Home » مدرسہ ڈسکورسز ۔ چند جھلکیاں
مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز ۔ چند جھلکیاں

All-focus

 

مولانا نوشاد نوری قاسمی

اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ علم ایک نہ بجھنے والی پیاس کا نام ہے، یہ وہ تشنگی ہے جو علم وفضل کے دریائے ناپیدا کنار کو پی جانے کے بعد بھی ، اسی شدت کے ساتھ باقی رہتی ہے، اپنی علمی حالت کی اصلاح اور مجہول کی تلاش ہی انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے ، جو اسے دنیا کی تمام تر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے ۔ علم وفن کی چند کلیوں پر قناعت کرنا کسی بھی دور میں اہل کمال کا شیوہ نہیں رہا ہے، بلکہ  “علاج تنگی· داماں” کی نئی نئی شکلوں کی دریافت ہی اس بزم کے دیوانوں کا دائمی شعار رہا ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز پر گفتگو کرتے وقت میرا ذہن اس طرف اس لیے جارہا ہے کہ “ مدرسہ ڈسکورسز” کے ساتھ، چند ایسے خیالات کچھ لوگوں نے وابستہ کردیے ہیں جنہیں “اندیشہ ہائے دور دراز” کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور ان خیالات کے لیے جو دلائل فراہم کیے گئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر بدگمانیوں پر قائم ہیں۔ کبھی مدارس کے نصاب کی جامعیت کا حوالہ دیاگیا ، کبھی ان کی تاریخ اور ان کے افکارونظریات کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ؛ لیکن ان سب کے پےچھے ایک قسم کی بدگمانی اور تعلیم واصلاح کے ہرنئے نظام کی مخالفت کا مزاج کارفرماتھا۔

مدرسہ ڈسکورسز کا میں نے پہلی بار نام اپنے رفیق محترم جناب مفتی محمد امانت علی قاسمی صاحب استاذ ومفتی دار العلوم وقف دیوبند سے سنا۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد جناب ڈاکٹر مولانا وارث مظہری صاحب، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد دہلی کی دیوبند آمد ہوئی۔ ان کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد کے متعدد اساتذہ بھی تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی، اور مدرسہ ڈسکورسز کے اغراض ومقاصد اور اس کا حصہ بننے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں کے معیار کا علم ہوا۔ اس بات سے بھی کافی اطمینان ہوا کہ جناب ڈاکٹر صاحب ہی ہندوستان میں اس کے نگراں ہیں ؛ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیقی ، تخلیقی اور علمی شناخت کی وجہ سے ہندوبیرون ہند کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ مجھے اس کاروان علم کا حصہ بننے کا موقع ملااور اس تعلیمی نظام کے آغاز کے موقع پر  جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں ایک پروگرام کا انعقاد کا عمل میں آیا، جس میں بذات خود جناب ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب نے بڑی وضاحت سے علم وتحقیق کی ضرورت اور فکری مسائل میں ہماری کم مائیگی کا احساس دلایا اور بڑے ہی درد مند لہجے میں یہ یقین دہانی کرائی کہ یہ تعلیمی نظام کوئی نئی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ ہمارے اپنے اکابرین اور سلف کے تحقیقی مزاج کی تلاش اور ان کے منہج کے احیاءکی کوشش ہے۔ اس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض ہندوستان کے فکر مند علماءانہےں ایسا کچھ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے، اور ان کی کوشش سے یہ “علمی مشروع” نوٹریڈیم یونیورسٹی، امریکہ میں منظورہوسکا۔

اس موقع پر فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا پرمغز خطاب ہوا جس میں علم وفن کے ہر مثبت اقدام کی تعریف کی گئی اور حالات کے تناظر میں بدلتے رجحانات اور ان کے لیے مناسب اور ضروری تیاری کی اہمیت پر زور دیا گیا۔اسی زمانے میں ایک تحریر سامنے آئی اور مدارس کے حلقے میں ایک سنسنی پھیل گئی۔ پھرکیاتھا، ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیااور اس میدان میں وہ لوگ بھی کود پڑے جن کو نہ اس نظام کا پتہ تھااور نہ ہی اس کے طریقہ تعلیم کا، نہ اس کے نصاب کا اور نہ ہی مثبت اندازمیں بحث ومباحثے کا۔ ہرچند کہ اس ہنگامے سے طائر شوق کی بلندپروازی میں اضافہ ہی ہوا اور جلد سے جلد اس علمی سفر کے آغاز کی آرزو مچلنے لگی،لیکن ادارہ کی مصلحت کی وجہ سے گومگوکی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس موقع پر مدرسہ ڈسکورسز اور اس سے وابستہ تمام افراد کو جناب ڈاکٹر مولانامحمد شکیب قاسمی صاحب ڈائریکٹر حجة الاسلام اکیڈمی واستاذ دار العلوم وقف دیوبندکا مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے مدرسہ ڈسکورسزکی مخالفت کے دھارے کو اپنی معروضی اورمنطقی تحریر سے موڑدیااور مخالفین کوہنگامہ اور سنسنی پھیلانے کی روش سے باز آنے کی نصیحت کی ۔

رفتہ رفتہ وہ دن بھی آیا جس کا انتظار رہتا تھا۔ ۴ ستمبر بروز بدھ ۲٠۱۹ء کی شام کو، آن لائن زوم ایپ کے ذریعہ اس درس کاآغاز ہوا جس میں ابن کثیر کی کتاب البدایة والنہایة کی آٹھویں جلد سے دلائل النبوةسے متعلق تقریبا بیس صفحات ریڈنگ کے لیے طے کیے گئے تھے۔ اسی طرح انگریزی میں بھی ایک ریڈنگ تھی جس کا موضوع مذہبی تعلیمات اور مغرب میں اسلامک اسٹڈیز کا منہج تھا۔ پہلے دونوں تحریر کا خلاصہ کیا گیا۔ انگریزی تحریر کا خلاصہ جناب ڈاکٹر شیر علی تارین صاحب نے اور اردو جناب مولانا عمار خان ناصر اورجناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحبان نے کیا اور پھر اس موضوع کے تعلق سے بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کورس میں سارے لوگ نہ صرف فضلاءمدارس ہیں، بلکہ فضلاءمدارس میں سے بھی ایسے ہیں جو کسی مدرسہ میں تدریس وغیرہ کی ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں ؛ اس لیے تخصصات کے تنوع نے بحث ومناقشہ کا جو دروازہ کھولا تو ایک علمی تفریح اورصحت مند افادہ واستفادہ کا بالکل ایک نیا سرا ہاتھ آیا۔ افکار ونظریات کے باب میں اتفاق اور اختلاف کی پوری گنجائش رکھی گئی اور کوئی بھی ایسا نظریہ شامل نصاب نہیں کیا گیا جو امت مسلمہ کے یہاں قطعی طور پر مسترد ہو۔ یہ علمی قافلہ ۴ ستمبر سے لے کر ۱۲نومبر تک مسلسل پا بہ رکاب رہا۔ پھر کچھ وقت کے لیے وقفہ استراحت آیا ، اورایک نصاب دیا گیا تاکہ  ۲۵ دسمبر سے ۳٠  دسمبر تک دوحہ قطر میں ہونے والی ورکشاپ میں تیاری کے ساتھ حاضری دی جائے۔اس نصاب میں بھی مسلم مفکرین کی اہم تحریریں شامل کی گئیں  جن میں علامہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کا ایک حصہ اور امام نانوتوی ؒ کی کتاب مباحثہ شاہجہاں پور شامل تھی ۔

۲۳ دسمبر ۲٠۱۹ءکو یہ قافلہ قطر کی طرف روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں تمام ہندوستانی احباب شامل تھے جن کی قیادت مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب فرمارہے تھے۔ ۲۴ تاریخ کومولانا عمار خان ناصرصاحب کی سربراہی میں پاکستانی احباب بھی شامل ہوئے اور اسی دن جناب پروفیسر ابراہیم موسی اورڈاکٹر شیر علی ترین سمیت دیگر امریکی احباب بھی شامل ہوگئے۔۲۵ دسمبر سے ورکشاپ شروع ہوا جو جامعہ حمد بن خلیفہ کے خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا اور جس خوب صورت انداز میں فکری موضوعات پر بحث و مباحثے کے مواقع فراہم کیے گئے ، ان کو قید تحریر میں لانا بھی مشکل ہے ۔مناسب ہوگاکہ موضوعات پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔

واضح رہے کہ ان مضامین کا تعلق فکر وفن کے ان گوشوں سے ہے   جو کسی بھی حیثیت سے عصر حاضر میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ مطالعاتی مواد  کا ایک اجمالی خاکہ پیش ہے: (۱) الاعلام بمناقب الاسلام لابی الحسن العامری (۲) مباحثہ شاہ جہاں پور از حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ  (۳) المنتخب من الامتاع والموانسة لابی حیان التوحیدی (۴) المنتخب من مشکاة الانوار للامام محمد الغزالی (۵) المنتخب من اقتضاء الصراط المستقیم للعلامۃ ابن تیمیۃ۔

اس کے ساتھ اہم موضوعات پر چار محاضرات بھی ہوئے ۔ علامہ محی الدین قرہ داغی(قطر) نے ”الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“ کے عنوان پر، ڈاکٹر ادریس آزاد (پاکستان) ڈاکٹر رنا دجانی(اردن)نے نے نظریہ ارتقاء پر اور   ڈاکٹر سہیرہ صدیقی (قطر)  نے اسلامی علمیات پر اپنے محاضرات پیش کیے۔

بلاشبہ یہ موضوعات جویائے علم و فن کے لیے  عقل ونظر کی تسکین کااہم ترین ذریعہ ثابت ہوئے۔ ہرموضوع پر ایک مختصر بیانیہ کے بعد بحث ومناقشہ کا دروازہ کھلتا۔ہر شخص کی چونکہ ان موضوعات پر مکمل تیاری ہوتی تھی، اس لیے مناقشہ کے لیے وقت کم ہورہا تھا۔ شرکاءکے اختصاصات کے تنوع اور نقطہ ہائے نظر کے اختلاف نے  ہرموضوع میں اتنے علمی ومعنوی اضافے کیے کہ محسوس ہوتا، معلومات کا کوئی چشمہ ہے جو پھوٹ پڑا ہے۔ متعلقہ موضوعات کے نئے نئے زاویے کھل کرسامنے آئے ۔ شرکاءکی مداخلات کے بعد ، جناب مولانا عمار خان ناصر، جناب ڈاکٹر وارث مظہری اور جناب ڈاکٹر شیر علی ترین صاحبان کے تحلیل وتجزیہ کا علمی وانوکھا اندازاور بات سے بات نکالنے کا انتہائی خوب صورت جوہر، تمام شرکاءکے دلوں پر ان حضرات کے علم وفضل کا ایک نقش قائم کرگیا۔

جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کے بعض تنقیدی مضامین سے بہت سے لوگ نالاں ہیں۔ ہمیں کسی کے نظریات سے اتفاق اور اختلاف کا پورا حق ہے ، لیکن ضروری ہے کہ یہ اختلاف علمی دائرے اور صحیح علمی دلائل پر قائم ہوں ۔ اختلاف کے منہج اور اصول کی رعایت طرفین کے حق میں یکساں مفید ہوتی ہے ۔ اختلاف کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے اور اس کا علمی اور سنجیدہ چہرہ سامنے آتاہے ، جبکہ دوسرے فریق کویہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی پر سکون ماحول میں اپنی آراءپر غور وخوض اور نظرثانی کرتا ہے اور غلطی سامنے آجانے پر رجوع بھی کرلیتا ہے۔  اس پوری مدت میں ، جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب نے ایک بھی ایسی بات نہیں کہی جو جمہور کی رائے کے خلاف ہو، بلکہ مدارس اور اہل مدارس کے بارے میں یہ کہتے ہوئے الوداعی مجلس میں آب دیدہ ہوگئے کہ ہماری قوم نے علم وفن کے جو مراکز قائم کیے ، وہ سب ختم ہوگئے ۔ یہی ایک علمی مرکز باقی ہے جس کی خدمات کا پورا عالم قائل ہے  اور اس کی بقا وتحفظ کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

بات شاید طویل ہورہی ہے ، لیکن یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس پوری مدت میں علمی وروحانی غذا کے ساتھ، جسمانی غذا کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔ رہائش کے لیے آ رام دہ ہوٹل کا انتخاب کیا گیا، قطر کے تاریخی مقامات کی سیرکی گئی  جن میں اسلامک میوزیم، قطر کی نیشنل لائبریری اورسوق واقف اور متعدد تفریحی اور سیاحتی مقامات شامل ہیں۔ بیشتر احباب سے کوئی خاص تعارف نہیں تھا، اس سفر میں بیشتر احباب سے تعارف اور علمی افادہ واستفادہ کی راہ ہموار ہوئی ۔

پروگرام کے روح ورواں جناب پروفیسر ابراہیم موسی صاحب نے  اس پروگرام کو نفع بخش اور دلچسپ بنانے کے لیے بے حد کوششیں کیں  جس کے لیے وہ تمام شرکاءکی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ اس پروگرام میں جناب ابراہیم موسی صاحب کے علمی کمالات کا بھی خوب اظہار ہوا۔ امام الحرمین جوینی، امام غزالی ، امام رازی اور علامہ ابن تیمیہ کے فکر وفلسفہ اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اسباب ، نیز علم کلام اور اس کے جدید موضوعات جیسے انتہائی اہم فکری موضوعات پر  ان کی گفتگو انتہائی چشم کشا ثابت ہوئی جس کا مجھے ذاتی طور پر کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اور جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کی علمی قابلیت اور فکری موضوعات میں ان کے تعمق کا علم پہلے سے تھا، جو اس پروگرام میں بہت ہی نکھرکر واضح شکل میں سامنے آیا۔اس پروگرام سے بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ سب کا تفصیلی تذکرہ تو کسی اور موقع پر کیا جائے گا، لیکن بعض کا انتہائی اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے :

۱۔ مغربی مفکرین کی تحریروں کو پڑھنے اور ان کے نظریات کو براہ راست جاننے کا پہلی بار موقع ملا۔

۲۔ صحت مند علمی مناقشہ کا ایک بہترین نمونہ سامنے آیا۔

۳۔ عبارات کی تحلیل اور تجزیہ کا انتہائی خوب صورت اور دلچسب منہج سامنے آیا۔

۴۔ علمی مناقشوں سے بہت سے نئے علمی زاویے کھل کر سامنے آئے۔

۵۔ بہت سے جدید موضوعات پر   اکابرین کی تحریریں پیش کی گئیں  جو منتظمین کی وسعت فکر ونظر کی غماز ہیں۔نیز ان سے سلف کے علمی تراث سے شرکاءکی عقیدت ومحبت میں اضافہ ہوا۔بلاشبہ یہ خوب صورت علمی تجربہ رہا۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے اور ہمارے علم وفضل میں اضافہ فرمائے ، آمین۔

مفتی نوشاد عالم

مفتی نوشاد عالم قاسمی، دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں اور دار العلوم وقف دیوبند میں علوم دینیہ کے استاذ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
naushadnoori1985@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں