استاد گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن ایک منفرد عالم دین ، محدث ، مفسر اور فقیہ تھے، آپ مدرسہ نصرۃ العلوم کے فاضل اور مدرسہ کے استاد بعد ازاں استاذ الحدیث ، جامع مسجد نور کے امام تھے۔ استاد گرامی مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھنے کے لیے لڑکپن میں آئے اور پھر تقریبا 73 سال کی عمر میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں ہی ان کی وفات ہوئی، مدرسہ ومسجد نور سے ملحق مکان میں ان کی رہائش تھی۔
آپ نے ایک طویل عرصہ مدرسہ کی مسجد مسجد نور میں نمازوں کی امامت کی۔ مدرسہ میں آنے والا ہر طالب علم پہلے پہلے عموما آپ سے یا پھر ناظم مدرسہ مولانا ریاض خان سواتی مرحوم و مغفور سے متعارف ہوتا تھا۔ کہ ان دونوں حضرات کی ذمہ داری کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔ کہ ہر ایک کا پہلا تعارف انہی سے ہوتا، ایک امام اور دوسرے ناظم جامعہ تھے۔
مولانا عبد القدوس خان قارن بطور امام:
استاد گرامی نے نصف صدی کے لگ بھگ جامع مسجد نور میں نمازوں کی امامت فرمائی، آپ نماز کی امامت میں اکثر ٹھہراو کے ساتھ مختصر نماز پڑھاتے تھے، آپ کی نماز نہ تو بہت مختصر ہوتی اور نہ ہی زیادہ طویل ۔
ہمیں استاد گرامی کی امامت میں سات سال مسلسل نمازیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، ہمیں استاد صاحب کی ہر نماز اور رکعت کا اندازہ تھا کہ کتنی لمبی ہو گی۔ اس حساب سے اکثر فجر اور مغرب میں تکبیر اولیٰ کے لیے استاد کی آواز بلند ہوتی تو ہم وضو کر کے پہلی رکعت میں پہنچ جاتے تھے۔ جب کہ ظہر ، عصر اور عشاء میں عموما تکبیر اولیٰ سے پہلے ہی موجود ہوتے تھے۔ کبھی کبھی بعد مغرب مسجد کے اندر کے حال میں مطالعہ یا تکرار میں مصروف ہوتے تو استاد صاحب کی تکبیر کے بعد کتاب بند کرتے اور آ کر تسلی سے پہلی رکعت میں شریک ہوتے تھے۔
مجھے سات سالوں میں کبھی یاد نہیں کہ مقتدیوں کو استاد گرامی کا انتظار کرنا پڑا ہو، آپ جماعت کے وقت سے 3، 4 منٹ پہلے آ کر مصلیٰ سے پیچھے تیسری صف میں بیٹھ جاتے تھے۔ جس دن آپ موجود نہ ہوتے تو آپ کے صاحبزادے یا جس صاحب کی تقرری ہوتی تھی وہ بھی اسی پابندی سے آتا تھا کہ ان کی طرف سے اس کی تاکید ہوا کرتی تھی۔
ان کی موجودگی میں اگر نماز کے وقت باہر سے کوئی معروف بزرگ یا عالم تشریف لے آتے تو وہ انہیں نماز میں امامت کروانے کا موقع دیا کرتے تھے۔ اسی سلسلہ ایک دفعہ ایک قابل افسوس واقعہ بھی پیش آیا ، جمیعت علماء اسلام کے زیر اہتمام پشاور میں ڈیڑھ صد سالہ دار العلوم دیوبند کانفرنس کی تیاریاں ملک بھر میں چل رہی تھی، مولانا میاں محمد اجمل قادری جمیعت علماء اسلام ( ف) کی مخالفت کر رہے تھے اور انہوں نے اس کانفرنس کی مخالفت میں اخبارات وغیرہ میں کچھ بیانات بھی دیے تھے، پشاور کانفرنس کے مقابل لاہور میں ایک ڈیڑھ صد سالہ خدمات دیوبند کانفرنس بھی رکھ لی تھی۔ جس کی وجہ سے جمیعت کے کارکنوں میں غم و غصہ کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ طرفین سے یہ مخالفت کا ماحول چل رہا تھا، مدرسہ نصرۃ العلوم کے تمام اساتذہ و انتظامیہ اس موقع پر جمیعت علماء اسلام (ف)کے ہمنوا تھے۔ مدرسہ کے استاد حدیث مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب کانفرنس کے سلسلہ میں پنجاب بھر کے دورے کر رہے تھے۔ ناظم مدرسہ کی طرف سے طلباء کو کانفرنس میں لے جانے کی تیاریاں بھی تھی۔ اسی دوران ایک دن میاں محمد اجمل قادری مدرسہ تشریف لائے، ناظم صاحب کے ساتھ ان کا تعلق دوستانہ تھا، نماز مغرب کے وقت مسجد میں آئے، استاد گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب (استاد صاحب میاں صاحب کے والد محترم جانشین شیخ التفسیر مولانا عبید اللہ انور کے مرید تھے)کی ان پر نگاہ پڑی تو ان کو نماز پڑھانے کی دعوت دے دی، قادری صاحب جیسے ہی مصلی امامت پر تشریف لے گئے تو متعدد پختون طلباء نماز چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے، انہوں نے میاں صاحب کی امامت میں نماز نہ پڑھی بلکہ انفرادی طور پر نماز ادا کر لی۔ جسے کئی نمازیوں نے دیکھا اور محسوس کیا۔ اساتذہ میں سے بھی جس جس کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو اس نے طلباء کے اس فعل پر ناگواری کا اظہار کیا۔
وہ بہت وضع دار امام تھے، استاد گرامی مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب ابو داود پڑھاتے تھے، شاہ صاحب اسباق بہت تفصیل سے پڑھاتے تھے، وہ جب ایک موضوع شروع کر لیتے تو معلومات کا ایک سمندر تھا جو بہتا چلا جاتا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کتاب دن کے وقت میں مکمل کرنا مشکل ہو جاتی،ششماہی امتحان کے بعد شاہ صاحب مغرب کے بعد بھی پڑھاتے، بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ شاہ صاحب کی کلاس چل رہی ہوتی نماز عشاء کا وقت ہو جاتا ، استاد گرامی قارن صاحب انتظار کرتے تھے کہ شاہ صاحب کی کلاس ختم ہو تو پھر وہ جماعت کروائیں، لیکن کبھی بھی انہوں نے شاہ صاحب کی کلاس کے بارے میں کوئی ناگوار ی کا اظہار نہ کیا۔ ہمارے دورہ حدیث والے سال ابو داوؤد کا آخری سبق بھی مغرب کے بعد ہوا، اختتام کتاب پر استاد شاہ صاحب نے دعا فرمائی، استاد قارن صاحب بھی آ کر دعا میں شریک ہو گئے، اس دن نماز عشاء اپنے وقت سے کافی زیادہ موخر ہو گئی۔
نماز فجر کے بعد استاد گرامی درس قرآن دیا کرتے تھے، چار دن درس قرآن ، دو دن درس حدیث ہوتا تھا، جب کہ جمعہ کو چھٹی ہوتی۔ اس درس میں استاد صاحب کی بیماری کے علاوہ کبھی ناغہ نہیں ہوا۔بعض اوقات ہم بھی اس درس میں پیچھے بیٹھ جاتے تھے۔
گرمیوں میں طلباء رات کو مسجد کے صحن میں سوتے تھے، اور نماز کے بعد صحن میں درس قرآن ہوتا اور طلباء مسجد کے اندر حال میں سو جایا کرتے تھے۔ دورہ حدیث کی کلاس مسجد کے برآمدے میں ہوتی تھی، وہاں اساتذہ کی مسند کے اوپر بریکٹ فین لگا ہوا ہے، میں اکثر وہاں سویا کرتا تھا۔ دو دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ استاد گرامی نماز فجر پڑھا رہے تھے، اور میں ان کے بالکل سامنے برآمدے میں سویا ہوا تھا، ایک دفعہ تو سلام کی آواز سے ایک دم جاگ اٹھا، اور استاد گرامی کی نظر بھی پڑ گئی۔ جب کہ دوسری دفعہ درس کے دوران جاگا، مگر حالات اور موقع دیکھ کر آنکھیں مزید بھینچ لی اور نہ اٹھا۔ استاد محترم کو دونوں دفعہ کا پتہ تھا، مگر کبھی براہ راست کچھ نہیں کہا۔
ایک دفعہ ایک موذن بابا جی کے ساتھ ہم طلباء کی ٹھن گئی، وہ عشاء کی نماز میں بالکل امام کے سامنے والا بلب جلا کر نماز پڑھا کرتے تھے، ہم اپنے میں سے کسی ایک کومسجد کے حال میں کھڑا کر دیتے کہ جیسے ہی تکبیر اولیٰ ہوتی وہ بابا جی نماز شروع کرتے تو وہ طالب علم بلب بند کر کے آ جاتا، انہیں بڑا غصہ آتا، ایک دفعہ انہوں نے کچھ سخت سست کہا، ناظم صاحب نے ان کو خاموش کروا دیا، استاد قارن صاحب کو معلوم تھا، بعد نماز کے جب ہم ان کے پاس بیٹھے تھے تو کہا ” اوے بابے نوں تنگ نہ کریا کرو” (اہل محلہ میں سے بعض بزرگ حضرات کے ساتھ طلبا کی چپقلش چلتی رہتی تھی، کئی واقعات ذہن میں ہیں، کسی وقت انہیں ضبط تحریر میں لاوں گا)
مغرب اور عشاء کے بعد استاد جی مسجد کے پچھلے برآمدے میں تالاب کے پاس ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، ہم ان کے سنت ادا کرنے کے بعد پاس چلے جاتے پاوں دباتے اس موقع پر ہونے والی گپ شپ میں استاد گرامی سے بہت کچھ سیکھا۔
بطور مدرس
استاد گرامی ایک مثالی مدرس تھے، ہمارے دور میں حضرات شیخین کے بعد وہ مدرسہ کے سب سے سنئیر اور قدیم استاد تھے۔ (استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی گو کہ ان سے عمر اور تجربہ میں بڑے تھے، مگر مدرسہ نصرۃ العلوم میں وہ بعد میں تشریف لائے، ان کا ابتدائی دور تدریس مدرسہ انوار العلوم کا ہے۔ )
شاید ہی کوئی دوسرا استاد فن تدریس میں ان کی سطح کا ہوگا۔ متعلقہ سبق کو پورے اہتمام سے کلاس کے طلبا کی ذہنی سطح کے مطابق بیان کرنا اور سمجھانا ان کا خاص فن تھا۔
انہوں نے درس نظامی میں شامل تمام فنون کی کتب پڑھائی ہیں، اور ان کے طلباء نے ان کی درسی کاپیاں بھی لکھ رکھی ہیں۔ہم نے اان سے علم الکلام ، علم الفقہ اور علم حدیث و اصول حدیث پڑھے۔ اپنا تاثر یہ تھا کہ انہیں سب سے زیادہ ملکہ علم حدیث میں حاصل ہے۔ ان سے پڑھنے کے دور اور بعد بھی متعدد شیوخ کی درس میں شریک ہوا ہوں، شروحات بخاری میں سے کشف الباری کا ایک بڑا حصہ ان سے پڑھنے کے بعد مطالعہ کیا ہے۔ آج تک یہی تاثر ہے کہ ان کی تقریر بخاری زیادہ جامع ہوتی تھی، اللہ کرے کوئی صاحب اسے مرتب کر دے۔ ہمارے کلاس فیلو مولانا سعید ثاقب کے پاس ان کے درس کے تفصیلی نوٹس لکھے ہوئے ہیں، میں نے بھی اپنے نسخہ بخاری پر چند نکات لکھے تھے۔
حدیث پر فنی بحث اور فقہی بحث وہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتے، مشکل الفاظ کی صرفی و نحوی تعلیل بیان کرتے، حدیث کے درایتی پہلو کو بھی واضح کرتے، احادیث میں اگر کہیں باہم اختلاف ہوتا تو اس تضاد کی وضاحت کرتے، احادیث میں تطبیق کرتے ، اس میں ان کا اسلوب اکثر امام طحاوی کا ہوتا، فقہی مباحث کو وہ ترمذی کے درس میں بیان کرتے تھے، اس میں وہ شیخ صفدر ؒ کی تقریر ترمذی “خزائن السنن” پڑھاتے تھے، اور پھر اس میں اپنے اضافات بیان کرتے تھے۔ ان کا یہ خاص ذوق تھا کہ وہ اکابر اساتذہ کے الفاظ پڑھاتے تھے ان کا خیال تھا کہ بزرگوں کے الفاظ میں برکت ہوتی ہے، علم الکلام میں ہم نے ان سے دو کتابیں مکمل پڑھی، شرح عقائد للتفتازانی ، اور عقیدہ طحاویہ، عقیدہ طحاویہ میں انہوں کتاب کے متن کے ساتھ ساتھ مولانا عبد الحمید خان سواتی ؒ کا کیا ہوا اردو ترجمہ بھی لفظا پڑھایا۔ حدیث کے درس کے دوران وہ عبارت خوانی پر خاص توجہ دیتے تھے، عبارت پڑھنے والے طالب علم کو بہت محتاط رہنا پڑتا تھا، ان کے سامنے یہ ممکن نہ تھا کہ عبارت میں کوئی غلطی ہو، یا وقف غلط ہو، وہ معمولی معمولی غلطیوں پر گرفت کرتے تھے، اس لیے عبارت پڑھنے والے کو اکثر مشکل مقامات پر کچی پنسل سے نشان بھی لگانا پڑتے تھے۔ ہمارے ایک دوست بخاری کی عبارت پڑھ رہے تھے، استاد صاحب نے دو دفعہ غلطی پر متنبہ کیا، ایک غلطی نظر انداز کی، اور چوتھی غلطی پر انتہائی غصہ سے کتاب بند کی اور ساری کلاس کو اٹھا دیا کہ اب جاو نہیں پڑھاتا، ہم سب وہاں سے اٹھے، وضو خانہ کے پاس گئے، اس دوست کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور مولوی سعید سے درخواست کی کہ عبارت پڑھو، یہ تم ہی پڑھ سکتے ہو، سو مولوی سعید نے پھر جا کر سب کی طرف سے معذرت کی اور بقیہ پورا سال عبارت ایسے پڑھی کہ استاد صاحب خوش ہوگئے۔
استاد گرامی اپنے طلباء پر انتہائی شفیق تھے، طلباء کے دکھ درد پر پریشان ہوتے تھے، اور حتی الوسع طلباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
دوران درس وہ اکثر کسی ایک طالب علم کو خاص کر لیتے تھے اور پھر سبق سمجھانے کے لیے مثالوں میں اس کا تذکرہ چلتا رہتا تھا۔ دوران درس فی البدیہہ لطائف سنانا اور لطائف کے ذریعے طلباء کی اصلاح کرنا ان کا ایک اہم وصف تھا۔ بیسیوں دفعہ ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے لطیفہ سنا دیا اور ہم نے بھی سن کر ہنس لیا، مگر لطیفے کی اصل معنویت بعد میں معلوم ہوئی۔ ایک دفعہ شرح عقائد کے درس کے دوران میں اور مولوی سعید صاحب استاد گرامی کے بالکل سامنے بیٹھے تھے، کہ ہمارا ایک دوست آیا اور زبردستی ہم دونوں کے بیچ گھس کر بیٹھ گیا، استاد گرامی کی موجودگی کی وجہ سے ہم دونوں بھی تھوڑے تھوڑے گھسک گئےا ور اسے جگہ دے دی، ابھی وہ مکمل بیٹھا بھی نہیں تھا کہ استاد بولے: ” سعید اے رکشیاں دا زمانہ اے، رکشے نوں منہ گھسیڑن دی جگہ چاہی دی ہوندی اے” اس کے ساتھ ہی واپس موضوع درس پر آ گئے، کچھ طلباء کو بات سمجھ آئی کچھ کو سمجھ نہ آئی، بعد میں جب ہم طلباء نے اس جملے کی شرح کی تو ہر بندہ خوب سمجھ گیا اور پھر اگلے تین سال کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس طرح سے کوئی کلاس میں زبردستی گھسا ہو۔ اور ہمارے وہ دوست تو اس کے بعد ہمارے ویری ہو گئے، بظاہر بہت اچھے دوست تھے مگر کوئی موقع جانے نہ دیتے ہمیشہ بدلے کی تاک میں رہتے، مگر بےچارے اکیلے تھے اور ہمارا پورا جتھا تھا، سو کبھی کامیاب نہ ہو سکے سوائے اس کے کہ ایک دفعہ مہتمم صاحب سے مجھے ڈانٹ پڑوا دی، اس پر بھی جب مہتمم صاحب کو وضاحت ملی تو انہیں کو شرمندہ ہونا پڑا۔ ( یہ معاصرانہ چپقلش بھی دلچسپ ہے)
استاد گرامی طلباء کے ساتھ گپ شپ لگاتے تھے، لطائف سناتے تھے، مگر کلاس میں ان کا ایک خاص رعب رہتا تھا، تمام اساتذہ کی کلاس میں سستی ممکن تھی، مگر ان کی کلاس میں سست بندہ لازمی پکڑا جاتا ، دورہ حدیث کے سال میں بالکل استاد گرامی کے سامنے بیٹھتا تھا، ایک دفعہ ہمارے دوست مفتی شفیق بیمار ہوگئے، میں ان کے ساتھ رات ہسپتال میں تھا، دن بھی ہسپتال میں ہی گزرا، ظہر کے وقت استاد صاحب کی کلاس کے لیے مدرسہ پہنچا، سال کی ابتداء تھی ، استاد درس بخاری میں باب بدء الوحی پڑھا رہے تھے، اقسام وحی پر بات کرتے ہوئے فرمایا: “جیسے یہ مولوی وقار میرے سامنے بیٹھا ہوا اونگھ رہا ہے” استاد اتنا فرما کر آگے چل پڑے ، جب کہ میں ایک دم جاگ گیا، سردیوں کے موسم میں مجھے پسینہ آگیا، شام کو بعد عشاء جب استاد گرامی کے پاس بیٹھے تھے تو پوچھا : “او ئے وقار دنے تینوں کی ہو سی “عرض کی ” استاد جی پہلی دفعہ تہاڈی ڈانٹ سنی اے ، اس واسطے پسینہ آ گیا سی” ہنس پڑے، اور پھر اپنے بعض لطائف سنائے، مفتی شفیق کا حال پوچھا اور تاکیدا فرمایا کہ اگر دوا وغیرہ کے لیے پیسے ضرورت ہوئے تو بتانا۔
وہ جہاں ایک مشفق استاد تھے وہی ایک مخلص و ہمدرد دوست تھے۔ ہمارے خامسہ والے سال گوجرانوالہ میں میرا تھن ریس ہوئی، جس پر قاضی حمید اللہ خان صاحب ؒ نے احتجاج کیا اور اسے روکنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں بہت سے طلباء گرفتار ہوگئے۔ جمیعت علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر استاد گرامی مولانا سید عبد المالک شاہ ؒ تھے، شاہ صاحب گو کہ ابتدا میں قاضی صاحب کے اقدام کے حامی نہیں تھے، مگر بعد ازاں جب طلباء اور کارکنان گرفتار ہو گئے اور جماعت پر ایک بڑی مصیبت آ گئی تو شاہ صاحب میدان میں اترے اور جب تک تمام قیدی طلباء و کارکنان کو رہا نہ کروا لیا، آرام سے نہ بیٹھے۔ اس دوران شاہ صاحب نے کارکنان کی رہائی کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کی۔ ہم اکثر دن کو استاد شاہ صاحب کے ساتھ کچہری جایا کرتے تھے۔ استاد عبد القدوس خان قارن صاحب ان تمام حالات سے باخبر اور پریشان تھے۔ اسی دوران قارن صاحب نے دو دفعہ مجھے تین تین ہزار روپیہ دیا کہ یہ شاہ صاحب کو کارکنان کی رہائی کے لیے میری طرف سے دے دو، بعد میں جب انہیں یہ پتہ چلا، یا خود ہی اندازہ لگایا تو کچھ پیسے ایک لفافے میں ڈال کر دیے کہ یہ شاہ صاحب کو دینا اور انہیں بتانا کہ ایک دوست نے ہدیہ دیا جو خالص آپ کے لیے ہے۔ میرا نام نہ بتانا۔ (مجھے نہیں معلوم کہ اس لفافے میں کتنے پیسے تھے استاد شاہ صاحب کو دے دیے، اور ان کے اصرار کے باوجود نہ بتایا کہ کس نے دیے ہیں۔ البتہ شاہ صاحب نے خود ہی اندازہ لگا کر فرمایا ، قارن صاحب نے دیے ہوں گئے، میں خاموش رہا، استاد گرامی کے چہرے کے تاثرات اظہار تشکر و محبت سے بھر گئے، ایک گہری سوچ میں کھو گئے پھر فرمایا میرے اکثر دوست ایسے ہی مخلص و بے لوث محبت کرنے والے ہیں۔)میں نے واپس آ کر استاد قارن صاحب سے تذکرہ کیا تو استاد صاحب نے تحریک جامع مسجد نور کے کئی یادگار واقعات سنائے، اور اس میں شاہ صاحب کی قربانیوں کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز سے کیا، مسجد کی سابقہ انتظامی کمیٹی کے کردار کا بھی بڑے عمدہ الفاظ میں تذکرہ کیا۔
استاد گرامی اور سخاوت :
استاد قارن صاحب ایک سخی مزاج انسان تھے، ان کے پاس آنے والا مایوس واپس نہیں جایا کرتا تھا، مہمانوں کی مہمان داری ان کے اوصاف حمیدہ میں سے تھی، ( گذشتہ قسط میں ” میراتھن” ریس کے حوالے سے بغیر مطالبے کے ان کی طرف سے طلباء کی رہائی میں کیے گئے تعاون کا تذکرہ ہو چکا۔)
متعدد بار ان کے دسترخوان پر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی سعادت ملی ، الشریعہ اکیڈیمی کے دورہ تفسیر کے طلباء کے ساتھ ان کے پاس چائے بمع لوازمات کے بار ہا پینے کا موقع ملا۔
ہمارے زمانے میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں طلباء میں مشہور تھا کہ جس کو قرض چاہیے وہ ناظم جامعہ جناب مولانا ریاض خان سواتی مرحوم کے پاس جاتا ہے یا پھر استاد قارن صاحب کے پاس ، مدرسہ میں تعطیلات کے موقع پر بعض طلباء کے پاس کرایہ نہیں ہوتا تھا تو وہ استاد گرامی سے جا کر قرضہ مانگتا ، استاد اس کے مانگنے کے مطابق قرض نہیں دیتے تھے، بلکہ پوچھتے کہ کس لیے چاہیے تو وہ بتاتا جی پیسے ختم ہو گئے ہیں کرایہ نہیں واپسی پر دے دوں گا، تو پوچھتے کتنا کرایہ لگتا ہے، اچھا یہاں سے تمہارے شہر تک اتنا تو پھر شہر کے اڈے سے گھر تک کتنا کرایہ لگے گا، جی اتنا اتنا ، ٹھیک ہو گیا یہ لو کرایہ کے پیسے اور یہ ساتھ راستے میں چائے وغیرہ کے لیے۔ اب یہ رقم کبھی قرض لینے والے کے مطالبہ سے کم ہو جاتی اور کبھی زیادہ ہو جاتی تھی۔ اسی طرح اگر کوئی کسی اور ضرورت کے لیے قرض مانگتا تو وہ بھی پوری تفصیل پوچھ کر دے دیا کرتے تھے۔ یہ قرضے اکثر استاد صاحب کو واپس مل جایا کرتے تھے، اور کبھی نہیں بھی ملتے ۔ اس حوالے سے انہی ہی سے بار ہا سنا ہے کہ:
” اگر کوئی مولوی یا طالب علم تمہارے پاس قرضہ کے لیے آئے تو اسے مایوس نہ کرنا ، ہاں قرض دیتے ہوئے اس کی پسلی اور اپنی اوقات دیکھ کر دینا، اگر کوئی ایسا ہے جو بڑا قرضہ واپس نہیں کر سکتا تو اسے اتنے پیسے دے دینا کہ اگر وہ واپس کر دے تو ٹھیک ، اور اگر نہ کر سکے تو بھی تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ زیادہ نہ دینا”
استاد صاحب کے رعب کی وجہ سے ان سے جو بھی قرضہ لیتا اسے واپس کرنے کی فکر رہتی تھی، البتہ ناظم جامعہ مولانا ریاض خان سواتی کو کم ہی لوگ واپس کرتے تھے۔ مولانا ریاض خان سواتی کی ایک الگ شان تھی، ہمارا گروپ اکثر ہفتے ایک آدھ بار تو لازمی شام کو خصوصی کھانا بنانے کا انتظام کرتا تھا، اس میں بسا اوقات ہماری لاپرواہی سے یوں بھی ہوتا کہ باقی سارا سامان لے آئے ، گھی لانا بھول گئے، کبھی سرخ مرچ گرما مصالحہ لانا بھول گئے۔ تو اس کے لیے پھر ہم مولوی عبداللہ کو تلاش کر کے ناظم صاحب کے پاس بھیجتے کہ جاو استاد جی کے گھر سے گھی ، یا فلاں چیز منگوا دو، وہ لے آیا کرتا تھا، بعض دفعہ یوں بھی ہوتا کہ ناظم صاحب مہتمم صاحب کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اب مہتمم صاحب کے رعب سے کی وجہ سے ناظم صاحب کو کہنا مشکل ہوتا تو گھنٹہ بھر انتظار کرنا پڑتا تھا، بعد میں پھر ایک واقعہ یوں ہوا کہ ہم نے مہتمم صاحب اور ناظم صاحب کو بلوچی حلوا کھلایا اور یہ جھاکا بھی جاتا رہا، ( یہ بلوچی حلوے والا قصہ پھر کبھی ) ناظم صاحب کا تذکرہ یادوں کے ایک اور سمندر کی طرف لے جا رہا ہے، اس لیے اسے یہی چھوڑ کر اصل کی طرف واپس آتا ہوں۔ ( سخاوت کے معاملے میں نصرۃ العلوم کے اساتذہ سبھی مثالی تھے، استاذگرامی زاہد الراشدی ، استاذ گرامی اللہ یار مرحوم ، استاذ گرامی عمار خان ناصر ، استاذ گرامی ظفر فیاض ، استاذ گرامی عبد الرحیم اور سب سے بڑھ کر استاذ سید عبد المالک شاہ مرحوم ، انشاء اللہ کسی موقع پر ان کے متعدد واقعات لکھوں گا۔ )
استاد قارن صاحب سے میری بے تکلفی اور زیادہ شناسائی بھی یوں ہوئی کہ ہم استاد محترم مولانا عمار خان ناصر سے حدیث کی کتاب ” آثارالسنن ” پڑھتے تھے، استاد ناصر صاحب کا اسلوب یہ تھا کہ حدیث کا ترجمہ کرتے ، نفس مسئلہ بیان کرتے، مختلف مسالک بیان کرتے ، پھر شوافع و مالکیہ ، حنابلہ محدثین کے دلائل ذکر کر کے احناف کے دلائل کو چھوڑ دیتے اور فرماتے تم حنفی ہو، کل حنفیوں کے دلائل اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات خود تلاش کر کے لاو۔ اس کے لیے ہمیں خاصی محنت کرنا پڑتی ، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس دور کے یاد کیے ہوئے دلائل آج تک یاد ہیں، اس سلسلے میں ہمیں مختلف کتابوں کو دیکھنا پڑتا تھا، انہی دنوں استاد ناصر صاحب کے توجہ دلانے سے حضرت شیخ صفدر صاحب کی تفریر ترمذی ” خزائن السنن ” کو لائبریری میں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ اب جو خزائن کو دیکھا تو عمار صاحب سے بحث کا حوصلہ پیدا ہو گیا، دو چار دن تو لائبریری سے لے کر پڑھی ، پھر ایک دن میں استاد قارن صاحب سے کتاب لینے پہنچ گیا، گھر کی بیل بجائی ، استاد نیچے آئے ، بتایا کہ ” خزائن السنن” خریدنی ہے، واپس گئے کتاب لائی، مجھے مسجد سے باہر نکلنے کا حکم دیا کہ وہ مسجد میں خرید و فروخت سے بچتے تھے، سو مسجد سے باہر نکل کر کتاب لی استاد صاحب سے قیمت پوچھی اور قیمت ادا کر کے میں واپس چل پڑا استاد بھی سیڑھیوں سے اوپر جانے لگے کہ دوبارہ واپس آ گئے، میں مسجد کے برآمدے میں آ گیا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ” اے مولوی صاحب” میں واپس مڑا ، استاد صاحب کے پاس آیا تو مجھ سے پوچھا یہ کس کے لیے لی ہے عرض کی آپنے لیے ، پوچھا تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے، تم تو ابھی ابتدائی درجات میں ہو، عرض کی کہ وہ استاد عمار ناصر صاحب ” آثارالسنن ” پڑھاتے ہیں تو وہاں احناف کے دلائل کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ پوچھا پہلے کچھ پڑھی ہے عرض کی کہ جی طہارت والی مباحث لائبریری سے کتاب لے کر پڑھیں ہیں۔ ان مباحث میں سے دو سوال پوچھے میں نے جواب دے دیے تو خوشی میں کتاب کے پیسے مجھے واپس کرتے ہوئے فرمایا ، مولوی صاحب یہ کتاب میری طرف سے ہدیہ ہے۔ میں نے انکار کرنے کی روایتی کوشش کی تو فرمایا ، بڑوں کی طرف سے ملنے والی چیزوں کو رد نہیں کرتے جاو لے جاو۔ میں نے پیسے لے کر جیب میں ڈالے اور خوشی خوشی واپس آ گیا اور کر اپنے رفقاء کو بتایا کہ آج تو قارن صاحب سے کتاب مفت لے آیا ہوں تو انہوں نے مجھ پر دعوت ڈال دی، میں بھی بڑا سیانا تھا عشاء کے بعد سارے گروپ کو جیلی لا کر کھلائی۔ ( ہمارے گروپ میں میں ،مولوی سعید ثاقب ، مولوی نوید گجراتی ، مولوی عمران عباسی ،، مولوی اکمل جامی ، ماسٹر محمد فاروق واہنڈو ، مولوی شعیب قیصر ، مولوی عبد اللہ حافظ آبادی ، مولوی عمار خالد اپنی کلاس سے جب کہ مولوی شہزاد رانا ، مفتی واجد وغیرہ ہمارے جونئیر ز میں سے مستقل ممبر تھے، جب کہ باقی احباب آتے جاتے رہتے تھے۔)
بہر حال بات یہ کر رہا تھا کہ وہ سخی تھے اور سخاوت ان کو اپنے ابا جی سے وراثت میں ملی تھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مولوی احسان اللہ ناروالی اور دیگر احباب ان کی سخاوت کے کچھ واقعات لکھیں، بعض تو مجھے بھی معلوم ہیں، مگر وہ احباب خود لکھیں تو زیادہ بہتر و مستند ہو ں گئے۔
استاد ہر سال دورہ حدیث کے طلباء کو” خزائن السنن” مفت دیا کرتے تھے، اسی طرح صحیح بخاری پر شیخ صفدر ؒ کی “احسان الباری لفہم البخاری” بھی ان کی عنایت سے دورہ کے سبھی طلباء کو ملا کرتی تھی، میں نے بھی دورہ حدیث والے سال یہ دونوں کتابیں ان سے لی، یوں میرے پاس ان کے عطا کردہ ” خزائن السنن “(شیخ صفدر صاحب کی تقریر) کے دو نسخے ہیں ، جب کہ خزائن السنن کا اگلا حصہ جو استاد قارن صاحب کا کام ہے اس کا ایک نسخہ ہے، وہ بھی انہی سے ہدیہ ملا تھا۔
بعد میں جب الشریعہ سے دورہ تفسیر کے طلباء اور مولانا ڈاکٹر عبد الرشید کے ساتھ آتا تھا تو اس موقع پر بھی ان کی خوشی و سخاوت دیدنی ہوتی، سب سے بڑی سخاوت تو یہ ہوتی کہ مجھے حکما اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے اور میری اوقات سے بہت بڑھ کر عزت سے نوازتے، جس کا میرے الشریعہ کے رفقاء پر بڑا اچھا اثر پڑتا، ڈاکٹر حافظ رشید صاحب جیسے ذہین و فطین لوگوں پر مفت رعب ڈالنے کا موقع مل جاتا۔
ان کا یہ خاص مزاج تھا کہ اپنے تلامذہ کے کام کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے، اور اس خوشی کا اظہار بھر پور داد دے کر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میرے شاگرد مجھے کسی اپنے دینی وو علمی پروگرام میں بلائیں تو صحت ساتھ دے یا نہ دے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں وہاں پہنچوں، مجھے اپنے شاگردوں کے کام دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔
ضلع قصور کے ایک مولانا صاحب ہمارے سنئیر تھے، ایک دفعہ وہ کافی دن چھٹی کر کے آئے ، بعد عشاء استاد گرامی کی مجلس میں تشریف لائے ، استاد محترم نے اتنی چھٹیوں کی وجہ پوچھی تو انہوں نے اپنی بیماری کا تذکرہ کیا، غالبا گردوں کی بیماری کا ذکر کیا تو استاد نے سنا ، دعائے صحت سے نوازا اور اسی وقت جیب میں ہاتھ ڈالا، کچھ پیسے نکالے پانچ سو زائد تھے ، پانچ سو کا نوٹ نظر آرہا تھا، وہ انہوں نے ان مولانا کو دے دیے، انہوں نے لینے میں قدرے توقف کیا اور فرمانے لگے کہ استاد جی اس کی ضرورت نہیں مگر ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دیا اور فرمایا رکھ لو مولوی صاحب یہ میری طرف سے دوائی وغیرہ لے لینا۔
ہمارے ایک محترم و بزرگ دوست جو میرے دوست بھی ہیں اور استاد بھی ہیں ، انہوں نے ایک موقع پر بتایا کہ انہیں جب عید بقر کی تعطیلات ہوئی تو انہوں نے گھر جانے کا پروگرام ترک کر دیا، اور مولانا عمار خان ناصر سے کچھ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگرایک دو دن بعد نماز کے بعد مسجد میں ہی استاد قارن صاحب نے انہیں بلایا اور ان کو بغیر کچھ کہے تین سو روپے ان کے جیب میں ڈال دیے، یہ سن 1996ء کی بات ہے، جب 300 روپے بہت بڑی چیز تھی، ان کے گھر تک کے کرایہ کے دگنا سے بھی زائد رقم بنتی ہو گی۔ چنانچہ پیسے ملنے کے بعد انہوں نے اگلے ہی دن عید گھر میں منانے کا پروگرام بنا لیا اور گھر روانہ ہو گئے۔
علمی ، عملی ، مالی ہر تین قسم کی سخاوت میں وہ مثالی تھے، کبھی فروغ علم میں انہوں نے کنجوسی نہیں کی، عملی دینی کاموں میں وہ شریک رہے، اور مالی اعتبار سے وہ اپنے رفقاء اور تلامذہ کے ساتھ آخر تک تعاون کرتے رہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں علمی ، عملی اور مالی تینوں اعتبار سے خوش حال و خود کفیل رکھا۔
استاد کی خوش مزاجی اور چند یادگار لطائف و واقعات:
مجھے نصرۃ العلوم میں پڑھنے کے دوران یہ سعادت حاصل رہی کہ آخری تین چار سال تقریبا روزانہ ہی حضرت صوفی صاحب کی مجلس میں شرکت ہوتی، دن کو ان کے پاس بیٹھ جاتے انہیں دباتے اور ان کی گفتگو سے مستفید ہوتے، جب کہ کبھی بعد مغرب اور عموما بعد عشاء استاد قارن صاحب کی مجلس میں شرکت ہوتی۔
مغرب کے بعد جب ہم ان کے پاس بیٹھتے تو مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی، ان مجالس سے ہم نے جہاں آداب معاشرہ سیکھے، وہی تاریخ سے واقفیت ہوئی، کئی علمی واقعات و مسائل معلوم ہوئے، اسی دوران متعدد لطائف بھی سنے۔
ایک دن ایک اشتہار میں استاد گرامی کا نام چھپا ، جس پر لکھا ہوا تھا: “استاد العلماء ” استاد گرامی نے اشتہار شائع کرنے والے احباب سے فرمایا کہ یہ مبالغہ کیوں کیا ہے، تو وہ صاحب آگے سے بولے: “استاد جی ایدا مطلب اے تسی سانوں عالم نہیں سمجھدے”
ہمارے ہاں مذہبی لوگوں میں مبالغہ آمیز القاب کا رجحان عام ہے، استاد گرامی اس کے سخت مخالف تھے۔ ایک دفعہ استاد گرامی نے تقویٰ مسجد پیپلز کالونی میں حضرت شیخ عبد القیوم صاحب ہزاروی رحمہ اللہ کو بلایا ، تو اشتہار میں ان کے نام کے ساتھ صرف استاذ العلماء لکھا، انہی دنوں ہمارے استاد مولانا عبد القیوم حسن صاحب کے ہاں دورہ تفسیر کا اشتہار بھی شائع ہوا، جسے ہمارے دوست مولوی شہزاد رانا ، مولوی ریاض حافظ آبادی وغیرہ نے لکھوایا تھا، تو انہوں نے اس میں استاد عبد القیوم صاحب کے اشتہار کے ساتھ تقریبا مولوی حلقہ میں موجود تمام القاب لکھوا دیے ، اب یہ دونوں اشتہار ساتھ ساتھ لگے تھے۔ مسجد کے نمازیوں میں سے دو بزرگ بابا بوڑھ اور ایک اور بزرگ اشتہار پڑھ کر آپس میں اشتہار پر تبصرہ کر رہے ہیں ، ایک کہتا ہے کہ ” اے دیکھو انہاں بزرگاں نوں پڑھا دے او پنجاہ سال تو زیادہ ہو گئے نے، تے اے اجے تک استاد العلماء ہی بنیا، جب کہ اے دوجا منڈا کل دا منڈااے، ایدے نال لقب دیکھو، دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ دی دین اے، پہلے والا کہتا ہے اے کوئی دین نہیں سارا جھوٹ اے، —” استاذ گرامی مولانا عبد القیوم حسن صاحب حضرت شیخ عبد القیوم ہزاروی سے عمر میں بہت چھوٹے تھے اور شیخ ہزاروی کے شاگرد بلکہ ان کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
بہرحال استاد قارن اس طرح کے القابات اور مبالغوں سے کوسوں دور تھے۔ اور اکثر طلباء کو اس سے روکتے تھے، ان کے خیال میں آدھے راستے کے مولویوں اور خطیبوں نے ان مبالغوں کو رواج دیا ۔
استاد قارن بہت خوش مزاج شخصیت تھے،اکثر لطائف میں بڑی حکمت کی بات سمجھا دیتے تھے۔
ایک دفعہ حدیث کے درس کے دوران پردے ، بے حیائی اور عرف پر بات آئی تو کئی مثالوں سے بات سمجھائی، جن میں سے ایک مثال مسجد نور کے واش روموں کی دی ، مسجد نور کے ساتھ جو واش روم ہیں، اب تو سب کی دیواریں اونچی ہو گئی ہیں، اس دور میں چند ایک ایسے تھے کہ جن کی دیواریں اونچی نہیں تھی، اس وجہ سے ان کا استعمال کم ہی ہوا کرتا تھا، استاد نے عرف پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں کے لوگ تو انہیں استعمال نہیں کرتے، البتہ پختون بیلٹ اور وہاں کے کلچر کے لوگ ان عام استعمال کر لیتے، استاد نے کہا کہ یہاں ایک پٹھان طالب بڑے قد وکاٹھ کا مالک تھا، جب ان واش روموں میں جاتا تو —— ” آگے استاد نے ہاتھ کے اشارے سے پنجابی کے ادب لطیف کے جملوں سے بات سمجھائی تو ایسی سمجھ آئی کہ پھر دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہی نہ رہی ۔
عشاء کی نماز کے بعد ایک دن استاد گرامی کے پاس بیٹھے تھے تو طلباء سے پوچھنے لگے کہ تم مستقبل میں کیا کرو گئے، ایک بلال پوری دوست نے کہا : “استاد جی میں اگلے سال ” شیخ الحدیث” دا کورس کرنا اے تے شیخ الحدیث بننا اے” کہنے والا تو یہ کہہ کر خاموش ہو گیا مگر اس موقع پر بھی اور بعد میں بھی وہ مہینوں ہنسی مذاق کا موضوع رہا۔
ایک دفعہ دوران سبق غالبا ” ذوالخویصرۃ” والی روایت کے ذیل میں یا کسی اور روایت کے ضمن میں اہل حدیث اور ایک بریلوی کے مناظرہ کے احوال سنائے، جس میں بریلوی اہل حدیث سے کہتا ہے کہ تمہیں بخاری نہیں آتی ، اہل حدیث کہتا ہے کہ مجھے بخاری آتی ہے، اب بریلوی نے دو تین دفعہ اس سے یہ کہا اور اسے اس بات پر پکا کر لیا کہ اسے بخاری آتی ہے۔ پھر اس سے کہا کہ کیا تم بخاری کی حدیثوں کا اردو ترجمہ کر سکتے ہو، اہل حدیث نے کہا کہ ہاں کر سکتا ہوں ، پوچھو، تو بریلوی نے فورا بخاری نکال کر اس کے سامنے رکھی جی اس حدیث کا ترجمہ سناو ، اب اس حدیث میں دھنسی آنکھیں ، لمبی و گھنی داڑھی اور گنجے سر ، اٹھے ہوئے تہبند کا ذکر تھا، بریلوی نے کہا کہ اس کا ترجمہ کر کے بتاو، اہل حدیث فورا بریلوی مولوی صاحب کی واردات سمجھ گیا ، کہ ان مولوی صاحب کی اپنا حلیہ کچھ ایسا ہی تھا، تو چند لمحے بریلوی مولوی صاحب کی طرف دیکھا اور پھر کہا ، ” اٹھ کتے دیا پتراں””
استاد صاحب نے یہ آخری جملہ کچھ اس طرح بآواز بلند کہا ، آواز ان کی ویسے بھی بلند ہوتی تھی، اوپر سے اس مزید زور دیتے ہوئے جو کہا تو ایک دوست جو آخری صف میں بیٹھے سو رہے تھے فورا جاگ گئے اور اپنے ساتھ بیٹھے مولانا نوید گجراتی سے پوچھنے لگے کسے کہا کسے کہا، نوید صاحب اس کو بڑی شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں، “سو جا پت تینوں نہیں کیہ نے” ہم اب تک سالانہ جب مولوی سعید صاحب کے جمع ہوتے ہیں تو مولوی نوید کے اس جملے کے ذریعے اس دوست کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ نوید گجراتی ہمارے درمیان سنئیر تھے، انہیں ہزاروں جگتیں و جملے یاد تھے جو موقع محل کے مطابق فوری استعمال کرتے تھے۔
ہمارے ایک جونئیر مولوی صاحب سے مشکوۃ کے آخری سبق کے موقع پر پوچھا آئندہ سال کہاں کا پروگرام ہے، تو انہوں نے کہاں کہ اگر مہتمم صاحب نے نہ اڑایا تو یہی آئیں گے، جوابا استاد صاحب نے فرمایا : ” اڑنے والے کام تم نہ کرو وہ نہیں اڑائیں گئے”
کئی اور لطائف ذہن کی سکرین پر چل رہے ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ان کو کسی اور موقع کے لیے چھوڑتا ہوں۔
اپنے دادا استاذ کی سیرت پڑھ کے فخر ہورہا ہے
اللہ نے ھماری نسبت بھی ان عظیم نفوس سے جوڑ دی ۔۔ الحمداللہ
کیا اچھا اور عجیب ھے
ایک ہی خاندان ہے، ایک ہی تعارف ہے ایک ہی ادارہ ہے، لیکن ہر ایک فرد اپنے شخصیت میں ایک سمندر چھپاۓ ہوۓ ھے۔
بات کبھی حضرت شیخ صفدر رح کی ہو تو انکی شخصیت، علم، تصنیفات ، تحقیقی کام دیکھ کے انسان دھنگ رہ جاتا ھے
حضرت شیخ سواتی کا قدگاٹھ، دورہ تفسیر، نصرت العلوم میں جیسے ایک اسلاف کا نمائندہ پورے جاہ و جلال سے علم و حکمت کے موتی بکھیرتا رہا
حضرت استاذ شیخ عبدالقدوس خان قارن کی شخصیت سبحان اللہ ( انکی شخصیت کے کچھ پہلو سامنے آۓ مزید استاذِ ڈاکٹر وقار کی آمدہ تحاریر کا انتظار)
حضرت استاذ ذاہد الراشدی صاحب ۔۔ علم و حکمت میں پختگی، عصری تقاضوں پہ گہری نظر، بیسیوں سالہ تحریکی، تنظیمی، سیاسی تجربات کی آئنہ دار شخصیت ۔۔
حضرت فیاض خان سواتی و دیگر ۔۔ غرض اس خاندان کے ہر ہر فرد کو رحمن نے کیا خوب سنوارا ، نکھارا اور نوازا۔