Home » شریعت پر فیصلہ آزادی سے قبل اور بعد
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات فقہ وقانون

شریعت پر فیصلہ آزادی سے قبل اور بعد

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

انگریزوں نے جب برصغیر میں اپنا قانونی نظام نافذ کیا ، تو نکاح، طلاق، میراث، وصیت، ہبہ، وقف اور ان سے متعلق امور کو ’شخصی امور‘ قرار دے کر ان پر قانون سازی کرنے کے بجائے ان میں مسلمانوں کو ’شریعت‘ پر فیصلے کرنے کا حق دیا۔ یوں انگریزوں کے قائم کردہ قانونی نظام میں ’مسلم شخصی قانون‘ اور ’شریعت‘ ہم معنی ہوگئے۔ ابتدا میں انگریزوں نے مسلم شخصی امور میں فیصلوں کےلیے’قاضیوں‘ کو برقرار رکھا، لیکن بعد میں ان قاضیوں کی جگہ اپنے ’جج‘ تعینات کیے اور چونکہ ججوں کو شریعت کے متعلق آگاہی نہیں تھی، تو ان کےلیے ’معاون مفتی‘ مقرر کیے۔ کچھ عرصے بعد اسلامی فقہ کی بعض اہم کتابوں کا (غلط سلط) انگریزی ترجمہ کیا گیا، تو مفتیوں پر انحصار کم ہوگیا اور جج ترجمے پڑھ کر مسلم شخصی امور میں فیصلے کرتے۔ ’مسلم شخصی امور‘ میں اسلامی فقہی کتب کے انگریزی ترجموں کی مدد سے انگریزی عدالتوں کے ججوں کے ’فہمِ شریعت‘ پر مبنی فیصلوں سے جو قانون بنا اسے برصغیر میں’اینگلو محمڈن لا‘ کہا جانے لگا جو بعد میں مختصر ہوکر ’محمڈن لا‘ کہلایا اور اسی کو ’شریعت‘ اور ’مسلم شخصی قانون‘ بھی کہا گیا۔
اگرچہ مسلم شخصی امور پر متعدد فیصلوں میں ان ججوں نے اسلامی فقہ سے غلط حکم اخذ کیا یا مقدمے کے حقائق پر اس کی تطبیق میں غلطی کی، لیکن بطورِ اصول انھوں نے طے کیا تھا کہ مسلمانوں میں اہلِ سنت کے تنازعات کےلیے حنفی مذہب کی معتبر کتابوں (جیسے ہدایہ و عالمگیریہ) سے اور اہلِ تشیع کے تنازعات میں اثنا عشری مذہب کی معتبر کتابوں (جیسے شرائع الاسلام) سے حکم لیا جائے گا، اور اگر فریقین میں ایک سنی اور دوسرا شیعہ ہو، تو مدعا علیہ کے فقہی مذہب پر فیصلہ ہوگا۔ انگریزوں کے دور میں بعض مقدمات پریوی کونسل تک گئے، لیکن پریوی کونسل نے بھی بالعموم مسلمانوں کے فقہی مذہب سے انحراف نہیں کیا، اور جہاں انحراف کیا، وہاں مسائل پیدا ہوئے۔
مثلاً 1894ء میں پریوی کونسل نے ’ابو الفتح محمد اسحاق مقدمے‘ میں ’وقف علی الاولاد‘ کے خلاف فیصلہ دیا تو مسلمانوں میں بہت بے چینی پھیلی۔ 1910ء میں بیرسٹر محمد علی جناح (جو ابھی قائدِ اعظم نہیں کہلاتے تھے) بمبئی سے مسلمانوں کی نشست پر مجلسِ قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے، تو ان کی کوششوں سے 1913ء میں ’اوقاف کو جائز قرار دینے کا قانون‘ منظور کیا گیا جس نے وقف علی الاولاد اور دیگر اوقاف کو قانونی تحفظ دیا۔ 1923ء میں آپ کی کوششوں سے ایک اور قانون منظور ہوا جس نے اوقاف کے حسابات اور دیگر امور کو منضبط کیا۔ یہ قانون پاکستان میں آج تک نافذ ہے (اسلام آباد میں ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر اس قانون کو ختم کرکے 2020ء میں نیا قانون لایا گیا جس کی کئی شقیں اسلامی احکام سے متصادم ہیں)۔
1937ء میں ’مسلم شخصی قانون (شریعت) کے نفاذ کا قانون‘ بنانے میں بھی قائدِ اعظم نے اہم کردار ادا کیا۔ اس عنوان میں دیکھیے کہ مسلم شخصی قانون اور شریعت کو مترادف قرار دیاگیا، اور اس قانون کی دفعہ 2 میں نکاح، طلاق، میراث، وصیت، ہبہ اور وقف اور دیگر شخصی امور کا نام لے کر یہ اصول طے کیا گیا کہ ان کےلیے شریعت کو ’فیصلے کے قانون‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ آزادی سے قبل اس قانون نے کم از کم شخصی امور کی حد تک مسلمانوں کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع دیا اور اس لحاظ سے یہ ایک بہت ہی اہم قانون تھا۔ پاکستان میں اس وقت اس قانون کی وہ شکل رائج ہے جو 1962ء میں نافذ کیا گیا۔
دو مزید قوانین کا بھی ذکر ضروری ہے۔ 1929ء میں 18 سال سے کم عمر کے لڑکے اور 16 سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی پر سزا کا قانون منظور کیا گیا جو بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آج بھی بعض جزوی تبدیلیوں کے ساتھ نافذ ہے، جبکہ سندھ میں 2013ء میں اور اسلام آباد میں ابھی دو ہفتے قبل اس کی جگہ نیا قانون لایا گیا ہے۔ 1929ء کے اس قانون کے حق میں بھی قائدِ اعظم کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن اس میں دو باتیں نظر انداز کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ اس قانون کے حق میں قائدِ اعظم کی تقریر کا انحصار اس ’محمڈن لا‘ پر تھا جو انگریزوں کے دور میں عدالتی فیصلوں سے وجود میں آیا اور انھوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ وہ شریعت کے عالم نہیں ہیں؛ دوسری، یہ کہ اس قانون میں بچوں، خصوصاً بچیوں کو، ان کے سرپرستوں کے غلط فیصلوں سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن ایسے نکاح کو ناجائز نہیں قرار دیا گیا، جبکہ سندھ اور اسلام آباد کے نئے قوانین اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ ایسا نکاح ہی غلط ہے۔ یاد ہوگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 2022ء میں ایسے نکاح پر ’ریپ‘ کی دفعات کا اطلاق کیا تھا۔
دوسرا قانون فسخِ نکاح کے اسباب کے متعلق 1939ء میں منظور کیا گیا۔ اس قانون میں حنفی مذہب کے بجائے مالکی مذہب سے تفصیلات لی گئیں اور یہ کام اصلاً مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے ساتھیوں اور شاگردوں نے کیا تھا، اگرچہ قانون جس صورت میں منظور ہوا وہ مولانا تھانوی کے فتوی سے کئی امور میں مختلف تھا۔ مالکی مذہب پر فتوی دینے کےلیے بنیادی عذر یہ پیش کیا گیا کہ حنفی مذہب میں فسخِ نکاح کے اسباب بہت محدود ہیں جو اس وقت کافی تھے جب مسلمانوں کے قاضی موجود تھے اور وہ خواتین کا تحفظ کرتے تھے، لیکن انگریزوں نے قاضیوں کا نظام ختم کردیا تو خواتین کےلیے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلم شخصی امور میں انگریزوں نے بہت کم مداخلت کی اور ان امور کی حد تک مسلمانوں کےلیے اسلامی شریعت کے احکام پر فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی، نیز انگریز جج عموماً براہِ راست قرآن و سنت سے استدلال کے بجائے مسلمانوں کے فقہی مذاہب کی پابندی کرتے تھے۔
آزادی کے بعد صورتحال میں بہتری آنی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور پہلے لبرل قانون سازوں نے اور پھر لبرل ججوں نے ان شخصی امور میں اسلامی احکام کو اپنے لبرل تصورات کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوششیں کیں۔ عائلی کمیشن رپورٹ 1956ء اور عائلی قوانین آرڈی نینس 1961ء نے اس انحراف کی بنیاد رکھی اور پھر سپریم کورٹ نے ’علی نواز گردیزی 1963ء‘ (طلاق) اور ’خورشید بی بی 1967ء‘ (خلع) جیسے فیصلوں کے ذریعے اس انحراف کو آگے بڑھایا، باوجود اس کے کہ ملک کے سب سے بالاتر قانون، آئین، میں اللہ کی حاکمیت اور اسلامی احکام کی بالادستی کے اصول تسلیم کیے گئے تھے۔ 1973ء کے آئین نے اسلامی احکام کی پابندی کےلیے مزید اصول دیے اور’قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء‘ نے عدالتوں کو تمام قوانین کی اسلامی تعبیر کرنے کا پابند کردیا۔ سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنچ 2023ء میں اس اصول کی پابندی تمام عدالتوں پر لازم قرار دے چکا ہے، لیکن کئی لبرل جج آج بھی ان اصولوں کی پابندی سے گریز کررہے ہیں۔ نتیجتاً انگریز دور کی بہ نسبت آج مسلم شخصی امور میں مسلمانوں کےلیے شریعت پر فیصلہ بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس مشکل پر بحث وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں