جب یہ کہا جاتا ہے کہ متکلمین اسلام کے مطابق خارجی حقائق ثابت بھی ہیں اور ہمیں ان کا علم حاصل ہے تو اس پر کانٹین اصولوں پر تعمیر شدہ ذہن یہ سوال کرتا ہے کہ ذہن اور خارج میں موجود حقیقت کے مابین ربط کیسے قائم ہوتا ہے؟ جب ہم یہ ربط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کانٹین سسٹم کے حصار میں آجاتے ہیں اور نتیجتاً متکلمین کا یہ دعوی محل نظر ہوجاتا ہے کہ نفس الامر میں اشیا کے حقائق ثابت بھی ہیں اور ہمیں ان کا علم بھی حاصل ہے۔
کانٹین تعلیمات پر مبنی اس سوال کا مفروضہ یہ ہے کہ ذہن اور خارج میں ربط کوئی ایسی شے ہے جیسے زمین کے دو جدا حصے جنہیں ملانے کے لئے الگ سے ایک پل درکار ہوتا ہے۔ہونے اور جاننے( being and knowing) کو یوں الگ الگ فرض کرنا کانٹین علمیات کی ایک اہم غلطی ہے۔ “شے سے متعلق انسانی ادراک” کوئی پل نہیں ہے جو خارج کو “مجھ” (یعنی انسان) سے متعلق کرنے کا کام کرتا ہے۔ کانٹ کا مفروضہ یہ ہے کہ “میں” الگ ہوں اور “شے سے متعلق میرا ادراک” الگ ہے جو مجھے اپنے ذہن کے بنے بنائے تفہیمی خاکوں سے تشکیل ہوکر حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ میری پہنچ صرف “شے کے اس تفہیمی ادراک” تک ہے، یوں “میں” اس “شے کے ادراک کا ادراک” حاصل کرتا ہوں نہ کہ “شے کا ادراک”۔ میرا ادراک چونکہ شے اور میرے درمیان واسطے (mediation) کا کردار ادا کرتا ہے، لہذا خارجی حقائق کے ثبوت اور اس کا علم حاصل ہونے کا دعوی اس وقت تک محل نظر ہے جب تک خود اس واسطے کی حقیقت کی نوعیت پر بات نہ ہو جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ “میں” اور “شے کے ادراک” سے متعلق یہ فریم ورک ہی متضاد امور پر مبنی، غیر ضروری اور غیر مؤثر ہے جیسا کہ ہم اس پر الگ سے لکھ چکے ہیں۔ خارج سے متعلق علم کی توجیہہ کے لئے آخر ایسے کسی پل کو ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ یہ سمجھنا آسان ہے کہ میرا ادراک شے سے تعلق قائم ہونے سے عبارت ہے؟ آخر یہ کیوں مانا جائے کہ مشاہدے کے عمل میں میں براہ راست خارجی شے کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے ذہن میں جھانک کر بننے والی شبیہات دیکھتا ہوں؟ اس پر تکلف مفروضے کی دلیل کیا ہے؟ یہ بھی یاد رہے کہ ادراک سے متعلق یہ کوئی انوکھا موقف نہیں ہے بلکہ علامہ ابن سینا کا موقف بھی اس سے ملتا جلتا تھا کہ ادراک ذہن پر منعکس ہونے والی تصاویر کے ادراک کا نام ہے نہ کہ براہ راست شے کے ساتھ تعلق کا، متکلمین نے اس نظرئیے کو رد کیا۔
جب کانٹین فکر پر یہ سوال وارد کیا جائے کہ آخر یہ کیوں مانا جائے کہ مشاہدے کے عمل میں میں براہ راست خارجی شے کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے ذہن میں جھانک کر بننے والی شبیہات دیکھتا ہوں، تو اس کے جواب میں کانٹین فریم کو جواز فراہم کرنے کے لئے ایک دلیل حسی فریب یعنی الیوژن (illusion) سے پیش کی جاتی ہے۔ الیوژنز کی صورت ادراکی غلطیوں کو اس چیز کا جواز بنایا جاتا ہے کہ ہم خارج میں نہیں بلکہ اپنے ذہن میں بننے والی شبیہات کو دیکھتے ہیں۔ خارج کے براہ راست ادراک کے نظرئیے میں الیوژنز کی توجیہہ کیسے ہوتی ہے، سردست اسے اگنور کرکے نوٹ کیجئے کہ یہ دلیل بھی نئی نہیں بلکہ علامہ ابن سینا وغیرہ کی ہے کہ چونکہ حسی مشاھدے میں الیوژن ہوتا ہے تو ماننا ہوگا کہ میرے اور خارج کے درمیان ایک ادراکی پل ہے اور الیوژنز کا تعلق اس پل سے ہے۔ کانٹین علمیات کے حق میں یہ دلیل پیش کرنے والوں سے یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کانٹین علمیاتی سسٹم اس مسئلے کی تفہیم اور حل میں کوئی مدد فراہم کرتا ہے جسے پیش کیا جارہا ہے؟ سوال کی نوعیت یہ ہے کہ حقیقی مشاہدے (veridical perception) اور الیوژن کا فرق تبھی بامعنی ہے جب پہلے قدم پر دونوں میں فرق کے امکان اور اس کا کوئی پیمانہ فرض کیا جائے۔ کیا کانٹین سسٹم کوئی ایسا پیمانہ فراہم کرسکتا ہے جس کے بعد یہ کہا جاسکے کہ “فلاں مشاہدہ حقیقی ہے اور فلاں الیوژن”؟ اس کا جواب نفی میں ہے اس لئے کہ کانٹین علمیات کے مطابق شے فی نفسہ (یعنی ذہن سے ماورا نفس الامر میں حقیقت) کا نہ ہمیں علم حاصل ہے اور نہ ہوسکتا ہے، ہمارا سارا علم ادراکی شبیہات سے متعلق ہے۔ تو اس فریم میں صرف یہ گفتگو ممکن ہے کہ “فلاں ادراکی شیبہہ فلاں کے مقابلے میں بہتر ہے” لیکن ان میں سے کوئی بھی خارجی حقیقت سے متعلق نہیں۔ ایسے میں پہلے قدم پر حقیقی مشاہدے اور الیوژن کا وہ فرق کیسے مقرر کیا جائے جسے دلیل کی بنیاد بنایا جارہا ہے؟ الیوژن اور حقیقی مشاھدے کا فرق جب تک نہ کیا جائے تب تک اسے ایڈریس کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں، تو جب کانٹین سسٹم اس فرق کی کوئی واضح بنیاد ہی نہیں دیتا تو وہ اس کا واضح حل کیسے دے سکتا ہے؟ گویا یہاں جس مسئلے کو اس فکر کے جواز کے لئے پیش کیا جارہا ہے اس فکر نے اس کا ایسا حل تجویز کیا ہے کہ سارے علم ہی کو حقیقت سے کاٹ کر الیوژن اور حقیقت کا فرق بے معنی بنا دیا ہے۔ یہ سوفسطائی فکر کا پرانا طریقہ ہے کہ ایک طرف حقیقی مشاہدے اور الیوژن میں فرق کی بات بھی کرتی ہے اور پھر الیوژن کو بنیاد بنا کر سارے حقیقی مشاہدے کے الیوژن ہونے کا استدلال بھی کھڑا کرلیتی ہے۔ الیوژن سے بچنے کی کیا ہی خوب قیمت ادا کی جارہی ہے! امام رازی نے علامہ ابن سینا کے نظریہ ادراک پر نقد کرتے ہوئے اس نکتے کو اجاگر کیا ہے کہ یہ نظریہ سوفسطائیت کی جانب دھکیلنے والا ہے۔ پھر کانٹین سسٹم میں “فلاں ادراکی شبیہہ فلاں کے مقابلے میں بہتر یا درست ہے” کا حکم لگانے کے لئے جو بھی پیمانہ مقرر کیا جائے، کیا اسی پیمانے کو براہ راست شے کے ادراک سے متعلق قرار دے کر نفس مسئلہ کا جواب نہیں دیا جاسکتا؟
یہاں دوسرا سوال یہ ہے کہ اس پل کی تعمیر کے لئے ذہن کی جس تفہیمی ساخت کو فرض کیا گیا ہے، اس ساخت کی صحت کا علم آپ کو کیسے ہوا؟ کانٹینز کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ خارج سے متعلق علم میں خرابی کا امکان ہے لیکن ذھن کے تفہیمی خاکوں کے بارے میں گویا انہیں بالکل غلطی سے مبرا و صاف ستھرا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو اعتراض حسی مشاھدے سے معلوم ہونے والے حوادث و واقعات پر ہے وہی ذہنی حوادث و واقعات پر کیوں وارد نہیں کیا جاسکتا؟
الغرض الیوژن کے جس مسئلے کو کانٹین نما ادراکی پل کے لئے دلیل بنایا جارہا ہے، نہ وہ نفس مسئلہ کی تفہیم میں اور نہ اس کے حل پر کوئی روشنی ڈالتا ہے بلکہ تمام انسانی علم کو الیوژن کی ایک صورت بنا ڈالتا ہے۔
کمنت کیجے