کیا قرآن قابل تفسیر ہے؟ ماہرین اصول فقہ سے پوچھ لیجئے
اس کا جواب ہے “جی ہاں، مخاطب کی جہت سے دنیا کا ہر کلام و ہر جملہ لائق تفسیر و بیان ہوتا ہے” نیز قرآن کی نسبت خدا کی جانب ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ الفاظ سے شارع کی مراد متعین کرنے کا اصول متعین کیا جائے تاکہ ہما شما کے ہر دعوے کی نسبت خدا کی جانب نہ کی جاسکے۔ چنانچہ کسی کلام کی بابت کلام اللہ کہنا ہی اس سنجیدگی کا متقاضی ہے کہ اس کے اصول تفسیر مقرر کئے جائیں۔
ہمارے دور میں بعض لوگوں نے جذباتی باتوں کے ذریعے اس مسئلے پر اغلاط کا انبار جمع کردیا ہے کہ دیکھو یہ خدا کے کلام کو غیر واضح کہہ رہے ہیں وغیرہ۔ یہ لوگ اس بنیادی حقیقت پر بھی غور نہیں کرتے کہ کلام سے کسی معنی کا فہم یا بدیہی چیز ہوگی اور یا استدلالی۔ یہ معاملہ بدیہی نہ ہونا بالکل واضح بات ہے کیونکہ اگر یہ بدیہی شے ہوتی تو دنیا کے ہر انسان کو ہر لفظ و عبارت سنتے ہی متکلم کی بات بطریق لزوم سمجھ آجاتی جبکہ ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ اس معاملے کا استدلالی ہونا از خود یہ بتا رہا ہے کہ دلائل لفظیہ سے معنی کا مفہوم ہونا چند مقدمات اور ان کی باہمی ترتیب سے عبارت ہے۔ پس تفسیر کے عمل میں مخاطب ان امور کا تعین کرتا ہے جس کے پیش نظر متکلم نے کلام کیا نیز جو اس نے مراد لئے۔ کلام میں بیان مخاطب کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے اپنے علمی مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں نیز متکلم جب کلام کرتا ہے تو بہت سارے امور کو اس مفروضے پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ امور یا دیگر علوم میں یا دیگر مقامات پر آگئے ہیں اور یا مخاطب انہیں جانتا ہے اور کلام سے معنی اخذ کرتے ہوئے وہ انہیں سمجھ لے گا یا اخذ کرلے گا۔ مثلا قرآن نے عربی لغت کے قواعد بیان نہیں کئے کہ فاعل کے صیغے پر پیش ہوتی ہے اور مفعول پر زبر وغیرہ نیز ان حرکات کی تبدیلی سے کیا معنوی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح بدیہی علوم کی لسٹ بھی قرآن میں نہیں لکھی ہوئی اور نہ ہی منطق کے وہ قواعد و فارمز جن سے درست نتائج اخذ ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مفسر کلام میں پیوست ان سب امور کو بیان کرتا ہے کہ متکلم نے ان کے پیش نظر بات کی ہے۔
اصول فقہ کے مباحث کی روشنی میں یہاں ہم ان جہات کا تذکرہ کرتے ہیں جو مخاطب کے لحاظ سے کلام کی وجوہ بیان یا تفسیر کہلاتی ہیں اور یہ وجوہات دنیا کے ہر لفظی کلام سے متعلق ہیں، چاہے وہ کسی انسان کا کلام ہو یا خدا کا۔
1۔ اولاً ان مقدمات کا تعین کرنا لازم ہے جن کی صحت پر دلائل نقلیہ یا لفظیہ کا اعتبار ثابت ہوتا ہے۔
2۔ اس کے بعد سب سے پہلے لغت میں اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ واضعین زبان نے ایک لفظ کو کس کس معنی کے لئے وضع کیا اور اسے کن پیرایوں میں استعمال کیا، نیز ہر ہر لفظ کے معنی کن کن طرق سے ہمیں منتقل ہوئے (یعنی بطریق اخبار احاد یا متواتر)۔ لغت میں بیان شدہ صرفی و نحوی ترکیبات کا معنی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کلام میں تقدیم و تاخیر سے کیا فرق پڑتا ہے؟
3۔ کسی کلام میں اس کا تعین کرنا لازم ہوتا ہے کہ متکلم کی جانب سے استعمال کردہ کوئی لفظ ایسا تو نہیں جس کے معنی یا اس معنی کی کوئی جہت خود متکلم کے سوا کوئی نہیں جانتا؟ اسے حنفی اصطلاح میں متشابہ کہتے ہیں۔
4۔ چوتھا قدم یہ جاننا ہوتا ہے کہ کسی لفظ کو متکلم نے لغوی کے بجائے کسی اصطلاحی یا عرفی معنی میں استعمال تو نہیں کیا (مثلا صلوۃ) یا کسی مقام پر خود لغوی پہلو سے ھٹ کر یا اس پر کوئی اضافی معنی شامل کرکے اس کا مفہوم تو مقرر نہیں کیا؟ احناف اسے مجمل کہتے ہیں۔
5۔ کلام میں تفسیر کا اگلا پہلو اس بات کا تعین ہے کہ متکلم نے کہیں مشترک لفظ تو استعمال نہیں کیا؟ کیا کہیں مجازی معنی مراد تو نہیں لیے؟ اگر یہ کیا ہے تو کسی ایک جانب کو ترجیح دینے کے لئے اس نے کیا قرینہ دیا ہے؟ اسے اصطلاحی زبان میں مشکل کہتے ہیں۔
6۔ پھر یہ جاننا لازم ہے کہ کلام کے کسی خاص مقام سے معین معنی اخذ کرنے کے لئے کن امور کو فرض کرنا ہوگا، اگرچہ اس خاص مقام پر وہ الفاظ میں موجود نہ ہوں۔ کہیں کلام میں کچھ الفاظ محذوف تو نہیں؟
7۔ پھر یہ پہلو ہے کہ متکلم نے جو ایک عام و مطلق لفظ بولا، اس کے مفہوم میں کون کون سی کیفیات شامل ہیں؟ اسے خفی کہتے ہیں اور یہ تحقیق مناط کی طرح ہے۔
8۔ اگلا پہلو یہ ہے کہ متکلم نے اگر کہیں عام اور مطلق لفظ بول دیا ہے تو کیا خود اس کے خطاب و فعل سے اس میں کچھ تخصیصات وتقییدات ثابت ہیں؟ کیا کسی قطعی دلیل عقلی سے اس کے کلام کے مفہوم کی تخصیص و تقیید ثابت ہے؟ کیا اس نے کچھ امور کو بطور استثنا بھی بیان کیا ہے؟
9۔ پھر یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ متکلم نے جو ایک حکم دیا، خود اس کے خطاب و فعل کے دیگر مقامات سے یہ ثابت ہے کہ وہ منسوخ ہوگیا؟
10۔ نیز یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ کلام کے ایک مقام سے عبارت النص کی سطح پر اور دوسرے مقام پر اشارۃ النص یا دلالت النص وغیرہ کے طریق پر کوئی بات ثابت ہورہی ہے، تو تعارض کی صورت میں کسے کس پر فوقیت ہوگی؟ تعارض رفع کرنے میں کن کن پہلووں کا لحاظ رکھنا ہے؟
11۔ سیاق کلام، متکلم کے نزدیک پیش نظر احکام کی علتوں اور ان کے مقاصد کا معنی کی تعیین میں کیا عمل دخل ہے؟
الغرض یہ وہ اہم امور ہیں جن کے بیان کی مخاطب کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ کسی بامعنی کلام کو اس مفروضے پر پڑھتا ہے کہ متکلم نے ان امور کا لحاظ رکھا ہے۔ اس تفسیری عمل کے بعد مخاطب یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اب اسے کوئی مشکل نہیں رہی، ایسا نہیں ہے کہ اس عمل کے بغیر ہی اس پر سارے پہلو واضح ہوتے ہیں اور صرف بعض مقامات پر درپیش کوئی اکا دکا مشکل تفسیر کی متقاضی ہوتی ہے (حنفی اصولیین کی اصطلاح میں جسے “محکم” کہتے ہیں، معنی کے ظہور کا صرف یہ وہ درجہ ہے جو ان کے نزدیک کسی تفسیر و بیان کا محتمل نہیں)۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ وہ جذباتی باتوں سے دلائل لفظیہ پر بحث کو نمٹا سکتا ہے تو اسے خوش عقیدگی تو کہا جاسکتا ہے لیکن ایسی خوش عقیدگی نہ علم کی دنیا میں کوئی حیثیت رکھتی ہے اور نہ ہی عملی سطح پر یہ کسی مسئلے کا حل ہے۔ خوش عقیدگی پر مبنی ایسا “اصولی جمع خرچ” دراصل قرآن کو بند کرکے کیا جاتا ہے۔ علمائے اصول نے درج بالا سب پہلووں کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے، اس عظیم لسانیاتی روایت کے امین حضرات کو سطحیت زیب نہیں دیتی۔
قرآن مخاطب کی جہت سے قابل تفسیر ہے، اس کے خلاف اغلاط کا انبار جمع کرنے والوں کا ایک استدلال یہ ہے کہ تفسیر کے انکار سے آپ حضرات کے نزدیک کفر لازم نہیں آتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تفسیر متن پر اضافہ ہے نہ کہ متکلم کے مدعا کا بیان۔ ہم کہتے ہیں کہ مدعی کے دعوے میں پیوست یہ مفروضہ ہی غیر ثابت شدہ ہے کہ متکلم کا مدعا صرف اسی قدر ہوتا ہے جس کے فہم میں مخاطبین کے مابین ذرہ برابر اختلاف سے کسی پر ابدی طور پر جھنمی ہونے کا حکم جاری ہوسکے کہ مخاطب نے اس بات کی نسبت متکلم کی جانب کرکے گویا اس کی تکذیب کردی ہے۔ یاد رہے کہ کفر ایک حکم شرعی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ایک شخص نے شارع کی تکذیب کردی ہے اور اس لئے وہ عند اللہ ابدی عقاب کا مستحق ہے۔ تو پہلے مدعی اپنے اس مفروضے کی صحت کی عقلی، لسانیاتی و شرعی دلیل دے کہ کلام میں مخاطب کی جہت سے مفہوم ہونے والا ایک کے سوا ہر اختلاف متکلم کی تکذیب کے ہم معنی ہے۔ محض دعوی کردینا دلیل نہیں ہوتا۔ چنانچہ تفسیر متکلم کے متن ہی کا بیان ہوتا ہے لیکن ہر ہر بیان کے انکار پر ابدی عقاب کا حکم جاری نہ ہوسکنا اس بات کے ہم معنی نہیں کہ وہ بیان متکلم کے مدعا سے خارج اور اس کی تکذیب ہے۔
مخاطب کی جہت سے تفسیر کے خلاف ایک اشکال یوں وارد کیا جاتا ہے کہ دو مخاطبین (مثلاً مفسرین) کے مابین متن کا مدعا سمجھنے میں اختلاف ہونا گویا ان کا متکلم کے مدعا سے اختلاف کرنے کے ہم معنی ہے اور متکلم سے اختلاف جائز نہیں۔ یہ بھی خلط مبحث ہے کیونکہ نفس مسئلہ یوں ہے کہ یا:
الف) یہ دونوں ہی بیانات قطعی طور پر متکلم کی مراد نہ ہوں گے
ب) یا صرف ایک قطعی طور پر مراد ہوگا اور دوسرا قطعی طور پر مراد نہ ہوگا
ج) یا دونوں ہی مراد ہونے کا کچھ نہ کچھ احتمال ہوگا اور خود متن میں اس کے قرائن و گنجائش موجود ہوگی اور کسی کے بارے میں قطعیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ متکلم کے نزدیک دوسرے کی بات مراد ہونا محال ہے
صرف پہلی صورت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں نے متکلم کی مراد کو نہیں پایا اور اسکی تکذیب کی جبکہ دوسری میں صرف ایک کا بیان یا تفسیر متکلم سے اختلاف ہے اور دوسرے کی تفسیر متکلم کی بات کے مطابق ہے۔ تیسری صورت میں کسی بھی مخاطب کا بیان و تفسیر متکلم سے اختلاف نہیں کہلاتا بلکہ خود متکلم کے کلام میں ان کے نظائر و گنجائش ہوتے ہوئے انہیں متکلم کی تکذیب کہنا متکلم پر افترا باندھنا ہے (یعنی متکلم کی جانب سے فراہم کردہ کسی قطعی دلیل کے بغیر ہی مدعی اس کے سر یہ مدعا باندھ رہا ہے کہ اس نے قطعی طور پر دونوں یا کوئی ایک مراد نہیں لیا)۔ تفسیر کے خلاف اغلاط جمع کرنے والوں نے یہ فرض کررکھا ہے کہ تفسیر میں صرف پہلی ہی صورت ہوتی ہے۔ یہ تحکم پر مبنی نرا دعوی ہے جس کی کوئی عقلی و نقلی دلیل آج تک پیش نہیں کی گئی اور نہ ہی لسانیاتی ابحاث سے اسے ثابت کیا گیا ہے اور نہ ہی قرآنی نصوص پر اسے لاگو کرکے دکھایا گیا ہے۔
کمنت کیجے