نظریہ ارتقا کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ عالم میں حوادث کے مابین علت و معلول کا ربط متعین و خطی (linear) نہیں بلکہ غیر متعین و غیر خطی ( random or non linear) نوعیت کا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا کیا جاتا ہے کہ اگر علت و معلول کا یہ ربط و سلسلہ غیر متعین ہے تو پھر اس کے آخری سرے پر واقع ایک ایسے واجب الوجود کا جواز کیسے ثابت ہوسکتا ہے جو متعین ہو؟
اس سوال کا جواب دو فریم ورکس کی رو سے الگ ہے۔ علت و معلول کا ایک نظریہ وہ ہے جو ارسطو، مسلم فلاسفہ اور سینٹ اکواناس وغیرہ کے مابین مشترک ہے جن کے مطابق علت کا معنی موجب (necessitating) ہونا ہے نیز جس کی رو سے علت معلول کی موجد نہیں ہوتی بلکہ اس کے ہونے کا جواز یا گراؤنڈ ہوتی ہے۔ ایسا اس لئے کہ علت کا مطلب اگر موجب ہو تو علت و معلول ساتھ پائے جاتے ہیں، تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علت نے معلول کو عدم سے وجود دیا۔ اس نظرئیے کے مطابق ممکن الوجود میں جو تاثیرات (potentialities) پائی جاتی ہیں (اور جنہیں ثانوی علل کا سلسلہ یا chain کہتے ہیں) ان کا جواز واجب الوجود سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ رینڈم سیلیکشن اس نظرئیے پر یوں سوال اٹھاتی ہے کہ اگر ثانوی علتوں کا سلسلہ غیر متعین ہے تو اسے پیچھے چلا کر واجب الوجود کا جواز کیسے نکل سکتا ہے، کیونکہ یہ استدلال تبھی درست ہوسکتا ہے جبکہ علت و معلول کا نظام متعین طور پر سیدھا (linearly) چلتا ہو جبکہ ارتقا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ غیر خطی یا non linear ہے؟ جو حضرات علت و معلول کے درج بالا تصور پر یقین رکھتے ہیں ان کی جانب سے اس سوال کا جواب یوں ہے کہ ثانوی علت و معلول کا نظام معین ہو یا غیر خطی، ہر دو ممکن یعنی contingent ہونے کی بنا پر اپنے “ہونے کے جواز میں” واجب الوجود کا محتاج ہے کیونکہ رینڈم پراسس بھی کسی نہ کسی ایسے فریم ورک کا محتاج ہے جس میں پراببلیٹیز پائی جاتی ہیں۔ پس ثانوی علت و معلول میں رینڈم پراسس اس وجودی جواز کا انکار نہیں کرسکتا کیونکہ کسی پراسس کا رینڈم ہونا اس کے ممکن الوجود ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ مزید یہ کہ رینڈم پراسس بھی خاص قسم کی شماریاتی تقسیمات (statistical distributions) کے اندر ظاہر ہوتا ہے اور اس اعتبار سے یہ بھی ایک معین نظام سے باہر نہیں ہوتا بلکہ اسے مفروضے کے طور پر قبول کرتا ہے۔
رینڈم پراسس کے اس اعتراض کا جائزہ اگر متکلمین (بالخصوص اشاعرہ و ماتریدیہ نیز معتزلہ کے ایک گروہ) کے نظام فکر سے لیا جائے تو اس میں کچھ بھی وزن نہیں کیونکہ اس اعتراض کی اٹھان علت بمعنی موجب اور اشیا میں تاثیرات کے تصور پر قائم ہے جبکہ متکلمین کے مطابق علت کا مطلب مختار ہونا ہے نیز اشیا میں ایسی کوئی ذاتی تاثیر نہیں پائی جاتی کہ وہ ایک دوسرے پر مؤثر ہوکر انہیں لازم کرنے والی ہوں کیونکہ یہ سب حادث ہیں اور ذات باری سب حوادث (یعنی جواھر و اعراض) پر براہ راست مؤثر ہے (یعنی انہیں ایجاد و خلق کرتی ہے)۔ پس ان حوادث کے مابین ظاہر ہونے والا ربط متعین و خطی ہو یا تخمینی و غیر خطی، ہر دو صورت متعلقہ ربط کو ظاہر کرنے والی اشیا حادث ہی ہیں اور اس لئے محدث کی محتاج ہیں۔ چنانچہ اگر حوادث کا ظہور ہمیں بے ربط بھی معلوم ہو تو یہ اس بات کی دلیل کیسے ہوگئی کہ وہ عدم سے بدون محدث ظاہر ہوسکتے ہیں نیز وہ بھی کسی خاص طرح (چاھے ان میں کوئی خاص ترتیب ہو یا نہ ہو)؟ بے ربط حوادث کا ظہور بھی مختار کے ارادے کے تحت ہی ہے اور یہ بے ربطگی صرف یہ بتا سکتی ہے کہ مختار نے اسے یوں ظاہر کیا نہ کہ مثلا ووں۔ آسان مثال یوں ہے کہ اگر لوڈو کا چھکا (dice) گرنے پر کبھی ایک عدد والا حصہ اوپر آئے اور کبھی پانچ والا تو یہ اس بات کی دلیل کیسے ہوگئی کہ یہ چھکا از خود گررہا ہے نیز ایک یا پانچ کے اوپر آنے کے لئے سرے سے کوئی وجہ ترجیح نہیں؟ حوادث کے مابین بے ربطگی اس بات کی قعطا کوئی دلیل نہیں کہ حادث بغیر محدث کے ہوسکتا ہے۔ الغرض متکلمین کے تصور علت کی رو سے وجود باری کے ثبوت کی بحث میں یہ بات بالکل غیر متعلق ہے کہ حوادث کے مابین ربط متعین ہے یا نہیں کیونکہ وجود باری کی دلیل ان حوادث کے مابین تاثیریت کے کسی خاص ربط پر نہیں بلکہ ان کے حادث ہونے پر منحصر ہے۔ اسی طرح وجود باری کی دلیل کا اس نکتے سے بھی کوئی تعلق نہیں کہ عالم کی تخلیق کی کیفیت کیا ہے، یعنی یہ یکبار پیدا ہوئی یا آھستہ آھستہ کرکے تھوڑی تھوڑی۔
انسانی علم کی قلت کا مظہر یا کسی بالا اصول کی نفی کا؟
نظریہ ارتقا میں فیشن ابیل “رینڈم سیلیکشن” کے اصول پر اس جہت سے بات ہوچکی کہ اس کی بنیاد پر وجود باری کی دلیل پر کوئی فرق نہیں پڑتا نیز متکلمین کی دلیل کی رو سے یہ معاملہ بالکل غیر متعلق ہے کہ حوادث کی ترتیب متعین ہے یا رینڈم۔ یہاں ہم رینڈم سیلیکشن کے تصور کو اس جہت سے بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ اس بات پر بھی دلیل نہیں بن سکتا کہ عالم میں جاری حوادث کسی محکم اصول پر مبنی نہیں کیونکہ بہت آسانی کے ساتھ اور قرین از قیاس طور پر اسے انسانی علم کی قلت کا مظہر کہا جاسکتا ہے۔ پہلے میں چند ایسی مثالیں پیش کرتا ہوں جہاں کسی واقعے کے رونما ہونے کی تفصیل کا متعین طور پر طے کرنا ہمارے لئے نہایت مشکل ہے نیز ہمارے علم کے اعتبار سے یہ امور رینڈم معلوم ہوتے ہیں اور انسان صدیوں سے انہیں یونہی رینڈم معاملات کے طور پر دیکھتے آئے ہیں:
1۔ درختوں سے گرنے والے پتوں کے بارے میں یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ کس درخت کا کونسا پتا کب گرجائے گا
2۔ بارش کا کونسا قطرہ متعین طور پر زمین کے کس مقام پر گرے گا، اس کا علم ممکن نہیں
3۔ سکہ اچھالنے پر اس کا کونسا رخ اوپر اور کونسا نیچے ہوگا اس کا تعین ممکن نہیں
4۔ دھواں اڑنے پر اس کا کونسا ذرہ متعین طور پر کس جانب جائے گا یہ طے کرنا ممکن نہیں
5۔ لوڈو کا چھکا گرانے پر کونسی جانب اوپر آئے گی اس کا تعین ممکن نہیں
6۔ کثیر نمبروں کی لاٹری میں سے کونسا نمبر برآمد ہوگا، اس کا تعین ممکن نہیں
7۔ بادلوں کی رگڑ سے چمکنے والی بجلی کے مقام و مقدر کا تعین ممکن نہیں
8۔ ہوا چلنے پر ریت کا کونسا ذرہ کس کس مقام پر گرے گا، اس کا تعین ممکن نہیں
9۔ کسی سوڈا کے گلاس میں ابھرنے والے ببلز کی مقدار و سائز کا تعین ممکن نہیں
10۔ برف باری میں برف کے مختلف ذرات سے بننے والی مختلف صورتوں کا تعین ممکن نہیں کہ کہاں کونسی صورت بنے گی
11۔ بادلوں سے بننے والی صورتوں و پیٹرن کا تعین ممکن نہیں
12۔ پرندوں کے جھنڈ کی اڑان کا کسی خاص پیٹرن یا جہت کا تعین ممکن نہیں
ان مثالوں میں جس چیز کو ہم رینڈمنس کہتے ہیں وہ دراصل ہمارے علم و صلاحیت کی قلت پر دال ہے کہ یا (الف) ہم ان سب عناصر سے ناواقف ہیں جن سے متعلقہ امور ہورہے ہیں، یا (ب) اگر عمومی طور پر جانتے ہیں تو یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ معمولی سی بھی غلطی سے پاک حساب کتاب کرکے یہ بتا سکیں کہ کون سی شے کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور (ج) اگر حساب کتاب کرلیں تو متعلقہ امور کو اس حساب کتاب کے مطابق جوڑ یا مربوط نہیں کرسکتے۔
سوال یہ ہے کہ یہ مثالیں کیا اس بات کی کوئی دلیل ہیں کہ چیزوں میں سرے سے کوئی بالا (higher order) نظم یا محکم اصول جاری نہیں؟ آخر یہ کیوں نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ سب صورتیں دراصل ہمارے علم و صلاحیت کی قلت کا مظہر ہیں؟ کسی دور میں بارش برسنے کے اوقات کو رینڈم سمجھا جاتا تھا لیکن پچھلے کچھ عرصے میں انسانی علم میں بہتری کے ساتھ بارش برسنے کے اوقات میں رینڈمنس ماننے کا رجحان کیا پہلے سے کم ہوا یا نہیں؟ اسی طرح ہمیں نہیں معلوم کہ آخر نظریہ ارتقا والوں کی جانب سے کہی جانے والی اس بات میں ایسا کونسا انوکھا پن ہے جو اسے درج بالا مثالوں سے مختلف ثابت کرتا ہو۔ آخر یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ جسے تم رینڈمنس کہہ رہے ہو یہ تمہارے “فی الحال” علم کی قلت کی بنا پر ہے اور چونکہ نظم پر ہمارے سامنے اتنے سارے شواھد موجود ہیں کہ اس ایک بات سے ان شواھد پر مبنی بات رد کرنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا نیز یہ کہ بعض امور کا وقوع اتنا پیچیدہ ہے کہ ہمارے لئے انہیں پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں۔
الغرض رینڈم سیلیکشن سے کائنات میں جاری کسی بالاتر اصول و نظم کی نفی کرنا نظریہ ارتقا والوں کی محض ایک ایکسائٹمنٹ معلوم ہوتی ہے حالانکہ اس سے ملتی جلتی درجنوں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔
کمنت کیجے