ادریس آزاد
مجھے جب پہلی بار مدرسہ ڈسکورسز کا پتہ چلا تو میں نے کچھ دھیان نہ دیا۔ایک سال یونہی گزرگیا۔ پھر جب میں نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب اورمباحث پر نظرڈالی تو مجھے حیرت کا نہایت خوشگوارجھٹکالگا۔ یہ میرے لیے بالکل ہی نئی بات تھی۔میں تو مدرسہ ڈسکورسز کو فقط کوئی جدیدیت زدہ پروگرام سمجھ رہاتھا لیکن یہ تو ایک ایسی تحریک تھی جس میں مدرسہ کی پرانی ساکھ اورقوت واپس بحال کرنے کی پوری پوری صلاحیت موجود تھی۔ چنانچہ میرے دل میں مدرسہ ڈسکورسزکے ساتھ متعلق ہوجانے کی خواہش پیدا ہوئی۔میری یہ خواہش ابھی میرے دل میں ہی تھی کہ مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈفیکلٹی (Lead Faculty) برادرم ڈاکٹر عمارخان ناصرنے مجھےکال کرکے مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسوں کو سائنس پڑھانے کی پیشکش کردی جسے میں نے فوراً قبول کرلیا۔
مدرسہ ڈسکورسز، دراصل ایک تعلیمی و تدریسی سرگرمی کا نام ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے جو پروفیسر ڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے شروع کیا ہے۔ڈاکٹرابراہیم مُوسیٰ اسلامی دنیا کا ایک معروف نام ہیں۔اُن کاتعلق جنوبی افریقہ سےہے جبکہ اُن کے ننھیال ہندوستان میں ہیں۔ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کی ابتدائی تعلیم ہندوستان کے مدراس میں ہوئی۔ ان مدارس میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ ندوۃ العلمأ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تعلیمی پس منظر مدارس کا ہے اس لیے وہ مدارس کے نظام کی اصل خوبیوں سے واقف ہیں۔فی زمانہ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ دینی مدارس کی روایت زندہ کو کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’مدرسہ کیا ہے؟‘‘ میں اسکول اور مدرسہ میں سے، مدرسہ کوبہترسمجھتےاوراس کی بھرپوروکالت کرتے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لِیڈ فیکلٹی ڈاکٹرعمارخان ناصر ہیں۔ڈاکٹرعمارخان ناصراپنے علم و حلم، دونوں کے حوالے سے معروف ہیں۔عام طورپر عمارخان کو غامدی صاحب کے ہم مؤقف سمجھ لیا جاتا ہے جو کسی حدتک شاید درست بھی ہے، لیکن فی الحقیقت وہ اپنی فکری زندگی میں بالکل آزادی کے ساتھ غوروفکر کرنے والے ایک نہایت باریک بین اسکالر ہیں۔اُن کا مزاج اورطبیعت محققانہ ہےجبکہ اُن کی شخصیت میں بلا کی متانت ہے۔میں نے ذاتی طورپر اُنہیں ایک صالح اوردیانتدارشخص پایا۔
گزشتہ ہفتے سمسٹرکے اختتام پر مدرسہ ڈسکورسز کی ورکشاپ تھی۔مجھے پہلی بار اپنی کلاس کے علمائے کرام سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ کہنے کو تو میں ان نابغوں کا استاد تھا کیونکہ میں ان علمائے کرام کو سائنس پڑھاتاہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ورکشاپ کا پورا ہفتہ میں نے حالتِ مرعوبیت میں گزارا۔ میرے چاروں طرف ہندوستان اور پاکستان کے ایسے ایسے فاضل ، نوجوان علمأ موجودتھے کہ میں ان کے درمیان اپنے آپ کو اَن پڑھ محسوس کرتاتھا۔ عربی، فارسی، اورفقہ پربے پناہ عبوررکھنےوالے یہ نوجوان ہرمسلک سے تھے۔ بریلوی، دیوبندی اورشیعہ علمأ کی نمائندگی میں تعداد کا فرق تھا تو میں اُس فرق کو ایک عارضی فرق سمجھتاہوں جو وقت کے ساتھ دُورہوسکتاہے۔صرف یہی نہیں کہ مختلف مسالک کے فقط مرد علمأ ہی اس کورس میں شریک ہیں بلکہ خواتین کی نمائندگی بھی مناسب حدتک معقول ہے۔ ورکشاپ میں پاکستانی اور ہندوستانی خواتین اور طالبات نے دقیق علمی موضوعات پر نہایت سہولت کےساتھ رواں انگریزی میں ایسی بہادری سے حصہ لیا کہ میں اپنی سگی بیٹی کو مدرسہ ڈسکورس کی طالبہ بنانے کی خواہش کرنے لگا۔ان میں سے زیادہ تر طالبات کا تعلیمی پس منظر بھی مدراس سے تھا۔
کمنت کیجے