سوال و جواب
ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ اہل مذہب وحی کے بارے میں یہ مفروضہ کیوں رکھتے ہیں کہ یہ غلطی سے مبرا ہے، بالخصوص کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہی دور کے علما اور وقت گزرنے کے ساتھ بھی علما مختلف آیات کی توجیہہ بدل لیتے ہیں؟ اگر آپ توجیہہ بدل سکتے ہیں تو یہ امکان کیوں نہیں مان لیتے کہ ممکن ہے وحی سے ملنے والی خبر میں غلطی ہو؟ کیا یہ کوئی علمی مقدمہ ہوا؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ کسی شخص کے دعوی نبوت کا مطلب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اسے خدا نے بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے نمائندہ بنایا ہے اور اسے خدا سے حقائق کی خبر ملتی ہے۔ جس خدا کی جانب وہ نمائندگی کی نسبت کرتا ہے قطعی دلیل عقلی سے ثابت ہے کہ وہ علیم ہے جس کی خبر میں غلطی و کذب محال ہے۔ یعنی خدا کی اخبار میں خطا و کذب محال ہونا ایک علمی مقدمہ ہے، جو شخص یہ فرض کرے کہ ایک خبر ہے تو خدا کی جانب سے لیکن وہ غلط یعنی خلاف واقعہ ہے تو وہ خبر دینے والے کے بارے میں جہل کی نسبت کررہا ہے جبکہ خدا کی جناب میں یہ دلیل کی رو سے محال ہے۔ پس خدا کی اخبار لازماً سچی ہی ہوں گی، یہ کسی اندھے عقیدے کی نہیں علم و دلیل کی بات ہے جسے ہم آہنگی کے ساتھ جھٹلانا ممکن نہیں۔ پھر دلیل (معجزہ) سے مدعی نبوت کے اپنے دعوے میں سچا ثابت ہونے کا مطلب خدا کی جانب سے یہ خبر دیا جانا ہے کہ “یہ شخص اپنے اس دعوے میں سچا ہے کہ یہ میرا نمائندہ ہے اور میں اسے خبر دیتا ہوں”۔ یہ دلیل اس شخص کی جس کا نبی ہونا ثابت ہوگیا اس کی عصمت کی بنیاد ہے۔ پس جب دلیل سے خدا کا سچا ہونا اور دلیل ہی سے اس کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی جانب سے خبر دینے والے کا سچا ہونا ثابت ہوگیا، تو اس کے بعد یہ کہنے کا کیا مطلب رہا کہ “ممکن ہے اس کی خبر میں غلطی ہو”؟ چنانچہ ناقد اگر چاہے تو یہ شبہ تو پیش کرسکتا ہے کہ خدا کا عالم ہونا کیسے ثابت ہوا یا اس خاص شخص کے دعوی نبوت میں سچا ہونے کا مقدمہ کیسے ثابت ہوا، لیکن ان امور کو بائے پاس کرکے ان پر متفرع ہونے والے علمی و عقلی نتیجے پر سوال اٹھانا کوئی علمی بات نہیں۔ لہذا دلیل عقلی کہتی ہے کہ ان دو مقدمات کے ثابت ہوجانے کے بعد یہ امکان ماننا کوئی ہم آھنگ بات ہی نہیں کہ “وحی (نبی کی اخبار) میں غلطی ہو”۔ جو کوئی اہل مذہب سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ تم یہ امکان مان لو کہ وحی میں غلطی ہوسکتی ہے، وہ دراصل دو میں سے کوئی ایک بات ماننے کا مطالبہ کررہا ہے: خدا عالم نہیں اور یا فلاں شخص اپنے دعوی نبوت میں سچا نہیں۔
کمنت کیجے