متکلمین کے مطابق چونکہ نبی کے دعوی نبوت پر صداقت کا اعتبار دلیل عقلی سے ثابت ہوتا ہے (جس کی بنیاد دلیل حدوث ہے)، لہذا نقل ان معاملات میں عقل کی تردید نہیں کرسکتی جسے بنیاد بنا کر نبی کی تصدیق ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ عقلی دلیل ہی ساقط الاعتبار ہے تو نقل کا اعتبار بھی ساقط ہوجائے گا۔ اس اصول کی بنا پر ذات باری کی صفات خبریہ یا متشابھات (مثلاً اس کا نزول، ید، عین وغیرہ) کے معاملے میں اہل سنت (جیسے کہ اشاعرہ و ماتریدیہ) “تفویض معنی” کے قائل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ظاھری معنی قطعاٍ مراد نہیں کیونکہ وہ جسمیت و حدوث پر دال ہیں اور دلیل حدوث سے ثابت ہے کہ ذات باری حدوث سے ماوراء ہے، البتہ ان الفاظ کے حقیقی معنی عند اللہ یقیناً ثابت ہیں اگرچہ ہمیں ان کا ادراک نہیں۔ نقل ان امور میں عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی، امام غزالی اسے “قانون کلی” کہتے ہیں اور امام رازی بھی اسے جابجا صفات وغیرہ کی بحث میں بیان کرتے ہیں۔ شیخ ابن تیمیہ نے کتاب “درء تعارض بین العقل و النقل” میں اس قانون کلی پر نقد کو خصوصیت کے ساتھ موضوع بناتے ہوئے امام غزالی و امام رازی پر نقد کیا ہے۔ اس مسئلے پر ہم پہلے بھی لکھتے رہے ہیں، یہاں ان باتوں کا اعادہ مقصود نہیں۔ یہاں ہم وہ مثال سامنے لانا چاھتے ہیں جو امام غزالی نے اس معاملے کو سمجھانے کے لئے دی اور جو شیخ ابن تیمیہ نے جواب میں اپنے مدعا میں دی۔
عقل و نقل کے تعلق پر امام غزالی کی مثال اور شیخ ابن تیمیہ کی جوابی مثال: کیا جواب ہوسکا؟
امام غزالی نے یہ قانون کلی اپنے ایک مختصر رسالے میں بیان کیا ہے جو امور متشابھات سے متعلق ان کے ایک شاگرد کے خط کا جواب ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ جس نے عقل کو جھٹلایا اس نے شرع کو جھٹلایا اس لئے کہ عقل ہی کے ذریعے شرع کا صدق متحقق ہوتا ہے، اگر دلیل عقلی سچ کی جانب راھنما نہ ہو تو ہم سچے و جھوٹے مدعی نبوت میں فرق نہ کرسکیں گے۔ اس ضمن میں آپ کی مثال یہ ہے کہ بھلا جھوٹے مزکی کی بنیاد پر کسی گواہ کے صدق کا تعین کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ شریعت اگر شاھد کی طرح ہے تو عقل مزکی کی طرح ہے۔ مثال کا مطلب یہ ہے کہ گواہ کی گواہی کا اعتبار اس دلیل کی صحت پر منحصر ہے جو اس گواہ کی سچائی ثابت کرنے والی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ مزکی (یعنی وہ پیمانہ جس سے گواہ کا سچا ہونا ثابت ہو) تو غلط و کاذب ہو لیکن اس مزکی کے اعتبار پر جس گواہ کا اعتبار منحصر ہے وہ گواہ سچا ثابت ہوجائے۔
شیخ ابن تیمیہ اس پورے استدلال اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج سے واقف ہیں اور وہ اس مسئلے پر “تفویض معنی” کے بجائے “تفویض کیف” کے موقف کے دلائل لاتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ صفات خبریہ کے الفاظ کے حقیقی معنی تو ہمیں معلوم ہیں البتہ ان معنی سے متعلق کیفیت معلوم نہیں ہے۔ متکلمین کے موقف کو گرانے کے لئے آپ یہ جوابی مثال لاتے ہیں کہ فرض کریں زید کو ایک مسئلہ درپیش ہے جس کا جواب اسے معلوم نہیں۔ اس کی ملاقات راشد سے ہوئی جو اس کی نظر میں قابل اعتبار ہے، زید نے اس سے مسئلہ پوچھا تو راشد نے کہا کہ میں اس کا جواب نہیں جانتا البتہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے جواب معلوم ہے، تم اس کے پاس جاکر جواب پوچھ لو۔ زید اس تیسرے شخص کے پاس جا کر سوال کا جواب پوچھتا ہے۔ واپسی پر زید کی ملاقات پھر راشد سے ہوئی تو راشد نے زید سے پوچھا کہ سوال کا کیا جواب ملا؟ جب زید نے جواب بتایا تو راشد نے کہا کہ یہ جواب غلط ہے، درست جواب یوں نہیں ووں ہونا چاھئے۔ یہ کہہ کر راشد خود اپنے آپ ہی کو جھٹلا رہا ہے کیونکہ خود اس ہی نے اس تیسرے شخص کو ماھر مان کر اس کی جانب راھنمائی کی تھی۔ اب راشد اس شخص کے جواب کو غلط کہہ کر خود کو غلط کہہ رہا ہے۔ اس مثال میں تیسرا شخص نبی ہے، راشد عقل ہے اور زید عامی ہے جسے مسئلہ درپیش ہے۔ چنانچہ جب عقل (یعنی مزکی) نے نبی (گواہ) تک پہنچا دیا تو اب وہ نبی کے جواب کی تکذیب نہیں کرسکتی کیونکہ ایسا کرکے وہ خود اپنی نفی کرتی ہے۔ پس عقل جب نقل کی تردید کرتی ہے تو خود اپنی تردید کرتی ہے، یعنی عقل کی جانب سے نقل کی تردید خود عقل کی تردید ہے۔ شیخ کی مثال کا حاصل مقصد یہ کہنا ہے کہ متکلمین جب نصوص میں مذکور صفات خبریہ کی یہ کہہ کر تفویض کرتے ہیں کہ ان کے ظاھری معنی دلیل عقلی (یعنی دلیل حدوث) کے خلاف ہیں لہذا ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوسکتے، تو دراصل وہ راشد کی طرح خود اپنے ہی دعوے کی تردید کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق عقل نبی کی جانب راھنمائی کرتی ہے۔
یہ جوابی مثال نہ قابل اطمینان ہے اور نہ ہی متکلمین کے اصل مدعے کو ایڈریس کرتی ہے۔ امام غزالی کے موقف کی رو سے اس پر تبصرہ یوں ہوگا کہ وہ تیسرا شخص اگر یہ کہے کہ راشد جھوٹا ہے یا سچ کی جانب راھنمائی میں اس کا کوئی اعتبار نہیں یا وہ میرے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں یا جو لفظ اس نے بولا تھا وہ مھمل ہے یا کسی کا صادق ہونا و نہ ہونا دونوں ہم معنی باتیں ہیں جن کا جمع ممکن ہے وغیرہ، تو کیا پھر اس تیسرے آدمی کا اعتبار زید کے لئے قائم رہے گا؟ بالکل نہیں۔ پس اگر زید واپسی پر راشد کو یہ کہے کہ اس تیسرے شخص نے یہ کہا کہ راشد جھوٹا ہے تو راشد کہے گا کہ وہ تیسرا شخص ایسا نہیں کہہ سکتا، اس کے الفاظ کچھ اور ہوں گے اور تم ٹھیک سے سن نہیں سکے، یا تمہیں اس کی بات سمجھنے میں غلطی لگی ہوگی، یا اس کی بات کا مطلب فلاں ہے یا اس کی بات کا مطلب کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں سکتے اور اس لئے ہم اس کے ظاھری معنی کو چھوڑ کر اس کی بات کی حقیقت کو اس کی جانب پھیر دیتے ہیں وغیرہ، تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ مجھے جھوٹا نہیں کہہ سکتا کیونکہ اگر میں ہی جھوٹا یا ناقابل اعتبار ہوں تو تم خود سوچو اس کا صدق تمہارے حق میں کیسے معتبر ہوا جو کہ میرے صدق پر منحصر ہے؟ غور کیجئے کہ اس ساری صورت حال میں راشد تیسرے شخص کی تردید نہیں کررہا۔ پس یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر دلیل عقلی ہی کا اعتبار نہیں تو جس دلیل عقلی پر زید کے لئے نبی و شرع کا اعتبار منحصر ہے، شرع کی جانب سے عقل کی تکذیب کرنے کے بعد زید کے حق میں شرع کا وہ اعتبار کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب نص کے ظاھر میں کوئی ایسی بات آجائے جو دلیل حدوث کے لازمی تقاضوں کے خلاف ہو (جیسے خدا کے لئے مقدار، وزن، حرکت، جسمیت وغیرہ کے اوصاف ثابت ہونا) تو یہی کہا جائے گا کہ اگر یہ الفاظ درست سند سے ثابت ہوں تو ان کے معنی کی تفویض ہوگی نہ کہ دلیل حدوث ہی کو رد کرکے اس مفروضے پر ان کے ظاھری معنی مراد لے لئے جائیں گے کہ ‘دلیل عقلی کا تو کوئی اعتبار ہی نہیں’۔ ایسا کرنا اس تیسرے شخص کے اعتبار کو ساقط کردینا ہے اور اسے ہی امام غزالی یوں بیان کرتے ہیں کہ عقل کی تکذیب نقل کی تکذیب ہے۔ چنانچہ شیخ ابن تیمیہ کی یہ مثال امام غزالی کے مدعا کا جواب نہیں دیتی۔
کمنت کیجے