بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ شر پر ماتریدی اصول پر بھی جواب بتائیں۔ مسائل تحسین و تقبیح پر ماتریدی نکتہ نگاہ پر بھی ہم لکھ چکے ہیں، جاری بحث میں ماتریدی اصول پر گفتگو کا طریقہ یوں ہے:
1) ماتریدیہ کے نزدیک کسی فعل کے جواز کی شرط اس کا کسی جہت سے قابل حمد ہونا ہے نہ کہ بندوں کے لئے لذت بخش (جسے معتزلہ اصلح کہتے ہیں) ہونا۔ یوں ماتریدیہ کے ہاں فعل کے جواز کے کئی پہلو و سطحیں کھل جاتی ہیں۔
2) اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ انسانی سطح پر جاری حسن و قبح کے تصورات کی رو سے تکلیف کا وجود بذات خود کسی فعل کو لازما ناجائز و قابل مذمت نہیں بناتا، اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلا انسان جانوروں کو کھاتے ہیں، خوراک و پانی میں ذی حیات جرثومے کھاتے پیتے ہیں، مچھروں کو مارتے ہیں، حیوانات کو کاموں میں جوتتے اور ان پر وزن لادتے ہیں، بطور تفریح کھیل کود (مثلا گھوڑ دوڑ) میں جانوروں پر مشقت ڈالتے ہیں اور اس عمل میں جانور بسا اوقات زخمی بھی ہوجاتے ہیں، انسانوں کے لئے مفید ادویات بنانے کے لئے جانوروں پر تجربات کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ جسمانی اذیت کی مثالیں ہیں، اگر ذہنی اذیت پر غور کریں تو اس کی بھی کئی صورتوں کو روا رکھا جاتا ہے۔ اگر مطلق اذیت کا ورود کسی فعل کے عدم جواز اور اس کے فاعل کی مذمت کی دلیل ہو تو پھر چھوٹے بچوں کو سکول بھیجنا نیز طلبا پر امتحان کا بوجھ ڈالنا بھی درست نہ ہوگا کہ اس سے انہیں ذھنی اذیت ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی فوجی کی ٹریننگ کے عمل میں اس پر ذھنی دباو ہوتا ہے اور شدید جسمانی مشقت بھی جھیلنا پڑتی ہے۔ سرکار کی جانب سے لوگوں کے اموال پر ٹیکس لگنا بھی لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہے۔ الغرض ہم ان مثالوں کی فہرست کو مزید طویل نہیں کرنا چاہتے۔
3) اگلی بات یہ کہ کسی فعل سے جنم لینے والی معین انفرادی تکلیف پر انفرادی عوض دئیے جانے کا لزوم بھی کوئی قطعی عقلی اصول نہیں (اگرچہ خدا نے اپنے فضل سے اس کا وعدہ کیا ہے)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس قابل حمد معین پہلو اور اس کے حصول کا قطعی انفرادی علم ہونا بھی لازمی شرط نہیں۔ ایک فوجی کسی بڑے مقصد کے لئے میدان جنگ میں اپنی جان تک دیتا ہے (بلکہ ملحد فوجی بھی دیتے ہیں)، باوجود اس سے کہ اسے اس کا عوض نہیں ملتا اور باوجود اس کے کہ اسے اپنی قوم کی فتح کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ فائر فائٹر کے اپنی جان خطرے میں ڈالنے میں ہے جو ممکنہ موت کے خدشے سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی طرح والدین اپنی نیند، صحت و خواہشات قربان کرکے متعدد قسم کے نفسیاتی دباو میں زندگی گزارتے ہیں، اگرچہ دنیاوی لحاظ سے انہیں اس چیز کی ضمانت نہیں ہوتی کہ انہیں بچوں کی جانب سے کوئی عوض ملے گا۔ ایک چھوٹے بچے کو جب سکول کے اذیت پر مبنی نظام میں داخل کروایا جاتا ہے تو اس بات کا کوئی یقین نہیں ہوتا کہ یہ تعلیم کے میدان میں کامیاب ہی ہوگا، بلکہ کئی بچے ہر روز دوران تعلیم مر جاتے ہیں۔ الغرض ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانی سطح پر تکلیف و اذیت کو روا رکھنے کے لئے انفرادی عوض کے یقینی انفرادی علم کی کوئی شرط نہیں بلکہ کسی اعلی و ارفع مقصد کے وجود کا گمان غالب بھی کافی ہوتا ہے۔
4) کسی فعل سے ہونے والی تکلیف کو روا رکھنے سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ جو فاعل اسے روا رکھ رہا ہے وہ اسے دور کرنے پر قادر نہیں یا وہ ظالم ہے۔ مثلا اینیمل پلانٹ والے ویڈیو میکرز جنگلوں میں جاکر جانوروں کے شکار کی فلمیں بناتے ہیں۔ ان کے سامنے شیر و چیتا ہرن کے بچے کو چھین کر لے جاتا ہے اور کھا جاتا ہے اور ہرن کھڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ لوگ چاہیں تو شیر و چیتے کو ایسا کرنے سے روک سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں؟ یا یہ ہے کہ وہ بے رحم و ظالم ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اب اگر آپ ان سے پوچھیں کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، تو وہ کہیں گے کہ اگر ہم نے شکاری جانوروں کو شکار سے روکا تو یہ سب مرجائیں گے اور گھاس چرنے و شکار ہونے والے جانوروں کی تعداد بے تحاشا بڑھ جائے گی اور یہ گھاس خور جانور گھاس و پتے کھا کھا کر سب جنگل ختم کردیں گے اور پھر خود بھوک سے ہی مرجائیں گے، جنگل ختم ہوگیا تو یہ اور وہ ہوجائے گا وغیرہ۔ یہ سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ان فلم بنانے والوں کا یہ فعل بہت ہی عمدہ ہے کہ یہ شیر کو منع نہیں کرتے۔ اسی طرح سی ایس ایس کے امتحان میں ہر سال 95 فیصد سے زیادہ لوگ فیل ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی یہ نہیں کہتا کہ ممتحن جواب نہ بتا کر ظالم ہے اور یا وہ جواب بتانے پر قادر نہیں وغیرہ، یہ بھی یاد رہے کہ اس ناکامی سے بھی طلبا کو اذیت ہوتی ہے۔ الغرض یہاں اس پورے ایکو سسٹم کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا بنانے والا کیسا ہی عظیم کاریگر ہے جس نے ہر چیز کو بیلنس کیا، یہ قابل حمد پہلو بھی ماتریدی اصول کی رو سے کافی ہے۔
5) اب اگر یہ کہا جائے کہ کیا یہ سب اسی طرح ہونا واجب ہے؟ ماتریدیہ کا جواب نفی میں ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ خدا اس سے بہتر کر سکتا ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ جو کچھ موجود ہے کیا اس میں ایسے پہلو ہیں یا نہیں جو فاعل کے لئے قابل حمد ہیں؟ اگر ہیں، تو لزوم کا یہ سوال غیر متعلق ہے۔
6) آخری بات یہ کہ ہر ہر معین فعل میں قابل حمد پہلو کا بالفعل علم ہونا بھی کوئی شرط نہیں بلکہ اگر فاعل کے بارے میں دلیل و متعدد نظائر سے اس قدر یقین حاصل ہوجائے کہ وہ علیم و حکیم ہے اور عبث فعل نہیں کررہا بلکہ اس کے افعال میں کوئی قابل حمد پہلو جلد یا بدیر انسانوں کو نہ صرف مل جاتا ہے بلکہ اس میں ان کا کوئی نفع پوشیدہ ہوتا ہے، تو اس کے ہر فعل کے قابل حمد ہونے پر یقین رکھنے کے لئے یہ مجموعی یقین کافی ہے، اور اب کسی معین فعل میں قابل حمد پہلو نامعلوم ہونے کو اپنے علم کی قلت پر محمول کیا جائے گا کیونکہ میں دلیل سے یہ جانتا ہوں کہ میرا علم محدود ہے (قرآن میں حضرت موسی و خضر علیہما السلام کا واقعہ اس پہلو سے بہت اہم ہے)۔ اسی اصول پر دنیا بھر میں حکمرانوں پر یہ پابندی عائد نہیں کی جاتی کہ وہ اپنی ہر ہر پالیسی کے ہر ہر شخص پر ہونے والے حال و مستقبل کے امکانی منفی اثرات کو انہیں اچھے سے سمجھا کر اور ان کی رضامندی لے کر پھر کوئی اقدام کریں، اور نہ ہی محض اس بنیاد پر کسی شہری کو کسی پالیسی و قانون کو نہ ماننے کی اجازت دے دی جاتی ہے کہ اسے اس کا فائدہ سمجھ نہیں آیا۔
خلاصہ یہ کہ انسانی سطح پر حسن و قبح کے جن تصورات سے ہم واقف ہیں وہاں یہ احکام نہ ہمیشہ اس اصول پر جاری ہوتے ہیں کہ تکلیف و اذیت کا مطلقا وجود نہ ہو، اور نہ ہمیشہ اس اصول پر کہ ہر انفرادی اذیت کا ازالہ لازم ہے اور نہ ہی اس سب کے لئے یہ کوئی شرط ہے کہ جنہیں اذیت ہورہی ہے انہیں ہر ہر معین اذیت کے پس پشت قابل حمد پہلو یقینی طور پر معلوم ہو، بلکہ حسن و قبح کے احکام کے اجرا کی صرف اتنی شرط ہے کہ فاعل کا فعل قابل حمد ہو۔ البتہ جب نبی نے یہ بتادیا کہ خدا اذیت کا ازالہ کردے گا تو اس سے فاعل کے فعل میں قابل حمد ہونے کا مزید پہلو بھی شامل ہوگیا کہ اگرچہ اس پر یہ واجب نہ تھا لیکن اس نے میرا لحاظ رکھا، فللہ الحمد۔




کمنت کیجے