یہ کتاب علامہ شامی کی معروف کتاب ” تنبیہ الولاۃ والحکام” کا اردو ترجمہ ہے ۔ جس میں اسکے اس انگریزی ترجمہ کو مدِ نظر رکھا گیا ہے جو ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی تصنیف ہے اور پہلے سے شائع شدہ ہے ۔ انگریزی متن کو اردو میں منتقل کرنے اور علامہ شامی کی کتاب کے حوالہ جات کی تحقیق و تخریج کا کام برادرِ محترم رفیق شنواری صاحب نے انجام دیا ہے جس میں جدید قارئین کے ذوق کو مدِ نظر رکھا گیا ہے ۔ اصل کتاب میں بعض اوقات علامہ شامی کی اپنی عبارت اور دیگر فقہاء کی آراء میں التباس کا اشتباہ ہوتا ہے اور کتاب جدید منہج کے مطابق ابواب و فصول میں تقسیم نہیں ہے ۔ محقق فاضل نے مذکورہ اشیاء اور ان جیسی دیگر اہم چیزوں پر توجہ کا خاص اہتمام کیا ہے اور کتاب کو قارئین کے فہم کے لئے آسان تر بنانے کی کوشش کی ہے ۔
ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے پیشِ لفظ ، برادرم رفیق صاحب کے عرضِ مترجم اور پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی کی تفریظ کے بعد ایک جامع مقدمہ لکھاگیا ہے جو کہ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کی تحریر اور اس کتاب کی روح ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے اولا اس بحث کا پسِ منظر ذکر کیا ہے جسمیں بلاسفیمی کے معنی اور پاکستانی قانون میں اسکے اطلاق کو واضح کیا ہے ۔ نیز بحوالہ بتایا ہے کہ اسمعیل قریشی کیس کے نتیجے میں جو توہینِ رسالت کا قانون پاکستانی قانون کی حیثیت سے درج کیا گیا وہ حنفی مذہب کے مفتی بہ قول کے مطابق نہیں ہے ۔ چونکہ اس قانون میں موجود تضادات نقد کو جنم دیتے ہیں اسلئے اس کتاب پر ایسا مقدمہ لکھنے کی ضرورت ہے جو مبحوث عنھا مسئلہ میں فقہِ حنفی کے اصولوں کو ایسا واضح کر دے جس کے بعد اصل کتاب میں علامہ شامی کی، کی گئی بحث سمجھنے میں کوئی الجھن پیدا نہ ہو ۔
الف : اس کےبعد ڈاکٹر صاحب نے ہمارے خطے میں موجود ایسے قوانین کی ایک مختصر تاریخ ذکر کی ہے
1۔ جس کی ابتداء 1860 ء سے ہوتی ہے جو کی برطانوی دورِ حکومت ہے ، ڈاکٹر صاحب واضح کرتے ہیں کہ اس دور میں ” قانونِ توہینِ مقدسات” کا مقصد اور اطلاقات یکسر مختلف تھے ، اور یہ تمام جرائم ” لازمی ذمہ داری کے جرائم ” نہیں سمجھے جاتے تھے بلکہ اس میں مرتکب کی نیت کی شرط موجود تھی ۔
2۔ اس میں دوسرا اہم دور ضیاء الحق کا ذکر کیا گیا ہے جس میں توہین سے متعلقہ دفعات کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ مثلا 298 الف ،295 ب،298 ب،ج، اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض دفعات کو ” لازمی ذمہ داری کے جرائم ” بنا دیا گیا جن میں مرتکب کی نیت سے یکسر بحث نہیں کی جاتی اور بعض میں نیت کو لازم قرار دے دیا گیا ۔ اسی عنوان کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے 295سی کے موجودہ شکل میں ہونے کی تاریخ اور سبب بھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح توہینِ رسالت کا قانون پاکستان میں صرف حضورﷺ کے لئے مختص ہوا اور اس میں موجود عمر قید کی سزا کو کن وجوہات سے حذف مانا گیا ۔
3۔ تیسرا دور صدر پرویز مشرف کیا ہے ۔ جس میں بنیادی قانون سازی کی بجائے توہینِ رسالت کے قانون کی تنفیذ کو مشکل ترین بنانے کے لئے ایک شق کا اضافہ کیا گیا ۔
تاریخ کے اس بیان کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بعض لوگوں کی طرف سے آنے والی اس رائے کو موضوعِ بحث بنایا ہے جن کے نزدیک الزام لگانے والا اگر توہین کا الزام ثابت نہ کر سکے تو اس پر قذف کی سزا جاری کرنی چائیے ۔ اس موقف پر چند سوالات اٹھا کر اسکی کمزوری کو واضح کیا گیا ہے ۔
ب: اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے فقہِ حنفی کے امتیازات کا ذکر کیا ہے ۔ وہ سارے امتیازات ایسے ہیں جو حنفی قانون کے اصولی ڈھانچے اور اسکے اجزاء میں ہم آہنگی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کے تحت بتایا گیا ہے کہ علامہ شاطبی کے قول ” اصولِ فقہ قطعی ہیں ” کا کیا مطلب ہے ؟ قواعدِ اصولیہ کیا ہوتے ہیں اور انکی پیروی حنفی ہونے کے لئے کس قدر اہم اور ضروری ہے ؟ کسی مسئلے کو اصولِ عامہ کے تحت حل نہ کیا جا سکتا ہو تو کیا طریقہ اختیار کرنا فقیہ کے لئے لازم ہے ؟رفعِ تعارض کے لئے حنفی منہج میں کونسا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ؟ حنفی فقہ میں مفتی بہ قول کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے ؟
ڈاکٹر صاحب ان تمام سوالات کا جواب عموما اہلِ اصول کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں لیکن جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں اپنا نقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں بشرطیکہ وہ اہلِ اصول کی آراء سے متصادم نہ ہو ۔
ج: اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے فقہ حنفی کا تعزیری خاکہ ، اسکے اصول ، اس میں اور دیگر جوائم میں فرق کو واضح کیا ہے ، نیز اسکے اطلاقی اثرات کے ساتھ ساتھ اسکی شرائط کو بھی بیان کیا ہے ۔ لیکن اس باب میں سب سے اہم بات اس فرق کی وضاحت ہے جو جرائم کی بابت جدید قانونی ڈھانچے کی تقسیم اور فقہ حنفی کی تقسیم میں موجود ہے ۔ کیونکہ جدید قوانین میں تقسیم جن بنیادوں پر کی گئی ہے وہ روایتی تقسیم سے بالکل مختلف ہے لہذا جہاں اسکے نتائج میں فرق ہے وہیں ان میں التباس کا بھی شدید اندیشہ ہے ۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے اسکی وضاحت تفصیل سے ذکر کی ہے کہ جرائم کو دیوانی اور فوجداری کی تقسیم میں دیکھنے کا نتیجہ ہے کہ بعض اوقات حق اللہ کو حق المجتمع سمجھ لیا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے ۔
اپنے بیانات پر ڈاکٹر صاحب علامہ کاسانی اور سرخسی سے استدلال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
د: اس باب میں سیاسہ کے تصور کی وضاحت کی گئی ہے اور اسکی اقسام کو علامہ ابن عابدین کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے ۔پھر علامہ طرابلسی کی ” معین الحکام ” کے حوالے دے کر مسئلے کی مزید وضاحت کی گئی ہے ۔بعد ازاں فقہ حنفی میں اسکی اطلاقی جزئیات کو ذکر کیا گیا ہے ۔
ہ: اس باب میں گستاخانہ افعال سے متعلق فقہی بحث کی گئی ہے ۔ جس میں فقہِ اربعہ کے نمائندوں کا خاص اس موضوع پر کام ذکر کیا گیا ہے اور بعد ازاں چند سوالات قائم کر کے ایک ایک سوال کو الگ الگ فصل میں بحث کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ چند اہم سوالات اور ان پر فقہِ حنفی کے مطابق جوابات درج ذیل ہیں جنہیں ڈاکٹر صاحب نے فقہاء کے اقوال اور اہلِ اصول کے بیان کردہ قواعد سے مبرہن کیا ہے ۔
1۔ توہینِ رسالت بذاتِ خود مستوجبِ سزا ہے یا یہ ارتداد ہے ؟
احناف کے نزدیک یہ ارتداد ہے ۔ اس ضمن میں قاضی عیاض کی ” شفاء” میں موجود عبارت سے جو غلط فہمی ہو سکتی تھی اسکی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔
2۔ کیا گستاخ کی توبہ قبول ہے ؟
بعض فقہاء کے نزدیک وہ عند اللہ مقبول ہے لیکن اس پر دنیوی سزا کا نفاذ بہرصورت ہو گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے علامہ شامی کے حوالے سے واضح کیاہے کہ یہ حنفی مذہب نہیں ہے ۔ بلکہ ہمارے ہاں گستاخ پر تمام احکام مرتد ہی کے لاگو ہوں گے اور مرتد کی توبہ بایں معنی قابلِ قبول ہے کہ اسکی سزائے موت معطل ہو جاتی ہے ۔
3۔ غیر مسلم گستاخ کا حکم کیا ہو گا کیونکہ اس پر ارتداد کا اطلاق نہیں ہو سکتا ؟
اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ احناف کے نزدیک غیر مسلم کی طرف سے ایسا فعل اسکے عقدِ ذمہ کو ختم نہیں کرتا البتہ اسے سزا سیاسۃ دی جائے گی ۔
و : اس باب میں ڈاکٹر صاحب نےعلامہ شامی کے تحقیقی کام اورخصوصا سبِ رسول کی بابت انکی تحقیق پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ چند اہم نتائج کو دلائل سے ذکر کیا ہے جنہیں ہم سبِ رسول سے متعلق حنفی مذہب کے فقہی احکام بھی کہہ سکتے ہیں ۔ مثلا
1۔ حنفی مذہب کے مفتی بہ قول کے مطابق مسلم گستاخِ رسول مرتد ہے ۔
2۔ گستاخی کرنے والے کی سزا ارتداد کے علاوہ ہونا نہ تو آئمہ متقدمین سے منقول ہے اور نہ ہی حنفی اصولوں سے ہم آہنگ ہے ۔
3۔ دیگر انبیاء جن کی نبوت ثابت ہے ، کی بابت بھی یہی حکم ہے ۔
4۔ غیر مسلم گستاخی کرے تو اس پر سیاسہ کے اصول کے تحت سزا جاری کی جائے گی ۔
5۔ صحابہ کی گستاخی پر حکم سیاسۃ لاگو کیا جائے گا ۔
اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے چند ایسی اصولی ابحاث بھی شامل کی ہیں جن کی اس بحث میں ضرورت تھی اور بحوالہ انہیں ڈسکس کیا ہے ۔ مثلا کسی فقہی مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہو اور حکمران ایک رائے کا جج کو پابند کر دے تو کیا یہ درست ہے ؟ گستاخی کے مسئلے میں کیا حنفی فقہاء کی آراء مختلف ہیں ؟ وغیرہ
ز: اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم کے بعد پاکستان میں موجود توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کی حنفی فقہ کے مطابق سفارشات پیش کی ہیں ۔ جس کے ضمن میں موجودہ قانون سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں ، فکری ، قانونی اور عملی مسائل کو بھی ذکر کیا ہے ۔
بعد ازاں پوری بحث کا ماحصل پیش کیا گیا ہے ، پھر عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین دمشقی المعروف بابن عابدین الشامی کی شہرہ آفاق کتاب “تنبیہ الولاۃ والحکام علی شاتم خیر الانام واحد اصحابہ الکرام” کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔
کمنت کیجے