Home » عقل اور مذہب کی بحث (۱)
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات کلام

عقل اور مذہب کی بحث (۱)

 

محمد عمار خان ناصر

عقل اور  مذہب کے باہمی تعلق یا  موافقت ومخالفت  کی بحث میں  سب سے پہلا نکتہ جس کی تنقیح ضروری ہے، وہ  یہ ہے کہ عقل سے  مراد کیا ہے  اور کس مفہوم میں    مذہب کے ساتھ  اس کے موافقانہ یا مخاصمانہ تعلق کا سوال پیدا ہوتا یا زیر بحث  آتا ہے۔     اسی سے یہ بات سمجھنا بھی آسان ہوگا کہ  مذہب اور مذہبی عقائد کے عقلی یا غیر عقلی ہونے  کا کیا مطلب ہے یا مختلف  لوگ اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔

عام بول چال میں ہم عقل کا لفظ حیاتیاتی مفہوم میں  ذہنی صحت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے مطابق ہر  انسان جو  خود اپنے اور اپنے ارد گرد موجود  لوگوں اور چیزوں  کے ساتھ تفہیم اور  برتاو کا ایسا تعلق قائم کر سکے جو  عام طور پر انسان کرتے ہیں،  عاقل کہلاتا ہے اور  اس بنیاد پر سماجی واخلاقی ذمہ داریوں کا مکلف مانا جاتا ہے۔  جو انسان اس قابل نہیں ہوتا، اسے  پاگل یا فاتر العقل قرار دیا جاتا ہے۔  عقل کی یہ  تعریف  انفرادی سطح  سے تعلق رکھتی ہے،  کسی فرد کی عملی ذمہ داری کے تناظر میں ہوتی ہے اور  قانون واخلاق سے متعلق سوالات میں  کام آتی ہے۔ ظاہر ہے، اس مفہوم میں مذہب یا عقل کے  باہمی تعلق کا سوال    پیدا نہیں ہوتا۔

عقل کا ایک دوسرا مفہوم فلسفیانہ مباحث  کے دائرے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں عقل سے مراد  فکر واستدلال کے قوانین کے تحت حکم لگانے کی صلاحیت  ہوتی ہے جس کی مدد سے انسانی شعور اپنی فعلیت یعنی  اپنے کام کرنے کے   انداز کا      جائزہ لے کر  فکر واستدلال کے قوانین  بھی متعین کر سکتا ہے  اور ان قوانین کی مدد سے اپنے  معروضات مثلا بدیہیات فکر، جذبات واحساسات،  اخلاقی داعیات، اور  حسی ذرائع سے  ملنے والے مشاہدات وتجربات پر کوئی حکم بھی لگا سکتا ہے اور اسی طرح معلوم چیزوں کی مدد سے غیر معلوم    چیزوں کے متعلق قیاسات  کر سکتا ہے۔  مذہب اور عقل کے باہمی تعلق  کی تفہیم کا سوال   بنیادی طور  پر  اس سطح پر بھی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اس صلاحیت یا  طرز فکر میں  تمام انسان اور سارے انسانی معاشرے مشترک ہیں اور  انسانی تاریخ میں مذہبی اعتقاد  کی معنویت بھی  انسانی شعور کے  داعیات اور  انسانی تجربے  کے تناظر میں ہی واضح کی جاتی رہی ہے۔

البتہ عقل کا ایک تیسرا مفہوم  ہے جو   انسانی تاریخ میں تہذیبی فکر  کے متخالف ارتقاء سے  جدید دور میں   سامنے آیا ہے  اور   یہاں عقل    کا مفہوم متفق علیہ اور مشترک نہیں رہتا۔  اس اختلاف کا تعلق وجود کے تصور  اور وجود کے بارے میں   کوئی حکم لگانے یا کسی حکم کو قبول کرنے کے  جائز معیارات سے ہے۔ اسلامی علمیات میں  وجود، عالم شہود اور عالم غیب دونوں کو   محیط ہے اور دونوں کا علم یا کم سے کم ان کے متعلق ایک تصور قائم کرنا،  مختلف نوعیت کے ذرائع علم سے  ممکن ہے۔   اس تصور  وجود کے لحاظ سے  اگر کوئی  حکم یا قضیہ انسانی شعور   کے مطالبات ومقتضیات سے ہم آہنگ ہے، یعنی شعور اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور فکر واستدلال کے قوانین اس کی نفی نہیں کرتے، بلکہ اس کی تائید کرتے ہیں  تو اسے قبول کرنا  عقلی ہے، چاہے اس کا تعلق  عالم غیب سے ہو۔  اس کے مقابلے میں جدید مغربی فکر میں تدریجا جس تصور وجود کو تدریجا قبول  کر لیا گیا ہے، اس میں عالم غیب  ایک موہوم یا انسانی تفکر کے لیے ایک غیر متعلق چیز ہے اور اس کے حوالے سے  وجود کے کسی بھی پہلو کی تفہیم، ظاہر ہے غیر عقلی قرار پاتی ہے  ۔  اس مفہوم کے لحاظ سے   مذہب اور عقل کے  مابین ایک حقیقی اختلاف  پایا جاتا ہے اور  دراصل یہی  دائرہ گفتگو یا مناقشے کا اصل دائرہ ہے۔ مذہبی عقائد وتعلیمات، مذہبی رسوم اور مذہبی  اخلاقیات وقوانین سےمتعلق تمام اختلافات  اسی بنیادی اختلاف کی فرع ہیں۔

عقل کے  حوالے سے اصطلاح کا ایک اور اختلاف  خود اسلامی علمیات کے  تناظر میں عقیدہ وایمان پر گفتگو کرنے والوں کے مابین بھی دکھائی دیتا ہے۔  اسلامی روایت  میں  مذہبی عقائد یعنی وجود باری، توحید، رسالت اور  بعث بعد الموت کو  عقلی مانا جاتا ہے اور عقلی دلائل سے ان کے ’’اثبات’’  کی سعی کی جاتی ہے، تاہم اس ساری سعی وکاوش کا   مقصد  یہ بتانا نہیں ہوتا کہ  اہل ایمان نے ان دلائل کی وجہ سے  یا ان کا قائل ہونے کے بعد  ان عقائد کو قبول کیا ہے یا یہ کہ اگر  نبی کے ذریعے سے  انسانوں کو یہ خبر نہ دی جاتی تو بھی وہ محض عقلی استدلال کے زور پر  ان  تک پہنچ سکتے تھے۔    اس صورت حال  کو بعض اہل فکر یوں  تعبیر کرتے ہیں کہ ایمان یا عقیدہ ایک غیر عقلی چیز ہے، جس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے انسانی عقل نے ازخود اور اپنے بل بوتے پر  دریافت نہیں کیا اور نہ کر سکتی ہے۔     اسی طرز فکر کے تسلسل میں  بعض اہل فکر ’’علم’’   کا اطلاق ان    چیزوں پر کرتے ہیں جو  معروف عقلی ذرائع سے انسان کی رسائی میں آئی ہوں،  جبکہ ایمانیات  مثلا   خدا اور فرشتوں وغیرہ کے تصور کو  علم کے بجائے صرف ’’خبر’’ قرار  دیتے ہیں۔

یہ  اگرچہ کافی حد تک اصطلاح کا  فرق ہے، تاہم  علم کلام کی کلاسیکی روایت کے تناظر میں  غور وفکر کرنے والے حضرات کے لیے خلجان کا باعث بنتا ہے، کیونکہ  اسلامی علمیات میں علم ایک جامع  اصطلاح ہے جس میں غیبیات بھی  شامل ہیں، چاہے ان تک رسائی کا ذریعہ  صرف نبی کی دی ہوئی خبر ہو۔ اسی طرح نبی پر اعتماد  کی نوعیت بھی  اندھے اعتقاد یا توہم کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی  بھی انسانی فطرت، انسانی عقل وشعور اور انسانی تجربے میں اپنی بنیادیں ہوتی ہیں جن کی طرف متوجہ کرنا، نبی پر ایمان کی دعوت دیتے ہوئے، خود  قرآن  مجید  کے طرز استدلال کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔   اس نکتے کی تنقیح پر مزید  بات ہو سکتی ہے کہ کیا ایمان کی دعوت دراصل  نبی کی ذات پر اعتماد   کرنے کی دعوت ہوتی ہے، جبکہ  عقل وفطرت کے شواہد کی حیثیت مویدات کی ہوتی ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے،  لیکن  سردست  اس  تفصیل میں پڑے بغیر اصطلاح  کے فرق کو سمجھ لینا ،  باہمی تفہیم کے لیے، امید ہے کہ کافی ہوگا۔

(جاری)

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں