Home » مولانا ابوالکلام آزاد: شخصیت اور فکر
تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

مولانا ابوالکلام آزاد: شخصیت اور فکر

گل رحمان ہمدرد

بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا حکیمانہ قول ہے کہ ” اقبال اور ابوالکلام بیسویں صدی میں امت مسلمہ کی دو آنکھیں ہیں“۔9 نومبر اقبال کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ گیارہ نومبر کا دن مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے ۔انڈیا میں اس دن کو قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ابوالکلام آزاد مذہبیات کے ایک نامور روشن خیال اسکالر اور تحریک آزادی کےعظیم رہنما تھے۔وہ ایک طویل عرصے تک آل انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے اور تحریک پاکستان اور مذہب کی بنیاد پر دوقومی نظریہ کے مخالف تھے۔اس کے برعکس وہ وحدت الوجود ,وحدت ادیان , وحدت انسانیت ,متحدہ قومیت اور اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوۓ مشترکہ انسانی تہذیب کے قیام کے پرزور علمبردار تھے۔سوال یہ ہے کہ اس فکر تک ان کی رسائی  کب ہوئی؟ابوالکلام نے ”ذکر آزاد “ میں موقف اختیار کیا ہے کہ چودہ سے بائیس سال کی عمر تک یعنی انیس سو چار سے انیس سو دس تک وہ تلاش حق میں سرگرداں رہے۔اور بائیس سال کی عمر میں مذہب کی حقیقت کو انہوں نے پالیا۔ ابوالکلام کا اپنا موقف ہے کہ اسکے بعد یعنی انیس سو دس کے بعد ان کی اساسی فکر میں کوئی اساسی تبدیلی کبھی واقع نہیں ہوئی۔وہ لکھتے ہیں :
”میری رایوں میں نہ کبھی تبدیلی واقع ہوئی نہ میرےسفر میں کبھی یمین و یسار کا تذبذب پیش آیاہے۔“
(مسلہ ءخلافت ,صفحہ 195)
ان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ان کی عملی جدوجہد ان کے دینی افکار کی تعمیل میں ہے(مسلہ خلافت ,صفحہ 195)۔توان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر ابوالکلام کے نظریات کا مطالعہ کیا جانا چاہیۓ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہۓ کہ ان کی فکر کی امہات کتب تین ہیں۔ام الکتاب,حیات سرمد اور ترجمان القرآن۔ان کی تمام دیگر تحریروں کو ان تین اساسی کتب کے نظریات کی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا چاہیۓ۔پھر یہ کہ انہوں نے اپنی اساسی فکر کو مدلل اور مفصل انداز میں انیس سو ستائیس کے بعد ہی پیش کیا ہے۔اس سےقبل کی تحریروں میں وہ اشارات وکنایات میں ہی اپنی اساسی فکر کا ابلاغ کرتےرہے ہیں۔مدلل انداز میں اس فکر کو انہوں نے ام الکتاب اور ترجمان القرآن کے ابتدائی پانچ پاروں میں پیش کیا ہے۔جبکہ ادیبانہ انداز میں بزبانِ دیگراں اس فکر کو انہوں نے اپنی کتاب ”حیات سرمد“ میں پیش کیا جو انیس سو دس میں شائع ہوئی۔

ابوالکلام آزاد کے بقول خداکی سچائی صرف مسلمانوں کے پاس نہیں ہے جیسا کہ مسلمان یہ دعویٰ کررہے ہیں بلکہ وہ خدا کی عالمگیر بخشش ہے اور ہر قوم وامت کے پاس ہے۔انکے الفاظ میں :

” خدا کی سچائی ، اس کی ساری باتوں کی طرح ، اس کی عالمگیر بخشش ہے ۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خاص نسل و قوم سے ، اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے ۔تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنالی ہیں ، لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے ، اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ،نہ جماعتی حلقہ بندی ۔وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اورنوع انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے ۔ اگر تم خدا کی سچائی کی ڈھونڈھ میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈھو ۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے ۔ تمہیں زمانوں کا ،قوموں کا ، وطنوں کا ، زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔صرف خدا کا اور اس کی ”عالمگیر سچائی“ کا پرستار ہونا چاہیے اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں بھی آئی ہو ، تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو“

گاندھی جی کی وفات پر ان کے بارے میں ابوالکلام کے تاثرات میں وحدت ادیان کی جھلک بہت زیادہ نمایاں ہے۔ابوالکلام فرماتے ہیں:

”گاندھی جی ہندو تھے اور ہندوہی رہے ۔لیکن انہوں نے ہندو دھرم کی اتنی اونچی جگہ بنائی تھی کہ جب وہ اس بلندی پر سے دیکھتے تھے تو دنیا کے تمام جھگڑے انہیں مٹے ہوۓ نظر آتے تھے۔ان کے سامنے ایک کھلی ہوئی سچائی تھی جو کسی ایک (فرد,قوم یامذہب)کا ورثہ نہیں ہے بلکہ سورج اور اس کی شعاعوں کی طرح سب کےلیۓ ہے۔“

مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ اسلام دنیا میں نیا مذہب قائم کرنے نہیں آیا بلکہ ”الہی تعبد“ کی بنیاد پر تمام مذاہب کو ایک ہی وحدت میں پرونے آیا ہے۔انکاموقف خود ان کے اپنے الفاظ میں سنیۓ:

”اسلام دنیا میں کوئی نیا مذہب قائم نہیں کرتا چاہتا، بلکہ اس کا مشن خود اس کے بیان کے مطابق صرف یہ ہے کہ دنیا میں تمام مذہبوں کے ماننے والے اپنی اصلی اور بے میل سچائی پر قائم ہو جائیں۔یہ اسلام ہے وہ عیسائی سے کہتا ہے کہ سچا عیسائی بنے ۔یہودی سے کہتا ہے کہ سچا یہودی بنے، پارسی سے کہتا ہے کہ سچا پارسی بنے ۔ اسی طرح ہندوؤں سے کہتا ہے کہ اپنی اصلی سچائی کو دوبارہ قائم کر لیں۔۔۔پس قرآن لوگوں کو ان کے مذہب سے چھڑانا نہیں چاہتا، بلکہ ان کے اصلی مذہب پر ان کو دوبارہ قائم کر دینا چاہتا ہے ۔”
(مولانا ابوالکلام آزاد,بحوالہ کتاب ‘ذکر آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)

وحدت ادیان پرگفتگو کرتے ہوۓ ایک دوسری جگہ وہ فرماتے ہیں :
”وہ وقت اب دور نہیں جب عالمِ انسانیت مذاہبِ عالم کے اختلافات سے اُکتا کر مجبور ہوجاۓ گی کہ یا تو یک قلم مذہب ترک کردے یا تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کردے۔میرا یقین ہے کہ جمیعتِ انسانی مذہب ترک نہیں کرسکتی۔اسلیۓ ناگزیر ہے کہ دوسرا طریقہ اختیار کرے۔(یعنی تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کرنے کاراستہ اختیار کرے )“۔
(سنِ تحریر1927 ,مشمولہ تصریحاتِ آزاد,صفحہ 95 )

ایک اور جگہ پر مولانا آزاد فرماتے ہیں:
”مذاہبِ عالم کا مشترکہ حق دنیا کی عالمگیر وجدانی صداقت ہے۔“
(ایضا“ ,صفحہ 94)

یہ قول کہ ”مذاہب عالم کا مشترکہ حق دنیا کی عالمگیر وجدانی صداقت ہے“ بہت اہم ہے۔اس میں ترکیب ”مذاہب عالم کا مشترکہ حق“ توجہ طلب ہے۔۔دوسرا لفظ ”عالمگیر“بھی اہم ہے یعنی ازلی وابدی آفاقی صداقت ۔۔تیسری ترکیب ”وجدانی صداقت“ بھی اہم ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دین اصلا“ کتابوں میں نہیں بلکہ انسانوں میں وجدانی طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔یعنی
١۔مذاہب عالم کا باطن دیکھا جاۓ تو یکساں ہی نکلے گا
٢۔مذاہب عالم کی مشترکہ تعلیمات اصلاََانسانوں کے ”وجدان میں ودیعت “ کی گئیں ہیں۔ایک اور مقام پر ابوالکلام لکھتے ہیں:

”اسلام ایک صداقت ہے اور اس لیۓ دنیا میں اس وقت سے موجود ہے جس وقت سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں صداقت کا وجود ہے“
ابوالکلام آزاد,مضامین الہلال ,صفحہ 147

بعض دوسری جگہوں پر انہوں نے لکھاہے کہ

١۔”سچائی“ خوا وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ,خداٸ ہو یا انسانی ,ایک ہی ہے کہ ایک سے زیادہ سچائیاں ہونہیں سکتیں۔ان کے نزدیک ایسا ممکن نہیں کہ دس متضاد باتیں ہوں اور سب بیک وقت ایک جیسی سطح کا سچ ہوں۔لہذا سچائی ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔

٢۔سچائی ازلی وابدی ,عالمگیر اور آفاقی ہے۔

٣۔سچائی اصلاََ وجدانی ہے یعنی ہر انسان کے اندر ودیعت کردی گئی ہے۔اور ثانیاََاللہ نے نبیوں کے زریعہ اس سچائی کی یاد دہانی کرائی ہے۔

٤۔اس سچائی کا وارث کوئی ایک فرد ,قوم یا مذہب نہیں ہے۔بلکہ تمام اقوام وامم اس سچائی کے وارث ہیں۔ ابوالکلام ہی کا قول ہے”دنیا میں طلبِ صداقت (یعنی طلبِ حق)کےاکثر جھگڑے حکایت شہد وعسل سے زیادہ نہیں۔۔۔یعنی سچائی ہر جگہ اور ہر گوشہ عمل میں حقیقت اور مسمیٰ کے اعتبار سے ایک ہی ہے ,لیکن بھیس مختلف ہوگیۓ ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ دنیا معانی کی جگہ لفظوں کی پرستش کرتی ہے۔اور گو سب طلب گار و پرستار ایک ہی حقیقت کے ہیں لیکن محض ناموں کے اختلاف کی وجہ سے باہم دیگر لڑ رہے ہیں۔۔۔اگر کبھی ہوسکے کہ ظواہر واسماء کے تمام پردے اٹھادیۓ جائیں اور حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجاۓ تو یکایک دنیا کے تمام نزاعات ختم ہوجائیں اور تمام لڑنے والے دیکھ لیں کہ سب کا مطلوب ایک ہی ہے اگرچہ بھیس مختلف ہیں اور سب کا مقصود ایک ہی ہے اگرچہ نام مختلف ہیں۔۔“

٥۔اس ازلی و ابدی ,عالمگیر و آفاقی واحد وجدانی صداقت وسچائی کا نام عربی زبان میں ”اسلام “ رکھا گیا ہے ,دنیا کی دیگر زبانوں میں یہ مختلف ناموں سے موسوم کی جاتی رہی ہے۔

صرف سیاست میں ہی ابوالکلام منفرد مقام پر کھڑا نہیں تھا,مذہب میں,ادب میں,صحافت میں,علم میں غرض ہر شعبہ میں ان کی آواز وقت کی دیگر آوازوں کی بنسبت بالکل ہی مختلف رہی۔اسی کا اظہار غبار خاطر میں انہوں ان الفاظ میں کیا ہے:

”بازار میں وہی جنس رکھی جاتی ہے جس کی مانگ ہوتی ہے اور چونکہ مانگ ہوتی ہے اس لیے ہر ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور ہر آنکھ اسے قبول کرتی ہے مگر میرا معاملہ اس سے بلکل اُلٹ رہا۔ جس جنس کی بھی عام مانگ ہوئی میری دکان میں جگہ نہ پاسکی۔ ۔۔مذہب میں، ادب میں، سیاست میں، فکرو نظر کی عام راہوں میں جس طرف بھی نکل پڑا۔ اکیلا ہی نکل پڑا۔ کسی راہ میں بھی وقت کے قافلوں کا ساتھ نہ دے سکا “

غبار خاطر کا یہ بیان واضح طور پر ثابت کررہا ہے کہ جو لوگ ابوالکلام میں اہل شریعت کےروایتی فھم اسلام,جماعت اسلامی کی فکر ,دیوبندیت یا سلفیت وغیرہ تلاش کررہے ہیں وہ سخت غلطی کررہے ہیں۔مولانا آزاد اسطرح کے ہر بند سے آزاد تھے,کچھ عرصہ قبل ایک آزاد شناس دوست نے لکھاتھا کہ ابوالکلام کو روایتی مفہوم میں شیعہ یا سنی نہیں کہاجاسکتا۔میں نے اس پر کہا تھا کہ صرف یہی نہیں بلکہ مولانا آزاد کو روایتی معنوں میں مسلمان بھی نہیں کہا جاسکتا۔ابوالکلام شیعہ وسنی اور ہندو و مسلمان کی حد بندیوں سے آزاد تھے۔

ابوالکلام کے ہاں اسلام اور مسلمان کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس سے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ابوالکلام کے ہاں یہ الفاظ ان کے روایتی مفہوم سے بالکل مختلف مفھوم میں استعمال ہوۓ ہیں۔ اسلام ان کے نزدیک واحد ازلی و ابدی عالمگیر و آفاقی وجدانی حقیقت کا ”عربی نام“ ہے۔اور مسلمان ”تمام زمانوں کے “( جس میں حال و مستقبل بھی شامل ہیں) مذاہب عالم کے پیروکاروں کے موحدین و صالحین کا عربی نام ہے۔ماضی و حال ومستقبل کا ہر وہ شخص مسلمان ہے جو توحید کا قائل ہو اور اعلیٰ اخلاقی کردار کا حامل ہو خواہ اس شخص کا تعلق کسی بھی مذہب سے یا قوم سے ہو۔
ابوالکلام کا یہ تصور اسلام ”روایتی اسلام“سے بالکل مختلف اسلام ہے۔ابوالکلام اس ”غیر روایتی اسلام“ کے مسلمان ہیں جس کو روایتی طور پر مسلمانی کے حصار میں بند نہیں کیاجاسکتا۔وہ روایتی تصور اسلام کے مسلمان نہیں ہیں۔روایتی تصور اسلام کو تو غبار خاطر میں انہوں نے توہم پرستی قرار دیاہے(غبار خاطر,صفحہ 64)۔تمام حدبندیوں بشمول مذہبی حد بندی سے بالاتر ہونے کی دعوت دیتے ہوۓ مولانا ابوالکلام آزاد رقم طراز ہیں:

”تاریخ انسانی کے ہر دور میں آپ دیکھیں گے کہ انسان نے دنیا میں بہت سی ”حد بندیاں“ قائم کیں ہیں جیسے جغرافیائی حد بندی,کہا جاتا ہے کہ یہ یورپ ہے ,یہ ایشیا,یہ عرب ,یہ ہندوستان وغیرہ۔مذہبی حد بندی,ہم کہتے ہیں یہ مسلمان ہے,یہ عیسائی ہے,یہ ہندو,یہ سکھ وغیرہ ۔قومی حد بندی,کہا جاتا ہے کہ یہ انگریز ہے,یہ اٹالین ,یہ ہندو وغیرہ۔لسانی حدبندی,کہا جاۓ گا کہ یہ فلاں زبان کا بولنے والا ہے اور یہ فلاں زبان وغیرہ۔ایسے ہی رنگ ونسل کی حدبندی وغیرہ وغیرہ۔۔۔تاریخ کی افق پر کبھی کبھی ایسی شخصیتیں ابھرتی ہیں کہ دنیا کی کوئی ”حد بندی“ بھی انہیں بڑائی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔مذہب کی حدبندی اُن کی آنکھوں کو بند نہیں کرسکتی۔قومیت کی حد بندی ان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی۔وطنیت کی حد بندی ان کے ہاتھوں کو پکڑ نہیں سکتی۔وہ ان ”تمام حدود“ سے بہت ”اونچے اور بلند“ ہوتے ہیں۔
جب یہ شخصیتیں ان بندشوں کی حدود سے” بالاتر“ ہوجاتی ہیں تو تب آپ دیکھیں گےکہ ان کی آنکھوں میں ”سچائی کا نور“ پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں تعصب کا ایک شمہ نہیں رہتا۔انکی نظر ہر طرف اور ہر گوشہ پر ”یکساں “پڑتی ہے۔دنیا کا سب اچھا بُرا ان کے سامنے ہوتا ہے اور وہ سب کو ”ایک ہی نور“ سے دیکھتے پہچانتے ہیں۔اُنہیں جہاں کہیں حُسن نظر آتاہے وہ دوڑتے ہیں کہ یہ تو ہمارے لیۓ ہے۔انہیں جس طرف خوبی نظر آتی ہے وہ اس کو اپناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔لیکن آپ یاد رکھیۓ کہ تاریخ میں ایسی ہستیاں بہت ہی کم ہوا کرتی ہیں۔“
(الجمیعہ دہلی ,مولانا آزاد نمبر 1958,صفحہ 42-41)

تمام حدبندیوں سے بالعموم اور مذہبی حدبندی سے بالخصوص ”بالاتر“ ہوجانے کی دعوت قابل غور ہے۔تب ابوالکلام کے بقول نگاہوں میں ”سچائی کا نور“ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔اور ایسی عظیم ہستیاں انسانی تاریخ میں بہت کم پیدا ہوتی ہیں۔۔۔ہمارا موقف ہے کہ ابوالکلام آزاد خود ایسے ہی ایک عظیم انسان تھے۔جو نااہل لوگوں کے ہتھے چڑھ گیۓ,جنہوں نے انہیں عظمت کے اس مینار سے نیچھے اتار کر اپنے جیسا بنادیا۔اس حادثہ پر جتنا بھی ماتم کیا جاۓ کم ہے۔یہ لوگ خود اپنی ” مذہبی حدبندی“ سے اوپر نہ اٹھ سکے تو انہوں نے ابوالکلام کو بھی نیچھے اتار کر ”مذہبی حد بندی“ میں قید کردیا۔لیکن میرا ایمان ہے کہ حقیقت چُھپ نہیں سکتی۔ابوالکلام کی حقیقی فکر کو سامنے آنا ہی ہے اور ایک نہ ایک روز وہ پورے طمطراق کے ساتھ سامنے آکر ہی رہے گی۔

وحدت ادیان کی بحث میں ایک اہم مسلہ ء ایمان بالرسل کا آجاتا ہے۔ابوالکلام نجات کےلیۓ ایمان بالرسول(کسی ایک رسول پر ایمان) کے قائل نہیں ہیں بلکہ بالرسل(تمام انبیاء پر ایمان ) کے قائل ہیں ۔لیکن اس کا مفھوم بھی ان کے ہاں بہت مختلف اور کافی منفرد ہے۔
ایمان بالرسل کی بحث اپنی تفسیر سمیت کئی تحریروں میں انہوں نے کی ہے۔اس بحث میں دونکات بہت لائق توجہ ہیں۔

١۔نجات کے لیۓ ایمان بالرسل ضروری ہے۔
٢۔لیکن کسی ایک رسول پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ ”تمام رسولوں“ پر ایمان لانا نجات کے لیۓ ضروری ہے۔کسی ایک رسول کا انکار سب کا انکار متصور ہوتا ہے۔کسی نے کسی ایک پیغمبر کا بھی انکار کیا تو اسکی نجات ممکن نہیں ہوگی۔

٣۔تفریق بین الرسل کفر ہے۔تمام انبیاء ” ایک ہی زنجیر“ کی مختلف کڑیاں ہیں۔کسی ایک دعوت کو اہمیت دینا اور باقی کا انکار کرنا اسلام میں کفر قراردیا گیا ہے۔آیت لانفرق بین احد من رسلہ کی تفسیر میں ابوالکلام آزاد نے تفصیل سے اس نکتہ کی وضاحت کی ہے کہ خدا کے پیغمبروں میں دعوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں“یعنی سب ایک ہی دین کی دعوت لیکر آۓ تھی۔سب کی دعوت ایک ہی رہی۔سب کی دعوت میں وحدت ہے کثرت نہیں۔کسی ایک پیغمبر کا جان بوجھ کر انکار سب کا انکار ہے کیونکہ پیغمبر کا انکار اسکی دعوت کا انکار ہے اور ایک پیغمبر کی دعوت کا جان بوجھ کر انکار ایسا ہے کہ گویا سب پیغمبروں کی دعوت کا انکار کردیاگیا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آۓ ہیں ,مسلمان ان سب کو جانتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں۔بدھا اور سری رام پیغمبر تھے یا نہیں ؟زاراتست اور سقراط اور کنفیوشس پیغمبر تھے یا نہیں؟۔ہم نہیں جانتے۔اب اگر ہم انکے رسول ہونے کا انکار کردیں اور وہ واقعی رسول ہوں تو ہمارا کیا بنے گا؟,ظاہر ہے عالم کے پروردگار نے کہا ہے میں کسی پر اسکی اہلیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا,تو امید ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اس عذر کی وجہ سے رعایت کی جاۓ گی۔پھر سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ابوالکلام نے موقف اختیار کیا ہے کہ خدا کی ربوبیت اور رحمت عالمگیر ہے ۔ یہ خدا کے تصور انصاف کے منافی ہے کہ وہ کسی خاص امت کے ساتھ رعایت برتے۔اسلیۓ رعایت اگر کی جاۓ گی سب کےساتھ کی جاۓ گی ,اسلیۓ جو رعایت مسلمانوں کو دی جاۓ گی بالکل وہی رعایت دیگر امتوں کو بھی دی جاۓ گی۔
خلاصہ یہ کہ ابوالکلام کے نزدیک نجات کےلیۓ تمام پیغمبروں پر ”عمومی ایمان“ لانا ضروری ہے۔تخصیص کےساتھ پہچان کر ایمان لانا دنیا کے انسانوں کےلیۓ مختلف سماجی ونفسیاتی وعلمی و معلوماتی وجوہات کی وجہ سے بڑا مسلہ ہے۔جان بوجھ کرکسی رسول کا انکار تو یقیناََ کفر ہے۔لیکن اگر کسی نے کسی کو رسول کی حیثیت سے پہچانا ہی نہ ہو(جیسا کہ مسلمان بدھا ,سقراط,کفیوشس ,حضرت لقمان,اور زاراتست کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ رسول تھے یانہیں)تو ایسی صورت میں رعایت کی جاۓ گی اور یہ رعایت تمام امتوں کے ساتھ کی جاۓ گی کسی ایک امت کے ساتھ نہیں۔وجہ یہ ہے کہ کسی ایک امت کے ساتھ رعایت کرنا خدا کےاس قانون ربوبیت و رحمت کے خلاف ہے جس کو ابوالکلام نے ام الکتاب میں انتہائی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ہمارا موقف ہے کہ ابوالکلام آزاد کی فکر کو اس کی پوری ٹوٹیلیٹی میں دیکھنا چاہیۓ ۔کیونکہ ان کا اپنا موقف ہے کہ انیس سو دس کے بعد انکی اساسی فکر میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئی(مسلہ خلافت ,صفحہ 195 )۔ان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ان کی عملی جدوجہد ان کے دینی افکار کی تعمیل میں ہے(مسلہ خلافت ,صفحہ 195)۔ ابوالکلام کی فکر میں تضاد نہیں ہے۔البتہ یہ بات ہے کہ الہلال اور البلاغ کی تحریریں صحافیانہ قسم کی ہیں۔ان میں انہوں نے اپنے بلند فکری مقام سے تنزل کیا ہے تاکہ عوام کو تحریک آزادی کے سیاسی مقصد کےلیۓ ”عوام کے اپنے ہی استدلال“ کے زریعہ تیار کیا جاسکے۔۔۔۔۔تاہم جب عوام تحریک آزادی کےلیۓ اٹھ کھڑے ہوۓ۔تو ابوالکلام اپنے اسی بلند فکری مقام پر دوبارہ چلے گیۓ جس پر انیس سو دس میں وہ موجود تھے ۔ اور انیس سو ستائیس کے بعد انہوں نے اپنی اساسی فکر کو جو اصلاَ حیات سرمد میں بیان کی گئی تھی مفصل اور مدلل انداز میں بیان کیا۔ام الکتاب,ترجمان القران ,تصریحات اور کسی حد تک غبار خاطر اور یہاں تک آزادی ہند والی کتاب سمیت انیس سو ستائیس کے بعد کی تمام تحریروں میں یہ فکر اپنے استدلال کے ساتھ جابجا پھیلی ہوئی ہے اور ہر صاحب نظر اس کو پڑھ کر جان سکتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگوں نے ان کی سیاسی جدوجہد کو ان کی دینی فکر سے ہٹ کر دیکھا ہے۔حالانکہ مولانا آزاد خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی سیاسی جدوجہد ان کی دینی فکر کا عکس ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آل انڈین نیشنل کانگریس (جسکے فکری شجرہ نسب کے تانے بانے برہمو سماج سے ہوتے ہوۓ داراشکوہ کی فکر سے ملتے ہیں ) کی سیاسی فکر کا مذہبی وتاریخی تناظر میں غور سے اگر علمی مطالعہ کر کے نتائج مرتب کیۓ جائیں تو ابوالکلام آزاد کے دینی نظریات کو سمجھنے کےلیۓ یہ شاہ کلید(Master Key) ہے۔آزادی ہند کے بعد ہندوستان میں سیاسی ومعاشی نظام کی تشکیل اور پالیسی سازی میں زیادہ ترابوالکلام کاہی دماغ کارفرمارہا ہے۔انڈیا کےسیاسی ومعاشی نظاموں اور سماجی و ثقافتی ترجیحات کو سامنےاگر رکھ لیاجاۓ تو ابوالکلام کی حقیقی فکر تک رسائی بالکل آسان ہوجاتی ہے۔

ابوالکلام نے انیس سو بارہ تیرہ میں حکومت الہیہ کا نعرہ بھی لگایا۔لیکن ابوالکلام کا تصور حکومت الہیہ مولانا مودودی ومولانا اصلاحی یا ڈاکٹر اسرار وغیرہ کا یا اخوان یا ترک و ایرانی انقلابیوں کا تصور حکومت الہیہ نہیں ہے۔بلکہ ابوالکلام کا تصور حکومت الہیہ وہی چیز ہے جس کو گاندھی جی رام راج کہا کرتے تھے۔یعنی انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ اور ہندوستانیوں کی اپنی ایک آزاد اور خودمختار حکومت جس میں مذاہب عالم کی مشترک اخلاقی تعلیمات کے مطابق ایک منصفانہ و عادلانہ جمہوری نظام تشکیل دیا گیا ہو اور جس میں تمام مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذہب پر اپنی اپنی فہم کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہوں۔۔۔۔ابوالکلام کے کانگریسی حکومت الہیہ یا گاندھی جی کے الفاظ میں رام راج کو مودودی و اصلاحی و ڈاکٹر اسرار و خمینی و سید قطب و اخوان والی حکومت الہیہ سمجھنا کم فہمی کا شاخسانہ ہے۔خود میں ایک عرصے تک اس غلط فہمی کا شکار رہا کہ ابوالکلام کی فکر میں انیس سو ستائیس کے بعد تبدیلی واقع ہوئی ہے۔لیکن مجھے جو غلط فہمی لاحق ہوئی تھی وہ اس وجہ سے تھی کہ میرے ذہن میں کسی وجہ سے یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ ”حیات سرمد“ انیس سو اٹھائیس میں لکھی گئی ۔لیکن جب معروف ماہر آزادیات سید حنیف رسول کاکاخیل اور معروف دینی اسکالر و آزاد شناس ڈاکٹر رضوان اللہ صاحب نے اس ضمن میں میری توجہ دلائی کہ حیات سرمد انیس سو دس میں شائع ہوئی ہے۔تو مجھے اپنی راۓ تبدیل کرنا پڑی۔بہرحال یہ کتاب(یعنی حیاتِ سرمد) ابوالکلام کی فکر و عملی زندگی کا مینیفیسٹو ہے۔اس میں وہ زبانِ غیر سےگویا اپنی ہی فکر وحیات بارے بتا رہے ہیں۔
جب ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی قاٸم کی تو مولانا آزاد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہا کہ جس مینییسٹو پر جماعت اسلامی قائم ہورہی ہے اس پر ابوالاعلیٰ کےگرد مذہبی جرائم پیشہ لوگ ہی جمع ہوں گے جن کی اصلاح ممکن نہ ہوگی۔اس حوالے سے
سید ابوالاعلیٰ مودودی کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی لکھتے ہیں:
” جب ہمارے والد نے جماعت اسلامی بنانے کا ارادہ باندھا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے جماعت کا مینی فیسٹو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا
چنانچہ مولانا عبدالسلام نیازی رح کے ترکمان گیٹ دہلی والے حجرے میں انہوں نے فراہم کردہ مینی فیسٹو کا بغور مطالعہ کیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر کہا
ابوالاعلیٰ ! اخلاصِ نیت کے باوجود اس مینی فیسٹو سے جو جماعت معرض وجود میں آئے گی وہ ایک فاشسٹ جماعت ہوگی ۔ مذہبی جرائم پیشہ افراد سانپ بچھو بن کر تمہارے گرد اکٹھے ہوجائیں گے اور ان کی اصلاح ممکن نہ ہوگی
صفہ 197 آفتاب علم و عرفان :سید ابوالاعلیٰ مودودی از سیدحسین فاروق مودودی ,صفحہ 197)

نومبر 1956 میں ایک صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کے نام اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی ,معاشی و معاشرتی انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے۔اس کے جواب میں مولانا آزاد نے فرمایا کہ مذہب کا مقصدِاولیٰ سیاسی ومعاشرتی انقلاب برپا کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصدِ اولیٰ روحانی زندگی کی پاکیزگی ہے۔انہوں نے لکھا کہ:

”آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی و معاشرتی مقاصد ہیں۔انبیاء کی بعثت کا مقصد روحانی زندگی کی پاکیزگی اور معنوی نجات کا حاصل کرنا ہے۔روحانی پاکیزگی کا اثر ہماری زندگی کے تمام اعمال پر پڑتا ہے لیکن وہ اثر بالذات نہیں بالغیر ہے۔۔۔مذہب کی تعلیم کا اصل مقصود روحانی نجات ہے۔اس چیز کو سامنے رکھ کر معاملے پر غور کرنا چاہیۓ ورنہ سخت الجھاؤ پیدا ہوں گے“
(افادتِ آزاد ,صفحہ 196,سن تحریر نومبر 1956)
واضح رہے کہ مولانا وحید الدین خان نے اپنی مشہور کتاب ”تعبیر کی غلطی“ (جو غالبا“ 1963 میں شائع ہوئی)میں ٹھیک یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مذہب کا مقصد سیاسی,معاشی یا معاشرتی نظام قائم کرنا نہیں ہے۔بلکہ اس کا اصل مقصد تزکیہ نفس و روحانی پاکیزگی و روحانی نجات ہے۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ مذہب کے مقصدِ اولیٰ کے بارے میں صوفیاء کا موقف بھی بالکل یہی ہے۔
ابوالکلام کی دینی فکر وجودی صوفیاء کی فکر سے کچھ ملتی جلتی ہے۔وحدت الوجود ,وحدت ادیان اور وحدت انسانیت کے نظریات تصوف میں پاۓ جاتے ہیں۔شیخ محی الدین ابن عربی اور مولانا روم اور فارسی کے صوفی شعراء سے ہوتے ہوۓ سندھی,بنگالی , پنجابی اور کشمیری صوفیاء اور داراشکوہ ,عمر خیام و سرمد کےتصوف میں ان نظریات کا پرچار کیا گیا ہے جس کو مولانا ابوالکلام آزاد سمیت آل انڈین نیشنل کانگریس نے بڑی حد تک قبول کیا ۔دوسری جانب آل انڈیا مسلم لیگ کا فکری شجرہ نسب اورنگ زیب عالمگیر تک پہنچتا ہے۔
اسلام کی تاریخ میں اہل شریعت اور اہل طریقت کی جو کشمکش رہی ہے اس کا آخری مظاہرہ ہندوستان کے مغل دربار میں داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کشمکش کی صورت میں ہوا۔جس میں اورنگ زیب عالمگیر نے داراشکوہ اور سرمد کو موت کےگھاٹ اتاردیا۔ اپنی کتاب ” حیات سرمد “میں ابوالکلام آزاد مشہور صوفی مجنون سرمد کے فتویٰ کی تلوار سے قتل کیۓ جانے پر علماۓ ظاہر پرست پر تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

”ظاہر پرست نہیں جانتے تھے کہ سرمد اس سے بہت اونچا ہے کہ کفر و الحاد کی بحثیں سناٸی جاٸیں اور وہ قتل وخون کے احکام سے مرعوب ہو۔کفر ساز تو اپنے مدرسہ ومسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر سوچتے تھے کہ اس کی کرسی کتنی اونچی ہےاور وہ اس منارہء عشق پر تھا جہاں کعبہ ومندر بالمقابل نظر آتے ہیں اور جہاں کفر وایمان کے عَلم ایک ساتھ لہراتے ہیں“
(دیباچہ رباعیاتِ سرمد از ابوالکلام آزاد,حیات سرمد,سن تحریر 1910)

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سرمد کے بارے میں ابوالکلام نے لکھا کہ وہ روحانی بلندی کی اس منزل پر تھے جہاں ”کفر و اسلام“ کے جھنڈے ایک ساتھ لہراتے تھے۔ بیسویں صدی میں روحانی بلندی کی ایسی منزل کانگریس کے پلیٹ فارم کی صورت میں دیکھی گئی جہاں اپنی اپنی ثقافتی شناخت کو برقراررکھتے ہوۓ مذاہب عالم کی صوفیانہ روایت کے وژن کے مطابق کفر واسلام کے جھنڈے ایک ساتھ لہراتے تھے۔

داراشکوہ وحدت الوجود,وحدت ادیان اور وحدت انسانیت کا علمبرار تھا ۔اسلیۓ ہمارے علماء اسے ملحد سمجھتے ہیں۔لیکن ابوالکلام اس کی تعریف کرتے ہوۓ ”حیات سرمد“ میں لکھتے ہیں کہ :
”سلسلۂ مغلیہ میں ۔ ۔ ۔دارا شکوہ عجیب طبیعت اور دماغ کا شخص گزرا ہے اور ہمیشہ افسوس کرنا چاہیے کہ تاریخ ہند کے قلم پر اس کے دشمن کا قبضہ رہا۔ اسی لیے اصل تصویر پولیٹیکل چالوں کے گردوغبار میں چھپ گئ۔ وہ ابتداء سے درویش دوست اور صوفیانہ دل و دماغ کا شخص تھا۔ اس کی بعض تحریرات جو دست برد حوادث سے بچ گئی ہیں بتلاتی ہیں کہ ان کا لکھنے والا بھی ذوق و کیفیت سے خالی نہیں۔ اس کے صاحب ذوق ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ تلاش مقصد میں دیر و حرم کی تمیز اٹھا دی تھی اور جس نیازمندی کے ساتھ مسلمان فقرآ کے آگے سر جھکا تا ویسی ہی عقیدت ہندو درویشوں کے ساتھ رکھتا تھا۔اس اصول سے کون صاحب ذوق انکار کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس عالم میں بھی کفر واسلام کی تفریق باقی رہی تو پھر عامی و بصیر میں کیا فرق باقی رہا؟ پروانہ اگر حرم ہی کا شیدا ہے تو سوزطلبی کامل نہیں۔“

اوپر کے اس اقباس کا آخری جملہ قابل توجہ ہے کہ ”پروانہ اگر حرم ہی کا شیدا ہے تو سوزطلبی کامل نہیں“۔یعنی حرم کے حدود سے آگے نکل کر بھی مشق سوز طلبی اور تلاش و جستجو جاری رکھنی چاہیۓ۔ اس سے پہلے جملے میں یہ بھی لکھا ہے کہ صاحب بصیرت لوگ یعنی بڑے دماغ بھی اگر صرف حرم ہی کے شیدا ہوں تو پھر” عامی اور بصیر میں کیا فرق رہا؟“۔عام آدمی بھی اپنی جہالت کی وجہ سے یہی سمجھتا ہے کہ حق صرف مسلمانوں کے پاس ہے ۔اسکے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔اور اگر ایک صاحب بصیرت انسان بھی یہی موقف رکھتا ہو تو ابوالکلام نے اوپر کے اقتباس میں لکھا کہ ”پھر عامی ا ور بصیر میں کیا فرق رہا؟“۔۔۔۔

مولانا آزا کی سیاسی فکر وجدوجہد جیسا کہ اوپر کہا گیا ان کےاپنے اقوال کے مطابق ان کی دینی فکر کا بالکل عین ہے ۔ معروف ماہر آزادیات قاضی عبدالغفار اپنی کتاب آثارِابوالکلام ( جو 1949میں شائع ہوئی)میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:

”۔۔مولانا(آزاد) کی زندگی بڑی حد تک مذہبی اور انکے افکار بھی لازماََ مذہبی تھے۔اسی طرح مہاتما جی بھی اپنے مذہب کے پر خلوص ترجمان اور اس مذہب کی روحانیت کے بہت بڑے داعی تھے۔جس طرح مولانا نے ,اسی طرح مہاتما جی نے سیاست کو مذہبی روحانیت کی کسوٹی پر رکھ دیاتھا۔دونوں اپنی اپنی جگہ ایک خاص مذہبی حیثیت رکھتے تھے۔لیکن دونوں کی نظر میں مذہب اپنے ”وسیع تر معنی “ میں کوئی اختلافی مسلہء نہ تھا۔۔۔یہ واقعہ بجاۓ خود اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ شخصی مذہب ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اورمشترکہ قومیت کے تصورات میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتا۔“
(آثارِ ابوالکلام ,صفحہ 50-49)

مولانا ابوالکلام آزاد کا موقف ہے کہ اسلام جب برصغیر میں آیا تو ایک مدت تک جمنا اور گنگا کی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے دریا الگ الگ بہتے رہے۔ایک مدت بعد ”فطرت کے قانون کے عین مطابق“ یہ دونوں تہذیبیں یک جاں و دو قالب بن گئیں ۔جس روز اس واقعہ کا ظہور ہوا تھا وہ ”نیۓ ہندوستان“ کے معرضِ وجود میں آنے کا پہلا دن تھا۔وہ مارچ 1940میں لکھتے ہیں:

”ہندوستان کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں، مختلف تہذیبوں، اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے۔ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی۔اور پھر ایک بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کے لیے جگہ نکالی۔ان ہی قافلوں میں آخری قافلہ ہم پیروان اسلام کا بھی تھا۔یہ بھی پچھلے قافلوں کے نشان راہ پر چلتا ہوا یہاں پہنچا۔اور ہمیشہ کے لیے بس گیا۔یہ دنیا کی دو مختلف قوموں اور تہذیبوں کے دھاروں کا ملان تھا۔یہ جمنا اور گنگا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے،لیکن پھر جیسا کہ قدرت کا اٹل قانون ہے،دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا۔ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔جس دن یہ واقعہ ظہور میں آیا،اسی دن سے قدرت کے مخفی ہاتھوں نے،”پرانے ہندستان“ کی جگہ ” نئے ہندستان” کے ڈھالنے کا کام شروع کر دیا۔

(مولانا ابوالکلام آزاد،خطبات آزاد،ص 218،مارچ 1940م)

اپنی مخصوص دینی فکر کی وجہ سے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان سے ابوالکلام کبھی متفق نہ ہوسکے۔

1940 کی دہائی کے آخری سالوں میں مختلف مواقعوں پر اپنے مداح نامور صحافی و ادیب شورش کاشمیری سے گفتگو کرتے ہوۓ ابوالکلام آزاد نے تحریک پاکستان بارے اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا ہے۔یہی باتیں وہ اسی زمانے کی اپنی دیگر تقاریر اور تحریروں میں بھی لکھ چکے ہیں۔ شورش کاشمیری سے گفتگو کرتے ہوۓ ایک بارفرمایا :
”پاکستان ایک سیاسی موقف ہے اس سے قطع نظر کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے کہ نہیں؟ اس کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام نے کہاں اور کب دین کے نام پر جغرافیائی تقسیم کا مطالبہ کیا اور کفر و اسلام کی بستیاں بسائی ہیں۔ کیا یہ تقسیم قرآن میں ہے کہ حدیث میں؟ صحابہ نے کس مرحلے میں اس کی نیو (بنیاد) اُٹھائی؟ فقہائے اسلام میں سے کس نے خدا کی زمین کو کفر و اسلام میں بانٹا؟ اگر اسلام میں کفر و اسلام کے اصول پر زمین کی تقسیم ہوتی تو اسلام ہمہ گیر ہوتا؟ مسلمانوں کی اتنی وسعت ہوتی؟ خود ہندوستان میں اسلام داخل ہوتا اور یہ مسلمان جو آج مسلمان ہونے کی بنا پر پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں ان کے اجداد مسلمان ہوتے؟
جغرافیائی تقسیم صرف لیگ کی اختراع ہے۔ وہ اس کو سیاسی موقف قرار دے تو اس طرح بحث و نظر کا جواز ہو سکتا ہے لیکن قرآناً یا اسلاماً جغرافیائی تقسیم کا جواز کہیں نہیں اور کوئی نہیں۔ مسلمان اسلام کی اشاعت کے لئے ہیں یا سیاست کی اساس پہ کفرواسلام کی جغرافیائی تقسیم کے لئے؟ “۔
شورش کاشمیری نے سوال پوچھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اپنی ملّی شناخت کیسے برقرار رکھ سکیں گے؟۔اس کا جواب دیتے ہوۓ مولانا آزاد نے فرمایا کہ ‘‘ ۔۔۔مسلمانوں کی ملّی انفرادیت سے مراد کیا ہے؟ اگر انگریزوں کے عہد میں وہ ملّی انفرادیت قائم رہی ہے تو آزاد ہندوستان میں جن کے حصے دار مسلمان بھی ہوں گے اس انفرادیت کا ضائع ہوناکیونکر ممکن ہے؟ مسلمان ریاستوں کی وہ کون سی خصوصیتیں ہیں جنہیں آپ یہاں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
اصل چیز دین اور اس کے لوازم ہیں ، انہیں اختیار کرنے اور ان پر چلنے سے کون روک سکتا ہے؟ کیا نو کروڑ مسلمان آزادی کےبعد اس قدر بے بس ہوجائیں گے کہ دین اور اس کے لوازم ان سے چھن جائیں گے ، انگریز ایک عالمی عیسائی طاقت ہونے کے باوجود ان سے اسلام چھین نہیں سکا تو ہندوؤں میں وہ کون سی طاقت، کشش یا سحر ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام سے محروم کردیں گے؟ ۔۔۔
ہندوستان کی گزشتہ بارہ سوسال کی تاریخ پر مسلمانوں کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور اس کامعاشرہ اسلامی نقش و نگار کر مرہون ہے، ہندوستان کے آرٹ،ہندوستان کی موسیقی ، ہندوستان کے تمدن، ہندوستان کی ثقافت، ہندوستان کے فن تعمیر اور ہندوستان کی زبان میں نصف سے زائد حصہ اسلامیات سے فیضیاب ہے، ان کے خزانے عربی، عجمی ، ترکستانی اور ایرانی مسلمانوں کی بود و باس اور رنگ و آہنگ سے لدے پھندے ہیں ۔
آج ہندوستان کے تہذیبی شہر مثلاً لکھنؤ اور دہلی کن محاسن کا مجموعہ ہیں؟ کیامسلمانوں کی تہذیب ان کی روح رواں نہیں؟ مسلمان ہندوستان کو اتنا کچھ دے کر بھی خطرہ محسوس کریں اور انہیں وہم ہوکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے فوراً بعد ہندوؤں کے غلام ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی دُعا کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کو استقامات ایمان عطا ہو، آدمی بد دل ہوتو اس کے دل کو سنبھا لا دیا جاسکتا ہے اور اس میں حرکت کے آثار واپس لائے جاسکتے ہیں لیکن آدمی بزدل ہوتو اس کے دل کو سنبھالا دینا اور اس کے حوصلے کو ثبات کی سمت لوٹا نامشکل ہے، مسلمان اجتماعی طور پر بزدل ہوچکے ہیں۔ وہ خدا سے نہیں ،ڈرتے انسانوں سے ڈرتے ہیں اور اس ڈر ہی سے انہیں اپنا وجود آزاد ہندوستان میں خطروں کا صید محسوس ہوتا ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کیا مسلمانوں کو مٹانے کی ہر بہیمیت کے باوجود مٹا سکے؟ مسلمان جبر سہتے او ربڑھتے گئے ، ہندوستان کی مردم شماری کے مختلف ادوار کا نقشہ ان کے علم میں ہوتو مسلمان شاید محسوس کریں کہ ان کے ذہنی خطرے بے اصل ہیں اور ہر دور میں پھیلتے رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کے معاشرے کا سحر و کشش ہے۔ ہندوستان کے تین طرف اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کو مٹا کر کیونکر پنپ سکتی ہے ۔ کیا نو کروڑ مسلمانوں کو مٹانا آسان ہے؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تہذیب اور ثقافت میں ایک ایسا جادو ہے کہ شاید آئندہ پچاس سال میں ہندوستان کی سب سے بڑی آبادی مسلمان ہو۔ ۔۔۔ ہم نے اپنے اعمال کی تعدیوں سے نا مسلمانوں کو اسلام سے برگشت کیا ہے۔ ہم اگر اسلام کو اپنے اغراض کی سیاہی سے داغدار نہ کرتے تو مضطرب الحال دنیا اسلام کے آغوش میں ہوتی ۔ پاکستان اسلام نہیں ، ایک سیاسی مطالبہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کا مسلم لیگ کے الفاظ میں قومی نصب العین ہے ۔ میرے نزدیک یہ ان مسائل کا حل نہیں جو مسلمانوں کو درپیش ہیں ۔ یہ اور کئی مسئلوں کو جنم دے گا اور جو مسائل موجود ہیں ان کا حل نہ ہوگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘ خدا نے میرے لئے تمام دنیا کو مسجد بنایا’ او رہم کسی حال میں بھی مسجد کی تقسیم کے مجاز نہیں ۔نوکروڑ ہندوستانی مسلمان تمام صوبوں میں اقلیتوں کی طرح منتشر ہوتے تو ان کی یکجائی کے لئے ایک دو صوبوں میں ان کے اکثریتی اتحاد کا مطالبہ کیا جاسکتا تھا، گو یہ مطالبہ بھی اسلامی نہ ہوتا ۔ لیکن مسلمانوں کے عمومی تحفظ کی خاطر کسی حد تک یکسر مختلف ہے۔
ہندوستان کے سرحدی صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان سے ملحق خود مختار اسلامی ریاستیں ہیں ۔ وہ کون سی طاقت ہے جو انہیں مٹا سکتی ہے یا مٹادے گی۔ ہم تقسیم کا مطالبہ کر کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے علاوہ ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں کو خود ہندو راج کے حوالے کر رہے ہیں ۔ وہ مسئلہ جو آج ہندو مسلم آویزش کی شکل میں مسلم لیگ اور کانگریس کا تنازع ہے کل دو ریاستوں کا تنازع ہوجائے گا۔اور یہی تنازع عالمی استعمار کی معرفت کسی دن میں جنگ کاموجب ہوگا ۔۔۔مسلمانوں کو حق حاصل ہے کہ اپنے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کریں ، مثلا ملک کا آئین وفاقی ہو اور صوبوں کو زیادہ سے زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل ہو ، اس طرح ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہتا ، ان کے پاس صوبوں کے لازمی معاملات ہوں گے ۔اس کے علاوہ اختیاری معاملات بھی سنبھال سکتے ہیں اور مرکز کے پاس صرف تحفظاتی امور رکھے جا سکتے ہیں ۔لیکن تقسیم میں مسلمانوں کا تحفظ نہیں ، ایک سایسی آویزش کا غیر سیاسی حل ہے ۔ہندوستان کے آئندہ مسائل فرقہ واری نہیں طبقہ واری ہیں۔آئندہ تصادم مسلمانوں اور ہندووں میں نہیں سرمایہ و محنت میں ہوگا۔کانگرس کے دوش بدوش سوشلزم اور کمیونزم کی تنظیمیں اور تحریکیں پیدا ہو چکی ہیں ۔انہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، مسلمانوں کو جس ہندو سرمایہ سے ڈرایا جارہا ہے ، یہ تحریکیں اور تنظیمیں اس کے خلاف صف آرا ہوں گی ، مسلمان سرمایہ داروں اور مسلمان جاگیرداروں نے ان تحریکوں کے قدرتی نتائج سے خوفزدہ ہوکر اپنے اغراض ومصالح کو اسلام کا رنگ دیا اور معاشی مسئلے کو ہندووں اور مسلمانوں کا مسئلہ بنا دیا ہے لیکن اس کی تنہا ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی ۔انگریزوں نے اپنے ابتدائی دور میں اس مسئلے کو جنم دیا ، پھر سر سید کی تعلیمی جد وجہد کے سیاسی ذہن نے اس کو پروان چڑھایا ، آخر ہندووں کی من حیث الجماعت تنگ دلی اور کوتاہ نظری نے اس مسئلے کو تقسیم کی اس منزل تک پہنچادیا کہ ملک کی آزادی بٹوارے کے یقینی موڑ تک آپہنچی ہے ۔۔۔’’۔
مزید فرمایا:
”آپ اسلام کا نام ایک ایسی چیز کے لئے بول رہے ہیں جو اسلام ہی کی رو سے درست نہیں۔ جنگ جمل میں قرآن نیزے پر لٹکائے گئے وہ درست تھے؟ کربلا میں اہل بیت شہید کئے گئے ان کے قاتل مسلمان تھے۔ کیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حلقہ بگوشی کے دعویدار نہ تھے۔ حجاج مسلمان تھا اس نے بیت اللہ پر پتھرائو کرایا تھا کیا اس کا فعل صحیح تھا؟ کسی بھی مقصد باطل کیلئے کوئی سا کلمہ حق درست نہیں ہوتا۔۔۔
پاکستان مسلمانوں کیلئے سیاستاً درست ہوتا تو میں اس کی حمایت کرتا لیکن خارجی اور داخلی کسی اعتبار سے بھی اس کے مضمرات مسلمانوں کے لیے خوشگوار نہیں، میں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتا۔لیکن میں جو دیکھ رہا ہوں اس سے پھرنا میرے لئے ممکن نہیں لوگ طاقت کی مانتے ہیں یا تجربے کی، جب تک مسلمان پاکستان کے تجربے سے نہیں گزریں گے ان کے لئے پاکستان کے بارے میں کوئی دوسری بات جو اس کی نفی پر ہو، قابل قبول نہ ہو گی ۔وہ آج دن کو رات کہہ سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔۔۔
ہندوستان تقسیم ہوا، جیسا کہ مجھے ورکنگ کمیٹی کے بعض رفقاء کی ذہنی روش سے محسوس ہورہا ہے تو ہندوستان ہی کا بٹوارہ نہ ہوگا، پاکستان بھی بٹے گا۔ تقسیم آبادی کے اعتبار سے ہوگی، ان میں قدرتی حدبندی کیا ہوگی؟ کوئی دریا کوئی پہاڑ، کوئی صحرا؟ کچھ نہیں۔ ایک لکیر کھنچ جائے گی۔ کب تک؟ کچھ کہنا مشکل ہے
لیکن جو چیز نفرت پر ہوگی وہ نفرت پر قائم رہے گی اور نفرت ان کے مابین ایک مستقل خطرہ ہوگی، اس صورت میں کسی بڑی تبدیلی، تغیر یا کاٹ کے بغیر پاکستان اور ہندوستان کبھی دوست نہ ہوں گے۔ دونوں کے دل میں تقسیم کی فصیل ہوگی۔ تو سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو سنبھالنا پاکستان کے لئے مشکل ہے کہ اس کی زمین اس کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی لیکن مغربی پاکستان میں ہندوئوں کا ٹھہرنا ممکن نہ ہوگا وہ نکالے جائیں گے یا خود چلے جائیں گے، ان دونوں صورتوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی نگاہ پاکستان پر ہوگی پھر اس حالت میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے تین راستے ہوں گے۔
1۔وہ لٹ لٹا یا پٹ پٹا کر پاکستان چلے جائیں لیکن پاکستان کتنے مسلمانوں کو جگہ دے گا
۔2۔ وہ ہندوستان میں اکثریت کے بلوائی ہاتھوں سے قتل ہوتے رہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایک طویل مدّت تک قہر و غضب کی قتل گاہ سے گزرے گی تاآنکہ تقسیمی تلخیوں کی وارث پود عمر طبعی گزار کر ختم ہوجائے۔
3۔ مسلمانوں کی ایک تعداد ابتری، سیاسی درماندگی اور علاقائی غارت گری کا شکار ہو، وہ اسلام چھوڑ کر مُرتد ہوجائے۔
وہ مسلمان جو لیگ کے حلقوں میں نمایاں ہیں پاکستان چلے جائیں گے۔ وہاں معاشی مسلمان صنعت و تجارت کو ہاتھ میں لے کر پاکستان کی معاشیات کے اجارہ دار ہوجائیں گے لیکن ہندوستان میں تین کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہ جائیں گے، لیگ کے پاس ان کے مستقبل کی ضمانت کیا ہے؟ کیا محض کاغذی معاہدہ ان کے لئے کافی ہوگا؟ ان کے لئے وہ حالت تو اور خطرناک ہو گی جو ہندوئوں اور سکھوں کے مغربی پاکستان سے نکل آنے کے بعد ہندوستان میں پیدا ہوگی۔ پاکستان کئی ابتلائوں کا شکار ہوگا۔ سب سے بڑا خطرہ جو محسوس ہوتا ہے وہ اندرخانہ عالمی طاقتوں کا اس پر کنٹرول ہوگا اور ہمہ قسم تغیرات کے ساتھ اس کنٹرول میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہندوستان کا بھی اس سے اتفاق ہوگا کیونکہ وہ پاکستان کو اپنے لئے خطرہ گردان کر عالمی طاقتوں سے سیاسی جوڑتوڑ کرے گا لیکن پاکستان کا خطرہ شدید اور نقصان عظیم ہوگا۔“
شورش کاشمیری سے اسی سلسلہء گفتگو میں مولانا آزاد نے مزید فرمایا:

”ابھی تک مسٹر جناح نے شاید اس پر غور نہیں کیا کہ بنگال اپنے سے باہر کی لیڈر شپ کو کسی نہ کسی مرحلے میں مسترد کردیتا ہے۔۔۔بنگال کی آب ہوا کا خاصہ ہے کہ وہ بیرونی لیڈر شپ سے گریز کرتا اور اپنی لَے پر قائل رہتا ہے اور جب اس کے حقوق و مفادات مجروح ہوں تو بہر نوعی بغاوت کے لئے تیار ہوتا ہے ۔
مسٹر جناح یالیاقت علی تک تو مشرقی پاکستان کا اطمینان ڈانو اڈول نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تازگی ان کے اتحاد کا باعث ہوگی لیکن ان کے بعد مشرقی پاکستان میں اس قسم کے آثار کا پھوٹنا یقینی ہے جو مغربی پاکستان سے اس کے بد ظنی اور آخر کار علیحدگی کا موجب ہوں گے مجھے شبہ ہے کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیر مغربی پاکستان کے ساتھ رہ سکے گا؟ دونوں حصوں میں مسلمان کہلانے کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں لیکن مسلمان کہلانا کبھی مسلمان ریاستوں کے دائمی اتحاد کا باعث نہیں ہوا۔“

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں