ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری صاحب اپنی نو اپریل کی ایک پوسٹ میں تحریر فرماتے ہیں:
”جدید ریاست کے ناقدین فیس بک پر کچھ عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ یہ ایک نئی رو ہے اور اس فکری تحریک کی زیادہ تر بنیاد محمد دین جوہر صاحب کا کام ہے۔ کئی نکات ہیں اور درست بھی معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک بنیادی بات سوچتا ہوں کہ جدید ریاست کے ان ناقدین کے پاس تقابل و تنقید کے لیے پیمانہ کیا ہوتا ہے؟ زیادہ کامیاب جدید فلاحی ریاستیں جیسے ناروے اور ڈنمارک وغیرہ؟ کوئی تاریخی قدیم ریاست جیسے اورنگزیب کا ہندوستان؟ یا کوئی ایسی آئیڈیل ریاست جو ابھی تک وجود میں نہیں آ سکی؟ اس تنقید کے بامعنی ہونے کے لیے یہ طے کرنا میرا خیال ہے کہ بہت ضروری ہے۔“
میری رائے میں ڈاکٹر صاحب کا اٹھایا ہوا یہ سوال بہت اہم ہے کہ جدید ریاست پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے ناقدین کے پاس ”تقابل و تنقید کے لیے پیمانہ کیا ہوتا ہے؟“ آج کی دنیا میں طاقت اور خوشحالی، ترقی اور آزادی کا براہ راست تعلق جدید ریاست اور معاشی پیداواری عمل سے ہے اور یہ دونوں توام ہیں۔ برصغیر میں تجدد کا آغاز جن بڑے مباحث سے ہوا ان میں جہاد کا مسئلہ شامل تھا اور صاف ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ جدید ریاست اور جدید سیاسی ساختوں سے براہِ راست متعلق ہے۔ مسلم دنیا میں بڑی بڑی خرابیاں بھی اسی لیے پیدا ہوئی اور آج تک چلی آتی ہیں کہ جدید سیاست اور جدید معیشت کو ہم کسی بھی دینی یا غیر دینی تناظر میں سمجھنے کے وسائل ہی پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ نام نہاد مفکرینِ اسلام نے ان موضوعات پر جو داد سخن دے رکھی ہے اس سے علوم اور حالات کا الجھاؤ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ان پر مذہبی اور علمی گفتگو کے امکانات ہی ختم ہوتے جاتے ہیں۔
سوال میں بنیادی نکتہ جدید ریاست پر گفتگو کے امکان کا ہے۔ یعنی جدید ریاست پر گفتگو کا امکان ”تقابل اور تنقید“ کے تناظر میں ممکن ہے، اور تقابل اور تنقید کے لیے دستیاب وسائل تین ہیں: جدید فلاحی ریاستیں، (مثلاً) اورنگ زیب عالمگیر کے تحت تاریخی قدیم ریاست یا غیرموجود آئیڈیل ریاست۔ اگر یہ موقف اختیار کیا جائے کہ جدید ریاست اور ماقبل جدیدیت طاقت کی ساختوں کے مابین تقابل اور تنقید کی کوئی بنیادیں موجود ہی نہیں ہیں تو نہ صرف یہ کہ گفتگو کا امکان باقی نہیں رہتا بلکہ اس کی legetimacy بھی ختم ہو جاتی ہے۔ علمی لحاظ سے یہ ایک پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہے کیونکہ یہ اپروچ جدید تاریخ اور معاشرے کو gloss over تو کر دیتی ہے لیکن اس کے ادراک اور اظہار کے در وا نہیں کر پاتی۔ جدید ریاست بطور علمی موضوع سے ملتی جلتی صورت حال استعمار کی ہے۔ استعمار ہمارا براہِ راست تاریخی تجربہ رہا ہے اور ایک بدلی ہوئی حالت میں اب بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم روایتی یا جدید علم کے کسی شعبے میں رہتے ہوئے اس تجربے کی علمی اور نظری توسیط کر پائے ہیں یا نہیں؟ میرے نزدیک اس کا جواب نہیں میں ہے، اور دو ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ استعمار محکوموں کے انفس و آفاق کا صورت گر ہے لیکن ہمارے علوم میں اس پر کوئی کلام موجود نہیں ہے، نعرے یقیناً موجود ہیں۔ یہی صورت حال جدید معیشت کی ہے، جدید بینکاری کی ہے، جدید تعلیم کی ہے۔ کسی بھی شعبے میں ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے، اور ہم جو کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ مانگے تانگے کا ہے اور اسی کو اسلامی کہہ کر گزارہ چلاتے ہیں۔ نام نہاد مفکرینِ اسلام کی دنانیت اور پست فکری کی وجہ سے صورت حال میں بہتری کا کوئی امکان بھی شاید اب نہیں رہا۔ یہ مایوسی کی بات نہیں ہے، امر واقعہ ہے کیونکہ امتِ مسلمہ میں کہیں بھی کوئی ایسی گفتگو نہیں ہو رہی اور ایسا کوئی عمل سامنے نہیں آ رہا جس سے اس کے برعکس امید باندھی جا سکے۔
اس صورت حال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جدید ریاست کے بارے میں اسلامی موقف کیا ہے؟ لیکن یہ سوال نہیں اٹھانا چاہتے کہ جدیدیت کے مظہر کے طور پر جدید ریاست خود کیا ہے؟ کیونکہ اسی سوال کے جواب میں یہ معلوم ہو گا کہ جدید ریاست اور ماقبل جدیدیت سیاسی ساختوں میں کیا چیز مشترک ہے اور فرق کہاں کہاں ہیں۔ یہی طریقہ معیشت، علم، تعلیم، کلچر اور ٹکنالوجی پر گفتگو میں بھی برتا جاتا ہے۔ اس اپروچ سے ہم عصر صورت حال اور ہم عصر علوم کے بارے میں ہماری آگہی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن اسلام اور شریعت کو جدید اداروں اور علوم کے مطابق ڈھالنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔
جدید ریاست پر گفتگو صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ اسے ماضی میں موجود سیاسی طاقت کی ہیئتوں کا تسلسل یا successor نہ سمجھا جائے، جو وہ یقیناً نہیں ہے، اور اسے جدیدیت کے بڑے مظہر کے طور پر دیکھا جائے۔ ہماری جدید علمی روایت میں جدید ریاست کو ماضی میں قائم سیاسی طاقت کی ہیئتوں کا تسلسل سمجھا جاتا ہے، اور نام نہاد فکرِ اسلامی اسی ”روایت“ میں رہتے ہوئے جدید ریاست کو موضوع بناتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف جدید ریاست کے ساتھ نہیں ہے بلکہ معیشت و معاشیات، ٹکنالوجی، جدید پیداواری عمل، علم اور تعلیم، میڈیا وغیرہ پر گفتگو میں یہی صورت حال پیش آتی ہے۔ تین دہائیوں سے تعلیم، تعلیمی تصور و عمل اور جدید اسکول اور کالج میں کام کرتے ہوئے مجھے اس امر کا احساس و ادراک ہوا ہے کہ ہمارے کلچر میں جدید موضوعات پر گفتگو کے لیے کوئی space ہی سرے سے موجود نہیں ہے، اور جو بھی گفتگو ہوتی ہے وہ لغوِ محض ہے کیونکہ واقعاتی تاریخی، سیاسی اور معاشی صورت حال ایک بنیادی مدرک کے طور پر ہمارے علوم میں موجود ہی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جدید فکرِ اسلامی کا اس حق اور ہدایت سے کوئی تعلق ہی سرے سے موجود نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ تمام تر جدید فکر اسلامی ایسی من مانی تعبیرات کا مجموعہ ہے جو جدیدیت کی شرائط پر دین سے اخذ کی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں جتنی بھی جدید مذہبی اور سیاسی فکر پائی جاتی ہے، اور جس میں مولانا مودودیؒ کی سیاسی فکر اور غامدی صاحب کا مذہبی تجدد بھی شامل ہے، ان کی حیثیت بالکل وہی ہے جو مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے ردِ فزکس و نیوٹن کی ہے، یا جو حیثیت مولانا محمد طیب قاسمیؒ کی سائنس پر گفتگو کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مؤخرالذکر دونوں بزرگوں نے دیانت داری سے کام لیا اور اس interface پر رہتے ہوئے بات کی جو روایتی معقولات اور جدید علوم کے مابین فطری طور پر بنتا تھا۔ یعنی ان دونوں بزرگوں نے معقولی علم کے وہی tools (علوم آلیہ) برتے ہیں جو ان کو روایتاً حاصل ہوئے تھے اور جن کے وہ وارث تھے، اور اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ بھی صاف ظاہر اور مشتہر و معروف ہیں۔ علوم آلیہ ادراک اور اظہار دونوں کو govern کرتے ہیں اور ان کے بغیر کارِ علمی سے وہی کچھ نکلتا ہے جو گزشتہ دو، ڈھائی سو سالہ دور میں ہمارے ہاں سامنے آیا ہے۔ مذہبی متون کی بے اصول اور صوابدیدی تعبیرات کے دنیا پر ایرادات کو علم نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے اس دور کے علوم نہ ہیوں میں ہیں نہ شیوں میں۔ اگر آدمی مذہبی اور مسلکی تعصب سے تھوڑی دیر رخصت لے کر صرف مشاہدے کو ہی رہنما بنائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے حالات بد سے بدتر کی طرف ویسے ہی پیشرفت کر رہے ہیں جیسے کہ آج سے سو سال پہلے تھے۔
میں گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مابعد استعمار ہم نے علم کے وہ tools (علوم آلیہ) ہی ضائع کر دیے جو مذہبی مراد و معانی اور افعال و اعمال کی preservation کے لیے وضع ہوئے تھے اور جو روایت سے ساتھ زندہ تعلق کے لیے ضروری تھے۔ نیچر اور دنیا ہماری معقولات کا سرے سے موضوع ہی نہیں تھے، جبکہ جدید معقولات کا موضوع ہی طبائع (natural world) اور دنیا (تاریخ+معیشت+معاشرہ) ہیں۔ ان دونوں میں مشترک چیز ثقہ بنیادوں پر عقل کی فعلیت ہے۔ مذہبی معقولات میں عقل مخاطبِ وحی ہونے کی حیثیت سے اپنی وجودی ذمہ داری کو نبھا رہی ہے جبکہ جدید معقولات میں عقل Faustian bargain کی تفصیلات سامنے لا رہی ہے، یعنی جدید معقولات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انکارِ حق کے بعد علم کیا ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔ ہم نے علوم آلیہ، اصولِ دین اور اصول فقہ کے جنازے ابھی تک سر پہ دھرے ہوئے ہیں اور نہیں معلوم کہ ان کی ذہن میں تخم ریزی کیسے ہو گی اور یہ بھی نہیں معلوم کہ انھیں دفن کرنا ہے یا ابھی اٹھائے رکھنا ہے۔ پھر ہم ان tools کی آگاہی بھی فراہم نہ کر سکے جو تحریک تنویر نے نئے معنی اور نئے عمل کی تشکیل کے لیے پیدا کیے تھے اور جن کے ذریعے سے جدیدیت اور اس کے مظاہر ہمارے لیے قابلِ ادراک، قابلِ فہم اور قابلِ اظہار ہو سکتے تھے۔ یہی معاملہ جدید ریاست کا ہے کہ یہ ہمارے نظری، فکری اور علمی ادراک ہی میں نہیں ہے تو اس کے وسائل اظہار کہاں سے آئیں گے؟
عصر حاضر میں سیاسی طاقت+سرمائے پر گفتگو کے دستیاب تناظر صرف تین ہیں: نظریاتی، سیاسی اور اخلاقی۔ سیاسی طاقت+سرمائے پر علمی گفتگو میں یہ تینوں تناظر کئی پہلوؤں سے باہم overlapping ہیں، اور اپنی نوعیت میں بالکل جدید ہیں۔ جدید سیاسی اور معاشی مباحث دینی تعلیمات سے قطعی مختلف ہیں اور ان کو کسی بھی علمی اصول اور موقف کے تحت یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ جدید سیاسی اور معاشی مباحث تاریخ اور معاشرے میں کچھ واقعاتی چیزوں کو زیربحث لاتے ہیں، جبکہ دینی تعلیمات کا ان واقعاتی حقائق سے کوئی دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ دینی تعلیمات احکام و اقدار کے مجموعے پر مشتمل ہیں اور جن کے مخاطب براہ راست اولوالامر یا ملوک ہیں۔ دینی تعلیمات اپنے مخاطب سے نئی سیاسی، معاشی اور سماجی حقیقت پیدا کرنے کا مطالبہ رکھتی ہیں۔ یہ تعلیمات ان تاریخی حقائق (facts) کے تابع نہیں ہیں، یعنی یہ دینی تعلیمات (اولوالامر کے لیے) منطوق تو ہیں لیکن ان کا کوئی مدلول تاریخ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اور ان تعلیمات میں مخاطب سے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ بعینہٖ یہی تو ہے کہ وہ ان تعلیمات کو تاریخ میں ایک حقیقت (fact) اور واقعے کے طور پر قائم کر کے دکھائے۔ جبکہ جدید سیاسی علوم تاریخ اور معاشرے میں پہلے سے موجود طاقت اور سرمائے کے حقائق کو زیربحث لاتے ہیں اور سیاسی جدوجہد سے ان کے رخ کو متعین کرنے اور کچھ خاص مقاصد کی طرف پیشرفت کا داعیہ رکھتے ہیں۔ یہ ”خاص مقاصد“ سیاسی نظریات کی نئی اور بدلتی ہوئی تشکیلات سے متعین کیے جاتے ہیں۔ اس معنی میں اسلامی معاشروں میں politics کبھی موجود ہی نہیں رہی۔ جدید معاشروں میں طاقت اور سرمائے کی حرکیات بالکل نئی چیز ہے اور power politics اسی حرکیات سے پیدا ہوتی ہے۔
جدید عہد میں سیاسی طاقت اور سرمائے پر گفتگو کرتے ہوئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ the political کی گفتگو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نظریے (ideology) اور اخلاقیات (ethics) سے ورا، معاشرے میں موجود اور قائم سیاسی طاقت اور سرمائے کی ہیئتوں کو موضوع بنایا جائے اور ان کی تجزیاتی تفہیم حاصل کی جائے، اور یہ ذمہ داری اس علم کی ہے جسے political thought یا political science کے زیر عنوان تشکیل دیا گیا ہے۔ سادہ لفظوں میں جدید سیاسی علوم اور فکر تاریخ اور معاشرے میں پہلے سے ایک موجود و معلوم کے تابع ہیں۔ اسلامی معاشروں کی سیاسی اور معاشی اجتماعیت کے حوالے سے دین کی تعلیمات ہمیشہ موجود رہی ہیں، اور ان معاشروں میں شریعت اور فقہ کی تعلیمات ہی فرمانروائی کی بنیاد رہی ہیں۔ لیکن ہماری تہذیبی روایت میں سیاسی علوم یا سیاسی فکر نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ مطلوب ہی نہیں تھی۔ میری گزارش یہ ہے کہ سیاسی گفتگو سے پہلے نظریاتی اور اخلاقی گفتگو نہ صرف بے معنی ہے بلکہ مضر بھی ہے۔ ”سیاسی“ سے مراد یہ ہے کہ جدید عہد میں نئی معاشی قوتوں، سیاسی اداروں اور ٹکنالوجی سے انسانی اجتماعی زندگی کی ہیئت مکمل طور پر بدل گئی ہے اور ان کی بابت علم بھی ایک نیا علم ہے۔ ان نئی ہیئتوں میں سب سے بنیادی نیا معاشی پیداواری عمل ہے، اور پھر جدید ریاست ہے۔ ان دونوں کی ہیئت تنظیمی اور ٹکنالوجیائی ہے جو بالکل ایک نئی چیز ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اور معاشی مباحث کی پستی اس قدر ہے کہ کوئی بات کہی ہی نہیں جا سکتی۔ ہمارے نظریاتی اور اخلاقی مباحث جدید سیاسی اور معاشی طاقت کے ہرکارے ہیں اور دین و دنیا دونوں کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ اگر ایک پست مثال دی جائے تو یہ ہے کہ فرض کیا کار ایک اجتماعی ہیئت ہے تو اس کا رنگ نظریاتی پہلو ہے، اور اس کی سیٹوں کا آرام دہ ہونا یا نہ ہونا اخلاقی پہلو ہے، اور کار بطور ایک ٹکنالوجیائی ہیئت کے کیا ہے یہ ایک ”علمی“ موضوع ہے اور اس سیاسی علم و فکر کا ہمارے ہاں نشان بھی نہیں ہے۔ یہ پست مثال میں نے بات سمجھانے کے لیے عرض کی ہے۔ ہمارے ہاں کار کے رنگ اور سیٹوں کی آرام دہی پر بہت گفتگو ہے لیکن طاقت اور معاش کے استحصالی اداروں پر کوئی کلام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جدید ریاست یا جدید معاشی نظام کو جب تک براہ راست علمی موضوع بنا کر یہ طے نہ کیا جائے کہ وہ کیا ہیں، اس وقت تک ان کے نظریاتی اور اخلاقی پہلوؤں پر کوئی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ اور ان کو موضوع بنانا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے روایتی معقولات کے پاس ایسے کوئی tools ہی نہیں ہیں جو ان کے تجزیے اور تفہیم میں معاون ہوں، اور جدید علمی tools کا ہمارے ہاں کوئی شعور ہی موجود نہیں ہے۔ اور اسی محل پر ہمارے سیاسی ملاؤں اور اہلِ علم کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں، اور ان کے کلام فرماتے ہی ہر وہ چیز جو استعمار نے ہمارے ہاں قائم کی ہے اسلامی ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اعلان کرنا ہی ہمارا منتہائے کلام ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید ریاست پر گفتگو کے لیے کون سے ذرائع ادراک اور وسائل اظہار استعمال میں لائے جا سکتے ہیں؟ جدید ریاست سیاسی طاقت کی قطعی نئی تشکیل ہے جس کی کوئی نظیر ماقبل جدیدیت عہد میں ہے ہی نہیں۔ دینی تناظر میں اس تاریخی حقیقت کی تفہیم کے لیے ایک کتاب بہت مفید ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے:
The Time of the Bedouin
اور اس کے مصنف ہیں شیخ عبدالقادر الصوفی رحمۃ اللہ علیہ۔ اگر ہمارے نوجوان اہل علم اس کتاب کے مشمولات کی تفہیم پر کچھ محنت کریں تو امید ہے کہ عصر حاضر کو سمجھنے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔
کمنت کیجے