Home » چار سوالات کے جوابات
شخصیات وافکار فلسفہ

چار سوالات کے جوابات

میں آغاز ہی میں جناب زاہد مغل صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنی تحریری مصروفیات سے وقت نکال کر جوابات عنایت فرمائے۔ امید ہے کہ یہ مکالمہ جانبین کا موقف واضح کرنے میں مفید ہو گا۔ ہماری گفتگو پر محترم ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری صاحب کے غیرمعمولی تبصرے کے بموجب جو ”پہلے تم، پہلے تم“والی صورت حال پیدا ہو گئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ علمی گفتگو کسی حد تک ایک معروضیت لیے ہوئے ہوتی ہے اور وہ کوئی ایسا ذاتی موقف نہیں ہوا کرتا کہ جسے ڈبہ بند رکھا جائے۔ یہ بحث جائز طور پر چونکہ محترم زاہد مغل صاحب کے ایک پبلک موقف پر شروع ہوئی تھی لہٰذا اسی محل پر اس کا مکمل ہونا بھی ضروری تھا۔ ہمارے مواقف کے مابین خلیج اتنی گہری ہے کہ ابلاغ کا مسئلہ مستقل ہے۔ میں ان کے موقف کے رد و قبول کو ضروری سمجھتا ہوں اس لیے ذاتی طور پر شدید مشکل حالات میں بھی اسے جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جہاں تک کسی بھی معاملے میں میرے علمی مواقف کا تعلق ہے تو میں کیا اور میرا موقف کیا۔ میں اپنے مواقف کو اہم نہیں سمجھتا لیکن طالب علمانہ طور پر مفید ضرور خیال کرتا ہوں اور نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرتا رہتا ہوں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ میرے مواقف کے ساتھ بھی رد و قبول کا معاملہ کیا جائے۔

اس مکالمے کے حوالے سے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جنہیں میں ذیل میں بیان کر دینا چاہتا ہوں:

۱ ۔میں نے زاہد مغل صاحب سے کبھی نہیں پوچھا کہ فلاں یا فلاں چیز کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے کیونکہ میں interrogation کو مکالمے کے منافی سمجھتا ہوں۔ کسی آدمی کو کسی بھی پہلو سے interrogate کرنا طاقت کا جابرانہ انداز ہے۔ کٹہرہ اور تفتیش (interrogation) لازم و ملزوم ہیں۔ یہ رویہ علم میں کوئی گنجائش نہیں رکھتا کیونکہ علم کی اساس حریتِ شعور ہے۔ دوسرا پہلو اس میں authoritarianism کا ہے۔ ہمارے مذہبی علوم کی ثقاہت چونکہ اتھارٹی (استناد) پر قائم ہے جو مسخ ہو کر authoritarianism میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اسی authoritarianism نے ہمارے مذہبی علوم کو تکفیری بنیادوں اور رویوں پر منتقل کر دیا ہے۔ interrogation کا تیسرا پہلو اخلاقیات کی موت کے اعلامیے کا ہے۔ ہمارے تکفیری مزاج مذہبی لوگوں کا شعارِ علمی اور استنادی ڈھونگ یہی interrogation ہے جو علم اور اخلاق میں ہر جگہ جاری ہے۔ میں اسے اپنے اور کسی بھی دوسرے آدمی کے حوالے سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مجھے اس وقت شدید حیرت ہوئی جب لبرل مزاج رفیع اللہ میاں صاحب نے بھی زاہد مغل صاحب کی interrogation کے حوالے سے ان کی حمایت کی۔ ”تم یہ بتاؤ، تم یہ بتاؤ“ کا رویہ ہمارے مذہبی اور غیرمذہبی علوم کے مکمل تکفیری مزاج کی وجہ سے اب عام ہو گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ زاہد مغل صاحب نے اسے نظرانداز کر کے گفتگو کو آگے بڑھایا ہے۔

۲۔میں نے زاہد مغل صاحب کے پبلک میں بیان کیے گئے ایک موقف کو موضوع بنایا ہے، اور ابھی تک تمام تر سوال و جواب اسی پر ہیں۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میری تحریر کا جواب دیا، لیکن اگر وہ خاموش رہتے تو میرا ان سے کوئی گلہ نہیں تھا کیونکہ علمی مکالمہ زبردستی شروع نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ان کے متن کو حوالہ بنا کر گفتگو کی ہے اور پھر موضوع کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ میں نے ابھی تک کوئی ایسا سوال نہیں پوچھا جو ان کے بیان کردہ موقف سے ہٹ کر ہو۔ یعنی میں نے ان کے متن سے باہر کوئی گفتگو نہیں کی جبکہ زاہد مغل صاحب اور کچھ برگڈی احباب نے ایسی کئی باتیں میری طرف منسوب کی ہیں جن کے بارے میں میرا موقف بالکل ہی دوسرا تھا اور جسے میں نے صراحتاً بیان بھی کر دیا تھا۔ مثلاً انہوں نے میری نسبت سے ناجائز یہ کہا کہ میں علم الکلام کو غیرعقلی مانتا ہوں، یہ کہ ابن عربیؒ کی مابعدالطبیعات میں کوئی rational        content نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنے جواب میں ان کے صرف متن کو بنیاد بناتا ہوں جبکہ وہ میرے جوابی متن کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں۔

۳۔یہاں اس بحث کے ایک اہم ترین پہلو کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو اس سے قبل ایک مسئلے پر محترم زاہد مغل صاحب کی طرف سے بیان ہوا تھا اور میں نے اس وقت بھی سو فیصد اتفاق کیا تھا اور اب بھی میرا وہی موقف ہے کہ وہ اور میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ انہوں نے اُس وقت بجا طور پر یہ فرمایا تھا کہ ہم میں کوئی جھگڑا مناسب نہیں ہے کیونکہ ہم دونوں مذہبی آدمی ہیں۔ یعنی پچھلی دفعہ بھی معاملہ بقول محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب ”مک مکا“ سے ہی سلجھا تھا اور اب بھی انشاء اللہ یہی ہو گا۔ ہمارے ہاں ایک جعلی اخلاقیات کو بنیاد بنا کر علمی نزاعات کا پنچایتی حل ہی سامنے لایا جاتا ہے۔ پنچایتی حل کا دوسرا نام تطبیق ہے۔ یعنی آپ بھی ٹھیک ہیں، تم بھی ٹھیک ہو، وہ بھی ٹھیک ہے، میں بھی ٹھیک ہوں۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں علم اور علمی مکالموں کے امکانات قطعی مفقود ہیں، اور علم نام کی کسی شے کا بیج ہی باقی نہیں رہا ہے۔ جسے ہم علم کہتے ہیں وہ کچرا کنڈی ہے اور ہم اسے باغِ ارم شمار کرتے ہیں۔

۴۔گزارش ہے کہ ہمارے درمیان علمی ثقاہت کا مسئلہ زیر بحث ہے، یعنی ہماری گفتگو صرف عقلی علوم تک محدود ہے اور ابھی تک مناسب طور پر شروع بھی نہیں ہو سکی۔ مثلاً محترم عمران شاہد بھنڈر صاحب سے ہمارے نزاع کی بنیاد بالکل مختلف ہے۔ وہ چونکہ صاحبِ علم، مذہب دشمن آدمی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ نزاع زیادہ تہہ داری رکھتا ہے۔ ہمیں جدیدیت کی پیدا کردہ جو دنیا درپیش ہے اس میں ہم اپنا موقف domain        of        knowledge میں رہتے ہوئے ہی سامنے لا سکتے ہیں کیونکہ وعظ کے امکانات بہت محدود ہو گئے ہیں۔ میرا عمران شاہد بھنڈر صاحب سے جھگڑا اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب وہ ontological        stance کو علم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ محترم زاہد مغل صاحب کو میں مذہبی طور پر قابل رشک انسان پاتا ہوں اور ان کا دل سے قدر دان ہوں لیکن ان کے علمی مواقف کی ثقاہت پر میں گہرے شکوک و شبہات کا شکار ہوں۔ علمی گفتگو میں دیانت داری کا پاس رکھنا شرطِ آدمیت ہے۔ اس لیے عرض ہے کہ میں ان دونوں احباب کو مکالمے میں اپنے آپ سے زیادہ حلیم الطبع پاتا ہوں۔ میری عمر بھی زیادہ ہے اور مزاج میں حد درجہ بے تکلفی ہے تو کچھ نہ کچھ ٹھوکم ٹھاکی چلتی رہتی ہے۔ میں شکرگزار ہوں کہ احباب اس سے درگزر فرماتے ہیں۔ یاد رہے کہ محترم عمران شاہد بھنڈر صاحب کی مذہب دشمنی کا میں دشمن ہوں لیکن وہ آدابِ مکالمہ کی جس طرح پاسداری کرتے ہیں وہ قابلِ رشک ہے۔ میں دونوں کے لیے تہہ دل سے دعاگو ہوں۔

چار جوابات

مجھے زاہد مغل صاحب کے علمی مواقف سے سخت وحشت ہے جو شعور، علم اور مذہب سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے میرے جن چار سوالات کے جواب ارشاد فرمائے ہیں وہ ہماری بحث کی تنقیح کرنے میں حد درجہ مفید ہیں، اور ایک طرح سے بحث کا خاتمہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اب تصوف کی گفتگو شروع کر دی ہے درآنحالیکہ علم الکلام پر ہماری بات ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ درمیان میں مکالمے کا موضوع بدل دیا جائے۔ ان کی گفتگو بھی حد درجہ بے مغز اور بے رس ہوتی ہے۔ وہ اکثر کوئی کتاب اٹھا کے بے سمجھے بوجھے کچھ نقل کر کے میرے منہ پر دے مارے ہیں۔ ذیل میں یہی عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔

میں اپنی بات ان کے جوابات کے آخر میں کیے گئے ایک براہِ راست سوال سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں: ”آخر میں ہم جوہر صاحب سے ایک سوال پوچھتے ہیں: کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ”ہونا و نہ ہونا“ بھی جمع ہو سکتے ہیں (یعنی وجود ایک ساتھ لاوجود بھی ہو سکتا ہے)؟ اگر ہاں تو اس کی دلیل بیان فرمائیں۔ اگر نہیں تو کیا یہ لازمی حقیقت ہے یا نہیں؟“ میرا خیال ہے کہ یہ حد درجہ نادانی سے پوچھا گیا ایک قطعی غیرعلمی سوال ہے جو صاحبِ مکالمہ اپنے مخاطب/مخاصم سے پوچھنے کا اخلاقاً بھی کوئی جواز نہیں رکھتے۔ انہیں اپنے شعبے کے چپراسی سے یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ ”کیا دن اور رات ایک ساتھ ہو سکتے ہیں؟“ اس سوال کا جواب ایک ان پڑھ بھی یہی دے گا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ (میں نے یہ سوال کئی ان پڑھ اور جاہل لوگوں سے پوچھا ہے۔ جس جاہل اور ان پڑھ کا ابا مر گیا تھا اس سے یہ سوال یوں پوچھا کہ: ”کیا تیرا ابا زندہ بھی ہے اور مردہ بھی؟“ ان جاہل لوگوں نے سمجھا کہ کتابیں پڑھ کر میرے دماغ پر اثر ہو گیا ہے لیکن وہ احتیاطاً خاموش رہے۔) اب اس جواب پر دیانتدارانہ تبصرہ یہ ہے کہ ”لازمی وجودی حقائق“ کا اضطراری تحقق ایک جاہل اور ان پڑھ آدمی کو بھی حاصل ہے جس نے علم الکلام کا نام بھی نہیں سنا۔ میں حیرت میں ہوں کہ انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا ہے اور آخر انہیں اس جھک جھک کی کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ اگر ”حقائق“ سے مراد facticity        of        the         world ہے تو پھر ان پڑھ اور جاہل آدمی کا جواب درست ہے، لیکن اب تک کی ہماری گفتگو کا کوئی ایک قرینہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ یہ مراد لے سکیں۔ اگر وہ اس پر ضد کریں گے تو یہ ان کی زیادتی ہو گی کیونکہ اب انہوں نے اپنے جواب کو پائے چوبیں دینے کے لیے عرفان/تصوف کو بھی بھرتی کیا ہے۔ اگر اتنی بحث کے بعد وہ حقائق کو facts کے معنی میں لیں گے تو یہ دیانت داری کے بھی خلاف ہو گا۔ یہ اصل میں پروفیسری کا مسئلہ ہے کہ جب آدمی غور (thinking) کی استعداد سے مطلق عاری ہو اور تدریسی جبر کی وجہ سے متن پڑھنا مجبوری ہو، اور فہم متن کے لیے آدمی لغت کا محتاج ہو۔ زاہد مغل صاحب سمجھتے ہیں کہ کلاسوں میں جو ہیراپھیری اور پروفیسری چلتی ہے وہ مکالمے میں بھی چل جائے گی۔ بھئی ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے امید ہے کہ ان کا مطلق brainless         question ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کے پاکستانی چیپٹر کی علمی پیشرفت کا اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ الحمد للہ اب ہمارے ہاں علم کی ترقی دماغ سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی جو جاہل اور ان پڑھ آدمی کہے کہ اس کا ابا زندہ اور مرا ہوا بیک وقت نہیں ہے، اس کو لازمی حقائق کا اضطراری شعور حاصل ہے۔

اجتماع النقیضین کے عدم امکان سے واقفیت کو انہوں نے لازمی وجودی حقائق کا اضطراری شعور قرار دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے واحد نتیجہ یہ نکلتا ہے زاہد مغل صاحب کا کلامی ملیدہ کھانے سے پہلے اس آدمی کا دماغ درست کام کر رہا ہے اور اسے عاقل بالغ کہا جا سکتا ہے۔ گزارش ہے کہ اجتماع النقیضین کا قضیہ کسی ”لازمی وجودی حقیقت“ پر دلالت نہیں کرتا بلکہ وظیفۂ عقل کے ایک ضروری پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسے استنباطات وظیفۂ خرد کو جاننے میں معاون ہوتے ہیں، اور خرد کا درست کام کرنا اس کے حاصلات پر دلالت نہیں کرتا، جو ایک formal        activity کے بعد بطور نتیجہ سامنے آتے ہیں۔ اصل میں ان کے ہاں علم الکلام اور مابعدالطبیعات میں کوئی فرق نہیں ہے، شعور اور وجود ایک ہی چیز ہے، شہود اور غیب میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، عقل اور وہ علم جو وہ حاصل کرتی ہے اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، پیاس، پانی اور صاحب پیاس بھی ایک ہی چیز کے نام ہیں، ان کے نزدیک حقائق، شہود و غیب میں یکساں اٹھکیلیاں کرتے ہیں، ان کے نزدیک اولیاتِ عقل اور اولیاتِ عقلیات بھی ایک ہی چیز ہیں، وہ اولیات کے axioms کو اور فی نفسہٖ عقل کو بھی ایک ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں امتیازات جو علم کی اساس ہوتے ہیں وہ کسی بھی دائرے میں باقی ہی نہیں رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کسی لفظ، تصور یا حقیقت کے معنی پر مکالمے کے لیے ضروری بنیادی اتفاق ہی ممکن نہیں ہے۔ میں تھوڑی دیر میں عرض کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ ان کی کانٹ دشمنی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

سوال نمبر ایک کا جواب:

اگر علمی دیانت کسی شے کا نام ہے تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے میرے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا۔ وہ میرے سوال کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ وہ سمجھے ہیں کہ میں ان کے ”الفاظ کے چناؤ“ پر بات کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ”حقائق“ جہانِ ممکنات میں نہیں ہوتے اور وہ لازمی اور وجودی ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود بھی واجب الوجود کو ”لازمی وجودی حقیقت“ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے حقائق کے ساتھ ”لازمی“ اور ”وجودی“ کے لاحقے ناجائز ہیں۔ اس سوال کا مطلب یہ تھا کہ انہیں ”حقائق“ کا معنی معلوم نہیں ہے اور وہ خواہ مخواہ ان پر کلام فرما رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ”خارجی حقائق وجودی ہوتے ہیں“۔ یہ فقرہ ویسے ہی لغو ہے۔ حقائق شعور سے خارج میں ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ شعور کی property نہیں ہوتے، اور شعور جن تجریدات کو قائم کرتا ہے وہی علم کہلاتی ہیں اور وہ شعور کی property ہوتی ہیں۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ کوئی ”داخلی حقائق“ بھی ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کہاں پائے جاتے ہیں؟ پھر وہ فرماتے ہیں کہ ”بعض لوگ بعض فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے حقائق کا مطلب صرف ایسے ذہنی خیال یا منطقی فارمز بھی لے لیتے ہیں جن کا کسی خارجی حقیقت کے ساتھ تعلق نہ ہو“۔ یہ جملہ پڑھ کر میں اس سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ آیا ان کا ذہن ٹھیک کام کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ ہمارا علم الکلام اس امر سے آگاہ ہے کہ یہ دنیا مادیات اور مجردات پر مشتمل ہے۔ جو چیز ذہن میں abstract ہو گی وہ ذہن سے خارج میں concrete ہو گی۔ علم کا یہی مطلب ہے۔ ان کا موقف جو ان کے متن سے ظاہر ہے یہ ہے کہ ادراک، حقائق اشیا کو ہمارے ذہن میں منتقل کر دیتا ہے۔ پاگل آدمی کی ایک تعریف یہ ہے کہ وہ خارج سے بے نیاز ہوتا ہے اور اپنے محتوائے ذہن کو ہی حقیقت جانتا ہے۔ یہاں محترم زاہد مغل صاحب بھی یہی فرما رہے ہیں۔ وہ حسی ادراک، کشف و الہام اور وحی میں کوئی فرق کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ مسلم ذہن کی یہ ترقی اہلِ مغرب کو بہت خوش آئے گی۔

اب چونکہ انہیں علم یا عرفان سے کوئی عقلی یا ذہنی مناسبت نہیں ہیں، اس لیے وہ فرماتے ہیں: ” ’لازمی‘ کا لفظ اس لئے لگایا گیا تاکہ بات ”خلق شدہ حقائق“ سے ممیز ہو جائے، یعنی وہ حقائق جو قدرت کے تحت ہیں“۔ میرے پہلے سوال کے جواب سے میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہیں خود بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ ”حقائق“ سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اور وہ بلا وجہ لوگوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ میری ان سے گفتگو تصوف، سلوک یا عرفان کی نہیں ہے۔ میں تو ان سے عقل، عقلی علوم اور علم الکلام پر بات کر رہا ہوں اور اس کا یہاں کوئی نشاں بھی نہیں۔

گزارش ہے کہ ان کی تحریر میں جابجا نگینے جڑے ہوتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: ”خارجی حقائق وجودی ہوتے ہیں“۔ یہاں ”خارجی“ اور ”وجودی“ دونوں کا مفہوم مشتبہ ہے۔ عالم شہود کے facts ذہن سے یقیناً خارج میں ہوتے ہیں لیکن وہ وجودی ہر گز نہیں ہوتے، مظہری ہوتے ہیں، اور وہ لازمی بھی نہیں ہوتے۔ اگر facts بھی وجودی ہوتے تو ہمارے اسلاف حادث و ممکن سے آگے اور عقل کی تحدید کے لیے واجب الوجود کی تلاش میں نہ نکلتے۔ عرفان میں حقائق کہتے ہی ان اشیائے موجودات کو ہیں جو عالم شہود اور انسانی شعور سے خارج میں ہوتے ہیں۔ زاہد مغل صاحب کی عقل کا اندازہ یہیں سے ہو جاتا ہے کہ وہ fact کو بھی reality سمجھ رہے ہیں۔ وہ حقائق کا مفہوم درست طور پر نہیں بتا پا رہے۔ اس کی وجہ ان کی کانٹ کی تفہیم ہے۔ اگر وہ حقائق سے مراد facts لیتے ہیں، تو شہود کا ہر وجود جو حادث و ممکن ہے، لازمی اور وجودی نہیں ہے، اور ایسے معنی کا احتوا نہیں کرتا جو اس کو لازمی اور وجودی بنا دے، وہ حقائق قرار پائیں گے۔ اگر وہ ان سے وجود کے مراتبِ غیب مراد لیتے ہیں تو وہ عقل کا موضوع نہیں ہیں، کیونکہ وہ ایمان سے ”معلوم“ ہیں اور عرفان کا موضوع ہیں، اور ان کا rational        content ان سے abstract نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے عقلی علوم میں بھرتی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ وہ تصوف کو علم الکلام کی بحث میں ٹھونس رہے ہیں۔ وہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ منطق کے قضایا عرفان پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔ وہ facts کو حقائق اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ کانٹ کی تشقیق سے بچ سکیں جو اس نے مظہر اور حقیقت مظہر میں کی ہے۔ یہ ان کے ردِ کانٹ کا انتہائی نقطہ ہے۔ پھر وہ یہ چیز بھی بالکل فراموش کر رہے ہیں کہ علم الکلام جدلیاتی ہے جبکہ عرفان سے جدلیات خارج ہوتی ہے۔

سوال نمبر دو کا جواب:

میں نے ان کے جوابات نہایت محنت اور دیانت داری سے پڑھے ہیں، اور میں ذمہ داری سے عرض کر رہا ہوں کہ انہوں نے میرے دوسرے سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ میرا سوال بہت سادہ تھا کہ کیا وہ حقائق جن کو شہودی ڈھول بنا کر وہ پیٹے جا رہے ہیں، بیک آن، بیک محل وجود اور علم ہیں یا نہیں؟ کسی شے کا ہونا ایک قضیہ ہے جبکہ اس کا علم حاصل ہونا دوسرا قضیہ ہے، اور یہ دونوں باہم ممیز ہیں اور میرا سوال بہت دوٹوک انداز میں تھا۔ لیکن وہ پھر بھاگ گئے۔

گزارش ہے کہ جب ہم اپنے مخاصم سے کسی خاص لفظ کے استعمال اور معانی پر سوال پوچھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ لغت سے معنی کی تفصیل بتا دے۔ ہمارا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ لفظ کو کس معنی میں برت رہے ہیں۔ میں نے ان سے ”وجود“ کا معنی دریافت نہیں کیا اور انہوں نے لگتا ہے کہ کسی کتاب سے ”وجود“ کے معنی نقل کر دیے ہیں اور یہ علمی دیانت کے قطعی خلاف ہے۔ ہماری بحث لفظِ ”حقائق“ پر ہو رہی ہے، اور عقل کے مفہوم، تعریف اور دائرہ کار پر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے درمیان کچھ بھی زیر بحث نہیں ہے۔ ”حقائق“ کا لفظ عرفان/ مابعدالطبیعات کا لفظ ہے اور علم الکلام میں اس اصطلاح کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر اس لفظ کو علم الکلام میں برتا جائے گا تو اس کے معنی کی تعیین کرنی پڑے گی۔ ان کی گفتگو سے مجھے اب تک یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ عالم شہود کے facts کو حقائق کہہ رہے ہیں اور کھل کر یہ بتا نہیں رہے کیونکہ کانٹ کا خطرہ ہے۔ انہیں یہ خوش فہمی ہو گئی ہے کہ انہوں نے کانٹ کا رد کر لیا ہے جبکہ مجھے لگ رہا ہے کہ کانٹ کی ان کو کوئی سمجھ نہیں ہے اور انہوں نے اپنی بھی ہر چیز تبدیل کر لی ہے۔ یعنی علوم پر گفتگو کی جو بھی کرنسی ہے وہ انہوں نے سب کی سب مسخ کر دی ہے۔ گزارش ہے کہ ”حقائق“ کا اس دنیا/ عالم شہود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور بطور مسلمان ہمارے سب سے بڑے مسئلے کا محل بھی عین یہی ہے کیونکہ جدید عقل نے غیب کی طرف جانے والے سب راستے بند کر دیے ہیں۔ جدید عقل نے علم کا جو طلسم کھڑا کیا ہے اول اس کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جو راستے عقل سے بند ہوتے ہیں وہ کھلتے بھی عقل سے ہیں لیکن برادرانِ اسلام کا تقاضا ہے کہ انہیں زاہد مغل صاحب کی کرامت پر یقین زیادہ ہے۔ میں بھی ایک عمر پیروں کی جوتیاں اٹھاتا رہا ہوں اچھا ہے کہ زاہد مغل صاحب کی کرامت کا زور بھی آزما لیا جائے۔

جدید عقل نے حقائق وغیرہ کو مکمل مسترد کر کے جدید علم کمایا ہے اور نیچر اور دنیا کو from        ground        up یکسر بدل دیا ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں جدید عقل نے اپنی جو تعریف کی ہے اور جس نئی تشکیل سے وہ گزری ہے میرے نزدیک عقل کی تعریف اور مفہوم وہی ہے۔ جدید عقل کی دو تشکیلات بہت اہم ہیں: scientific        reason اور public          reason، جنہوں نے بالترتیب ارض اور دنیا کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ عقل کی ہر تعریف اور ہر مفہوم لغوِ محض ہے بھلے ہمارے سارے اہلِ علم اس لغو پر متفق ہو جائیں۔ ہمارا علم الکلام، عرفان، ایمانیات اور خلافت وغیرہ جدید عقل کے قائم کردہ دریائے خوں کے طلسم کے اُس پار ہی رہ گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلم ذہن میں اس صورت حال پر نگاہ ڈالنے کی ہمت ہی باقی نہیں رہی، اس کے پار اتر جانا تو بہت دور کی بات ہے۔ جو راستہ نکلے گا وہ بھی عقل ہی سے نکلے گا۔ مسلم عقل کو گھاس چرائے جانے اور کلامی ملیدہ کھلا کر موٹا کرتے چلے جانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اس موٹی عقل کے بکر منڈی میں بھی کوئی دام نہیں لگنے کے۔

سب اہل علم واقف ہیں کہ ہماری حال ہی کی تاریخ میں حرکتِ زمین کے مسئلے پر علم الکلام اور جدید فزکس کا آمنا سامنا ہو چکا ہے، اور نتائج بھی سب کو معلوم ہیں۔ فاضل بریلویؒ کلاسیکل علم الکلام میں منتہی تھے اور اس بحث میں علم الکلام کے ثقہ مواقف ہی سامنے لائے گئے تھے۔ زاہد مغل صاحب کو تو کچھ پتہ ہی نہیں کہ علم الکلام ہوتا کیا ہے۔ ہمارے کلاسیکل علم الکلام کا جو حال نیوٹن کے سامنے ہوا تھا، کانٹ کے سامنے اس سے بھی بدتر ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی بے دماغی کی وجہ سے کانٹ کو نشانہ بنایا ہوا ہے حالانکہ اصل مسئلہ تو نیوٹن کا ہے۔ وہ عصر حاضر کی غالب تہذیب کے دو طاقتور ترین آدمیوں کا سامنا جس بے دماغی اور تہی دامنی کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر مجھے بھی رونا آتا ہے۔ نیوٹن کے سامنے جو علم الکلام کھڑا کیا گیا تھا وہ تو ثقہ ہی تھا، جبکہ زاہد مغل صاحب کے پاس سارے سکے جعلی اور نقلی ہیں۔ علمی سمجھ بوجھ ہے نہیں اور شوق شہادت بہت ہے اس لیے کانٹ کی طرف بھاگتے ہیں اور نیوٹن کو بھول جاتے ہیں۔ زاہد مغل صاحب کی تحریر میں جہاں جہاں وہ کانٹ کا رد فرما رہے ہیں وہاں وہاں نیوٹن کو پس منظر میں رکھ کر ان کی بات کو دیکھنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں کلاسیکل علم الکلام کی تھرموڈاینامکس اور میکانکس کو استعمال کرتے ہوئے ایسی کوئی گاڑی بنا کر دکھانی چاہیے جو دم کرنے سے چلتی ہو اور مراقبے سے منزل مقصود پر پہنچتی ہو۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ حرکت زمین کو رد کرنے کے لیے جو علم الکلام برتا گیا ہے وہ ثقہ ہے یا نہیں؟ جدید عقل اپنی ماہیت کو جس قدر بدل چکی ہے اس کو سمجھنا اور اس کا سامنا کرنا اس وقت اصل کام ہے۔ زاہد مغل صاحب جس علم کے پروفیسر ہیں وہ بھی اسی جدید عقل کا پیدا کردہ ہے جس کا تعارف کانٹ نے کرایا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ وہ علم الکلام کی روشنی میں معاشیات کی کوئی critique ہی سامنے لے آئیں۔ امکان یہ ہے کہ یہاں بھی علم الکلام کا وہی حشر ہو گا جو فزکس کے سامنے ہوا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زاہد مغل صاحب عقل کو شعور کا کوئی ممیز ملکہ ہی نہیں مانتے، لیکن کیا ضروری ہے کہ کانٹ کو پڑھ کر آدمی اپنی شکل بھی بگاڑ لے۔

سوال نمبر تین کا جواب:

اس سوال کا جواب سب سے دلچسپ ہے۔ یہاں ان کی عقل میں اجتماع النقیضین واقع ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ جب ان کی عقل میں اجتماع النقیضین، جو کوانٹم میکانکس کی طرح کی کوئی چیز معلوم ہوتی ہے، واقع ہو جائے تو وہ تصوف کی طرف نکل لیتے ہیں۔ یہاں اب عالم شہود اور عالم غیب میں اجتماع واقع ہوا ہے اور اسے پاکستانی علوم کی تاریخ میں قران السعدین کے نام سے بھی یاد رکھا جا سکتا ہے۔ کانٹ کے رد کی وجہ سے ان کے نزدیک حقائق چونکہ عالم شہود اور عالم غیب میں یکساں پائے جاتے ہیں، اس لیے جب تشقیق کی ضرورت پڑی تو فوراً اجتماع النقیضین بطور قران السعدین از قسم کوانٹم میکانکس واقع ہو گیا۔ جیسی لغویات وہ علم الکلام میں سامنے لا رہے ہیں اس سے بڑھ کو وہ تصوف میں، جو ان کے لیے منصۂ کرامت ہے، سامنے لا رہے ہیں۔ میں نے تو ان کے موقف پر علم الکلام اور عقل کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک بالکل جائز سوال پوچھا ہے جس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکے اور تصوف کی طرف نکل گئے۔ اگر وہ کوئی کرامت دکھاتے تو ہم مان لیتے لیکن یہاں تو ان کی عقل بھی جاتی رہی۔ اللہ اپنا فضل و کرم فرمائے۔

زاہد مغل صاحب فرماتے ہیں ”ہم واضح کر چکے ہیں کہ علم اضطراری کا سب سے بنیادی قضیہ وجود و عدم کے تصور کے مابین تباین کی نسبت کا ادراک ہے، وجود کا تصور مجھے موجود ہونے کی بنا پر ہے“۔ سوال یہ ہے کہ عدم کا تصور کس بنیاد پر ہے؟ اس ضمن میں گزارش ہے کہ وجود انسان کے مشاہدے اور حسی تجربے میں ہے جبکہ عدم انسان کا نہ مشاہدہ اور نہ تجربہ۔ عدم ایک خالصتاً عقلی مفروضہ ہے۔ ایک مشاہدے اور حسی تجربے اور ایک خالصتاً عقلی قضیے کے درمیان تباین بھی ایک عقلی نتیجہ ہے کوئی اضطراری علم نہیں ہے۔ میری گزارش ہے کہ انہوں نے اجتماع النقیضین کے قضیے کو ہی غلط سمجھا ہے۔ انہوں نے ایک جگہ یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ یہ تباین عالم غیب میں بھی جاری رہتا ہے جہاں وجود اور لاوجود جمع نہیں ہو سکتا۔ یہ بالکل نادانی کی بات ہے۔ وہ کیا فرماتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ اجتماع النقیضین کا قضیہ صرف عالم مشاہدہ کے لیے ہے جہاں اول و آخر اور ظاہر و باطن کا اجتماع نہیں ہو سکتا، جبکہ عقیدے میں جو عالم غیب کے بارے میں ہے یہ سب جمع ہوتے ہیں۔ عدم کا تصور ہونے اور نہ ہونے، اور وجود اور لاوجود، سے قطعی الگ ہے۔ ہونا اور نہ ہونا ایک مشاہدہ اور تجربہ ہے جبکہ عدم کے مفروضے کے بغیر وجود کی بحث شروع نہیں ہوتی۔ زاہد مغل صاحب جس چیز کو علم اضطراری کہہ رہے ہیں وہ تو بنیادی ترین وظیفۂ عقل ہے، اضطرار نہیں ہے۔ وہ چونکہ عقل کو ایک ممیز ملکۂ شعور تسلیم ہی نہیں کرتے اس لیے اس طرح کی لغویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ کانٹ کی مخالفت میں حقائق کو شہود و غیب میں یکساں place کرتے ہیں اس لیے وہ ایسے سوال کا جواب دینے سے کتراتے ہیں جو ان کی عقلی کٹیا کی گھاس پھونس اڑا لے جائے۔ ملاحظہ فرمائیے: ”اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا اس عالم مشاہدہ میں کوئی ایسا ”موجود“ ہے جسے واجب کہا جا سکے (یعنی ”جو صرف ہوتا ہے“) تو اس کا جواب نفی میں ہے۔“ وہ میرے سوال کو بہت اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں لیکن جواب نہیں دینا چاہتے۔ ماقبل وہ کہہ چکے ہیں کہ ”خارجی حقائق وجودی ہوتے ہیں“ اور یہ کہ ”واجب الوجود“ لازمی وجودی حقیقت ہے، اب وہ کیونکر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عالم مشاہدہ میں کوئی واجب الوجود نہیں ہوتا۔ یہاں عالم مشاہدہ ”خارجی“ کے مفہوم میں داخل ہے۔ ان کے موقف میں عالم مشاہدہ کی ہر چیز واجب الوجود ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی کرسی کا جس پر بیٹھ کر وہ اس طرح کے فلسفے بگھارتے ہیں اچھی طرح سے معائنہ کروا لیں کہ کہیں وہ واجب الوجود ہی نہ ہو۔ اگر وہ صوفے پر بیٹھتے ہیں تو پھر وہ اس فقرے کو اگنور کر سکتے ہیں۔

ان کا ایک نگینہ اور ملاحظہ فرمائیں: ”تو اگر آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس عالم میں جاری اس اضطراری علم کی علت کیا ہے؟“ یعنی میرے کسی سوال کا براہ راست جواب دینا تو انہیں پسند نہیں، اور خود ہی بیہودہ قسم کے سوالات میری طرف سے پوچھے جا رہے ہیں۔ اس سوال میں نگینہ یہ ہے کہ علم، عالم میں جاری ہے اور اس کی کوئی علت بھی ہے۔ سبحان اللہ۔ یہ علم کا وہی بہتا دریا ہے جس کا شعور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جسے کوزوں میں بھر بھر کے ہمارے ممدوح ڈھوتے ہیں اور ایک پوری سبیل لگائی ہوئی ہے۔ تشنگان علم کو مبارک ہو۔

وہ فرماتے ہیں ”لازمی حقیقت کے احکام اس معنی میں اس عالم شھادت میں بھی جاری ہیں کہ یہاں بھی وجود و عدم جمع نہیں ہو سکتے“۔ یہ کہ ہونا اور نہ ہونا جمع نہیں ہو سکتے علم الکلام کا عام قضیہ ہے اور یہ ہونا اور نہ ہونا تجربی ہے، عالم مشاہدہ میں ہے جبکہ عدم انسانی مشاہدے میں نہیں ہے اور صرف ایک ذہنی مفروضہ ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اجتماع النقیضین کا نہ ہونا ایک لازمی حقیقت ہے۔ یہ تو بنیادی وظیفۂ عقل ہے اور علم کی لازمی شرط ہے، لازمی حقیقت نہیں ہے۔ اب وہ فرماتے ہیں لازمی حقیقت=لازمی وجودی حقائق=اجتماع النقیضین=عقل= اولیات عقل= اولیات عقلیات کے کچھ ”احکام“ ہیں جو عالم شہادت میں جاری ہیں جن کے مطابق اجتماع النقیضین نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ احکام کتنے ہیں، انہیں کہاں سے معلوم ہوئے ہیں، اور وہ کہاں کہاں جاری ہیں؟ اور عقل کا ان سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ خبر سے حاصل ہوئے ہیں یا عقل سے؟

ہمیں زاہد مغل صاحب کے اضطراری علم کے قضیے سے اختلاف بہت بنیادی نوعیت کا ہے۔ ”حقائق“ کے دائیں بائیں اگر زاہد مغل صاحب ”لازمی“ اور ”وجودی“ کی پخ بھی لگا دیں تب بھی اس کا علم اضطراری نہیں ہے کیونکہ ان سے مراد ایسی موجودات ہیں جو عالمِ غیب میں ہیں اور عرفان، ایمانیات سے مابعد ہے۔ ایمان کے بعد عرفان بھی ہرگز لازمی نہیں ہے، اس کے لیے بھی شیخ اکبر ابن عربیؒ کی سطح کا آدمی چاہیے۔ اتنی بات بہرحال تسلیم کی جا سکتی ہے کہ facticity        of         the         world کا علم کسی حد تک اضطراری کہا جا سکتا ہے لیکن جبری پھر بھی نہیں ہے کیونکہ جزیات کا علم ارادی ہے اور اس میں بھی intention شامل ہوتی ہے۔ لازمی وجودی حقیقت کے اضطراری علم کا قضیہ علم الکلام اور تصوف دونوں میں ناقابل دفاع ہے۔

یہاں عرض کرتا چلوں کہ ہمارے اسلاف نے اس دنیا اور نیچر (عالم) کو سمجھنے کی جو کوشش کی تھی، اور اس سے جو علم الکلام پیدا ہوا، اس کی افادیت یقیناً غیرمعمولی تھی۔ ہمارے اسلاف درپیش مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ درپیش مسئلہ یہ تھا کہ عقل کو وحی پر سبقت و تفوق حاصل نہ ہو، اور یہ کہ عقیدے کی عقلی تشکیل پر روک لگائی جائے۔ اس پر میں ضیاء الدین سردار صاحب کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں۔ حافظے سے نقل کر رہا ہوں اس لیے معمولی فرق ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں:

There         came           a            time          when            Ghazali            single-handedly                saved              the             Islamic               civilization               from              extinction

اب جو اسلامی تہذیب پارہ پارہ ہے تو آخر اس کی کوئی وجہ ہے ناں۔ زاہد مغل صاحب نیک نیتی سے مذہبی چولے میں جس جعل سازی کو آگے بڑھا رہے ہیں اس کا علم یا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو اصل نکتہ ہے وہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب میں مذہبی علم الکلام کی کمزوری کی وجہ سے philosophy کو overcome نہیں کیا جا سکا جبکہ امام عالی مقام الغزالیؒ کی وجہ سے اسلامی تہذیب میں philosophy کو overcome کرنا ممکن ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں فلاسفی کی naturalization ممکن ہو سکی اور ایک مکمل طور پر مادی تہذیب ابھرنے میں کامیاب ہو گئی، جبکہ اسلامی تہذیب میں ایسا کوئی علم یا فلاسفی تھی ہی نہیں جو naturalization کا تر نوالہ بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب کی علمی روایت کی کوکھ سے کوئی مادی تہذیب ہی پیدا نہیں ہو سکی۔ جو معجزۂ ہنر ہمارے اسلاف نے سرانجام دیا تھا وہ اب بھی ممکن ہے اگر ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ یعنی عقل کی طرف لوٹ آئیں۔ ہدایت کی اطاعت اور دنیا پر غلبہ دونوں عقل کے معجزے ہیں، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ عقل کیا ہے۔

محترم زاہد مغل صاحب نے دو جگہ ذکر کیا ہے کہ وہ میرے سوالوں کا جواب صوفی فکر سے پیش کر رہے ہیں۔ مسلم عقل کو موٹا کرنے کے لیے انہوں نے علم الکلام اور تصوف کا جو چارہ کیا ہے، اس سے عقل کی اخلاط غیرمتوازن ہو گئی ہیں اور اس کو بادی ہو گئی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اس کو تھوڑی سی جدید فزکس اور آے آئی بھی کھلا کر دیکھیں۔ امید ہے کہ افاقہ ہو گا۔

سوال نمبر چار کا جواب:

اپنے خاص لطفِ علمیانہ سے انہوں نے جو تین سوالات کے جوابات عنایت فرمائے ہیں، وہ انہیں کافی سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرے چوتھے سوال کے جواب کی ضرورت نہیں۔ میں بھی ان کے ارشاد عالی کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں اور بحث کو یہیں ختم کرتا ہوں۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں