سید مرتضیٰ، علم الھدیٰ (م: 436ھ) کا شمار چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ علما میں ہوتا ہے۔ ایران کے مجمع البحوث الاسلامیۃ/ بنیاد پژوھشھای اسلامی، مشہد کی طرف سے 1441ھ/2019-2020ء میں، تقریباً ساٹھ ضخیم جلدوں میں آپکی اب تک دستیاب کتب کو شائع کیا گیا ہے۔ سید مرتضیٰ کی روش عقلی ہے، آپ بغداد کے، عظیم شیعہ فقیہ، متکلم جناب شیخ مفید (م: 413ھ) کے شاگرد اور شیخ بزرگوار کی رحلت کے بعد، مرجع قرار پائے۔ آپکی کتب میں، مسائل بھی شامل ہیں، جو عام طور پر آپ کی طرف بھیجے گئے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ یہ مسائل واقعی دلچسپ اور لائق مطالعہ ہیں۔ میرے پاس پانچ جلدوں پر مشتمل آپکے رسائل اور مسائل موجود ہیں، جنھیں “الرسائل و المسائل” کے نام سے مذکورہ بالا ادارے نے شائع کیا ہے۔
آپکے مسائل میں سے “جواب المسائل الطرابلسيات (الأولى و الثانية و الثالثة)” شام کے علاقے طرابلس سے تین بار پوچھے گئے سوالات کے جوابات کو الگ ایک جلد میں شائع کیا گیا ہے۔
آپکے شاگرد، شام کے مختلف علاقوں میں بھی موجود تھے جو خط کتابت کے ذریعے سے آپ سے مربوط رہتے۔ شام ہی کے علاقے طرابلس میں سے شیخ ابو الفضل، ابراہیم بن حسن ابانی (جو 427ھ تک زندہ رہے) نے آپکی خدمت میں بعض کلامی مسائل بھیجے جو خاصے مفصل تھے، آپ نے ان کا مفصل جواب دیا، بعد ازاں سائل مذکور نے بعض جوابات کی بابت مزید سوالات آپکو بھیجے تو آپ نے مزید کچھ پہلوؤں کی وضاحت کی، سائل نے بعد میں کچھ دیگر سوالات بھی ارسال کیے یوں طرابلس سے آنے والے مسائل کو تین الگ الگ حصوں میں مرتب کیا گیا، جنھیں بعد ازاں مشہد سے ایک علیحدہ جلد میں، ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
اس ایک جلد میں مجموعی طور پر پچاس مسئلے موجود ہیں۔مسائل کے پہلے حصے میں پندرہ، دوسرے میں بارہ جبکہ تیسرے حصے میں تئیس سوال ہیں جن کے جواب دیے گئے ہیں۔ان میں ایک سوال فقہی جبکہ باقی کلامی ہیں، ایک آدھ سوال فلسفے سے متعلق ہے۔
ان مسائل کے بنیادی موضوعات میں صفات خدا (بشمول مسئلہ ارادہ خدا، جس پر تیسرے حصے میں مفصل گفتگو موجود ہے) نبوت اور اس کی ذیلی ابحاث، امامت (بشمول مسئلہ نص بر امام)، بعض آیات اور روایات کی تاویل، نذر سے متعلق فقہی مسئلہ اور ہیولیٰ اور حقیقت انسان جیسی فلسفی ابحاث شامل ہیں۔
مسائل کے پہلے حصے میں پہلا مسئلہ امامت پر نص سے متعلق ہے، سائل نے اس حوالے سے معتزلہ کے اشکالات کو ذکر کیا ہے، یہ پہلا مسئلہ تقریباً تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرا مسئلہ امام اور امیر میں فرق سے متعلق ہے۔ تیسرا مسئلہ مفضول کو فاضل پر مقدم کرنے کی قباحت سے متعلق ہے۔ چوتھا مسئلہ ہیولیٰ کے بطلان میں ہے۔ پانچویں مسئلے میں امامت میں امامیہ کے موقف کی ادلہ کو پیش کر کے زیدیہ کے موقف کا رد پیش کیا گیا ہے۔ چھٹا مسئلہ عصمت کی بابت، ساتواں مسئلہ اعجازِ قرآن کی بابت سید مرتضیٰ کے موقف کی وضاحت کو پیش کرتا ہے، آٹھواں مسئلہ عالمِ ذر سے متعلق، نواں مسئلہ بعض حیوانات کی مدح اور توصیف میں مذکور روایات کی تاویل کی بابت ہے جبکہ دسواں مسئلہ تفصیل سے عدم تحریف قرآن کو بیان کرتا ہے۔ گیارھویں مسئلے میں ایک روایت اور اس کی ممکنہ توجیہ مذکور ہے جبکہ بارھویں مسئلے میں انسان کی حقیقت سے متعلق بحث ہے، تیرھواں مسئلہ اعمال کے حساب اور وزن سے متعلق جبکہ چودھویں میں نماز کے “خیر العمل” ہونے کا بیان ہے، پندرھویں مسئلے میں امام علی علیہ السلام کا اپنے مخالفین کے ساتھ برتاؤ مذکور ہے۔
ان مسائل کے دوسرے حصے کے تقریباً بیشتر مسائل پہلے حصے میں مذکور مسائل کے مختلف پہلوؤں کی ہی وضاحت پر مشتمل ہیں، ہاں مسخ شدہ حیوانات کی بابت سوال بھی مذکور ہے۔
مسائل کا تیسرے حصے کا آغاز، خدا وند متعال کے مُدرِک اور مرید (ارادہ کرنے والا) ہونے جیسی صفات سے ہوتا ہے، پہلے سات مسئلے انھیں ابحاث کو لیے ہوئے ہیں۔ آٹھواں مسئلہ علمِ امام کی جہات کو جبکہ نواب مسئلہ امام کی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ دسواں مسئلہ اس روایت سے متعلق ہے کہ ولد الزنا مؤمن نہیں ہو سکتا۔۔۔ گیارہ مسئلہ نزولِ قرآن کی کیفیت سے متعلق ہے، بارھواں مسئلہ شہداء کی حیات کی بابت، تیرھواں مسئلہ ایک خبر واحد کی تاویل کی بابت ہے، یہ روایت شیخ کلینی (م: 329ھ) نے الکافی کی کتاب التوحید میں لائی ہے کہ کسی ملحد نے سوال کیا اللہ اس پر قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے میں بند کر دے؟ جواب میں امام صادق علیہ السلام اپنے شاگرد ہشام سے فرماتے ہیں کہ دیکھو تمھاری ان آنکھوں سے تم اس کائنات کو دیکھ رہے ہو، خدا اگر اس پر قادر ہے (کہ چھوٹی سی آنکھ سے تمھیں اتنے بڑے مناظر دکھا سکتا ہے) تو وہ انڈے میں دنیا کو داخل کرنے سے کیسے عاجز ہو سکتا ہے!
سید مرتضیٰ اس روایت کی بابت فرماتے ہیں:
و هذا الخبر المذكور، فظاهره يقتضي تجويز المحال المعلوم بالضرورات فساده، و إن رواه الكليني رَحِمَهُ اللهُ في كِتابِ التَّوحيد فَكَم رَوى هذا الرجُل و غيرُه مِن أصحابنا رَحِمَهم الله في كتبهم ما له ظواهر مُستحيلة أو باطلة. الأغلب الأرجح أن يكون هذا خبراً موضوعاً مدسوساً…
اپنے منہج کے مطابق پہلے اس روایت کو رد کرتے ہیں، بلکہ فرماتے ہیں کہ گمان غالب ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے اگرچہ الکافی میں مذکور ہے۔ اس کے بعد روایت کی ممکنہ توجیہ فرماتے ہیں جو مخالفِ عقل نہیں ہے۔
باقی سوالات میں بھی بعض آیات اور روایات کی تاویل اور توجیہ مذکور ہے۔ ایک مسئلے میں انبیاء کا ملائکہ سے افضل ہونا بیان ہوا ہے، اسی طرح بائیسواں مسئلہ عید کے دن روزہ رکھنے کی بابت ہے، یہ ان مسائل میں واحد فقہی مسئلہ ہے جو زیر بحث آیا ہے۔
المسائل الطرابلسیات میں شامل سوالات کے جوابات، سید مرتضیٰ کے منہج کے عکاس ہیں، آپ جوابات میں کثرت سے آیات اور روایات کو لاتے ہیں۔ اپنے منہج کے موافق آیات اور روایات کی عقلی تاویل اور توجیہ کرتے ہیں۔ اجماع، تواتر اور عقلی مسلمات کے موافق ہونا، ان کے ہاں روایات کی قبولیت کا ایک عام معیار ہے۔ مخالفِ عقل، نقل کی تاویل اور توجیہ ان کے ہاں رائج ہے۔
اخبار آحاد کی بابت، آپکا موقف نسبتاً انکار کا ہے کہ آپ انھیں موجبِ علم و یقین نہیں جانتے، اس سبب سے وہ روایات جن کا متن عقل کے منافی ہے یا جو قرآن کے خلاف دکھائی دیتی ہیں آپ انھیں قبول نہیں کرتے، ہاں آپ کے ہاں روایات کی ممکنہ توجیہ کا سلسلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔
الطرابلسیات الأولی (سوالات کے پہلے حصے میں) میں دسویں سوال (تحریف قرآن کی بابت) کے جواب میں آپ لکھتے ہیں:
و كم في الحَديثِ المَروي من متروك منبوذ مطروح مهجور؛ لمخالفته للعقول . وكم فيه من أخبار جبر و تشبيه و تجوير الله تعالى و رمي له ـ جَلَّت عَظَمتُه – بما لا يليقُ به! فما التعويل على أخبار الآحاد ، و فيها كُلُّ جَهالَةٍ وضلالة.
مطلب یہ کہ کتنی ہی روایات ایسی ہیں جنھیں عقل کے مخالف ہونے کے سبب سے چھوڑ دیا گیا ہے اور کتنی ہی روایات ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف جبر، تشبیہ، ظلم اور نامناسب افعال کی نسبت دی گئی ہے! ایسے میں اخبار آحاد پر کیسے آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکتا ہے جبکہ ان میں جہالت، گمراہی اور کفر تک موجود ہے۔۔۔
آپ قرآن مجید میں تحریف اور کمی کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و ما صرح من أصحابنا بالقول بنقصان القرآن إلا قوم من أصحاب الحديث الذين لا يفقهون ما يقولون، و لا يعلمون إلى ما يذهبون، و إنما دأبهم تقليد الحديث، و التسليم لما في الرواية من حق و باطل، و غث و سمين، من غير تفكر و لا تدبّر، ومن هذه صفته لا يُعد في خلاف و لا إجماع.
مطلب یہ کہ ہمارے شیعہ علما (یاد رہے کہ یہ جوابات پانچویں صدی ہجری کے پہلے نصف میں لکھے گئے ہیں) قرآن مجید میں کمی کے قائل نہیں ہیں، پھر اصحابِ حدیث (روایات نقل کرنے والے محدثین) کی بابت فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے ایسی روایات نقل کی ہے جن سے قرآن میں کمی کا شائبہ ہوتا ہے؛ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بغیر سوچے سمجھے، بغیر تحقیق کے روایات جمع کرتے ہیں، یوں حق و باطل، صحیح و غلط سب کچھ جمع کر لیتے ہیں اور اسے آنکھیں بند کر کے مان بھی لیتے ہیں۔۔۔
یہ دسواں جواب نہایت مفصل ہے جو تقریباً پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ مسائل جناب حیدر بیاتی اور جناب حب اللہ نجفی کی تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہوئے ہیں، ابتدا میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل تعارف/مقدمہ ہے، جسے حیدر بیاتی نے لکھا ہے، اس میں جہاں ان مسائل کا تعارف کروایا گیا ہے وہیں سید مرتضیٰ کے منہج اور طرابلس کا تذکرہ بھی شامل ہے، یوں یہ مقدمہ تحقیق بھی لائق استفادہ ہے۔
641 صفحات پر مشتمل یہ کتاب، واقعی دلچسپ ہے، یہ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہے۔
کمنت کیجے