Home » عاشقانہ ٹرپ کے استعارے
زبان وادب شخصیات وافکار

عاشقانہ ٹرپ کے استعارے

تحریر : جناب جلیل عالی صاحب

ناقل : ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب

ہماری شعری روایت میں عشق و جنوں اور وحشت و فغاں کی معنویت
جیسے ہر علم کی اصطلاحات و تعقلات کے اپنے مخصوص معنی ہوتے ہیں اسی طرح ہماری ادبی روایت میں وحشت ،جنوں اور دیوانگی کے الفاظ اپنے خاص شعری مفاہیم رکھتے ہیں۔ یہ سب محبوب (نصب العین) اور اپنے آئیڈیل کے لیے تمام مصلحتوں سے بالا عاشقانہ تڑپ کے استعارے ہیں جو انسانیت کا نہایت قیمتی جوہر ہے۔کچھ مماثلتوں کے باوجود اسے کسی طور بھی ذہنی خلل سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے شراب کے نشے کو عاشقانہ سر مستی سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ میر کا شعر ہے
مستانِ عشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق
مے خوارگی کچھ اور ہے یہ نشہ تھا کچھ اور
یوں ہماری شعری روایت کے مطابق جو شے عشق و جنوں اور وحشت و دیوانگی کہلاتی ہے وہ انسانی وجود میں حسن و خیر کے پیدائشی داعیے کے متحرک ہونے اور اس کے مقابل گردو پیش کی بد ہیئتی سے پیدا ہونے والے عدم اطمینان اور کرب و اضطراب سے عبارت ہے۔اسی جدلیاتی احوال سے انسان کے صعودی تہذیبی سفر کا عملیہ آغاز ہوتا ہے ۔یہ داعیہ کسی خاص مذہب سے مشروط نہیں آفاقی حقیقت ہے۔ جو تمام فلاحی تحریکوں کا وجودی محرک ہوتا ہے۔
بے شک کسی شاعر کی شعری واردات مربوط منطقی بیانیہ نہیں ہوتا۔مگر بڑی شعری واردات منطقی و عقلی بیانیوں سے کہیں آگے ایک معجزاتی لہر کی صورت پورے انسانی وجود کو تحریکتی رہتی ہے۔ بے شک ساری شعری وارداتیں بھی یکساں کثیرالجہت اور مربوط مرکزے کی حامل نہیں ہوتیں۔تاہم شاید ہی کسی شاعر کی شعری واردات حسن و خیر کے داعیے کی نمایاں عمل آرائی سے خالی ہو۔ اسی لیے فلسفیانہ اور فکری و نظریاتی متن اپنی عمر پوری کر کے نسیاً منسیا ہو جاتے ہیں۔مگر تخلیقی شعری متن ہر زمانے میں وجودی تحرک پیدا کرتا رہتا ہے۔حسن و خیر کا یہ جوہر ہی خود شاعر کی اپنی نگاہ میں اس کی عزت بڑھاتا اور اس کو مسندِ انسانیت پر بٹھاتا ہے۔
میر کا یہ شعر انسان کی اسی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
اس سیاق میں شعرا کے ہاں وجودی حرکیات کے ناتے تین طرح کے ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔
1-شاعر کے احساسِ حسن و خیر سے متصادم گرد و پیش سے پیدا ہونے والا عدم اطمینان جو وجودی درد و کرب کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے۔
مثالِ سایا محبت میں جال اپنا ہوں
تمہارے ساتھ گرفتارِ حال اپنا ہوں
(میر)
2-احساسِ حسن و خیر سے گہری وابستگی اور اس سے محبوب کے درجے پر والہانہ محبت کا اظہار۔ اور ہجر کی علامت اسی کے فراق کے حزن و اضطراب کی عکاسی کرتی ہے۔
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم
(میر)
میں پھاڑ گریباں کو درویش ہوا آخر
وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں
(میر )
غالب نے تو گریباں چاک کرنے کو دنیاوی حد بندیاں توڑنے اور حقیقتِ ازلی و ابدی کے قریب تر ہوتے چلے جانے کی معنوی جہت عطا کر دی ہے۔
یک الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا تھا میں جب سے کہ گریباں، سمجھا
3- اپنے عشق و جنون پر اظہارِ تفاخر جس میں اس منصب کی سختیوں کا ذکر بھی شامل ہوتا یے۔اور کبھی کبھی نا آسودگی اور برہمی کی پرچھائیاں بھی جھلک جاتی ہیں۔ اس لیےکسی بھی شاعر کی شعری واردات کی تفہیم کے لیے اس کے ہم آہنگ تخلیقی مرکزے تک رسائی ضروری ہے۔حاشیائی رویوں اور کیفیتوں سے رجوع لانا مناسب نہیں ہوتا۔
قیس و فرہاد پر نہیں موقوف
عشق لاتا ہے مردِ کار ہنوز
(میر)
آ گیا عشق میں جو پیش نشیب اور فراز
ہو کے میں خاک برابر اسے ہموار کیا
(میر)
اگرچہ واردات عشق و جنوں اور وحشت و دیوانگی کسی عقلی منصوبے کا نتیجہ نہیں وجودی گہرائیوں کا بے ساختہ جوہری ابھار ہے۔ایک عطا ہے،جسے عاشق و دیوانہ اپنے لیے اعزاز گردانتا ہے۔ مزید یہ کہ ایسی دیوانگی عقل کی حتمی نفی نہیں کرتی، اسے محدود اور ناکافی صلاحیت سمجھتی ہے۔گویا عشق و عقل کے درمیان تضاد نہیں استعداد کا فرق ہے۔
گو عقل و عشق کے مقام و مرتبے کے حوالے سے شاعر یہ کہتا ہے کہ
شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخلِ عقل اس مقام میں کیا ہے
(میر)
مگر عقلی اہلیت سے کام لینے کی حکمت ترک نہیں کرتا۔میر نے اس پیرا ڈاکسیکل عمل کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔
خوش ہیں دیوانگیِ میر سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
سر زد اس سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام ہوا
(میر)
اور اقبال نے اپنے انداز میں اس کی مزید وضاحت یوں کی ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
یوں شعری روایت میں عشق و جنوں اور وحشت و دیوانگی کوئی لاعقلی و مجہول شے نہیں ایک برتر درجے کی وجودی حالت و بصیرت کی علامت ہے۔
بد ہیئت و بے توازن موجود کو جہانِ مقصود و مطلوب میں بدلنے کی اس تڑپ کو نا مطلوب موجود کے خلاف مزاحمت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔اور مزاحمت بے چہرہ نہیں ہوتی۔واضح شناخت رکھتی ہے۔اردو غزل کا دیوانہ، سودائی یا وحشت آشنا کردار تو ایک آدرش کا مکلف کردار ہے جو دنیاوی مفادات سے اوپر اٹھ کر گرد و پیش کی بد ہیئتی کو جمالیاتی نواح میں بدلنے کا جنون رکھتا ہے۔یوں وہ اپنی کرداری شناخت کے ساتھ ساتھ ایک برتر درو بست کی شناخت کے خد و خال بھی اجاگر کرتا ہے۔ مگر ما بعد جدیدیت کے فریفتہ نقاد جب شناخت کو فسطائیت کا شاخسانہ قرار دینے پہ مصر ہوں تو مزاحمت کا کیا امکان باقی رہ جاتا ہے۔
عشق و جنوں کے مذکورہ تصور کے پس منظر میں آہ و نالہ اور گریہ و فغاں شاعر کی شعری واردات کی جملہ جہتوں کے اظہار کا نام ہے۔میر کے بہت سے اشعار اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بلبل قفس میں اس لب و لہجے پہ یہ فغاں
آواز ایک ہو رہی ہے گلستاں تلک
(میر)
اقبال نے اسی حوالے سے اپنی منفرد فغاں کے وسیع دائرۂ اثر کا ذکر کیا ہے
اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری
اور فیض نے اپنی شعری واردات کی اسی اثر آفرینی پر تفاخر کا یوں اظہار کیا ہے۔
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
اقبال نے تو ہماری شعری روایت کی آہ و فغاں کے اس تصور کو اپنی انقلابی فکر میں اور بھی گہری اور ولولہ خیزی معنویت سے لبریز کر دیا ہے۔وہ تو اس دنیا کا مقصد ہی انسان کے اس عظیم جوہر حسن و خیر کی نشو و نما کو قرار دیتا ہے۔
مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیرِ گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے
وہ اپنے پسندیدہ صاحبانِ آدرش کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے انہیں پیغام دیتا ہے کہ اعلٰی آدرش کی خاطر سر گرمِ عمل رہنے کا ایک راستہ بند ہو جائے تو نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی بہت سے دوسرے راستے موجود ہوتے ہیں۔
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
یہ وہی آہ و فغاں ہے جسے اقبال متاعِ درد و سوز و آرزو مندی قرار دیتا ہے اور شانِ خداوندی کے عوض بھی اس سے دست بردار ہونے پر راضی نہیں ہوتا۔
متاعِ بے بہا ہے درد و سوز و آرزو مندی
مقامِ ندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
اب اگر کوئی آہ و فغاں کے لُغوی معانی سے اوپر اٹھ پانے سے معذور ہو تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔

ادریس احمد آزاد

ادریس آزاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور متعدد دیگر تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور سائنس کے شعبوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔
idrisazad@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں