معاویہ محب اللہ
یاد رفتگاں کے نام سے ذہن میں صرف علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب ذہن کے پردہ پر نمودار ہوتی تھی، لیکن المعہد العالی الاسلامی میں تعلیم کے دوران لائبریری میں ماہر القادری صاحب کی یادِ رفتگاں دیکھی، دیکھی کیا از اول تا آخر پڑھ ڈالی، نیز ایک اور راز بتاتا چلوں کہ مجھے پڑھی ہوئی کتابیں بار بار پڑھنا پسند ہے، میں اکثر کتابوں کو اس طرح پڑھتا رہتا ہوں، لہذا آج کل دوبارہ یادِ رفتگاں شروع کردی، کتاب اس قدر دلچسپ ہے کہ شروع کر دو بس! اندازہ نہیں ہوتا کہ کتنے صفحات پڑھ لئے۔ ابھی تک کی خامہ فرسائی سے یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ کتاب دو سال پہلے پڑھی اور تبصرہ و تعارف اب لکھ رہا ہوں۔
کتاب نہایت عمدہ اور دلچسپ ہے، ماہر القادری مرحوم بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست نثر نگار بھی ہے، ان کی نثر کی جذب و کشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ میں نے جب یادِ رفتگاں پڑھی تھی، اس کے بعد ان کی ہر کتاب چن چن کر پڑھ ڈالی، کاروانِ حجاز، ماہر القادری کے تبصرے، درِ یتیم، بدعت کیا ہے؟(خصوصی مضمون ہے)، فاران کا توحید نمبر میں ماہر صاحب کا مضمون بھی پڑھا، یہاں تک کہ تبصرے دیکھ کر فاران کے اکثر شماروں میں “میری نظر میں” کے عنوان سے تبصراتی کالم ہے، اسے کھوج کھوج کر پڑھا۔ شاید میرا قلم ماہر القادری کی تعریف و تحسین بیان کرنے کے لئے عاجز ہو، لیکن احساسات و جذبات کی کوئی زبان نہیں ہوا کرتی، وہ ہر قاری کتاب دیکھ کر ہی محسوس کر سکتا ہے، لہذا میرا بھی یہی مشورہ ہوگا کہ خود ماہر صاحب کی نثر سے لطف اندوز ہو جائیں۔
یاد رفتگاں اور ماہر صاحب کی وفیات نگاری کا علامہ سید سلیمان ندوی نے کس قدر بہترین خراج پیش کیا ہے ؛
” میرے بعد تم میرے اس رنگ (وفیات) کو قائم رکھو گے”
وفیات کی ترتیب میں طالب ہاشمی صاحب نے بہترین کام کیا ہے، حروف تہجی کی ترتیب پر دونوں جلدوں کو مرتب کیا ہے، جلد اول میں الف سے ظ تک، اور جلد دوم میں ع سے ي تک کی وفیات شامل ہیں، یاد رفتگاں کا سب سے دلچسپ اور مزے دار پہلو ؛ جس کی وجہ سے کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، یہ کہ جہاں ماہر صاحب کسی شخصیت کی زندگی کا ایک رخ اٹھاتے ہیں وہی دوسری طرف نقد و احتساب بھی کرتے جاتے ہیں، گویا کتاب المناقب کے ساتھ ساتھ کتاب النقد سے استفادہ ہوتا رہتا ہے، حق گوئی اور بے باکی ماہر القادری صاحب کا خاصہ ہے جو ہر وفیات سے ہویدہ ہے۔
ساتھ ساتھ ماہر صاحب نے انھی شخصیات پر لکھا ہے جن سے انھیں بالمشافہ ملاقات و زیارت یا نیاز رہا ہے، اس کی وجہ سے شخصیت کے نادر و شاذ پہلو جو شاید دوسری وفیات میں نہ ملے، وہ بھی آگئے ہیں، جیسے ؛ مولانا عبد الماجد دریابادی کے ضمن میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولانا دریابادی رحمہ الله قادیانیت کے متعلق نرم و نازک رویہ رکھتے تھے، وہ قادیانیوں کے کفریہ عقائد سے ہرگز متفق نہیں تھے، لیکن مرزا غلام احمد کی تکفیر انھیں کھٹکتی تھی، نیز سید سلیمان ندوی نے مولانا دریابادی کے متعلق کہا تھا ؛ “مولانا عبد الماجد مزاجاً ضدی واقع ہوئے ہیں، اور ہاں! اپنی دہریت کے زمانہ میں مولوی محمد علی مرزائی لاہوری کے انگریزی ترجمہ قرآن کو انہوں نے پڑھا ہے، اس کا اثر ان کے ذہن و دماغ پر اب تک باقی ہے”(76)
نیاز فتحپوری کی وفیات میں ماہنامہ نگار کے خدا نمبر کا کچا چٹھا کھول دیا ہے، اسحاق صدیقی کا پورا مضمون شاملِ کتاب کردیا ہے، اس سے نیاز فتحپوری کی سرقہ بازی کا اندازہ ہوتا ہے، حقیقت الله اعلم۔
ایسے ہی خواجہ حسن نظامی، شورش کاشمیری، مولانا حسرت موہانی ملا واحدی، عطیہ فیضی، بابائے اردو مولوی عبد الحق، رشید احمد صدیقی، سید سلیمان ندوی، زکی کیفی، شکیل بدایونی شوکت تھانوی وغیرہ کے خاکوں میں کافی نادر اور دلچسپ معلومات ہیں۔
دونوں جلدوں کے عمیق مطالعہ کے بعد مجھے جو خاکے انتہائی پسند آئے وہ یہ ہے ؛ علامہ تمنا عمادی، جگر مرادآبادی، آغا شورش کاشمیری، مولانا ظفر علی خان، عبد الماجد دریابادی، مولانا عامر عثمانی، شاہد احمد دہلوی، ابن انشا، رئیس احمد جعفری، پروفیسر حسن عسکری، مسعود عالم ندوی، مناظر احسن گیلانی، ن م راشد وغیرہ ہیں۔
زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت غیر معمولی کتاب ہے، ماہر صاحب کی نثر کے متعلق مولانا دریابادی نے کہا تھا کہ پاکستان میں دو ادیبوں کی نثر کو سند مانتا ہوں ؛ ماہر القادری اور ملا واحدی۔ ماہر صاحب کی تحریر میں زبان کی چاشنی اور روزمرہ کے چٹخارے کے علاؤہ سادگی و پُرکاری بھی ملتی ہے، ان کا قلم نرم و شاداب موجوں کی طرح رواں دواں ہیں، کونسا لفظ کس قرینے سے استعمال کرنا چاہئے، کونسی تعبیر کہاں زیادہ مناسب ہے، کونسا محاورہ زبان و ادب کے لحاظ سے زیادہ فصیح ہے، یہ تو کوئی ماہر صاحب سے ہی سیکھے، ماہر صاحب کا یہ ذوق اور اس پر مستزاد شاعری کا ملکہ ہے، جس کے باعث یادِ رفتگاں ایک اعتبار سے ادبِ رفتگاں کا منظر پیش کرتی ہے۔
جس طرح ماہر القادری مرحوم کو بہت ساری شخصیات کی قابلِ اعتراض باتیں وجدان کو کھٹکتی ہے، ایسے ہی اس کتاب کی کچھ باتیں میرے بھی دھندھلے وجدان کو کھٹکی، خصوصا جب وہ بنو امیہ کا تذکرہ کرتے ہیں، نیز اہل بیت کا ذکر آتے ہی قلم میں تحقیق سے زیادہ کچھ جذباتی سا پیدا ہو جاتا ہے، مولانا عامر عثمانی، علامہ تمنا عمادی کے خاکے میں یہ اثر دیدنی ہے، ہر کتاب میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں لازمی ہیں، لیکن یہ کتاب ہر اعتبار سے خوبیوں سے بھرپور ہے۔
کمنت کیجے