یہ چند مختصر نکات ملحوظ رہیں تو ان شاء اللہ ہم اجتماعی طور پر اس اہم دینی عمل کو مرضاۃ اللہ کے مطابق انجام دینے کی سعی کر سکتے ہیں۔
1. ہماری دینی روایت میں، جو نصوص اور امت کے تعامل پر مبنی ہے، ’’ہدی’’ اور ’’اضحیہ’’ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں۔ ہدی کا تعلق حج اور عمرے کے موقع پر حدود حرم میں پیش کی جانے والی قربانی سے ہے۔ قرآن مجید میں اسی کا ذکر ہے۔ اضحیہ باقی ساری دنیا میں یوم النحر اور اس کے بعد دو یا تین دن کی جانے والی قربانی ہے۔ اس کا ماخذ سنت اور ذریعہ ثبوت امت کا تعامل ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس کا انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔
2. ہر دینی عمل کی طرح قربانی سے متعلق بھی کچھ فقہی اختلافات موجود ہیں۔ قربانی کے دن ایک فقہی رائے کے مطابق تین اور دوسری کے مطابق چار ہیں۔ بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔ بعض اسے ہر صاحب استطاعت لیے انفراداً ضروری قرار دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک ایک گھرانے کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔ بھینس کو از قسم گائے شمار کرنے یا نہ کرنے میں بھی ایسا ہی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ اختلافات فروعی اور اجتہادی سے اختلافات ہیں اور انھیں بہت زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ جو بھی فقہی رائے کسی کو مطمئن کرتی ہو، وہ اس کے مطابق قربانی کا عمل انجام دے سکتا ہے۔
3. قربانی ایک شعار بھی ہے جس کے ظاہری آداب ملحوظ رہنے چاہییں، لیکن اس میں زیادہ اہمیت قربانی کی روح کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تک تو تمھارے دلوں کا تقویٰ ہی پہنچتا ہے، گوشت اور خون نہیں پہنچتا۔ پس رضائے الٰہی کا حصول اور اتباع واطاعت کا جذبہ اس میں اصل ہے۔ کوئی بھی چیز جو اس کو مجروح کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہو، اس پر متنبہ رہنا چاہیے۔
4. قربانی کی روح کو مجروح کرنے والی چیزیں جو عموماً ماحول میں پائی جا سکتی ہیں، کئی ہیں۔ مفاخرت اور ریاکاری کا محرک شامل ہو سکتا ہے جو دینی عمل کو تباہ کر دیتا ہے۔ گوشت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا مطلوب ہے جو عام دنوں میں گوشت نہ کھا سکتے ہوں، اس میں بخل مانع ہو سکتا ہے۔ اور گوشت کے طلبگاروں کی طرف سے کچھ ناگوار صورت حال کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، اس پر پہلے سے خود کو صبر کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے قربانی کے ذکر میں ’’القانع والمعتر’’ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔
5. زیادہ بہتر ہے کہ طلبگاروں کو اپنے دروازے پر بلانے کے بجائے اپنے ماحول میں مستحقین کا اندازہ کر کے ان کو بتا دیا جائے کہ گوشت ان کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس کے لیے جیسے اچھے اور صاف ستھرے گوشت کا انتخاب کرنا مطلوب ہے، اسی طرح صاف ستھری اور باوقار پیکنگ میں گوشت بھیجنا بھی اجر کو بڑھا دے گا۔ حسن ادا ہر عمل میں مطلوب ہے اور نوعیت کے لحاظ سے ہر عمل میں اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
6. جیسے کسی بھی عمل میں لوگوں کے لیے اذیت کا سامان پیدا کرنا عمل کو ضائع کر دیتا یا اس کا اجر کم کر دیتا ہے، اسی طرح قربانی کے ایام میں گندگی پھیلانے اور لوگوں کے لیے اذیت کا سامان کرنے سے اجتناب کو بھی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔ مناسب جگہ کا انتخاب اور پھر آلائشوں کو صحیح جگہ پر پہنچانا، یہ سب قربانی کے عمل کا حصہ شمار ہونا چاہیے۔
7. آخری نکتے سے آپ اپنی دینی رائے کے مطابق اختلاف بھی کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے نقطہ نظر سے یہ بھی اہم ہے۔ قرآن کی تعلیم کے مطابق نیکی کا کوئی بھی عمل ہو، اس سے کسی کو روکنا غلط بات ہے۔ تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔ (المائدہ) قرآن نے یہود ونصاریٰ کا بھی یہی جرم شمار کیا ہے کہ وہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کو عبادت سے روکتے تھے۔ (البقرہ)۔ اگر کہیں مسلمانوں کے ساتھ التباس اور دھوکہ دہی کا عنصر پایا جاتا ہو تو ضرور قانون کا سہارا لینا چاہیے، لیکن اپنی مخصوص آبادیوں میں اور اپنی چاردیواری میں کوئی بھی گروہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت انجام دینا چاہے تو اسے اس سے روکنا اور روکنے میں مدد کرنا تعاون علی الاثم میں آتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اللھم اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔ آمین
کمنت کیجے