عمران شاہد بھنڈر
میں جب کبھی یونانی فلسفیوں کے فکری و فلسفیانہ کارناموں پر غور کرتا ہوں تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈھائی ہزار برس قبل ان عظیم دماغوں نے کائنات کی ماہیت کے بارے میں جو نتائج اخذ کیے، جدید سائنس ان کی تصدیق کرتی ہو؟ لیکن یہی حقیقت ہے کہ ان فلسفیوں نے کسی بھی طرح کے لالچ اور خوف کے بغیر صرف اپنے باطن میں موجود بے پناہ تجسس کی بنیاد پر کائنات کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی، صرف اس لیے کہ کائناتی مظاہر کی تفہیم ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ انسان یہ سمجھ سکے کہ یہ جو فطرتی مظاہر دکھائی دیتے ہیں ان میں دیوتاؤں کی کوئی کار فرمائی نہیں ہے، بلکہ یہ مخصوص قوانین کے تحت از خود عمل آرا ہیں۔ پانچ سو برس قبل از مسیح یونانی فلسفی انیکسا غورث، جسے طبیعات کا بانی بھی کہا جاتا ہے، اس نے کہا کہ یہ سورج کوئی دیوتا نہیں ہے، یہ زمین ہی کی طرح آگ کا ایک گولہ ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چاند بھی زمین ہی کی مانند ایک سیارہ ہے۔ انیکسا غورث کہتا ہے کہ چاند کی روشنی چاند میں موجود نہیں ہے، بلکہ چاند اپنی روشنی سورج سے لیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انیکساغورث وہ پہلا شخص تھا جس نے چاند گرہن کی سائنسی وجوہات پیش کیں۔ انیکساغورث کہتا ہے کہ چاند گرہن اس وقت لگتا ہے جب زمین اپنی حرکت کے دوران سورج اور چاند کے درمیان آتی ہے اور اس کا سایہ چاند پر پڑتا ہے۔ ارسطو اپنی کتاب ”On The Heavens“ میں انیکساغورث کے نظریے کو یوں بیان کرتا ہے،
”انیکساغورث کہتا ہے کہ سورج ایک جلتا ہوا پتھر ہے اور چاند زمین کی مانند ہے، زمین کا چاند پر سایہ پڑنے سے چاند گرہن ہوتا ہے۔“
ارسطو نے اپنی کتاب On The Heavens میں انیکساغورث کے اسی خیال کو آگے بڑھایا اور چاند گرہن کی پوری تفصیل سائنسی طور پر بیان کر دی۔ ارسطو حیران تھا کہ جب چاند گرہن لگتا ہے تو اس وقت زمین کا سایہ گول کیوں ہوتا ہے، اس مشاہدے سے ارسطو اس نتیجے پر پہنچا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ کروی(Spherical) ہے۔ واضح رہے کہ کائنات میں وہ پہلا فلسفی جس نے زمین کے کروی ہونے کاریاضیاتی مساواتوں کے ذریعے ثبوت فراہم کیا وہ فیثاغورث تھا۔ فیثاغورث سے قبل مصری، بابلی اور ہندوستانی فکر میں زمین کو ’چپٹی‘ تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہی خیال بعد ازاں بائبل اور قرآن میں درآمد کر لیا گیا۔
انیکساغورث اور ارسطو کے بعد تین سو قبل از مسیح ارسٹارکس نے ثابت کیا کہ زمین ساکن نہیں بلکہ مسلسل حرکت میں ہے اور وہ سورج کے گرد اپنے مدار میں گردش کرتی ہے۔ ارسٹارکس نے اس خیال کو بھی منہدم کر دیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اس نے بھی چاند گرہن کی وجوہات پیش کیں جو ارسطو کے خیالات سے ملتی جلتی تھیں۔ ان کی تفصیل سٹیفن ہاکنگ کی کتاب بہ عنوان “بڑے سوالوں کے مختصر جوابات” کے ابتدا میں موجود ہے۔
یونانی فلسفیوں نے جو بے مثل کارنامے سر انجام دیے ان میں سے ایک بارش کی وجوہات کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا بھی تھا۔ ارسطو نے اپنی کتاب Meteorology میں کہتا ہے کہ سورج کی حرکت کی وجہ سے زمین پر جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سوج کی حرارت کی وجہ سے زمین اور سمندر میں موجود پانی بخارات میں تبدیل ہو کر آسمان کی طرف اٹھتا ہے اور وہاں سردی کی وجہ سے جمع ہو جاتا ہے۔ یہی بخارات جب زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں تو بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ارسطو کہتا ہے کہ بادل کچھ اور نہیں صرف زمین کے پانی سے فضا میں ٹھنڈے ہوئے بخارات ہیں۔ ارسطو لکھتا ہے کہ یہ آبی بخارات زیادہ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور ان میں مزید بخارات کو ضم کرنے کی گنجائش نہیں رہتی تو وہ پانی کے قطروں کی صورت میں زمین پر برسنے لگتے ہیں۔ ارسطو نے بارشوں سے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ارسطو کے نکالے گئے نتائج کو آج تسلیم کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسفی جب بھی کسی فینومینا کو بیان کرتا ہے تو وہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلسفی چونکہ غلط ثابت ہو رہا ہے، لہذا اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے اس کے نکالے گئے نتائج کو ”تمثیلوں“ کی صورت میں پیش کر دیا جائے۔ اگر کسی فلسفی کے نکالے گئے نتائج غلط ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط ہیں۔ کیونکہ جب تک غلطی تسلیم نہیں کی جائے گی اس وقت تک تصحیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابراہیمی اساطیر میں مظاہرِ فطرت کے بارے میں پیش کیے گئے تمام خیالات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ کائنات چھ یوم میں بنی، غلط! زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ یہ ہِل نہ سکے، غلط! بائبل کہتی ہے،
”اس نے زمین کو اس کی بنیادوں پر رکھا ہوا ہے، وہ کبھی جنبش نہیں کرے گی۔“ زبور، 104: 5
”خدا نے جہان کو قائم کیا، وہ جنبش نہ کرے۔“ زبور، 93: 1
اب ذرا قرآن کی طرف آئیں،
”اور اس نے زمین میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ہِلے نہیں۔“ سورہ نحل، 16: 15
”اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر نہ ہِلنے لگے۔“ سورہ لقمان، 31: 10
”اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ رکھ دیے تاکہ وہ ان کے ساتھ ہلنے نہ لگے۔“ سورہ انبیا، 21: 31
قرآن اور بائبل کی یہی آیات ہیں جو ارسطو کے زمین کے ساکن ہونے کے تصور سے ہم آہنگ ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے مسیحی دنیا میں زمین کو ساکن مانا جاتا تھا، اور قرآن کی ان ہی آیات کی وجہ سے ابن رشد، نصیرالدین طوسی سمیت تمام متکلمین زمین کو ساکن سمجھتے تھے۔ ابن سینا نے یہ امکان ظاہر کیا کہ اگر زمین حرکت بھی کرتی ہو تو ہمیں وہ پھر بھی ساکن محسوس ہو گی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین حرکت کرتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ فلسفے میں سچ کو ہر حال میں منکشف کیا جاتا ہے۔ معمولی سی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جاتی کہ کسی فلسفی کو کوئی رعایت مل سکے۔ فلسفے کے برعکس مذہبی کتابوں میں موجود واضح طور پر لکھے ہوئے جھوٹ کو ”تمثیلوں“ کا سہارا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات قطعی طور پر واضح لکھی ہوئی ہے کہ ”آسمان پر اولوں کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں“ لیکن انسان کی بد بختی دیکھیں کہ جو کچھ لکھا ہے اس کو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس کی ایسی بے ہودہ اور حقیقت سے دور توضیحات پیش کرتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ وہ کہہ رہے ہیں جو کہیں لکھا ہوا نہیں ہے۔ محمد اقبال نے جنت و جہنم کو تمثیل قرار دے دیا، یعنی جنت و جہنم مقامات نہیں بلکہ کیفیات ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے محمد اقبال کو ابہام کا سہارا لینا پڑا۔ وجہ یہ کہ تمثیل اور استعارہ ایسی چیزیں ہیں جن کو اگر ہر انسان متعین کرنے لگے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے نکالے گئے نتائج میں مماثلت ہو۔ جتنی تعبیرات ہوں گی، اتنے ہی مختلف معانی ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مذہب کتابوں میں لکھے ہوئے واضح جھوٹوں کو تمثیلی پیرائے میں پیش کرتے ہوئے انہیں جھوٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے؟ اس کی سماجی، ثقافتی نفسیاتی اور سیاسی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جن کی مذہب کے علاوہ کوئی شناخت ہی نہیں ہے۔ شناخت کا بحران ان کے وجود کے داخلی بحران کا خوف ہے جس کا سامنا مذہبی انسان کبھی نہیں کر پاتا۔ وہ ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے جو اس کا بچاؤ کر سکے۔ وہ کسی بھی تعبیر کا سہارا لیتا ہے، اور اس تعبیر کو انفرادی فہم سے جوڑ دیتا ہے۔ اگر فلسفیوں کے نکالے گئے نتائج پر ساری دنیا متفق ہو سکتی ہے تو خدا کے نکالے گئے نتائج پر متفق نہ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے داخلی بحران سے بچنے کی خاطر ہر غلط تعبیر کو درست ماننے پر مجبور ہوتے ہیں، اور جہاں کہیں معمولی سا شائبہ بھی ہو کہ فلاں آیت کی کھینچ تان کر کے یہ یا وہ مطلب نکالا جا سکتا ہے، تو وہاں مذہب پرست کبھی دیر نہیں کرتا۔ وہ فوراََ من گھڑت تعبیرات کا انبار لگا دیتا ہے۔ اسے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی کہ مذہبی کتاب کیا کہتی ہے، وہ اس تعبیر کو تسلیم کرتا ہے جو اس کو سائنسی نتائج کے قریب لاتی ہے۔ اس طرح مذہبی کتابوں کی تعبیرات کو جمود کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، خواہ اس کے لیے ان کتابوں میں پیش کیے گئے احکام کا حلیہ ہی کیوں نہ بگاڑنا پڑے۔
کمنت کیجے