بزرگوں کا احترام:
استاد گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن کی ااہم خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اپنے بزرگوں کا احترام تھا۔ ان اساتذہ میں سے حضرت شیخ صفدر اور حضرت سواتی صاحب ان کے والد اور چچا تھے، دیگر اساتذہ کا بھی وہ بہت والہانہ انداز میں ذکر کرتے تھے، اور ان کے لیے حد درجہ احترام کا اظہار کیا کرتے تھے۔
ہم نے ان کے اساتذہ میں سے حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد القیوم ہزاریؒ کا تذکرہ ان سے بہت زیادہ سنا ہے۔ وہ استاد ہزاروی ؒ کا بڑی محبت سے ذکر کرتے تھے۔ اسی طرح مولانا عزیز الرحمن ، لالا عبد العزیز وغیرہ کا تذکرہ بھی بہت محبت سے کرتے تھے۔
استاد زاہد الراشدی صاحب کا احترام:
استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ان کے بڑے بھائی ہیں، وہ راشدی صاحب کا تذکرہ ایسے کرتے جیسے کہ راشدی صاحب ان کے استاد ہوں اور وہ شاگرد ہوں، میں نے ایک دن قارن صاحب سے پوچھ لیا کہ کیا استاد جی آپ کے استاد بھی ہیں تو فرمایا کہ رسمی استاد تو نہیں ، البتہ وہ اساتذہ کی طرح ہیں، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
وہ ایک مدرس تھے، مدرس کا اپنا ایک دائرہ کار ہوتا ہے، جب کہ راشدی صاحب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فکری رہنما ، سیاست دان ، صحافی ، عالمی حالات اور اتار چڑھاو پر گہری نگاہ رکھنے والے دور رس عالم ، کھلی آنکھوں اطراف عالم کی سیاحت کرنے والے سیاح ہیں۔ چنانچہ دونوں کے دائرہ کار ، مضامین علمیہ ، عملی سرگرمیوں میں اختلاف ہونا ایک فطری عمل تھا۔ جسے دونوں بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنے والا محسوس کر سکتا تھا، مگر اس اختلاف کے اظہار میں بھی ہمیشہ احترام باقی رہا، اور کبھی بھی کسی اختلاف کی وجہ سے رابطے میں تعطل نہ آیا۔ میں نے کئی مواقع پر قارن صاحب سے بعض علمی مسائل کے بارے سوال کیا، الشریعہ میں چھپنے والے بعض مضامین کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے میرے سوال کا علمی جواب دے دیا، اور جب کبھی الشریعہ کی پالیسی پر سوال کیا تو فرمایا استاد راشدی صاحب بڑے ہیں وہ بہتر سمجھتے ہیں۔
معاصرین کی خوبیوں کا اعتراف ااور اختلاف میں اعتدال:
استاد عبد القدوس خان قارن صاحب کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ وہ معاصرین کے علمی کمالات کا اعتراف کرتے تھے۔ حضرت مفتی عیسیٰ خان صاحب کی فقہی مہارت ، مفتی عبد الشکور صاحب کاشمیری کی علمی وفقہی مہارت کا انہیں اعتراف تھا۔
وہ مولانا قاضی حمید اللہ خان کے انداز بیان اور وسعت مطالعہ کے بڑے معترف تھے، قاضی صاحب ان سے عمر میں کچھ بڑے تھے، اور مدرسہ انوار العلوم و مظاہر العلوم کے مدرس تھے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ میں سے استاد گرامی مولانا اللہ یار صاحب مرحوم تنظیم فکر شاہ ولی اللہ سے وابستہ تھے، مجھ سے کئی طلباء کو انہی کے توسط سے حضرت شاہ سعید احمد رائپوری رحمہ اللہ کی زیارت وملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ استاد قارن صاحب کو اس حوالے سے اللہ یار صاحب سے سخت اختلاف تھے۔ فکر و نظر کے اس اختلاف میں بھی دونوں حضرات کے درمیان احترام کا سلسلہ تھا۔ جس زمانے میں تنظیم فکر شاہ ولی اللہ پر کراچی سے فتوے شائع ہوئے تھے، تو ہم نے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ، استاد گرامی مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب ، استاد گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب ، استاد گرامی مولانا حاجی فیاض خان سواتی صاحب سے مختلف مجلسوں میں سوالات کیے۔ استاد قارن صاحب سے جب سوال کیا تو فرمایا کہ میں نے فتویٰ اور اس کی بنیاد کو تفصیل سے نہیں پڑھا کہیں سرسری سا دیکھا ہے، اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ میں نے فتویٰ کی کچھ عبارات سنا کر پوچھا کہ یہ عبارات ہیں اور ان پر یہ حکم ہے، فرمایا عبارت کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھنا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کی ہمارے استاد اللہ یار صاحب بھی تنظیم سے وابستہ ہیں، فرمایا تم نے جو عبارتیں سنائی اور جو مفہوم بتائے ان میں سے کوئی بھی مولانا اللہ یار صاحب میں نہیں پائی جاتی۔ اس لیے ان پر تو کم از کم اس طرح کے فتوے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ یار صاحب کی علمی و تدریسی مہارت کو عمدہ الفاظ میں سراہا۔
مولانا فاروق کٹھانہ نصرۃ العلوم سے علیحدہ ہو گئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ استاد عبد القدوس خان قارن جامعہ کے ناظم تھے۔ اس کے باوجود کئی بار انہوں نے کٹھانہ صاحب کا بڑے عمدہ الفاظ میں تذکرہ کیا، ان کی تدریسی مہارت اور طلباء کے ساتھ محبت و شفقت کا ذکر کیا۔ حالانکہ دونوں بزرگوں کے درمیان علمی اختلاف سے سبھی اہل علم واقف ہیں۔
مفتی محمد خان قادری ؒ بریلوی مسلک کے بڑے عالم تھے، استاد گرامی کا ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ ” فہم متشابہات ” پر علمی مکالمہ چلتا رہا، دونوں طرف سے بڑے جاندار مضامین لکھے گئے۔ ایک دفعہ بعد عشاء کے ان کا تذکرہ چل نکلا تو فرمایا کہ اختلاف اپنی جگہ وہ بندہ عالم اور صاحب مطالعہ ہے۔ اسے پتہ ہے کہ کہاں سے استدلال کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ ہم طالب علم تھے یہ بات بڑی عجیب لگی کہ بریلوی بھی صاحب مطالعہ ہو سکتا ہے۔ سو ان کے بریلوی ہونے کو موضوع بنا دیا، تو بڑی محبت سے سمجھایا کہ ان کے ہاں جو فکری غلطیاں ہیں ہم ان کو نہیں مانتے ، مگر جو خوبی ہے اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔
چھوٹوں پر شفقت:
استاد عبد القدوس خان قارن صاحب ہمیشہ اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ میں الشریعہ کے دورہ تفسیر کے حوالے سے جب بھی رہنمائی کے لیے حاضر ہوا ، بڑی شفقت کا اظہار کیا ، یہ الگ بات ہے کہ بوجوہ الشریعہ میں دورہ تفسیر کے طلباء کو پڑھانے نہ آسکے۔
ان کے سامنے جب استاد عمار خان ناصر صاحب کا تذکرہ ہوا جو کہ ان کے شاگرد اور بھتیجے ہیں تو ان سے متعدد مسائل میں اختلاف کے باوجود ان کے علمی مقام و مرتبہ کا اعتراف کیا، ان کے اخلاص اور درد مندی کو تسلیم کیا۔
علمی مسائل میں ان کی آراء:
مولانا عبد القدوس خان قارن کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ کسی بھی علمی وفکری مسئلہ میں خوب سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر استاد گرامی مولانا اللہ یار صاحب کے حوالے سے بیان ہو چکا۔ اسی طرح وہ عقائد میں اہل سنت والجماعت کے منہج اعتدال پر قائم تھے، جب کہ فقہی مسائل میں وہ جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ اگر کسی مسئلہ میں علمائے عصر میں کوئی اختلاف ہو تو اس میں وہ علمی بنیادوں پر اپنی رائے قائم کرتے تھے۔ جب وہ ایک رائے قائم کر لیتے تو پھر اس کے اظہار میں کسی قسم کی مداہنت نہیں اختیار کرتے تھے، نہ ہی انہیں علمی رائے کے اظہار میں لومۃ لائم کی پرواہ تھی۔ ان کی تقریر و تحریر اس پر شاہد ہے۔ یہاں بطور مثال کے دو مسئلے ذکر کیے جاتے ہیں، ایک فقہی اور ایک درجہ دوم کے عقائد یا بالفاظ دیگر افکار و امتیازات اہلسنت سے متعلق :
جدید دور میں اکثر علماء نے ڈیجیٹل تصویر کے جواز کی رائے اختیار کی ہے، اور عملا تو تقریبا سبھی اس کو درست سمجھتے ہیں ، جب کہ استاد گرامی کی رائے اس کے برعکس تھی، وہ تصویر کو علمی بنیادوں پر جائز نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ اس کا اپنی تقریر و تحریر میں اظہار کھل کر اظہار کرتے تھے۔ اور عملا بھی اپنے محبین کو تصویر بنانے سے منع کرتے تھے۔ ہمیں استاد گرامی کی اس رائے سے زمانہ طالب علمی سے ہی اختلاف تھا اور اب بھی ہے، جس کا ان کے سامنے اظہار بھی کیا، اور ان کے سامنے دوسرے علماء کی رائے کے راجح ہونے کو بیان کیا، انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناراضگی نہیں کی، بلکہ رائے کے حق کو تسلیم کیا،
اسی طرح علماء میں روافض و نواصب کے ساتھ جزوی تائید وغیرہ کے مسائل پائے جاتے ہیں، استاد قارن صاحب ان مسائل میں اہل سنت والجماعت کے منہج اعتدال کے قائل تھے۔ شرح عقائد کی کلاس کے دوران جب علامہ تفتازانی کا یہ جملہ : “لعنۃ اللہ علیہ وعلی انصارہ واعوانہ ” آیا تو استاد گرامی نے اس انداز میں آگے پڑھا لعنۃ اللہ علی التفتازانی ، پھر اس کے بعد وضاحت فرمائی کے میں نے جو تفتازانی کے لیے لعنۃ اللہ کا جملہ بولا یہ اس لیے کہ جب وہ اعوانہ و انصارہ کہہ رہا ہے تو اس میں وہ تمام لوگ آ جائیں گئے، جنہوں نے یزید بیعت کی ، اور ان میں صحابہ بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد لعنت بر یزید کا مسئلہ سمجھاتے ہوئے توقف کو ترجیح دی۔
کمنت کیجے