ہمارے ایک فاضل دوست کا کہنا ہے کہ مضبوط دلیل وہ ہوتی ہے جس کے استدلال کا پہلا مقدمہ کسی ایسی حقیقت پر مبنی ہوتا جو عقلِ انسانی کے لیے بدیہی ہو — ایسی صداقت جو اپنی شہادت آپ ہو، اور جس کے ادراک کے لیے کسی خارجی دلیل یا قیاس کی ضرورت نہ ہو۔ یہ بہت عمدہ پیمانہ ہے اور ہم اسے قبول کرتے ہیں اور یہی متکلمین کا کہنا ہے۔ حدوث عالم کی دلیل متعدد طرح بیان کی جاتی ہے اور یہ دلیل حقائق میں سے بنیادی ترین حقیقت پر مبنی ہے۔ البتہ جن لوگوں کی انسانی علم و فطرت کا مطالعہ کرنے والے علم میں ٹریننگ نہ ہو ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حقائق اور اس سے متعلق ادراک کا سب سے فطری و بدیہی قضیہ کیا ہے نیز دلیل حدوث کا اس سے کیسا ربط ہے۔ یہاں میں بات کو کچھ آسان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
1) حقیقتوں میں سب سے بنیادی حقیقت اور اس سے متعلق بدیہی و فطری علمی قضیہ یہ ہے: “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی”۔ جو اس میں شک کرے، اس کے بعد اس کے لئے کسی بھی علمی قضئے کے یقینی ہونے کا اعتبار ثابت کرنا محال ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں اس قضئے کو اولیات عقلیہ (the first principles) میں سے سب سے پہلا قضیہ کہا جاتا ہے۔ اپنی شہادت آپ ہونے میں کوئی اور قضیہ اس سے زیادہ بدیہی نہیں۔
2) اسی حقیقت پر یہ قضیہ مبنی ہے کہ کسی شے پر ایک ساتھ ایک ہی جہت میں اثبات اور نفی (یعنی وجود و لاوجود) جمع اور مرتفع ہونا محال ہے۔ اسے جمع و ارتفاع نقیضین کا اصول کہتے ہیں۔
3) لامتناہی کا عبور ہونا محال ہے، اس لئے کہ جو عبور ہوجائے وہ لامتناہی ہوتا ہی نہیں بلکہ متناہی ہوتا ہے۔ لامتناہی کے عبور ہونے کا دعوی جمع بین النقیضین ہے اور یہ محال ہے۔
4) قدیم کا مطلب وہ شے جس کے ہونے کا کوئی آغاز نہ ہو اور حادث کا مطلب وہ شے جس کے وجود کا آغاز ہو۔ ایک ہی شے کا قدیم و حادث ہونا محال ہے کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔ اسی طرح ایک شے اگر موجود ہے تو اس کا قدیم و حادث ہونے سے خالی ہونا بھی محال ہے (یعنی ارتفاع نقیضین بھی محال ہے)۔ یا وہ قدیم ہے اور یا حادث، یہ نہیں ہوسکتا کہ نہ قدیم ہو اور نہ حادث۔
5) عالم موجود ہے اور اس میں واقعات رونما ہورہے ہیں جس کی دلیل حسی مشاہدہ ہے اور جو اضطراری علم کا باعث ہے۔ اس کا انکار صرف سوفسطائی کرتا ہے جو یا سب حقائق کے وجود کا منکر ہو اور یا تمام حسی علم کے اعتبار کا منکر ہو۔ ان امور پر مکابرہ کرنے والے پر کسی دلیل کے قطعی ہونے کا اعتبار ثابت کرنا محال ہے۔
6) یہ عالم یا قدیم ہے اور یا حادث، اس کے سوا کوئی تیسرا امکان نہیں۔ اس کا انکار بھی سوفسطائی کرتا ہے جو اولیات یا بدیہیات میں مکابرہ کرتا ہے۔
یہ بنیادی و فطری و بدیہی ترین حقائق پیش نظر رکھتے ہوئے اب دلیل حدوث کا ایک ورژن لکھتے ہیں:
الف ) لامتناہی کا عبور ہونا محال ہے
ب) اگر عالم قدیم ہے تو یہ کسی خاص لمحے یا واقعے تک لامتناہی واقعات کے عبور ہوجانے کا نام ہے جو کہ محال ہے
ج) لہذا عالم کا قدیم ہونا محال ہے، پس ثابت ہوا کہ عالم حادث ہے۔
اس دلیل کے مقدمات سے زیادہ قطعی و فطری و بدیہی حقائق اگر کسی کے پاس میسر ہیں تو وہ لے آئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ فاضل ناقد “فطری استدلال” نامی شے کو بھی درج بالا فطری انداز میں بیان کریں گے جیسے ہم نے لکھا تاکہ قارئین پر واضح ہوسکے کہ جس استدلال کو وہ پیش کررہے ہیں آیا وہ واقعی درج بالا سے زیادہ بدیہی مقدمات پر مبنی ہے۔ اب تک کا ہمارا تجربہ یہ ہے کہ شیخ ابن تیمیہ، علامہ شبلی، مولانا مودودی، مولانا اصلاحی، اہل ندوی وغیرہ رحمہم اللہ فطرت کے نام پر جس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ محض loose talk ہے جسے یہ لوگ خطیبانہ زور پر قرآنی انداز استدلال قرار دے کر متکلمین کے خلاف مقدمہ کھڑا کرکے قرآن سے مسلمانوں کی عقیدت کے زور پر منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علم کی دنیا میں تصورات کو واضح کرنا پڑتا ہے، یہاں یہ نہیں چل سکتا کہ عمومی و مبہم قسم کی باتوں کو جمع کرکے پھر دلیل کی خالی جگہوں کو “فطرت” کے دعوے سے بھر لیا جائے اور خالی جگہ پر کرنے کی ضرورت کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا جائے کہ یہ انداز استدلال غیر فطری ہے، اللہ اللہ خیر سلا! اگر علم کی دنیا میں یہ روا ہو تو سب کی دلیلیں قطعی ہی ہیں۔
کمنت کیجے