Home » غیر مسلم کی تجہیز و تکفین اور فقہاء
شخصیات وافکار فقہ وقانون

غیر مسلم کی تجہیز و تکفین اور فقہاء

غیر مسلم عزیز کی تجہیز وتکفین سے متعلق  ہدایہ کی شروح کی روشنی میں پورے استدلال کو واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ فقہاء کے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

ہدایہ میں لکھا ہے کہ (وَيُغَسِّلُ وَلِيُّ مُسْلِمٍ الْكَافِرَ وَيُكَفِّنُهُ وَيَدْفِنُهُ) یعنی کسی کافر کا ولی کوئی مسلمان ہو تو وہ اس کو غسل دے سکتا اور تکفین وتدفین میں شریک ہو سکتا ہے۔

شارحین نے اس میں ایک وضاحت تو یہ فرمائی ہے کہ مسلمان کو کافر کا ولی کہنا غلط بات ہے، اور چاہے اس سے مراد ’’رشتہ دار’’ لیا جائے، لیکن ولی کی تعبیر اختیار کرنا درست نہیں، کیونکہ مسلمان کافر کا ولی نہیں ہوتا۔ وَهَذِهِ عِبَارَةٌ مَعِيبَةٌ غَيْرُ مُحَرَّرَةٍ أَمَّا الْأَوَّلُ فَلِأَنَّ الْمُسْلِمَ لَيْسَ بِوَلِيِّ الْكَافِرِ، وَمَا فِي الْعِنَايَةِ مِنْ أَنَّهُ أَرَادَ بِهِ الْقَرِيبَ فَغَيْرُ مُفِيدٍ؛ لِأَنَّ الْمُؤَاخَذَةَ عَلَى نَفْسِ التَّعْبِيرِ بِهِ بَعْدَ إرَادَةِ الْقَرِيبِ بِهِ (فتح القدیر۔ البحر الرائق)

دوسرا نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ مسلمان کا کافر کی تجہیز وتکفین میں شریک ہونا دراصل رشتہ داری کا حق ہے جس کی تلقین اللہ نے غیر مسلموں کے متعلق بھی فرمائی ہے۔ النھایۃ میں ہے: ولأن هذه من جملة المصاحبة بالمعروف، والمبرة كيلا يتركه طعمة للسباع، والولد المسلم مندوب إلى برّ والديه، وإن كانا مشركين قال الله تعالى: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا﴾ (١٠)، والمراد به الوالدان المشركان بدليل قوله: ﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي﴾ (١١) من الإحسان، والبر في حقّه القيام بغسله، ودفنه (النھایۃ)

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ رشتہ داری کا حق ادا کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ میت پر کسی ناپاک کپڑے کی طرح پانی ڈال دیا جائے، پھر کسی کپڑے میں لپیٹ دیا جائے، پھر کوئی گڑھا کھود لیا جائے جو قبر کی طرح نہ ہو، پھر میت کو اس میں ویسے نہ اتارا جائے جیسے مسلمان مردے کو اتارا جاتا ہے، بلکہ اٹھا کر اس میں ایسے پھینک دیا جائے جیسے مردار کو پھینکا جاتا ہے۔ فرمایا: لَكِنْ يُغَسَّلُ غُسْلَ الثَّوْبِ النَّجِسِ وَيُلَفُّ فِي خِرْقَةٍ وَتُحْفَرُ حُفَيْرَةٌ مِنْ غَيْرِ مُرَاعَاةِ سُنَّةِ التَّكْفِينِ وَاللَّحْدِ، وَلَا يُوضَعُ فِيهَا بَلْ يُلْقَى. (ہدایہ) (ولا يوضع فيه) ش: أي في اللحد، يعني لا يجعل له لحد حتى يوضع فيه م: (بل يلقى) ش: في الحفيرة كما تلقى الجيفة (البنایۃ)

اس کی مزید وضاحت یوں فرمائی گئی ہے کہ کافر کا جسم اصل میں تو خنزیر کی طرح نجس ہے، لیکن اس کی زندگی میں اس توقع کی وجہ سے نجس شمار نہیں ہوتا کہ وہ ایمان لے آئے گا۔ مرنے سے چونکہ یہ امکان ختم ہو گیا تو اب اس کی لاش کا حکم وہی ہے جو خنزیر کا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ فرمایا: والكافر كالخنزير غير أنّه لم ينجس حال حياته لحمل أمانة الله، ولاحتمال الإسلام، فلما ختم له بالشقاوة [صار] شرًّا من الخنزير (النہایۃ۔ البحر الرائق)

پورے مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے کسی کافر کے مسلمان رشتہ دار مثلاً‌ کافر باپ یا ماں کے بیٹے کو یہ اعلیٰ اخلاقی تعلیم دی ہے کہ وہ جیسے ان کے ساتھ زندگی میں بر واحسان کا پابند ہے، اسی طرح مرنے کے بعد ان کے جسم کو غسل دینے اور ان کی تجہیز وتکفین میں بھی اسے شریک ہونا چاہیے تاکہ حق قرابت داری ادا کیا جا سکے۔ اس حق کی ادائیگی کا طریقہ شریعت نے یہ بتایا ہے کہ مردہ باپ یا ماں کے جسم کو خنزیر کا جسم سمجھ کر اس پر نجس کپڑے کی طرح پانی بہا دے، پھر ایک گڑھا کھود کر اس کے جسم کو مردار کی طرح اس میں پھینک آئے۔

اللہ تعالیٰ فقہائے کرام کو شریعت کے ان دقائق کی وضاحت پر جزائے خیر اور ہمیں ان کے مدارک کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں