Home » دلائل عقلیہ قطعی ہیں تو خدا کے تصور میں اختلاف کیوں ہے؟ تکافؤ ادلہ کے تصور پر تبصرہ
اسلامی فکری روایت کلام

دلائل عقلیہ قطعی ہیں تو خدا کے تصور میں اختلاف کیوں ہے؟ تکافؤ ادلہ کے تصور پر تبصرہ

سوال کیا جاتا ہے کہ جب عقل کے پاس کچھ تصورات و قضایا بطور مسلمات موجود ہیں تو انسان خدا کے وجود میں اختلاف کیوں کرتے ہیں یا پھر اس کے مختلف تصورات کیوں رکھتے ہیں؟ کیا مسلمات یا ان سے اخذ شدہ نتیجے میں یکسانیت نہیں ہونا چاہئے؟ کیا یہ عدم یکسانیت اس بات کی دلیل نہیں کہ ہر گروہ کا نظریہ عقلاً مساوی ہے کہ ہر ایک عقلی دلیل کا مدعی ہے؟

تبصرہ

یہ نیا سوال نہیں قدیم ہے، متکلمین علمیات کے باب میں اس سوال کا تذکرہ کرتے ہیں (دیکھئے امام نسفی کی “تبصرۃ الادلة” نیز امام رازی کی “نھایة العقول”)۔ یہ سوال عام طور پر یا سوفسطائیہ کیا کرتے تھے اور یا ایسے شیعہ گروہ کرتے تھے جو عقل کے برخلاف “معصوم امام” کی پیروی سے حصول علم و قطعیت کے مدعی تھے۔ ان گروہوں کے مطابق نظر (یعنی استدلال) سے علم و یقین حاصل نہیں ہوتا اور اس کے لئے ان کی پیش کردہ ایک دلیل یہی ہوا کرتی تھی کہ مختلف گروہ جن مد مقابل و مخالف عقلی نظریات پر اصرار کیا کرتے تھے، یہ انہیں پیش کرکے کہتے تھے کہ دیکھو ہر کوئی علم و یقین کا مدعی ہے مگر ہر ایک دوسرے کی تردید کررہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ نظر سے علم حاصل نہیں ہوتا نیز ہر جانب کے عقلی دلائل مساوی ہوتے ہیں۔ امام رازی نے ایسی چودہ مثالیں ان کی طرف سے پیش کی ہیں۔ اسے “تکافؤ ادلة” (equality        of        arguments) کا نظریہ کہتے ہیں۔

ابتدائی صدیوں میں مسلمانوں میں سے جو لوگ اس موقف کے قائل ہوئے انہوں نے اپنے نظرئیے کی ہم آہنگی کے تحت یہ کہا کہ اصولی (یعنی عقیدے کے) مسائل بھی فروعی (یعنی فقہی) مسائل کی طرح ہیں اور ان میں ہر فریق مصیب ہوسکتا ہے اور کوئی گنہگار نہ ہو۔ گویا خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے، نبیﷺ کی تصدیق کرنے والے اور نہ کرنے والے اپنے اجتہاد کے بعد مساوی ہوسکتے ہیں۔ متکلمین مسائل اصولیہ میں اس نظرئیے کی شدت کے ساتھ تردید کرتے ہیں کیونکہ ان میں حق رائے صرف ایک ہوتی ہے اور یہ اضافی یعنی ریلیٹو نہیں ہوتے، مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ عالم ایک شخص کے مطابق حادث ہے تو اس لئے وہ حادث ہو اور دوسرے کی رائے کے مطابق قدیم بھی ہو کیونکہ یہ ایک لغو بات ہے۔ دلائل عقلیہ سے علم حاصل نہ ہونے کے مدعیین سے متکلمین یہ مختصر سوال پوچھتے ہیں کہ یہ بتائیے کہ یہ جتنے عقلی دلائل آپ نے پیش کئے ان سے آپ کو یہ علم حاصل ہوا یا نہیں کہ دلائل عقلیہ سے علم حاصل نہیں ہوتا؟ اگر آپ کہیں کہ آپ کو یہ علم حاصل ہوا تو آپ نے اپنا موقف چھوڑ دیا کیونکہ آپ کے بقول استدلال سے علم حاصل نہیں ہوتا اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو آپ نے اپنا سوال چھوڑ دیا کیونکہ نفی کی صورت میں آپ کے بقول آپ کو یہ علم نہیں کہ دلائل عقلیہ سے علم حاصل ہوتا ہے یا نہیں۔ الغرض یہ دعوی self-defeating ہے۔

پہلے بھی واضح کیا گیا کہ خدا کا تصور بدیہی نہیں استدلالی ہے اور اس لیے اسے “استدلال” کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ دلیل حدوث کے دو مقدمات ہیں:

1) حادث کے لئے محدث ہے
2) عالم حادث ہے
نتیجہ: عالم کے لئے محدث ہے

پہلا مقدمہ بدیہی جبکہ دوسرا استدلالی ہے (بعض نے کہا کہ پہلا بھی استدلالی ہے)۔ استدلال میں اختلاف کی وجہ دو قسم کے امور ہیں، استدلالی اور نفسی۔ استدلالی غلطی تین طرح سے ہوتی ہے: صورت استدلال میں، مقدمات کے مادے (content) میں یا مقدمات کے باہمی ربط کو سمجھنے میں۔

* استدلال کی ساخت میں غلطی کی صورتیں ایسی ہوتی ہیں:

– دلیل کی شکل یا فارم غلط فرض کرلینا، یعنی غلط استدلالی فارم سے نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا
– تمام متعلقہ تصورات و مقدمات کا لحاظ نہ رکھنا، یعنی بعض مقدمات کا ذکر کرنے سے سہو ہوجانا جیسے مقدمات میں پیوست کسی اہم مفروضے کو اگنور کردینا جبکہ تنقیح سے واضح ہو کہ اسے فرض کئے بغیر نتیجہ حاصل نہیں ہوتا یا وہ کمزور ہوجاتا ہے

* مقدمات کے مادے میں غلطی کی صورتیں یہ ہوا کرتی ہیں:

– کوئی تصور غلط یا مبہم طور پر ڈیفائن کرلینا
– کوئی قضیہ غلط فرض کر لینا
– کسی خطابی بات کو عقلی فرض کرلینا

* ربط مقدمات کی تفہیم میں غلطیاں ایسی ہوتی ہیں:

– مقدمات سے جنم لینے والے تعلقات کا لحاظ نہ رکھ پانا یا پیچیدگی کے باعث تصورات کو درست طور پر مربوط نہ کرپانا
– مقدمات کے لوازمات کا لحاظ نہ رکھنا
– غلط لوازمات پیدا کرلینا
– استدلال میں پیوست تضاد پرمتنبہ نہ ہوپانا
– یہ سمجھ لینا کہ تضاد نہیں ہے یا میں نے اسے حل کرلیا ہے جبکہ وہ حل نہیں ہوا ہوتا اور یوں انسان تضاد کے ساتھ جی لیتا ہے

نفسی وجوہات متعدد ہوا کرتی ہیں، مثلاً:

1۔ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے ھٹ دھرمی یا مکابرے پر اتر آنا

2۔ حق بات قبول کرنے میں بے عزتی یا شکست محسوس کرنا

3۔ ذاتی و گروہی مفادات سے مغلوب ہوجانا، بالخصوص جب پہلے سے میسر خیالات کے ساتھ سٹیکس ڈویلپ ہوچکے ہوں

4۔ حب جاہ، مثلاً اس چیز میں لذت محسوس کرنا کہ میرا الگ سکول آف تھاٹ ہے

5۔ ایک بار کوئی غلط بات کہہ کر پھر زندگی میں اس پر دوبارہ غور کرنے کا موقع نہ ملنا، انسان دیگر کاموں میں لگ جاتا ہے اور یوں وہ اسی غلط خیال کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے

6۔ ایک مجموعی پکچر کے کسی خاص جزو ہی کو کل یا اہم ترین سمجھ لینا یا کسی فکر کو اس لئے ترک کردینا کہ اس سے فلاں مسئلہ پیدا ہوجائے گا لہذا متبادل کو بہتر سمجھنا

7۔ فاسد خیالات کے ساتھ لگاؤ کی بنا پر نئے خیال کی طرف متوجہ نہ ہونا یا اس پر پورا غور و فکر نہ کرنا

8۔ کند ذھن ہونے کے باعث باریک و گہری بات سمجھنے لائق نہ ہونا مگر اس کے باوجود یہ خوش گمانی رکھنا کہ میں ان مسائل کے ادراک میں ماہر ہوں

اس نوع کی وجوہات کی بنا پر بسا اوقات لوگ ایک واضح حق بات کو بھی قبول نہیں کرتے۔ الغرض الحاد و کفر ایسی اجتہادی رائے نہیں جسے اس بنا پر مساوی فرض کرلیا جائے کہ اس کا مدعی بھی عقل کا نام لے رہا ہے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پہلے دور میں جو لوگ تکافؤ ادلة کے نظرئیے کے قائل ہوئے انہوں نے کم از کم ھم آھنگی کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مسائل اصولیہ میں بھی ہر مجتہد مصیب ہے۔ تاہم آج کل کے دور میں ایسے مفکرین بھی ہیں جو ایک طرف دلائل عقلیہ کو پاتال ثابت کرنے میں گرم جوشی دکھاتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ دعوی بھی کردیتے ہیں کہ دلائل لفظیہ سے قطعیت حاصل ہوجاتی ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ تھوڑی دیر قبل جو دلائل وہ دلائل عقلیہ کے خلاف پیش فرما رہے تھے وہی دلائل لفظیہ پر بھی وارد ہوتے ہیں کیونکہ دلائل لفظیہ کی  دلالت یا وضعی ہوتی ہے اور یا عقلی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں