی شان نزول ہوتا تھا یعنی نص کے سیاقی معانی وغیرہ۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے یہ سب اقوال بیان کرنے کے بعد اس قول کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد میدان جہاد کے گھوڑے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ “ضبح” کا لفظ لغت میں یا تو گھوڑے کے ہانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا کتے کے لیے۔ اور یہ قول بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ خود اپنے ان معانی سے رجوع کر چکے تھے۔ اس کے باوجود ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے لغت کی دلیل کی بنیاد پر ابن عباس کے خود ان کی نظر میں مرجوح قول کو حضرت علی کے قول پر ترجیح دی۔ تو سوال صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آپ کے فہم دین کے مصدر کا مصدر کیا ہے؟

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں