Home » ہیوم اور کانٹ کا فلسفہ علیت اور ڈاکٹر زاہد مغل
شخصیات وافکار فلسفہ

ہیوم اور کانٹ کا فلسفہ علیت اور ڈاکٹر زاہد مغل

عمران شاہد بھنڈر

ہیوم اور کانٹ کے فلسفہ علیت کے متعلق ایک تحریر نظر سے گزری ہے۔ جس پر لکھنا ضروری سمجھا۔ ملاحظہ ہو۔
مولانا زاہد صاحب نے پہلی بار کانٹ کے فلسفے کے چند پہلوؤں کی صحیح عکاسی کی ہے۔ کانٹ کے فلسفے میں “علیت” کا مقولہ ہیوم کے فلسفے میں علت اور معلول کے درمیان لزوم کے تجربے میں نہ ظاہر ہونے سے تشکیل پاتا ہے۔ کانٹ کے فلسفے میں علت اور معلول ایک موضوعی مقولہ ہے جو عقل کے برعکس فہم سے تعلق رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ جدید فلسفے میں کانٹ وہ پہلا فلسفی ہے جس نے عقل کی صلاحیت کو فہم کی صلاحیت سے اس کے تفاعل کی بنیاد پر الگ کیا ہے۔ لہذا کانٹ کے فلسفے کی کسی بھی جہت کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس فرق کا ملحوظِ خاطر رہنا از حد ضروری ہے۔
مقولات وہ تصورات ہیں جو مظاہر کے لیے قوانین مقرر کرتے ہیں۔ یہاں کانٹ خود ہی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ان کی پابندی کرنا کیوں لازم ہے جب کہ وہ مقولات تجربے سے ماخوذ نہیں ہیں؟ اب یہاں دو صورتیں نکلتی ہیں، جن کی وضاحت خود کانٹ ہی کر دیتا ہے، اور زاہد مغل صاحب نے ان کی درست نشاندہی کی ہے۔ ایک یہ کہ ان مقولات کو ہمارے تجربے کا پابند ہونا چاہیے، دوسری یہ کہ مظاہر کو ہماری بدیہی تصورات کے تابع ہونا چاہیے۔ چونکہ مظاہر ہماری داخلی حس کے تعینات جنہیں زمان و مکاں کی خالص صورتیں کہا جاتا ہے ان کے پابند ہیں، اور ہماری داخلی اور خارجی حس کے درمیان نسبت بھی بدیہی طور پر متعین ہے، اس لیے حسی ادراکات جو کہ پہلے ہی سے بدیہی طور پر متعین ہیں، انہیں مقولات کا پابند ہونا چاہیے۔ اگر حسی مشاہدے میں بدیہی شرائط کو ہٹا کر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں بلاواسطہ ”شے حقیقی“ کا ادراک ہوتا ہے، تو پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ”شے حقیقی“ کے داخلی تعینات یا ان کے داخلی رشتے اس لزوم کے تابع ہیں جو کہ ”شے حقیقی“ میں پایا جاتا ہے۔ لہذا عقل کا تفاعل صرف ان کو جاننا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ہیوم (غزالی بھی یہی کہتا ہے) پہلے ہی یہ نکتہ عیاں کر چکا تھا کہ علت و معلول کے درمیان لزوم تجربے میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اگر شے حقیقی کے درمیان لزوم تجربے میں ظاہر نہیں ہوتا اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ”اشیا حقیقی“ موجود ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ متکلمین نہ صرف یہ کہ ماورائے تجربہ بلکہ ماورائے عقل اس سوال کے جواب میں خدا کو پیش کر دیتے ہیں۔ غزالی یہ بات واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آگ اور روئی کے مابین احتراق کا عمل خدا خود یا ملائکہ کے ذریعے پیدا کرتا ہے۔ یہ دعویٰ نہ عقلی ہے، نہ تجربی، کیونکہ خدا نہ تجربے میں ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی عقل میں، چہ جائیکہ اس سے لزوم کو وابستہ کر دیا جائے۔
دوسرا نکتہ، جو مولانا زاہد کئی بار دہرا چکے ہیں، یہ ہے کہ کانٹ کے فلسفے میں مقولات ”خالی ڈبے“ ہیں۔ جب کہ کانٹ ”تنقید عقلِ محض“ میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ ”مقولات بغیر مشاہدے کے خالی ہیں، اور مشاہدات بغیر تصورات کے اندھے ہیں“ (دیکھیے، تنقید عقل محض، سیکشن (A/51)۔ تاہم یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مقولات اس وقت تک ”خالی ڈبے“ ہوتے ہیں جب تک وہ حسی مشاہدات پر لاگو نہیں ہوتے۔ یعنی جب تک ان کے پاس حسی ادراکات نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مظاہر سے پرے اشیا حقیقی پر ان کا اطلاق اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تجربے میں ظاہر نہیں ہوتیں، اور اگر وہ تجربے میں ظاہر نہیں ہوتیں تو ان کو ماورائے تجربہ عقل کا معروض بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ اور اگر بنانے کی کوشش کی جائے تو ہمیں صورت تو دستیاب ہو سکتی ہے، مافیہا نہیں۔ وجہ یہ کہ اشیا حقیقی داخلی سطح پر جو لزوم رکھتی ہیں، ان تک پہنچا نہیں جا سکتا۔ تا وقتیکہ عقل کی جگہ ”ایمان“ کو مسلط نہ کر دیا جائے۔ لیکن یہ طریقہ کار اپنی سرشت میں عقلی نہیں بلکہ غیر عقلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹ کے فلسفے میں نظری علم کی سطح پر عقل کا کردار صفر ہے، کیونکہ حسی ادراکات پر فہم کے مقولات کا اطلاق خیال کی وساطت سے ہو جاتا ہے، اور خارجی معروض اپنی لازمیت میں کبھی بھی عقل کا معروض نہیں بنتا، جب کہ فہم کے مقولات کا اطلاق مظاہر پر ہو جاتا ہے۔ یہ کانٹ کی عقلیت پسندی نہیں بلکہ غیر عقلیت پسندی ہے کہ وہ عقلیت کا دائرہ اشیا حقیقی تک وسیع نہ کر سکا، اور متکلمین صرف تجربے میں علت و معلول کے عدم لزوم کو دکھا کر ماورائے عقل خدا کے تصور سے وہ جگہ پُر کرنے کی کوشش کرتے رہے جو کانٹ نے عقل نظری کی سطح پر خالی چھوڑ دی، اور اسے عقل عملی سے پُر کرنے کی کوشش کی۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کانٹین فلسفے میں ”خالی ڈبے“ خالی نہیں رہتے، لیکن خدا کا تصور چونکہ اپنا مشمول نہیں رکھتا، اس لیے وہ ہمیشہ ہی خالی ڈبہ رہتا ہے۔
ہمارا کانٹ پر اعتراض یہ نہیں کہ وہ خارجی سطح پر “اشیا حقیقی” تک نہیں پہنچا، بلکہ یہ ہے کہ اشیا حقیقی کا تصور ایک فکری تشکیل ہے۔ یعنی حسی مشاہدے سے فہم کے تصورات تک سارا عمل بدیہی سطح پر فکر سے متعین ہوتا ہے، اور فکر ہی ظاہر کرتی ہے کہ شے حقیقی غیر متعین ہے۔ شے حقیقی سے جو عدم تعیین متعلق کی گئی ہے، یہ دراصل عقل کے اپنے تشکیل کردہ تصور کی عدم تعیین ہے۔ اس عدم تعیین کو خارجی معروض سے نہیں بلکہ عقل کی اپنی عدم تعیین کی “شناخت” کے بعد ہی پر کیا جا سکتا ہے۔ یعنی میں شے حقیقی کو سوچتا ہوں، جب کہ میرے پاس خارجی معروض موجود ہی نہیں ہے۔ لہذا میرے سوچنا اور نہ سوچنا مساوی ہیں۔ اذعانیت پسند (Dogmatist) اس کو عقیدے کے تصور سے بھر دیتے ہیں، جو کہ غیر عقلی ہے۔ جب کہ ہم خالص فکری سطح پر منطقی اصولوں کی رہنمائی میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سوچ کا ہونا (اے) اور سوچ کا نہ ہونا (ناٹ اے) مساوی ہیں۔ یہاں سے ہم کانٹین مقولات سے باہر اس لیے نہیں جاتے کیونکہ ساری خرابی کانٹین فکر میں پائی جاتی ہے۔ ہم صرف کانٹین مقولات کا ان کی خود رو حرکت میں استخراج کرتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں