محمد علی
’لفظ‘ خیال کی ایک مادی صورت ہوتا ہے ۔ زمان ومکان کی قید سے ماورا ،لفظ کے پیکر میں خیال صدیوں تک سفر کرتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ’لفظ‘ ایک فرد کو اپنے معاشرے اور زمانے کے افراد سےہم آہنگ اور مربوط ہونےمیں مدد دیتا ہے بلکہ صدیوں بعد پیدا ہونے والے افراد کو بھی اس کے ساتھ منسلک ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ جب ایک شخص الفاظ کی تشکیل اور ان میں پنہاں معانی اور انسانی معاشرے، نفسیات اورتاریخ کے ساتھ ان کے تعلق کے بارے میں غور کرتا ہے تو اس تعلق سے بعض دفعہ اہم علمی نکات کا انکشاف اسے ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار کردیتا ہے۔ مثلاروایت و جدیدیت سے جڑے ہوئے مسائل پر غور کرتے ہوئے اگر لفظ ’نظام ‘ پر غور کیا جائےتو اندازہ ہوگا کہ کائنات اور انسان کی طبیعاتی اور تنظیمی تفہیم کے لئے یہ بہت کار آمدلفظ ہے۔ اس لفظ کا اطلاق کائنات میں موجود ہر چھوٹی بڑی چیز کے وجود کو قائم رکھنے والےایک خاص قسم کے آرڈرپر ہوتا ہے۔ پھر چاہے یہ آرڈر اشیا ء میں قدرتی طور پر وجود میں آیا ہو یا انسان نے اپنی صواب دید کے مطابق اسے پروان چڑھایا ہو۔ کسی شئے کے اپنے آرڈر پر ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی منظم حالت میں موجود ہے، بصورت دیگر اس کا نظام درہم برہم ہو جا ئے گا۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کائنات اپنی پیدائش کے بعد سے مسلسل کامپلیکس ہوتی جا رہی ہےلیکن یہ کامپلیکسٹی ایک خاص نظام کی پابند ہے جو اس کے وجود کا ضامن بھی ہے۔اس حوالےسے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگرچہ کائنات ایک کامپلیکس شئے ہے لیکن اس میں موجود قدرتی اور انسانی نظام سے صحیح واقفیت کی بنا پر اہل علم آئندہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات جو در حقیقت نتائج ہوتے ہیں، کی پیشین گوئی بھی کر سکتے ہیں۔
کائنات قدرت کےقطعی طبیعاتی نظام کی پابند ہوتی ہے اور اس میں بسنے والے انسان بھی۔ قدرت کے طبیعاتی نظام کے علاوہ انسان ایک دوسرے نظام کا بھی پابند ہوتا ہے جو خود اس کا ہی ایجاد کردہ ہے۔اس کی تشکیل انسان کی معاشرتی ضرورتوں، جیسے سیاست، معیشت وغیرہ کے تحت عمل میں لائی گئی۔ انسان کا بنایا ہو ا یہ نظام چونکہ مصنوعی ہے اور زمان و مکان سے متاثر ہوتا ہے اس لئے زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ اس میں بھی تغیر پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ ایک اور چیز جو سب سے زیادہ اس نظام کو متاثر کرتی ہے وہ کائنات کے متعلق انسان کا علم وفہم ہے، جسے ہم ’ورلڈویو‘کہتے ہیں۔ اس چیز کو آج بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے انسان کی تقریبا ً دو سے تین ہزار سال کی تاریخ موجود ہے۔ اسے مورخین تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: عہد قدیم، عہد وسطی اور عہد جدید۔ مجموعی طور پر ان ادوار میں موجود انسان کا علم کائنات کے متعلق ایک جیسا نہیں تھا بلکہ تدریجا ًپروان چڑھتا رہا ، جو اس تقسیم کی ایک وجہ بھی ہے۔ اس پورے دور میں جیسے جیسے انسان کے علم میں وسعت آئی اس کابنایا ہوا نظام تبدیلی (اور بعض لوگوں کے لئے ارتقا) کے عمل سے گزرتا رہا ۔سولہویں صدی کے بعد سائنسی انقلابات کی وجہ سے ’ارتقا‘ کا یہ عمل پہلے ادوار کے مقابلے میں نہایت تیز ثابت ہوا۔ عہد قدیم اور عہد وسطی میں جو چیزیں ما بعد الطبیعاتی سمجھی جاتی تھیں، سائنسی ایجادات نے انہیں طبیعات کی خانےمیں ڈال دیا۔ ناممکن چیزیں ممکنات کے زمرے میں شمار کی جانے لگیں۔یہ انقلابات انسان کے معاشرتی و کائناتی فلسفے اور تخیلات پر سیدھے طور پر اثر انداز ہوئے اور مسلسل اس پر ضربیں مار رہے ہیں۔عہد قدیم اور عہد وسطی کے روایتی نظام کو عہد جدید میں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، بعض معاشروں نے اس میں نمایاں تبدیلی کو تسلیم کر لیا، جبکہ بعض تاہم پس و پیش میں مبتلا ہیں۔
انسانی تاریخ کے جس عہد میں مسلمانوں نے آنکھیں کھولیں وہ عہد وسطی کہلاتا ہے۔ جس معاشرتی نظام کے وہ پابند تھے وہ قدیم معاشرتی نظام تھا اور اسی کی روشنی میں انہوں نے اپنے مذہب کی تفہیم کی۔ پروفیسرابراہیم موسی، جو اسلامیات کے ایک نامور اسکالر ہیں، کہتے ہیں کہ انسان اور مذہب کے درمیان معاشرت کا ایک باریک پردہ پڑا ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ مذہب کو دیکھتا ہے۔مشہور پاکستانی اسلامی مفکر ڈاکٹر فضل الرحمن اورعلامہ اقبال کا بھی یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کو یونانی فلسفے کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت مسلمان تخت نشین ہوئےان کے سامنےدنیا کے تین بڑے براعظم باہم سیاسی، تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کر چکے تھے۔ ان تعلقات نے مسلمان اور دیگر انسانوں کے درمیان علمی اور نظریاتی سطح پر تبادلہ خیال کو ممکن بنا دیا تھا۔ مزید برآں مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات نے انہیں قدیم ایرانی، مصری ، رومی اور ہندستانی تہذیب کا وارث بنا دیا تھا۔ مسلمانوں نے قرآن اور اپنے زمانے کی جدید تحقیقات کی بنیاد پر قدیم علوم کی اصلاح کی اور انہیں ترقی دی لیکن یہ تبدیلی اتنی اہم نہ تھی جو بنے بنائے کائناتی تصورات کو، جسے مفکرین ارسطاطالیسی تصور کائنات کہتے ہیں، متزلزل کر سکے۔ مجموعی طور پر کائنات کی تفہیم کے حوالے سے ان کی اپروچ وہی تھی جو ان سے پہلے کے انسانوں کی تھی اور ان کا معاشرتی نظام قدیم معاشروں سے بہت الگ نہیں تھا۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنے مذہبی اور معاشرتی نظام کو ارسطاطالیسی نظام کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا تھا۔
مذہب اور معاشرے کو جدید علمی دریافتوں اور اس سے وجود پانے والے کائناتی تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جو قومیں اور معاشرے ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ان کے افراد یا تو دوہرے رویے اور نظریات کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں، یا کسی ایک طرف فرار کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کے نہایت منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اور اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ مسلمان اس زمانے میں ترقی کر پائے کیوں کہ انہوں نے موجودہ کائناتی تصوراوراپنے معاشرتی اور مذہبی تصورمیں علمی بنیادوں پر ہم آہنگی کی راہیں تلاش کر لی تھیں۔ ان کے کائناتی،مذہبی اور معاشرتی نظریات ایک عرصہ تک باہم منسلک رہے، علما اپنے علم کے ذریعے اس رابطے کو مزید تقویت دتے رہےا ور عوام وقت گزرنے کے ساتھ اس کے عادی ہوگئے۔ مغرب میں جدید سائنسی ترقیات اور فلسفے نے ان روایتی نظریات کی بنیادوں کو پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہی کمزور کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور جس وقت مسلمان یورپی استعمار کے آگے ذلیل و رسوا ہو رہے تھے، مغرب کے جدید فلسفے اور سائنس نے ارسطاطالیسی نظریہ کائنات کے متوازی ایک دوسرا مضبوط نظریئہ کائنات کھڑا کر دیا تھا۔ یہ نیا نظام نئی علمی دریافتوں اور خاص طور پر تجربات کی بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کے معماروں میں ڈیکارٹ، نیوٹن اور ڈارون جیسے افراد شامل تھے ۔ یہ نظام اتنا با اثر تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ارسطاطالیسی نظام ایک قصہ پارینہ بن گیا۔ اور پھر اس نئے نظام کے بطن سے جو نئی دنیا وجود میں آئی وہ ہمارے سامنے ہے۔ نئے سائنسی انقلابات اور فلسفے نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ ان نئے تجربات کی روشنی میں ہم نہ چاہ کر بھی متعدد تصورات جیسے انسان، خاندان، معاشرہ، خدا، مذہب وغیرہ کی نئی تفہیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ سب پچھلے پانچ سو برسوں سے جاری تبدیلی کے عمل کا نتیجہ ہے۔
مسلمان اس جدید انقلاب سے پہلی بار انیسویں صدی میں آشنا ہوئےجب محمد علی پاشا نے مصری طالب علموں کے وفود فرانس اور دوسرے مغربی ممالک میں تعلیم کی غرض سے بھیجے۔ سر سید جیسے مفکرین کا خیال تھا کہ جدید تعلیم ہی مسلمانوں کے مستقبل اور دنیاوی فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ حالانکہ علما اور روایتی فکر کے حاملین نے جدید تعلیم کو مغربیت اور مغرب کی غلامی سے تعبیر کیا اور اسے رد کر دیا۔ اس کشمکش کی وجہ سے جدید و قدیم، اسلام و مغرب، دینی و دنیاوی کے عنوانات سے تفریقی رجحانات پیدا ہوئے۔ مسلمانوں کی بد قسمتی یہ رہی کہ علما اور روایت کے حامل طبقے نے جدید علوم اور اس کی پیچیدگیوں کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، ان کے خیال میں یہ بات تھی کہ ہمارے قدیم و روایتی علوم مقدس، کافی اور افضل ہیں ، نیز ان کی موجودگی میں ہمیں کسی دوسرے علمی نظام کی ضرورت نہیں ۔مسلمانوں میں بشمول علما بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گےجو رات دن مغربی فلسفے اور کائناتی تصور پر تنقید کرنے میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ جن نظریات پر وہ تنقید کرتے ہیں انہوں نے ان کا صحیح فہم حاصل کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ۔ کتنے ہی ایسے روایتی علما ہیں جنہوں نے تقریبا ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں نظریہ ارتقاء کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہو اور پھر اس پر تنقید کی ہو؟
چونکہ مسلم ممالک میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کے ذمہ دار علماء ہی تھے لہذا جب استعمار اور اس کے بعد کے ادوار میں مسلم ممالک میں مغربی تعلیمی نظریات پھیلنا شروع ہوئے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء اس کی خرابیوں کو دور کرکے اچھی چیزوں کو اپنا لیتےیا پھر اس کے متوازی کوئی دوسرا نظام قائم کرتے جو دین کے زیادہ قریب ہوتا یا پھراس جدید نظام کے مقابلے میں قدیم تعلیمی نظام کی افادیت کو ہی ثابت کرتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں علماء ان میں سے کسی ایک بھی کام کو انجام دینے میں ناکام رہے؟ اس کی بہت سی سیاسی و نفسیاتی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے اس عمل نے پوری ملت اسلامیہ کو برسوں تک بے چینی اور تشکیک کی نفسیات میں مبتلا رکھا۔جدید تعلیم کے حصول کے بغیر وہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں پچھڑنے لگے، اور جنہوں نے کسی طرح جدید تعلیم حاصل کر بھی لی تو وہ مسلمانوں کے قدیم اور مغرب کے جدید تصور کائنات کے بیچ الجھ کر رہ گئے۔ جیسا کہ واضح ہے جدید فلسفہ اور سائنس ایک خاص کائناتی تصور کی حامل ہے جو مسلمانوں کے قدیم تصور کائنات کی ضد ہے۔ ظاہر ہے اجتماع ضدین کیوں کر ممکن ہے۔ یعنی ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام کے روایتی اور جدید سائنسی و فلسفیانہ تصور کائنات دونوں کو ایک ساتھ مان لےجب تک علمی بنیادوں پر ان میں ایک طرح کی ہم آہنگی پیدا نہ ہو جائے۔ یہ کہنا کہ مذہب اور سائنس دو الگ الگ چیزیں ہیں انہیں ملا کر نہیں دیکھنا چاہئے اس وجہ سے غلط ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم بغیر کسی ایک کے اس دنیا میں زندگی نہیں گزار سکتے اور دو مضبوط متضاد نظریات ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ اسے یا تو سائنس کے نظریہ کو رد کرنا ہوگا یا پھر قدیم اور روایتی مسلم نظریے کو، بصورت دیگر نہ تو وہ اچھا مسلمان بن سکتا ہے اور نہ ہی اچھا سائنسداں۔اس طرح کے تضادات کی وجہ سے بعض لوگ سائنس کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں، اور جو لوگ سائنس و فلسفے کی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں وہ مسلمانوں کے روایتی فلسفے اور علماء پر تنقیدیں شروع کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک مسلمان اس کا حل نہیں تلاش کرتے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن مسلمانوں کے پاس موجود نہیں۔
کمنت کیجے