مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق کے بغیر، علم بین الانسان مشترک ہے، اور اس کی واحد اساس عقل ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر دنیا بھر کے انسان مثلاً فزکس کے علم ہونے پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ اسے ہر معاشرے میں فزکس سمجھ کر ہی پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور اس کے عقلی تعینات کے اندر رہتے ہوئے اس میں ریسرچ، اضافہ اور اطلاق کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، درست تر معنی میں کوئی چیز علم ہونا qualify نہیں کرتی۔ اس تقدیر پر کوئی غیر عقلی چیز علم کہلا ہی نہیں سکتی۔ یعنی علم کی گفتگو کرتے ہوئے اس پر صرف دو ہی سوال وارد کیے جا سکتے ہیں، اور کسی تیسرے سوال کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ کہ کیا کوئی علم عقلی ہے یا غیر عقلی ہے؟ جب ہم فزکس کو عقلی علم کے طور تسلیم کر لیتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہی ہم ایک بات یہ بھی تسلیم کرنے کے ازخود پابند ہو جاتے ہیں کہ عقل کا تصور بھی وہی ہے یعنی عقل سے وہی کچھ مراد ہے جو فزکس کی تشکیل میں کارفرما ہے۔ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، بالکل بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔ صرف پاگل ہی اس کا انکار کر سکتا ہے۔
اب جدید سائنس کی یہ وہ صورت حال ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ مسلم ذہن اس مقدمے کو knee jerk رد عمل میں فوراً مسترد کر دیتا ہے۔ اب اس پر میری گزارش ہے کہ جو انسانی ذہن سامنے کی دیوار کے وجود سے انکار کرتا ہے، کیونکہ فزکس کا انکار ایسا ہی ہے، وہ غیب کی کسی چیز پر ایمان لانے کی استعداد پیدا کر سکتا ہے اور نہ اس کا علمی دفاع کر سکتا ہے۔ یعنی جو ذہن حس و عقل کا ہی انکاری ہو، اس کا غیب کے مقر ہونے کا دعویٰ لغوِ محض ہے۔ یہ انسانی ذہن کا بنیادی وظیفہ ہے۔ مسلم ذہن اس صورت حال سے جو راستہ نکالتا ہے وہ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ اپنے انسان ہونے سے دستبرداری بھی ہے۔ مسلم کلچروں میں ہر طرح کے علوم کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر انسان حس و عقل سے ہی انکاری ہو جائے تو وہ کسی بھی طرح کے علم کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
اب اس صورت حال کا ذرا ابتدائی تجزیہ ضروری ہے۔ (۱) ایک یہ کہ فزکس عقلی علم ہے۔ (۲) عقل سے وہی کچھ مراد ہے جس کی بنیاد پر یہ علم تشکیل/دریافت کیا گیا ہے۔ (۳) اگر عقلی علم بین الانسان مشترک ہے تو اس میں کارفرما عقل کا تصور بھی بین الانسان مشترک ہی ہو سکتا ہے، وہ انسانوں کے کسی خاص گروہ کے لیے مانعاتی (exclusive) نہیں ہو سکتا یعنی وہ وحدانی اور جامعاتی (inclusive) ہی ہو سکتا ہے۔ (۴) عقل جس طریقۂ کار کو استعمال کرتی ہے وہ بھی وحدانی، جامعاتی اور آفاقی ہی ہو گا۔ ان قضایا کے سامنے ”میں نہ مانوں“ تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان کے رد کی کوئی صورت ہے ہی نہیں اور اس پر زور دینا نری حماقت ہے۔ اگر انسانی ذہن حس و عقل کی بنیاد پر چیزوں کو ماننے کی استعداد نہیں رکھتا تو غیب پر ایمان محض خام خیالی ہے۔ موجودہ علوم کی صورت حال کا اس کے علاوہ کوئی مختصر بیان ممکن نہیں ہے، اور ہم اس پر غور کرنے کی بجائے اس کا انکار کر دیتے ہیں یا اقرار کرتے ہیں۔ اگر اس انکار اور اقرار کی معنویت پر غور کیا جائے تو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے وہ unsubstantial ہے اور دونوں لغوِ محض ہیں۔ اس علمی صورت حال سے نکلنے کے لیے مابعدالطبیعات یا عرفان کی کونچیں پکڑنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ علم ظاہر کی تشکیلات اور کارِ عقل کا ہے اور وہیں ہماری گھگھی ایسی بندھی ہے کہ جو عرفان کی جھاڑ پھونک سے بھی کھل نہیں سکتی۔
میری رائے یہ ہے کہ بطور مسلمان ہمیں یہاں سے بات شروع کرنی چاہیے۔ مثلاً فزکس کے عقلی ہونے سے کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے، اس میں کارفرما عقل کے تصور کو بھی مکمل طور پر تسلیم کر لینا چاہیے، سائنسی طریقہ کار سے جھگڑنا بھی عبث ہے۔ ہم جدید سائنسی اور دیگر علوم پر بات کرنے کی جگہ صرف اسی صورت میں بنا سکتے ہیں، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ہم جدید علوم پر بات کرنا qualify نہیں کرتے تو کسی بھی دوسرے علم پر بات کرنے کی آسن بازی محض خود فریبی ہے۔ جب ہم یہ پوزیشن لے لیتے ہیں تو جدید سائنسی علوم کے دوسرے بنیادی خصائص کو جو خود جدید علوم ہی کے بیان کردہ اور تسلیم شدہ ہیں گفتگو میں شامل کرنے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ جدید علوم کا اثباتیاتی (positivist) ہونا اور اس میں داخل تصورِ حقیقت کا تشبیہی (immanantist) ہونا متفق علیہ ہے، اور بالعموم اس پر جدید علوم میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ بطور مسلمان، علم کے عقلی ہونے سے ہمارا کوئی نزاع نہیں ہے اور ہو بھی کیوں۔ ہمارا نزاع جدید علوم کے مکمل طور پر تشبیہی ہونے سے ہے۔ جب تسلیم کے ذریعے ایمان عقل کا موضوع بنتا ہے تو اس کی علمی اور کلامی تشکیلات سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ اور ایمانیات میں اول عقلی بحث توحید کی ہے۔ اگر توحید کی عقلی بحث میں تشبیہ کا شائبہ در آیا تو شرک ہی شرک ہے اور اگر یہ تنزیہہ پر فائز المرام ہو تو توحید کا کلامی بیان ہے۔ ہمارے کلاسیکل علم الکلام کا یہی لافانی کرشمہ ہے کہ وہ عقلی بھی اور تنزیہی بھی۔ اور یہی وہ چیز ہے جو مسلم عقل کے لیے مابہ الامتیاز ہے۔ سائنس کا موقف یہ ہے کہ علم صرف اثباتیاتی اور تشبیہی ہوتا ہے، اور ہمارا نزاع اسی سے ہے اور جن عقلی دلائل پر یہ استوار ہے انھیں عقلی استدلال سے توڑا بھی جا سکتا ہے۔ اگر ہماری کلامی روایت زندہ رہتی اور آگے چلتی تو یہ کام تھوڑی بہت کوشش سے کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت ضرورت کلام کی اکیڈیمک بحثوں کی نہیں ہے بلکہ اپنے تہذیبی وسائل سے جدید سائنسی علوم کا سامنے کرنے کی ہے اور اس میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
علم الکلام میں معاد، جنت دوزخ وغیرہ کے مباحث بھی شامل ہیں۔ مخلوقات کا دائرہ غیب سے شہود تک پھیلا ہوا ہے، اور مخلوقات کی گفتگو میں تشبیہ سے مفر نہیں۔ لیکن توحید کا مسئلہ بہت نازک ہے کیونکہ یہ مدارِ نجات ہے۔ اگر توحید کا بیان discursive ہو جائے تو اس کا نشان بھی مٹ جاتا ہے کیونکہ ذات باری کسی علم کی مدلول ہے نہ مصداق۔ نوجوان اہلِ علم کو آج کے عہد میں عین یہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کمنت کیجے