Home » شاردا ایکٹ
تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار فقہ وقانون

شاردا ایکٹ

تقریباً‌ ایک صدی پہلے کم سنی میں بچوں کی شادی پر قانونی پابندی کی بحث امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں بھی اٹھی تھی جس کے محرک ایک ہندو ممبر رائے صاحب ہربلاس شاردا تھے۔ مسٹر شاردا نے ۱۹۲۷ میں ’’ہندو چائلڈ میرج بل’’ کے نام سے ایک مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے دو سال کے بحث ومباحثہ اور شدید مخالفت کے بعد ۱۹۲۹ء میں ’’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ’’ کے عنوان سے منظور کیا گیا۔ مختصراً‌ اسے ’’شاردا ایکٹ’’ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس میں لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر چودہ سال مقرر کر دی گئی۔
چونکہ ہندو اور مسلم، دونوں کمیونٹیز میں کم سنی کی شادی عام تھی اور اسے رواجی اور مذہبی سند بھی حاصل تھی، اس لیے ہر دو کمیونٹیز کے رجعت پسند طبقات اس کے خلاف متحد ہو گئے تھے جس کا ذکر پنڈت نہرو نے بھی، احمدی مسئلے پر علامہ اقبال کے ساتھ مکالمے میں کیا ہے۔ قدامت پسندوں کی ناراضی اور برافروختگی کی سطح کا اندازہ مولانا آزاد کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے جمعیۃ علمائے ہند کے سالانہ اجلاس ۱۹۳۱ء میں اپنے خطبہ صدارت میں پیش کیا۔ اصولاً‌ کم سنی کی شادی کے خلاف ہونے کے باوجود مولانا کو حاضرین کی دل جوئی کے لیے یہ کہنا پڑا کہ اگرچہ اسلام اصولاً‌ صغر سنی کی شادی کا موید نہیں، لیکن شاردا ایکٹ بہرحال غلط ہے۔
اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اس قانون کی حمایت میں اسمبلی میں متعدد گفتگوئیں کی تھیں جن میں سے 11 ستمبر 1929 کو کی جانے والی گفتگو خاص طور پر اہم ہے اور ہماری مجالس قانون ساز کے لیے راہنما کی حیثیت رکھتی۔ اس کا انگریزی متن اور اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 1927 میں، رائے صاحب ہربلاس شاردا نے ہندو چائلڈ میرج بل پیش کیا جو ہندوؤں میں “بچیوں کی بیوگی کو روکنے” کے لیے تھا۔ اسے ایک خصوصی کمیٹی کو بھیجا گیا؛ بعد میں حکومت نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بل کو عوامی رائے کے لیے مشتہر کیا۔ بل کی سخت مخالفت ہوئی۔ سن 1928 میں، 29 اسمبلی اراکین نے ہوم ممبر کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے بل کی مخالفت کی۔ مسلمانوں کی طرف سے بھی جب اس بل کی شقیں ان پر لاگو کرنے کی بات ہوئی تو شدید مخالفت ہوئی۔ 74 علماء نے، جن میں جمعیت علماء ہند کے علماء بھی شامل تھے، وسیع پیمانے پر مشتہر کیے جانے والے فتوے میں بل کی مخالفت کی اور قرار دیا کہ یہ مسلم پرسنل لاء کی خلاف ورزی ہے۔ 18 رکنی خصوصی کمیٹی کے تین مسلمان اراکین نے اختلافی نوٹ لکھے جن میں انہوں نے بل کی مخالفت کی۔
(اس پس منظر میں) 11 ستمبر 1929 کو، قانون ساز اسمبلی نے خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مجوزہ بل پر دوبارہ غور شروع کیا۔ بل پر گفتگو کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا:
“سر، سب سے پہلا اور اہم سوال جو میں اس مجلس قانون ساز کے رکن کی حیثیت سے خود اپنے آپ سے پوچھتا ہوں ،یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کم عمری کی شادی ایک سماجی برائی کے طور پر موجود ہے یا نہیں؛ کیا یہ ایک دردناک سماجی مسئلہ ہے یا نہیں؟ کیا یہ انسانیت ہے کہ ہزاروں اور لاکھوں لڑکیوں کی انتہائی کم عمری میں شادی کر دی جائے جو ان کی نسوانی صلاحیت کو نچوڑ لے؟ سر، اس نکتے پر اور جو بھی اختلاف ہو، میرے خیال میں انسانیت کے حوالے سے اس ہاؤس میں کوئی ایسا رکن نہیں جو اس سنگین برائی اور غیر انسانی رواجات کو پرسکون رہتے ہوئے گوارا کر سکے یا اس کی مذمت نہ کرے جو اس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ سر، میں اپنے دوست مسٹر شاہ نواز سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ میں خود اس سے ناواقف تھا کہ مسلمانوں میں یہ برائی کس حد تک اور کس درجے میں پائی جاتی ہے۔
جب گزشتہ مواقع پر بحث ہو رہی تھی تو میرے دوست پنڈت مالویہ نے میری تصحیح کی تھی، کیونکہ میں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے ہاں یہ برائی اس حد تک موجود نہیں ہے۔ جب انہوں نے میری تصحیح کی تو میں حیران رہ گیا، لیکن میرے پاس وہ اعداد و شمار نہیں تھے جو اب ہمارے پاس موجود ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ میرے علاقے میں یہ برائی اس حد تک موجود نہیں ہے جتنا کہ اب ہماری معلومات کے مطابق پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن انڈیا کے دوسرے علاقوں میں یہ برائی اب بھی موجود ہے۔
سر، اب اگر یہ ایک حقیقت ہے اور میں اسے ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر مان کر بات کروں گا، تو پھر اگلا سوال جس پر ہمیں غور کرنا ہوگا، یہ ہے کہ کیا ہم اس خوفناک مسئلے کا حل نکالنا ہے یا نہیں؟ میں اپنے دوست مسٹر غزنوی سے اس سوال کا جواب چاہوں گا۔ کیا ہم اس برائی کا خاتمہ کرنے سے لاچار ہیں؟ سر، میں کوئی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا اور نہ میں عالم ہوں، اور نہ ہی میں مذہبی قانون کا ماہر ہونے کا مدعی ہوں۔ لیکن میں ایک بات جانتا ہوں کہ گزشتہ تیس سال سے بمبئی میں وکالت کے پیشے میں متحرک رہنے کے عرصے میں میں نے ہمیں ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ شادی کے قانون کا فی نفسہ مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ محمڈن لا کے مطابق شادی سیدھے اور صاف مفہوم میں، ایک معاہدہ ہے۔ اب، اگر میری بات درست ہے کہ شادی بالکل سادہ اور واضح طور پر، ایک معاہدہ ہے تو کیا معزز اراکین مجھے کوئی ایسی نص (آیت یا حدیث) بتائیں گے جو میرے علم میں نہ ہو؟ میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ شادی محمدی قانون کے مطابق ایک معاہدہ ہے۔ کیا اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے اس پر اختلاف کرے تو اسے محمدی قانون کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی نص ہے جو مسلمانوں پر لازم کرے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی 14 سال کی عمر سے پہلے کرائیں؟ (کچھ معزز اراکین: “نہیں، نہیں”) ایسی کوئی نص نہیں ہے۔ اس کے برعکس، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں — اور یہاں مولوی محمد یعقوب صاحب نے بھی اپنے بہت عمدہ نوٹ میں اس تجویز کی تائید کی ہے جو میں ہاؤس کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں—محمدی قانون بلوغت کی عمر کو 14 سال قرار دیتا ہے۔ (کچھ معزز اراکین: “پندرہ”) میں نص کی بات نہیں کر رہا، میں اب محمدی قانون کی بات کر رہا ہوں جیسا کہ اینگلو-انڈین متن نگاروں نے مرتب کیا ہے۔ (ایک معزز رکن: “پندرہ”) میں اختلاف کی اجازت چاہوں گا۔ بلوغت کی عمر 14 سال ہے۔ تاہم، اگر یہ 15 سال بھی ہو تو یہ میرے حق میں زیادہ مضبوط دلیل ہے۔ بہت خوب، اگر آپ چاہیں تو میں اسے قبول کر لوں گا کیونکہ یہ میرے حق میں زیادہ مضبوط دلیل ہے۔ اب مولوی محمد یعقوب کیا کہتے ہیں؟ (وہ فرماتے ہیں)
“اسلام عام طور پر سمجھداری کی عمر کے بعد شادی کو ترجیح دیتا ہے، لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ خاص حالات میں لڑکی کی بہبود یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی شادی کم عمری میں کر دی جائے۔ چنانچہ اسلام نے شادی کی کوئی خاص عمر مقرر نہیں کی اور نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کو جائز رکھا گیا۔”
لہٰذا، میں اس اعتراض کو درست نہیں سمجھتا کہ یہ بل کسی طرح سے بھی مسلمانوں کی شادیوں پر نافذ ہونے والے سول قوانین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ میں اپنے معزز دوست (مولوی یعقوب صاحب) سے اتفاق کرتا ہوں اور انھوں نے جو بالکل ابتدائی تقریر کی، اس پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ میں تسلیم نہیں کر سکتا کہ جس طرح کی سماجی برائیاں ہمارے ہاں رائج ہیں، ان کے لیے کوئی شرعی اجازت ہو سکتی ہے ، اور ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ان برائیوں کے جاری رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس ظالمانہ، خوفناک، شرمناک اور غیر انسانی عمل کو جو ہندوستان میں رائج ہے، شریعت کی تائید حاصل ہو؟
سر، میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ قرآن میں، اور اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں اس برائی کو ختم کرنے سے روکے۔ اگر ہم آج یہ کر سکتے ہیں تو کل کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میں قدامت پسند رائے کا مکمل احترام کرتا ہوں۔ میں مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے قدامت پسند جذبات کو سمجھتا ہوں۔ سر، جب کچھ اعمال، رواجات اور طریقے، چاہے ان کا کوئی الہی یا مذہبی جواز ہو یا نہ ہو، معاشرے میں عام ہو جائیں تو پھر جب سماجی اصلاح کی کوئی تجویز دی جاتی ہے جو مذہبی روایات اور رواجات کو ختم کرنے کی کوشش کرے جنھیں لوگ نیم مذہبی حیثیت دیتے ہیں اور اسی انداز سے دیکھتے ہیں، تو دنیا بھر میں یہ معلوم ہے کہ (ایسے موقع پر) ایسے لوگ جن کے گہرے جذبات، پختہ خیالات اور بہت سخت رائے ہوتی ہے، ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان کی سماجی زندگی یا ان کے مذہب کو جڑ سے ختم کر رہی ہے۔ ہمیشہ سماجی مصلح کو اس قدامت پسند رائے کا سامنا ہوتا ہے جو اس عقیدے، جذبے اور احساس کے پیچھے ہوتی ہے۔ یہ بالکل قابل فہم اور کسی حد تک جواز رکھتی ہے، لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمیں اس طبقے کے سامنے ہار مان لینی چاہیے یا پسپائی اختیار کر لینی چاہیے جن کا ہم احترام کرتے ہیں، جن کے جذبات کی قدر کرتے ہیں، اور جن کے احساسات کی عزت کرتے ہیں؟ کیا ہمیں انسانیت کے نام پر ترقی کی راہ میں ان کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے چاہییں؟
اور سر، جہاں تک میرے اپنے حلقہ انتخاب بمبئی کا تعلق ہے، مجھے ان کی طرف سے (اس مسئلے پر) کوئی مینڈیٹ نہیں دیا گیا۔ یہ معاملہ اس ہاؤس میں کافی عرصے سے زیر بحث ہے، اس پر پریس اور پلیٹ فارم پر بات ہوئی ہے؛ لیکن میرے حلقہ انتخاب نے مجھے کسی قسم کا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا، اس لیے میں شاید اس پر خوش ہوں اور شاید (اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے) اپنے معزز دوستوں سے بہتر پوزیشن میں ہوں جو شاید خوفزدہ ہیں کہ انہیں مستقبل میں اپنے حلقہ انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا، یا جن کے لیے کچھ مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں، یا جن میں سے کچھ کو (کوئی خاص موقف پیش کرنے کا) مینڈیٹ ملا ہے۔ لیکن، سر، میں جرات سے کہتا ہوں کہ اگر میرا حلقہ انتخاب اتنا پس ماندہ ہے کہ اس طرح کے اقدام کی مخالفت کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ میری سب سے واضح ذمہ داری یہ ہوگی کہ میں اپنے حلقہ انتخاب سے یہ کہوں کہ ’’آپ کے لیے بہتر ہوگا کہ کوئی اور آپ کی نمائندگی کرے’’۔ کیونکہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک میں عوامی رائے اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے، اور اگر ہم اپنے آپ کو اس عوامی رائے سے متاثر ہونے دیں جو مذہب کے نام پر پیدا کی جاتی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں، تو ہمیں ہمت سے کام لینا چاہیے اور کہنا چاہیے، ’’نہیں، ہم اس سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔”

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں