جناب زاہد مغل اپنی ۱۹/دسمبر کی ایک فیس بک پوسٹ میں فرماتے ہیں ”غیب محض کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے۔ اپنے عمومی مفہوم میں غیب کا معنی وہ معلوم ہے جو حس میں نہ ہو مگر وہ حقیقت ہو۔ حسی علم صرف وہ ہے جو براہ راست حواس میں آئے جیسے یہ آگ، یہ پنکھا وغیرہ۔ ہم چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ استدلالی علم غیب ہے۔ سائنسی علوم کا ایک بڑا حصہ استدلالی ہی ہے، ایک سائنس دان جب مشاہدات کی توجیہ کے لئے نظریات وضع کرتا ہے تو یہ نظریات بھی غیب ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کسی خاص سائنس کا ماہر یہ کہے گا کہ اس نظرئیے کی دلیل کے لئے میرے پاس فلاں حسی دلیل ہے وغیرہ لیکن اس کے باوجود وہ نظریہ غیب ہے۔ اسی اصول پر اہل مذہب بھی کہتے ہیں کہ جن بعض غیبی یعنی استدلالی حقائق کی ہم تصدیق کرتے ہیں (اور جنہیں اصطلاحاً ایمان یا علم بالغیب کہتے ہیں) ان کے لئے ہمارے پاس دلیل ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب حس سے پرے حقیقت کو کہتے ہیں نہ کہ دلیل سے ماورا حقیقت کو“۔
میں اس پوسٹ کو دو دن سے بار بار پڑھ رہا ہوں، اور مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ اسے جناب ڈاکٹر پروفیسر زاہد مغل صاحب نے لکھا ہے۔ ہاں، اگر نے.تن یا.ہو مسلم علم الکلام کی پروفیسری کرنے لگے تو وہ یہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہے۔ یہ جس شعور کی نمائندہ پوسٹ ہے وہ مسلم تو دور کی بات ہے انسانی شعور کہلانے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اور پبلک پوزیشن یہ ہے کہ ”علمائے کرام“ کو علم الکلام پڑھاتے ہیں۔ میں نے اپنی کسی تحریر میں لکھا تھا کہ ”غیب“ اور ”ماورا“ دو قطعی الگ الگ چیزیں ہیں اور اُس پر اِس پروفیسر نے رد عمل دیا تھا۔ اس پوسٹ سے پتہ چلا کہ کیوں دیا تھا۔
”اصطلاح“ عقلی علوم کی کرنسی اور عقل کا بنیادی آلہ ہے، کیونکہ زبان کو آلاتی بنائے بغیر عقلی علوم کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ عقلی بات ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عقلی علوم آلاتی ہوتے ہیں۔ اسی باعث عقلی علوم میں عقل متنی معنی کے پیداکار (producer) یا تعین کنندہ (determiner) کے طور پر کام کرتی ہے جبکہ وحی اور جوامع الکلم، کلام پہلے ہیں اور متن بعد میں ہیں اور عقل وہاں معنی کی وصول کنندہ (receiver) ہے۔ اظہار اور ابلاغ کی ضرورت کے تحت، اصطلاح کسی عام لفظ میں ارادی معنی داخل کرنے سے پیدا ہوتی ہے اس لیے ان کی فرہنگیں بھی عام لغات سے الگ تیار ہوتی ہیں۔ جس طرح ہنڈیا میں پانی نہیں پیتے اور گلاس میں سالن نہیں پکاتے، اسی طرح اصطلاحات بھی خاص معنی کی وجہ سے مختلف شعبۂ ہائے علوم میں متوطن ہوتی ہیں اور ان کے شعبہ جاتی توطن کو معنی کی بنیادی تبدیلی کے بغیر کسی اور ”جگہ“ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ”غیب“ کوئی اصطلاح نہیں ہے کیونکہ یہ عقلی علوم میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہماری مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے، اور نہ عقل اسے آلہ بنانے کی مجاز ہے۔ عقلی کارکردگی سے اس کے معنوی محتویات جانے جا سکتے ہیں اور ان کی طرف ”عقلی اشارہ“ کیا جا سکتا ہے لیکن اسے اصطلاح نہیں بنایا جا سکتا۔
عقلی علم کی بات کرتے ہوئے، اہلِ مذہب کو بجا طور پر اپنے ایمان کی فکر پڑ جاتی ہے اور بدحواسی میں وہ عقل اور مذہب دونوں کو فنا کر دیتے ہیں۔ اس لیے عقلی علم اور ایمان کی نسبتیں بھی یہاں جان لینا ضروری ہے، اور آج کے فکری حالات میں اس کو شدید ترین مؤکد کرنے کی ضرورت ہے۔ عقلی علوم میں بھلے وہ علمیاتی (epistemological) ہوں یا ہرمینیاتی (hermeneutical) ہوں، ایمان کا بروز صرف اور صرف تنزیہہ اور تشبیہ کے طور پر ہو گا۔ جب عقل توحید پر ”علمی کلام“ کرے گی تو وہ مکمل طور پر تنزیہی ہو گا، اور تشبیہ کا شائبہ پڑتے ہی وہ علم ”شرکیہ“ بن جائے گا، اور دنیا کا عقلی علم تشبیہ کے اصول پر کام کرے گا اگر وہ طبائع تک محدود رہے اور انسان سے متعلق وہ تنزیہہ کے اصول پر ہو گا یعنی تنزیہہ کی شرائط پر انسان کی نفسی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہو۔ سادہ لفظوں میں، تنزیہہ اور تشبیہ مسلم عقلیت کے لیے دو رہنما علمی اصول ہیں اور علم اور ایمان کی نسبتوں کو صراحت کے ساتھ متعین کر دیتے ہیں۔
اب یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری مذہبی تعلیمات میں غیب سے کیا مراد ہے؟ غیب اور خبرِ غیب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر کوئی آدمی غیب کا ہی ”منکر“ ہو تو اس کے لیے خبرِ غیب قابل توجہ ہی نہیں ہو گی۔ انسان میں آگہی اور علم کے اصول قطعی مختلف ہیں۔ عقلی علم ہمیشہ توسیطی (mediate/mediated) ہوتا ہے جس میں حس، ادراک اور عقل واسطے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ اس میں عقل مرکزیت کی حامل ہوتی ہے اور یہی چیز عقل کو علم پر حاکمیت عطا کرتی ہے، جبکہ آگہی (awareness) غیرتوسیطی ہے یعنی تقربی (immediate) ہے، اور شعور کی ساخت میں داخل ہے۔ یہ pre-intention اور pre-reason ہے۔ یہ آگہی کچھ جاننا نہیں ہے، نہ یہ کسی ”چیز“ کے بارے میں ہے، نہ یہ علم ہے اور نہ معلوم۔ اہم تر یہ کہ یہ آگہی وجود کے ساتھ ہے اور وجود آگہی کے ساتھ، اور ان امتیازات کے بغیر۔ ”ہونے“ کی جہت سے غیب و شہود اس میں داخل ہیں، اور آگہی کی جہت سے وحی کی قبولیت اس میں داخل ہے۔ یعنی غیب نہ ادراک میں ہے نہ علم میں ہے، یہ صرف آگہی میں ہے۔ عرفان میں عین یہی بات شیخ اکبر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمائی ہے ”الحق محسوس و العالم معقول“۔ یعنی حق محسوس ہے جبکہ عالم اپنے ہر ہر پہلو میں توسیطی اور معقول ہے۔ عرفان میں ”محسوس“ سے جو مراد لیا جا رہا ہے، تقربی (immediate) سے فلسفے میں بڑی حد تک وہی مراد لیا جاتا ہے۔
جناب پروفیسر زاہد مغل صاحب چونکہ جدید علوم کے اندھیروں میں مسلم شعور کو چاٹتی سیاہ دیمک کی طرح ہیں، اس لیے وہ پہلی ضرب ہی ہماری ایمانیات پر لگاتے ہیں اور غیب اور عقیدۂ غیب کو ہی منہدم کر دیتے ہیں۔ وہ اعلان فرماتے ہیں کہ ”غیب محض کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے“ اور اس کے بعد ان کا ”جدید علم الکلام“ شروع ہو جاتا ہے۔ علوم ایک پیچیدگی رکھتے ہیں، اور ان میں اہلِ علم غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ غلطی نہیں ہے، مسلم شعور پر شبخون ہے۔ علم کے لیے صرف نیک نیتی اور ”دینی خدمت“ کا جذبہ کافی نہیں ہوتا، کچھ استعداد بھی درکار ہوتی ہے۔ ہماری عظیم علمی روایت ایسی ہی بے دماغیوں سے جاتی رہی ہے، اور جدید علوم کی سوجھ بھی پیدا نہ ہوئی۔ ہمارے علم الکلام میں جب ”دنیا“ (شہود) کہتے ہیں تو اس سے مراد مادیات اور مجردات ہوتے ہیں۔ مادیات حس میں ہیں اور ان طبائع اور مادیات کی ذہن یا عقل میں توسیط مجردات میں ہوتی ہے، اور یہ مجردات، عقلی تصورات ہی کا دوسرا نام ہے۔ ریاضی اس کی تام مثال ہے۔ چیزیں حس میں concrete ہوتی ہیں جبکہ وہی مجرد تصورات کے طور پر عقل کا موضوع بنتی ہیں۔ لسانی منطق اور وضعی منطق (formal logic) کا استدلال انھیں مجرد تصورات سے ہوتا ہے۔
اب یہ پروفیسر صاحب ہمارے دین اور شعور دونوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں ”حسی علم صرف وہ ہے جو براہ راست حواس میں آئے جیسے یہ آگ، یہ پنکھا وغیرہ۔“ پروفیسر صاحب فرما رہے ہیں کہ ایک علم مطلق حسی ہوتا ہے جس میں عقل شامل نہیں ہوتی اور ایک علم مطلق استدلالی ہوتا ہے جس میں حس داخل نہیں ہوتی۔ وہ استدلالی علم کو ”غیب“ کہنے کے لیے یہ بودی تمہید باندھ رہے ہیں۔ اس جاہل سے کوئی پوچھے کہ خود اس کی دی گئی مثال میں جو یہ ”یہ“ داخل ہوا ہے، کیا یہ حس سے آیا ہے؟ یہ ”یہ“ بیک وقت intentional بھی ہے اور rational بھی ہے اور یہ دونوں عقل کی شمولیت بغیر ممکن نہیں ہیں، تو علم صرف حسی کیسے ہو گیا؟ یہی صورت ”ایک درخت“ کہنے کے وقت ہوتی ہے۔ تو یہ عدد بھی عقل ہی داخل کرتی ہے۔ یہ ”یہ“ اور ”ایک“ حسی نہیں ہیں، عقلی اور intentional ہیں اور ان کے بغیر عقلی علم کی بات بھی نہیں ہو سکتی۔ اس سے بالکل ظاہر ہو گیا کہ اس پروفیسر کو نہ حسی علم کا پتہ ہے، نہ استدلال معلوم ہے اور نہ عقل کا کوئی سراغ ہے۔ انھیں تو کلام اور فلسفے کی ابجدی چیزوں کا بھی علم نہیں ہے۔ متن خواندگی کے لیے دماغ چاہیے اور متن خوری کے لیے پیٹ کافی ہوتا ہے۔ متن خوری کے بعد اسی طرح کا بدبودار کلام اور فلسفہ سامنے آ سکتا ہے۔ اس کے فوراً بعد وہ فرماتے ہیں ”ہم چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ استدلالی علم غیب ہے“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں ”استدلالی“ کا پتہ ہے، نہ ”علم“ کا اور نہ ”غیب“ کا۔ چونکہ وہ مادیات، مجردات اور حضورات کے امتیازات کی کوئی خبر ہی نہیں رکھتے اس لیے وہ استدلالی علم جو مکمل طور پر مادی اور تجریدی ہوتا ہے، اس کو غیب کہہ رہے ہیں۔ یہ منطق یا علم کی کوئی غلطی نہیں ہے، یہ تو کلمۂ کفر ہے۔ العیاذ باللہ۔ حضور، انفس میں غیب کا ورود ہے جبکہ تجرید، ذہن میں مادے کا دخول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ وہ discursive علم کو غیب کہہ رہے ہیں۔ ایسا کہنے میں وحی کا انکار لزوم کے طور پر داخل ہے۔ پتہ نہیں وہ کس کلام اور کس فلسفے کے پیچھے چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ پروفیسر تو lost case ہے۔
یہ سنگین خرابی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ وہ وجودِ باری کو (نعوذ باللہ) بوزون ذرہ ہی سمجھتے ہیں اور جس استدلال سے وہ ثابت ہوتا ہے اسی سے وجودِ باری کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ان کی تحریر میں یہ عنوان بھی دیکھا تھا: ”علم الکلام کی مابعدالطبیعیات“۔ اب جو آدمی ایسے عنوان باندھ سکتا ہے وہ کوئی متن کا بھوسہ چرنے والی مخلوق ہی ہو سکتی ہے۔ یہ پروفیسر صاحب جو مسلم شعور اور علم الکلام کے ساتھ کر رہے ہیں وہ عرض کر دیا، اور جن کو یہ علم الکلام سکھانے نکلے ہوئے وہ کیا کیا نہ گل کھلائیں گے۔ جو آدمی عقلی نظریات کو غیب کہہ کر وحی کا نشان ہی مٹا دینا چاہتا ہو اس سے بڑا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔




کمنت کیجے