Home » یووال نوح ہراری کی کتاب Sapiens پر ایک نظر
انگریزی کتب تاریخ / جغرافیہ مطالعہ کتب

یووال نوح ہراری کی کتاب Sapiens پر ایک نظر

 

یووال نوح ہراری اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب Sapiens کو کافی شہرت ملی حتی کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اس کتاب کو دلچسپ کہا اور اس کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔ ہراری کی یہ کتاب مطالعہ بشریات کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بنیادی طور پر نان فکشن کتابیں اور پھر اس طرح کا موضوع کافی خشک ہوتے ہیں مگر ہراری نے اس کو بہت عمدہ اور دلکش انداز میں لکھا ہے کہ پڑھنے والا بوریت محسوس نہیں کرتا.

ہراری آغاز کرتے ہیں بگ بینگ سے جو آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد زمین پر فقط مادہ اور توانائی موجود تھی۔ اس سے ایٹم بنا، ایٹم سے مالیکول اور پھر بعد اس طرح ملاپ در ملاپ سے اجسام وجود میں آئے۔ انہیں اجسام میں ایک نوع ہومو سیپین کی تھی جس نے ملکر ثقافت کو جنم دیا اور ثقافتوں کی بالیدگی سے تاریخ مرتب ہوئی۔
ہراری کہتے ہیں کہ جو نوع ایک ہی جد سے تعلق رکھتی ہو ہم اس کو ایک گروہ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تقریباً ساٹھ لاکھ سال پہلے ایک بن مانس نے دو بیٹیاں جنیں ایک تمام بن مانسوں کی ماں بنی اور دوسری ہومو سیپین یعنی کہ ہم انسانوں کی جدی مادر بنی۔
مطلب کہ ہراری نے نظریہ ارتقاء کو ہی بیان کیا ہے اور اس کو درست کہا ہے۔ نظریہ ارتقاء کے حوالے سے ہمارے ہاں انکار پایا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے نظریات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ صرف یہاں آتا ہے کہ نظریہ ارتقاء کے حامی جب خالق کائنات کا انکار کرتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے نہ ہی عقل و شعور اس کا امکان قبول کرتی ہے۔
ہراری نے بنیادی طور پر انسانی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دور کو ادراکی انقلاب یعنی کہ Cognitive Revolution کا نام دیا ہے۔
ہراری کا کہنا ہے کہ شروع کا انسان چار ٹانگوں پر چلتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ دو ٹانگوں سے بازوں کا استعمال شروع کیا۔ اس سے اس کو جہاں کچھ فائدے ہوئے تو کمر درد اور گردن میں درد جیسے امراض بھی لاحق ہوئے۔ پھر انسان کا بچہ جانوروں کے بچوں کی نسبت سے کمزور پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی ماں کا محتاج ہوتا ہے، جبکہ جانوروں کے بچے اپنی پیدائش سے چند دن بعد ہی چلنے پھرنے اور اپنی خوراک کا خود سے انتظام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں،جبکہ انسان کے بچوں کو ایسے ڈھالا جاتا ہے جیسے شیشے کے برتنوں کو ڈھالا جاتا ہے۔

ہراری کا کہنا ہے کہ پہلے والے انسان کا دماغ بھی چھوٹا تھا اور اس میں طاقت بھی بہت زیادہ تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے دماغ کا زیادہ استعمال کیا، اس سے اس کا دماغ بڑھتا گیا اور طاقت گھٹنے لگی۔ آج بھی اگر ایک انسان کا بن مانس جو کہ نوعی لحاظ سے اس کا کزن ہے سے مقابلہ ہو جائے تو بن مانس انسان کو چیڑ پھاڑ ڈالے مگر دماغی طاقت سے انسان بن مانس کا شکار کر لیتا ہے۔ دماغ کے استعمال سے انسان میں ایک اور چیز سامنے آئی وہ تھی فرضی حقائق (imagined reality) کو تسلیم کرنا، یہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا۔ خدا، وطن، قوم اور اس طرح کی بیشمار چیزیں سب فرضی حقائق کا حصہ ہیں۔ آپ ایک انسان کو اس بات پر تو قائل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنا حق چھوڑ کر دوسروں کو دے دے اس کے بدلے قیامت کے دن اس کو اجر ملے گا مگر بن مانس کو نہیں سمجھا سکتے کہ اپنے حصے سے زائد کیلا ساتھی بن مانس کو دے دو اس کا آخر میں اجر ملے گا۔ انسان کی بیشتر ترقی اس Imagination سے جڑی ہے۔تجارت فقط انسان کرتا ہے جس سے اس کی ہر بنیادی ضرورت پوری ہوتی ہے۔شراکت داری، کمپنی اور مفادات یہ سب imagined realities ہیں۔جس نے انسانوں کو جوڑا ہے۔ایسے ہی دو انجان کیھتولک عیسائی کلیسا کے تحفظ کے لیے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ ہراری کہتے ہیں کہ imagined reality کا نطریہ اتنا طاقتور ہوا کہ انسان نے مادی اشیاء کے وجود کو بھی فرضی طاقتوں کے مرہون منت مان لیا۔

ہراری یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دور کا انسان بہت ذہین تھا۔ وہ آس پاس کے ماحول کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتا تھا۔ وہ درندوں کی آواز بہت آسانی سے سن لیتا تھا۔ حتی کہ گھاس کے اندر رینگنے والے سانپ کو بھی بھانپ لیتا تھا۔ یہ چیزیں کیونکہ اس کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتی تھیں اس وجہ سے اس بابت وہ کافی حساس تھا۔

شروع کا انسان شکار کرتا تھا، پہلے وہ کچا گوشت کھاتا تھا اس کو ہضم کرنے میں اس کو کافی وقت لگتا تھا مگر جیسے ہی انسان نے آگ کو دریافت کیا خوراک کے حوالے سے اس کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ اب وہ اپنا شکار پکا کر کھاتا تھا اور اس کو وہ جلد ہضم کر لیتا تھا۔ آگ کی دریافت سے پہلے شکار پر شیر اور چیتوں کا قبضہ تھا، انسان ان کا بچا ہوا کھاتا تھا مگر آگ کے آنے کے بعد انسان  درندوں کے مقابل آ گیا۔اب شکار پر اس کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔
ہراری کہتے ہیں کہ شروع میں انسان جیسی اور بھی نوع پائی جاتی تھی جیسے کہ ننتھڈرل (Neanderthal) ہومو ایرکٹس وغیرہ مگر ہومو سیپین نے ان سب کو مٹا ڈالا۔یہ ایک دلچسپ بات ہے، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے بھی ایک گفتگو میں یہ کہا ہے کہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کا انتخاب ایک نوع سے کیا گیا تھا، دوسرا تخلیق آدم کے وقت فرشتوں نے خدشہ پیش کیا کہ انسان زمین پر فساد کرے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسی چیز ہے جس پر مزید غور وفکر کیا جا سکتا ہے اور اس پر مزید بہتر معلومات مل سکتی ہیں۔
ہراری نے ایک اور امکان کا بھی اظہار کیا کہ ممکن ہے ننتھڈرل (Neanderthal) اور ہومو سیپین کے میلاپ سے ایک نسل پیدا ہوئی ہو۔ اس کے مطابق موجودہ انسان نہ تو خالص ہومو سیپین اور نہ ہی خالص ننتھڈرل۔ مگر ہراری نے اس امکان کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی کیونکہ ممکن ہے کہ ننتھڈرل اور ہومو سیپین آپس میں ایک دوسرے کے لیے کوئی کشش ہی نہ رکھتے ہوں۔ اگر ان کا میلاپ کرا بھی دیا جائے تو نتیجے میں جو مخلوق سامنے آئے وہ خود بھی production کی صلاحیت رکھتی ہے کہ نہیں۔ اس کی مثال گدھے اور گھوڑے کی ہے، ان دونوں کے میلاپ سے پیدا ہونے والا خچر نسل جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے زیادہ قوی بات یہ ہی ہے کہ جہاں جہاں بھی ہومو سیپینز گئے ان کی مقامی نوع سے لڑائی ہوئی چاہے وہ ننتھڈرل ہوں یا ہومو ایرکٹس وغیرہ۔ ہومو سیپین نے فقط ان کو نسل کشی نہیں کی بلکہ کئی اور جانوروں کی نسل کشی بھی کی جیسے کہ Mammoth جو کہ جنگلی ہاتھیوں کی ایک نسل تھی ہومو سیپین نے اس کا شکار کر کر کے اس کی نسل کو مٹا ڈالا۔ اس کی افزائش نسل بھی کافی وقت لیتی تھی اس لیے مسلسل شکار سے Mammoth کی نسل مٹ گئی۔ ایسے ہی زمین پر موجود جانوروں کی کئی نسلوں کو انسان نے مٹا ڈالا جبکہ سمندری حیات انسانوں کے اس جبر سے نسبتاً محفوظ رہیں۔

ادارکی انقلاب کے زمانے کے ہومو سیپین آپس میں کیسے تھے؟ اس کے لیے ایک نظریہ تو یہ ہے کہ یہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے دشمن تھے جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہومو سیپین آپس میں پر امن تھے ان کے درمیان جھگڑا زرعی دور میں آیا جب زمین کی تقسیم ہوئی۔ جب انسان شکار کیا کرتا تھا تو اس کو آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ وہ ملکر طاقتور جانوروں کو مار سکے جبکہ زرعی دور میں انسان کی ایک دوسرے پر محتاجی نسبتاً کم ہوئی اس لیے ان میں دوری پیدا ہوئی۔

ادراکی انقلاب کے بعد زرعی انقلاب کا دور آتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا دوسرا دور ہے۔ ہراری کہتے ہیں کہ انسان نے 9500 سے 8500 قبل مسیح کے دوران زراعت شروع کی اور یہ بیک وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود انسانوں نے شروع کی۔ کسی جگہ انسان نے گندم اگائی، کہیں مکئی، کہیں آلو وغیرہ۔ ہراری کہتے ہیں کہ شکاری انسان زرعی دور کے انسان بنسبت زیادہ خوشحال تھا۔ شکاری انسان مختلف چیزوں کا شکار کرتا تھا اس سے اس کی خوراک میں ہر غذائی اجزاء شامل ہوتی تھیں مگر جب انسان نے زراعت کو اپنایا تو اس کی خوراک فقط ان اشیاء تک محدود رہ گئی جو وہ اگاتا تھا۔ ہراری زرعی انقلاب کو تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ کہتے ہیں کیونکہ اس نے انسان سے اس کی آسائش چھین لی۔ وہ انسان جو پہلے ہفتے میں تیس گھنٹے کام کر کے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا اب ساٹھ ساٹھ گھنٹے کام کرتا اس کے باوجود فاقوں کا خوف رہتا تھا۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ زرعی انقلاب نے انسان کو فوڈ سیکیورٹی یا غذائی تحفظ فراہم کیا ہے تو یہ غلط ہے۔بلکہ زراعت اپنانے کے بعد انسان اپنی نقل و حمل کے حوالے سے بھی مجبور ہو گیا۔ پہلے انسان بآسانی ایک علاقے سے دوسرے علاقے چلا جایا کرتا تھا مگر زراعت کے لئے اس کو زمین کی حفاظت کرنی ہوتی تھی اس لیے اس نے اپنی زمین کے پاس ہی مستقل رہائش اختیار کر لی۔ دشمنیاں بھی اس ہی دور میں شروع ہوئیں، کیونکہ پہلے اگر کوئی طاقتور قبیلہ شکار پر قبضہ کرتا تو کمزور قبیلہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے میں چلا جاتا تھا مگر اب زمین کا چھوڑنا رزق سے محروم ہونا تھا اس لیے انسان نے اس کی حفاظت کی خاطر دوسرے انسان سے دشمنی مول لی مگر اپنی جگہ نہ چھوڑی۔
زمین کی خاطر انسان ایک جگہ رہائش پذیر ہوا تو وہاں سے اس کی آبادی بھی بڑھنا شروع ہو گئی۔ حالانکہ اس دور میں نومولود بچوں کی اموات بھی بہت ہوتی تھیں مگر ان کی پیدائش کی ریشو زیادہ تھی۔انسان کی آبادی بڑھنا شروع ہوئی حالانکہ آبادی کے بڑھنے کا مطلب تھا جو فصل پہلے دس لوگوں کے لیے تھی اب وہ پندرہ لوگوں کے لیے ہے مگر اس کے باوجود انسان اپنی آبادی بڑھاتا رہا اس امید پر کہ زیادہ محنت کرنے سے وہ یہ ضروریات پوری کر لے گا۔ اس کے لیے اس کو مزید کام کرنا پڑا، مطلب انسان نے سکون کی خاطر مزید کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب جبکہ انسان نے بہت سی مشینیں بنا لی ہیں جو وقت کو بچاتی ہیں مگر انسان کو اس کے باوجود وقت کی کمی کا سامنا ہے۔ پہلے خط لکھنے اور پہنچنے میں کئی کئی ہفتے لگ جاتے تھے مگر اب ایک ای میل دنیا کے کسی کونے میں چند سیکنڈز میں پہنچ جاتی ہے مگر کیا اس کے باوجود انسان کو کہیں سکون ملا بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ مصروف ہوتا گیا۔ اس کی ایک اور مثال ہراری نے دی ہے کہ انسان محنت کر کے ڈگری حاصل کرتا ہے جب وہ اپنا کیرئیر شروع کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اب سکون سے اپنی زندگی کو انجوائے کرئے گا تو اس کو نئے گھر، بچوں کی تعلیم اور دوسری ضروریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے لیے اس کو مزید محنت کرنی پڑتی ہے۔ کچھ ایسا ہی زرعی دور کے انسان کے ساتھ ہوا۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب زرعی دور کا انسان اتنا بے سکون تھا تو وہ واپس کیوں نہیں پلٹا اور اپنے آباؤ اجداد کی طرح شکار کی طرف گامزن کیوں نہیں ہوا؟ اس کا جواب ہراری یہ دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنا بتدریج ہوا کہ انسان کو سمجھ ہی نہیں لگی کہ اس کا ماضی کیا تھا اس لیے اس کا پیچھے پلٹنا ناممکن تھا۔

زرعی دور کے بڑھنے سے انسان میں وقت اور موسم کی اہمیت کے بارے میں سوچنے کے عمل کا آغاز ہوا، کیونکہ ان کا اس کی فصل کے اوپر براہ راست اثر پڑتا تھا۔ اب وہ موسم اور وقت کا حساب کرنے لگا، کس وقت بیج بونا ہے اور جس وقت فصل تیار ہونی ہے۔ ایسے ہی موسم کے لحاظ سے کون سی فصل کام کرے گی یہ سب انسان نے اس دور میں سوچا۔
جیسے جیسے زراعت بڑھتی گئی، تو آبادیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زمین کی ملکیت کے باعث انسانوں میں تنازعات جنم لینے لگے۔ زمینوں کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت پیش آئی۔ فوج کو چلانے کے لیے کسی حکمران کی ضرورت پڑی اور حکمرانوں نے حکومت چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے۔ فوج جو زمینوں کی حفاظت کرتی تھی اس کو چلانے کے لیے کسان اپنی فصلوں میں سے کچھ حصہ بطور ٹیکس دیتے تھے۔ اندرونی تنازعات قوانین کی روشنی میں حل ہونے لگے۔ اس دور میں Imagined Realities ایک دفعہ پھر بہت مضبوطی سے اور مزید نئے حقائق کے ساتھ سامنے آئیں۔ ریاست، قوانین اور مذہب۔ اس وقت  کے مذاہب بھی زیادہ تر داستانوی تھے، چونکہ انسان کا یقین ان Imagined Realities پر قائم تھا اس لیے مذہبی داستانوں پر بآسانی انسان ایمان لے آیا۔
اس وقت کسان نے پہلے سے زیادہ محنت کر کے زیادہ فصل اگانے پر دھیان دیا، جس میں کچھ زائد وہ حکومت کو بطور ٹیکس دے دیتا تھا اور کچھ زائد اپنے مشکل اوقات کے لیے رکھ لیتا تھا۔
فصلوں کی وصولی کے لئے ذرائع آمد و رفت وجود میں آئے۔ انسان کا دوسرے شہر کے لوگوں سے رابطہ شروع ہوا۔ چونکہ آمد و رفت کے اسباب حکومت نے اپنی ضرورت کے تحت قائم کیے تھے مگر باقی انسان بھی اس سے مستفید ہوئے، ایسے ہی تنازعات میں کردار اور زمین کی حفاظت وغیرہ کے پیش نظر لوگوں میں حکمرانوں کی عظمت کے حوالے سے مزید داستانیں وجود میں آئیں، ان کو خدا کا چنیدہ افراد میں شمار کیا جانے لگا، جن کی مخالفت کو خدا کی مخالفت سمجھا جانے لگا۔ اس لیے بالعموم لوگ بغاوت کو کبھی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ فوجوں کی ابتداء اس دور میں ہوئی،ایسے ہی جنگوں کی ابتداء بھی اس دور میں ہوئی اور پھر جنگوں کے نتیجے میں غلام رکھنے کا رواج بھی اس ہی زمانے میں پڑا۔ غلامی کا رواج لمبے عرصے تک چلتا رہا۔ اس وقت کیونکہ محنت و مشقت کی ضرورت کے لئے افرادی قوت کی اہمیت تھی اس لیے غلام بھی ایک مال کی حیثیت رکھتے تھے ان کی تجارت بھی عام سی بات تھی۔
بادشاہوں نے اپنی حکومت چلانے کے لیے قوانین وضع کیے، یہ قوانین اس وقت کے ماحول کے مطابق وضع کیے جاتے تھے جس سے بڑی رعایا کو مطمئن رکھا جا سکتا تھا اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے سماجی حالات کو بھی مدنظر رکھ کر یہ قوانین بنائے جاتے تھے۔ ہراری نے سب سے پہلے دستیاب قانون جو کہ ہمورابی کا قانون ہے کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کی بیٹی کو مارتا ہے تو بدلے میں اس کی بیٹی ماری جائے گی۔ اس قانون میں لوگوں کو آزاد اور غلام میں بھی تقسیم کیا گیا، ایسے ہی جنسی لحاظ سے بھی تقسیم کیا گیا۔اس وقت کے لوگوں نے اس قانون کو قبول کیا، آج ہم جنسی لحاظ سے امتیاز برتتے قوانین کو مسترد کرتے ہیں، مگر اس وقت کا انسان اس امتیاز کو درست جانتا تھا۔ ایسے ہی جب امریکہ میں Declaration of Independence کا اعلان کیا گیا تو سب انسانوں کو برابر تصور کیا گیا۔ ہمورابی کا انسانوں میں امتیاز برتتا قانون ہو یا پھر امریکی ڈیکلریشن ان پر Imagined Realities کے اثرات نمایاں تھے۔ بابل کی تہذیب کے لوگ سمجھتے تھے کہ ہمورابی کا قانون دراصل انصاف کرنے کا خدائی نظام ہے۔ جبکہ امریکی ڈیکلریشن پر عیسائیت کی چھاپ تھی۔ کیونکہ مساوات کا تصور عیسائیت کا تصور ہے جو کہتی ہے کہ سب انسان برابر پیدا ہوئے جبکہ ہراری کہتے ہیں کہ حیاتیاتی نکتہ نظر سے انسان پیدا نہیں بلکہ ارتقاء پذیر ہوا ہے۔ جب ارتقاء کو مانیں تو پھر ہر انسان کا ارتقاء مختلف انداز سے ہوا ہے اس لیے وہ مختلف ہے۔ اس لیے امریکی ڈیکلریشن پر عیسائیت کے اثرات تھے۔
حیاتیات کے حوالے سے یہاں یہ بات بھی ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا مصنف کہتے ہیں کہ حیاتیاتی نکتہ نظر سے کوئی چیز بھی غیر فطری نہیں ہوتی۔ہر چیز جو ممکن ہے وہ فطرت کے مطابق ہے اس لیے ہم جنس پرستی کو غیر فطری سمجھنا عیسائیت کی وجہ سے ہے کیونکہ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا

ایسا نہیں کہ Imagined Realities کو فقط زور زبردستی سے لاگو کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے سچے پیروکاروں کا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔ عیسائیت کبھی بھی دو ہزار سال تک نہ چلتی اگر اس کو سچے پیروکار نہ ملتے، ایسے ہی امریکی جمہوریت انسانی حقوق کو سچ ماننے والوں پر کھڑی ہے۔ موجودہ معیشت بھی اس وجہ سے چل رہے کہ سرمایہ کاروں کا سرمایہ دارانہ نظام پر یقین قوی ہے۔ پولیس اور فوج جیسے ادارے اپنا کام خوشدلی سے ہرگز نہ کرتے جب تک ان کو قانون کی عملداری پر یقین نہ ہو۔ اس لیے Imagined Realities کے دوام کے لیے ضروری ہے کہ لوگ سچے دل سے ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ہراری کہتے ہیں کہ انسان کے لیے Imagined Orders سے فرار کا کوئی راستہ نہیں وہ اپنی دانست میں ایک رکاوٹ توڑتا ہے مگر وہ اس سے بڑی رکاوٹ میں جکڑ جاتا ہے۔
قوانین کے ضمن میں یہ بات آ چکی کہ یہ سماج کے مزاج کے پیش نظر وجود میں آتے ہیں۔ جب غلامی کا رواج تھا اور لوگوں کے مابین طبقاتی تقسیم تھی تو اس وقت کوئی امیر ایسا لباس نہ پہنتا جو غریبوں میں پہنا جاتا ہو۔ اس وقت فقط صاحب حیثیت خواتین و حضرات کو سر یا میڈم جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا مگر آج ہر شخص کو اس کے عہدے اور حیثیت کو نظر انداز کر کے بلاتکلف معزز القاب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کپڑے پہننے کے حوالے سے ایسی کوئی پابندی نہیں کہ جس سے یہ تاثر قائم کیا جائے کہ یہ غلام ہے یا پھر نچلے طبقے کا فرد۔

جب ممالک وجود میں آئے تو ملک چلانے کے لیے بہت سی معلومات کا حساب رکھنا پڑتا تھا، سرکاری خزانہ، سرکاری معمولات، فتوحات کا ریکارڈ،مال وغیرہ،انسانی ذہن کی ایک حد ہے وہ ہر چیز یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ اب بھی ایک وکیل کو قانون کی شقیں تو یاد ہوں گی مگر اس قانون کے اطلاق کا ہر ہر پروسیجر کا یاد ہونا مشکل ہے۔ پھر انسان کے پاس معلومات فقط اس وقت تک محفوظ ہیں جب تک وہ زندہ ہے اگر وہ مرتا تو اس کے اندر موجود علم بھی ختم ہو جاتا ہے، ہو سکتا ہے اس نے اپنے ماتحت لوگوں کو کچھ معلومات فراہم کی ہوں مگر اکثر علم اس کے مرنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ انسان وہ چیزیں زیادہ یاد رکھتا ہے جس سے اس کی زندگی موت اور روزمرہ کے معمولات وابستہ ہوں۔ اس لیے ریاستی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کے لیے فقط انسانی ذہن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے انسان نے لکھنا ایجاد کیا۔ شروع کی لکھت فقط ریاضی حساب کتاب کے حوالے سے تھی۔ لہذا انسان نے تقریباً 3400 سے 3000 قبل مسیح پہلی بار لکھنا شروع کیا۔سب سے پہلا لفظ جو لکھا ہوا ملتا ہے وہ Kushim تھا۔معلوم نہیں یہ کوئی شخص تھا یا پھر کس اور چیز کا نام تھا۔ بالفرض اگر یہ کسی انسان کا نام تھا،تو انسانی تاریخ میں Kushim پہلا شخص تھا جس کو ہم جانتے ہیں۔ ہراری کہتے ہیں کہ لکھائی کی ابتداء نمبرز میں ہوئی۔

اس حصے میں ہراری نے ایک بہت تلخ مگر سچی بات کی ہے کہ تاریخ میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ وہ شخص ٹیلنٹڈ تھا مگر اس کا ٹیلنٹ سامنے نہیں آتا تو تاریخ ایسے شخص کو ٹیلنٹڈ تسلیم نہیں کرتی بیشک وہ ٹیلنٹڈ ہو۔ مطلب اگر کسی شخص کو اپنی قابلیت کے استعمال کا صیح موقع بھی نہ ملے تب بھی تاریخ اس کو بھلا دیتی ہے۔ یہ کہنا کہ دو لوگ ایک جیسی محنت کر کے ایک جیسی کامیابی حاصل کریں یہ بھی درست نہیں۔ بالفرض انیسویں صدی کے اختتام پر ایک سیاہ فام امریکی اور سفید فام امریکی نے ایک جیسی تعلیم حاصل کی تو کیا ان کو یکساں مواقع میسر تھے؟ ہم جانتے ہیں بالکل بھی نہیں۔ بلکہ جو ایڈوانٹیج سفید فام کو حاصل تھا وہ اگر سیاہ فام جتنی تعلیم بھی نہ حاصل کرتا تو بھی اس کی عملی زندگی سیاہ فام سے زیادہ خوشحال و آسان ہوتی۔ آپ اس کو تاریخ کا جبر کہیں یا ناانصافی مگر یہ ہی تلخ حقیقت ہے جس شخص کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع ملا، تاریخ نے فقط اس کو یاد رکھا۔

وہ انسان جو مختلف ثقافتوں کا حصہ تھا، جس کا کھانا پینا دوسروں سے مختلف تھا۔ اس انسان کو جوڑنے والی اور ان کو آپس میں متحد کرنے والی کیا چیز تھی؟ ہراری کے مطابق، انسان کو تین چیزوں نے جوڑے رکھا جہاں وہ اپنے اختلاف بھلا کر ایک بات پر راضی ہو گیا۔
ان میں پہلی چیز پیسہ تھا۔ چاہیے انسان ہندو ہو یا عیسائی یا پھر مسلم، چرواہے ہو یا پھر کسان۔ ایک چیز جس کو سب مانتے ہیں وہ پیسہ ہے۔ پیسہ میں یہ طاقت ہے جو لوگوں کو جوڑے رکھتا ہے۔ دو اجنبی آپس میں لین دین پر راضی ہو جاتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر یقین کرنے کی وجہ سے جڑتے ہیں بلکہ ان کو جوڑنے والی چیز پیسہ ہے۔ آج بھی بیرونِ ممالک ایسے لوگوں سے تجارت ہوتی ہے جن سے نہ تو ہماری ثقافت ملتی ہے نہ زبان نہ ہی مذہب مگر یہ پیسہ ہے جو ہمیں ان سے تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے ہی ماضی میں بھی مختلف ثقافتوں اور علاقوں نے اپنے اختلافات کو مٹا کر پیسے پر یقین کیا جس نے ان کو جوڑا۔ آج بھی پیسہ ملک کو جوڑنے کی ایک علامت ہے۔ایک ملک میں صرف ایک ہی کرنسی چلتی ہے، وہ کرنسی جس پر حکومت کی مہر و ضمانت ہو، اس کے علاوہ کسی اور کرنسی میں لین دین ملکی قانون کو چیلنج تصور کی جاتی ہے۔

دوسری چیز جس نے لوگوں کو جوڑے رکھا وہ سلطنت تھی۔کئی مقامی کلچرز ریاست و سلطنت کے کلچر کے نام پر اپنی شناخت کھو کر اس میں ضم ہو گئے۔ سلطنت کا قیام فتوحات کا مرہون منت نہیں تھا کئی سلطنتوں کی مثال ہراری نے دی جو فتوحات کے بغیر قائم ہوئی، ایسے ہی ریاستوں کا وجود کے لیے اس کا حدود اربعہ کا بڑا ہونا بھی لازم نہیں کیونکہ کئی ریاستیں اپنے چھوٹے سے علاقے کے ساتھ قائم رہیں۔
سلطنتوں کا کردار ہر دفعہ منفی نہیں رہا، بلکہ کئی سلطنتوں میں آرٹ، فلاسفی اور انصاف کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے اور مختلف علوم کو پروان چڑھانے میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
ریاست نے لوگوں کو آپس میں متحد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا، یہ ان کی سوچ پر اب بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے آج بھی کئی امریکی اس بات کو درست جانتے ہیں کہ ان کی حکومت کی تیسری دنیا کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بجا ہے کیونکہ امریکی ان کو بہتر نظام حکومت یعنی جمہوریت دینا چاہتے ہیں اس لیے اگر وہاں جمہوریت لانے کے لیے امریکہ طاقت کا بھی استعمال کرتا ہو تو یہ درست ہے۔
ریاستوں کے ضمن میں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہوئی ہے کہ اس نے فاتح اور مفتوح کے مابین فرق مٹا ڈالا۔ یعنی مفتوح فاتح کے کلچر میں ڈھل گئے۔ مصر اور شام کا پہلے اپنا ایک کلچر تھا مگر اسلامی فتوحات کے بعد اب یہ ممالک اپنا کلچر چھوڑ کر عرب کلچر میں ڈھل گئے۔ ایسے ہی برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں نے قبضہ کیا ان کے چھوڑ جانے کے باوجود پاکستان و بھارت میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین چل رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا پسندیدہ کھیل کرکٹ بھی انگریزوں کا کھیل تھا، چائے جو دونوں ممالک میں شوق سے پی جاتی ہے بھی انگریز لیکر آئے۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاست دوسرا اہم ذریعہ تھا جس نے مختلف ثقافتوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑا اور کئی جگہ ان کی چھوٹی چھوٹی ثقافتوں کی جگہ اپنی بڑی ثقافت نافذ کر دی اور وہاں کے رہنے والوں نے اس کو باخوشی قبول کر لیا۔

تیسری چیز جس نے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا کام وہ مذہب تھا۔ ہراری کہتے ہیں کہ شروع کے مذاہب polytheism یعنی ایک سے زیادہ خدا پر یقین رکھتے تھے۔ جب انسان متعدد خداؤں پر یقین رکھتا ہو تو کسی اور کا ان خداؤں میں اضافہ اس کے لیے مضر نہیں، اس لیے وہ جہاں دس خدا مانتے تھے کسی کا گیارہواں خدا بھی شامل ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔ رومن سلطنت نے ایشیائی خداؤں کو تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی مگر ایک خدا جس کو انہوں نے نہیں مانا وہ عیسائیوں کا خدا تھا۔خدا کا یہ نظریہ بھی مقامی تھا، ہر شخص نے اپنی مقامی ضرورتوں کے پیش نظر مختلف خدا بنائے ہوئے تھے۔ بارش کا خدا اور تھا، سورج کا خدا اور، نیکی کا خدا اور تھا اور بدی کا خدا اور تھا۔ ہراری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ کثیر خداؤں پر یقین رکھنے والے ایک بڑے قادر مطلق کے تصور پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ یقین رکھتے تھے مگر ان کے نزدیک وہ دنیاوی معاملات میں غیر جانبدار تھا، کوئی جنگ میں جیتتا ہے یا ہارتا ہے۔ کوئی بیمار ہے یا تندرست اس قادر مطلق کو اس سے کوئی غرض نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے الگ الگ خدا بنائے۔ جنگ کے لیے ان کا الگ خدا تھا جس سے وہ مدد مانگتے تھے،ایسے ہی دیگر معاملات میں انہوں نے الگ الگ خدا بنائے ہوئے تھے۔
ہراری کہتے ہیں کہ Monotheism یعنی ایک خدا کو ماننا Polytheism سے نکلا ہے۔ یہ ظاہر ہے ہراری کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کو سچ نہیں مانا جا سکتا۔ مگر ایک خدا کو ماننے والے بہت سے خدا ماننے والوں کی طرح وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے جب ہم ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو جس کا مطلب ہے کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کا مقام نہیں دیا جا سکتا، اور جو کوئی بھی کسی دوسرے خدا کو مانتا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔مجموعی طور پر ہراری Polytheism کو Monotheism سے زیادہ فائدہ مند کہتے ہیں مگر مزے کی بات ہے جب Monotheistic Religion کی بات آتی ہے تو وہ عیسائیت اور اسلام کا ذکر کرتا ہے۔ حالانکہ یہودیت بھی ایک خدا پر یقین رکھنے والا مذہب ہے۔
جیسے بت پرستی میں خدا کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا تھا ایسے ہی واحدنیت پر یقین رکھنے والے مذاہب میں بھی خدا کے بارے میں اختلاف ہوا۔جیسا کہ پروٹسٹنٹ اور کیھتولک کے مابین تصور خدا پر تھا۔ کیھتولک کہتے تھے کہ خدا مہربان ہے مگر اس کی مہربانی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اچھے کام کیے جائیں، جبکہ پروٹسٹنٹ کہتے تھے کہ یہ خدا کے مہربان ہونے کا غلط تصور ہے وہ غیر مشروط طور پر اپنے ماننے والوں سے مہربان بھلے وہ اس کی عبادت بجا لائیں یا نہیں۔
بت پرستی والے مذاہب  مقامی تھے ان کو باہر کے علاقوں سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ وہ کس عقیدے کے حامل ہیں جبکہ واحدنیت پر یقین رکھنے والے مذاہب میں سے اسلام اور عیسائیت اپنے مذہب کو پھیلانے پر دلچسپی رکھتے تھے۔
ایک اور نظریہ Dualism پر بھی ہراری نے گفتگو کی ہے۔یہ انسان کہ ان شکوک وشبہات کا ازالہ تھا کہ جس میں خدا کو فقط نیکی سے منسوب کر دیا گیا جبکہ بدی کا خالق کوئی اور ہے۔دراصل برائیوں کے حوالے سے انسان پریشان ہوا کہ جب خدا سراپا خیر ہے تو دنیا میں ظلم، ناانصافی اور دیگر برائیاں کیوں ہیں۔ پھر یہاں سے جبر و قدر کی بحث چھڑی کہ انسان کتنا قادر اور کتنا مجبور ہے۔ اگر وہ مجبور ہے تو اس کا حساب کیوں لیا جائے گا، اگر انسان  قادر ہے تو کیا خدا کو علم نہیں تھا کہ یہ کیا کرے گا؟ اگر علم نہ ہوا تو خدا کے علم پر سوال کھڑا ہوتا ہے اگر اس کو پہلے سے علم ہے تو پھر بھی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اس نے انسان کو روکا کیوں نہیں اور پھر اس کے علم کے خلاف انسان کچھ کر نہیں سکتا تو پھر بھی حساب کیسا۔ یہ ایسے پیچیدہ سوالات تھے جن پر خدائے واحد پر یقین رکھنے والے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہراری کہتے ہیں کہ ان کا کوئی ٹھوس جواب نہیں بن پایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بیشک یہ مسائل کافی پیچیدہ ہیں مگر اہل اسلام نے ان میں سے بہت سے مسائل کا اپنی حد تک تسلی بخش جواب دیا ہے اور پھر ہمارا یقین کامل ہے کہ ہمارا خدا ناانصافی اور ظلم سے پاک ہے اور روز آخرت فیصلے اس ہی نے کرنا ہے اس لیے وہ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ ہر حال میں درست ہو گا۔ اور پھر خدا کی ذات کا کوئی مخلوق احاطہ نہیں کر سکتی اس کے امور میں اس کا ہی فیصلہ چلتا ہے۔ سو یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز ہماری عقل و شعور میں نہ آئے مگر وہ بالکل برحق اور درست ہو۔
ہراری کہتے ہیں کہ جیسے پہلے مذاہب لوگوں کو جوڑتے تھے اب نظریات بھی لوگوں کو جوڑتے ہیں، یہ نظریات انسان پرستی کے گرد گھومتے ہیں۔ مارکسزم، کیپٹلزم، نازی ازم اور لبرلزم یہ نظریات وہ ہیں جو آج بھی مختلف اقوام کو آپس میں متحد کرنے کا کام بالکل ایسا ہی کردار کرتے ہیں جیسا ماضی میں مذاہب کیا کرتے تھے۔
لبرلزم کو ہراری موجودہ زمانے کا سب سے بڑا انسان پرست Humanist نظریہ قرار دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ خدا کے وجود کا منکر ہے۔ یہ Monotheistic Beliefs سے نکلا ہے۔ مگر اس کے نزدیک انسانی جان کی قدر و قیمت تمام سب چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے Liberal Humanist پھانسی کی سزا کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرد کی اہمیت معاشرے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔اس کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہوتی ہے جو اس کے لیے بہتر ہو،جس سے وہ کسی دوسرے فرد کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔
ہیومنزم کا ایک گروہ سوشلسٹ ہیومنزم ہے،یہ بھی انسان پرستی کی بات کرتا ہے مگر یہ فرد سے زیادہ معاشرے پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب امیروں کو غریبوں پر فوقیت دی جاتی ہے تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے یہ مساوات کی بات کرتے ہیں۔
ہیومنزم میں ایک تیسرا نظریہ Evolutionary Humanism کا بھی ہے۔ نازی ازم اس کے ہی پرچار کرتے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ سب انسان برابر نہیں ہیں بلکہ کچھ انسان دوسروں سے برتر ہیں۔نازی اور آریائی اقوام سب سے زیادہ برتر ہیں اس لیے دنیا کا بھلا اس میں ہی کہ اپنی قیادت ان اقوام کو دے دے۔ ہراری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ نازی انسانی حقوق پر یقین نہیں رکھتے تھے وہ رکھتے تھے مگر فقط وہ باقی لوگوں کو اپنے سے کمتر جانتے تھے۔

اس کے بعد انسانی تاریخ کا تیسرا بڑا دور اور انقلاب سائنسی انقلاب ہے۔ اس نے انقلاب نے بھی انسان کی زندگی کو بدل ڈالا، اور  مسلسل اس کی زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ سائنسی انقلاب سے پہلے انسان کا زعم یہ تھا کہ وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جس سے اس کی زندگی بہتر گزر سکے، جبکہ سائنس نے سب سے پہلے اس نظریے پر ضرب لگائی اور کہا کہ انسان بہت زیادہ نہیں جانتا۔ اب وہ کیا کیا نہیں جانتا اس کا جواب اب تک معلوم نہیں کیونکہ روز نئی تحقیقات سے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا تھا، اور مزید اور کیا کچھ نہیں جانتا یہ فی الحال نامعلوم ہے۔ ہاں مگر انسان کو اتنا یقین ہے کہ وہ کافی کچھ نہیں جانتا، اس لیے اس کی تلاش کا سفر جاری ہے اور اس سفر کے دوران نئی نئی ایجادات سامنے آئی ہیں۔ اور مزید ایجادات کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ ماقبل از جدید دور میں مذاہب کا دعویٰ تھا کہ جو کچھ ضروری ہے وہ مذہب نے بیان کر دیا ہے۔ غفلت و جہالت کی فقط دو ہی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ انسان کسی اہم چیز کے بارے میں لاعلم ہو تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ علم و عقل والے لوگوں سے راہنمائی لے۔ کیونکہ مذاہب نے جملہ مسائل کی راہنمائی کر دی ہے لہذا وہ مذہب کے ماہرین کے پاس جائے اور علم حاصل کرے۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ چونکہ ہر ضروری چیز مذہب نے بیان کر دی ہے اس لیے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں اگر ذہن میں سوال آئے تو اس کا جواب جاننا ضروری نہیں کیونکہ اگر یہ جاننا ضروری ہوتا تو خدا ہمیں ضرور اس کے بارے میں آگاہ کرتا۔ جبکہ مذہبی لٹریچر اس چیز سے خالی ہے اس کا مطلب اس بات کا جاننا سرے سے اہم ہے ہی نہیں۔

سائنسی انقلاب سے پہلے دنیا کی آبادی کم تھی اس کے باوجود اس کی فی کس آمدنی کا حساب لگایا جائے تو وہ بھی بہت کم تھی جبکہ آج دنیا کی آبادی سات ارب ہو چکی ہے مگر اس کی فی کس آمدنی بڑھتی جا رہی۔ سائنسی انقلاب سے پہلے دنیا کی دولت میں کوئی بڑا ردو بدل نہیں آیا مگر سائنسی انقلاب کی بدولت دنیا کی دولت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
سائنسی انقلاب سے پہلے فاقوں سے اموات ہوا کرتی تھیں مگر اب بسیار خوری کے سبب اموات ہوتی ہیں۔ پہلے دنیا میں ایک انسان کم کیلیوریز خرچ کرتا تھا اب زیادہ کیلوریز خرچ کرتا ہے۔ کئی بیماریاں جو پہلے جان لیوا سمجھی جاتی تھی اب وہ عام سی بیماری مانی جاتی ہیں اور کئی بیماریوں کا وجود ہی ختم ہو گیا ہے۔ جیسے کہ پولیو اب دنیا کے محض محدود سے علاقے تک رہ گیا ہے اور امید ہے کہ وہاں سے بھی جلد ختم ہو جائے گا.
سائنس کی ترقی میں حکومتوں کا کردار بنیادی ہے۔ سائنسی انقلاب سے پہلے بادشاہ پادریوں، شعراء اور فلاسفہ میں عطیات تقسیم کیا کرتے تھے، مگر یہ رقم کا خرچ قومی آمدنی میں اضافے کا سبب نہیں بنتا تھا۔ سائنسی انقلاب کے دور میں حکومتوں نے جان لیا کہ اگر ان کو اپنی کل آمدنی بڑھانی ہے تو ان کو سائنسی پراجکٹ پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ کچھ نہ جاننے کے یقین اور جاننے کی تلاش میں مختلف لوگوں نے دوسرے علاقوں اور براعظموں کی طرف سفر کیا، کولمبس کی مہم کی اسپین کی حکومت نے امداد کی، اس نے امریکہ دریافت کیا، جہاں سے خام مال کے حصول پر اسپین امیر ترین ریاست بن گئی۔
ہراری کہتے ہیں کہ سائنس کو ترقی کے لیے شروع میں مذہب کی ضرورت بھی پیش آئی کیونکہ اس پر خرچ کرنے کو مذہبی تعلیمات کے مطابق قرار دیا گیا تو اس کے لیے مالی تعاون ممکن ہوا۔
سائنسی ایجادات نے ہر شعبہ زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ جنگ کے میدان کو لے لیں، آج نپولین جیسا عظیم جرنیل اپنی تمام تر فوج کے ساتھ جدید ہتھیاروں کے سامنے بہت آسانی سے شکست کھا جائے۔

سائنس نے بہت سے توہمات کو بھی شکست دی، سائنسی انقلاب سے پہلے لوگ آسمانی بجلی کو خدا کا غضب سمجھتے تھے۔ اس توہم کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہراری نے بنجمن فرینکلن کے تجربے کا ذکر کیا ہے۔
غربت کے حوالے سے بھی سائنسی انقلاب سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ اس ناموافق دنیا میں اس سے کوئی فرار نہیں۔یہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس لیے بائیبل میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کہتے ہیں کہ غریب ہمیشہ آپ کے پاس رہیں گے۔ جبکہ آج کا عیسائی حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ بات نہیں مانتا۔ وہ مانتا ہے کہ غربت خدا کی طرف سے نہیں بلکہ تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ہے۔ بہتر تکنیک کا استعمال کر کے ہم غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
ہراری کہتے ہیں کہ اب سائنس کا اگلا ہدف موت کو شکست دینا ہے جس کے بارے میں مذہبی لٹریچر کہتے ہیں کہ اس سے فرار ممکن نہیں۔ میڈیکل سائنس کے ذریعے انسان نے اپنی اوسط عمر میں اضافہ کر لیا ہے۔ پہلے نومولود بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ تھی اب یہ واجبی سی رہ گئی ہے۔ ایسے ہی دوران زچگی مرنے والی عورتوں کی تعداد میں بھی پہلے کی نسبت بہت واضح کمی آ چکی ہے۔ گو کہ موت کو فی الحال شکست دینا ممکن نہیں ہو پایا مگر سائنسدان دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2050 تک ایسے لوگ آ جائیں گے جو immortal ہوں، یہ دعویٰ یقیناً بہت بڑا ہے اور ناقابل یقین بھی ہے کیونکہ موت کو شکست دینے کا مطلب ہے آخرت کا انکار۔ لہذا خدا اور آخرت پر یقین رکھنے والے کے لیے اس پر یقین کرنا تو ممکن نہیں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی اوسط عمر میں مزید اضافہ کر لے، وہ تین چار صدیوں تک زندہ رہے سکے مگر بالآخر موت سے فرار ممکن نہیں ہے۔

سائنسی تحقیقات کے لیے حکومتی یا سرمایہ داروں، بینکوں یا دیگر مالیاتی اداروں کا مالی تعاون فقط علم کی خدمت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں۔ بالخصوص نفع کا عنصر سب سے زیادہ کام کرتا ہے۔ جس تحقیق میں زیادہ نفع کا موقع ہو اس کے لیے مالی تعاون فراہم کرنے والے موجود ہوتے۔ سائنس از خود اس بات کا تعین نہیں کر سکتی کہ انسان کے لیے کون سی چیز اہم اور کون سی غیر اہم ہے اس کا تعین مال فراہم کرنے لوگ کرتے ہیں۔ اس لیے سائنسی تحقیقات کا ریاستی مفادات سے بڑا گہرا تعلق ہے ہراری نے اس بات کو بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ سترہویں صدی میں ایشاء کی دولت دنیا کی اسی فیصد دولت کے برابر تھی یورپ ان کے آگے کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا مگر سائنسی انقلاب جو کہ یورپ میں آیا اس کی رو سے لوگ مختلف مہمات پر نامعلوم کو معلوم کرنے نکلے تو اس کے منافع بخش نتائج سامنے آئے اور آج ہم دیکھتے ہیں دنیا کا ہر خطہ یورپ سے متاثر ہے۔ اور سترہویں صدی کے بعد ایشیا کے ہر اہم علاقے یورپی قبضے میں آتے گئے۔جس کی وجہ سے ان کے کھانے پینے اور رہن سہن پر یورپی اثرات ہیں۔ حتی کہ چین کو کہ ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے اس کا معاشی نظام مغرب سے حاصل کردہ ہے۔
مغربی قوتوں کا دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے کا انداز بھی ماضی کی طاقتوں سے الگ تھا مثلاً جب عربوں نے ہند کو فتح کیا تو اس کے لیے پہلے فلاسفہ، شعراء، ادیبوں یا کوئی سماجی علوم کے ماہرین نہیں بھیجے جبکہ انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے سے پہلے برصغیر کی ثقافت و سماج کا مطالعہ کیا، یہاں کے رسم و رواج کے حوالے سے مکمل جانکاری حاصل کی اس کے بعد آہستہ آہستہ برصغیر پر قبضہ کیا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے انتہائی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بہت آرام سے ڈیڑھ سو سال اتنے بڑے خطے پر حکومت کی۔
ان سامراجی فتوحات کے سلسلے میں جہاں معاشی مقاصد کارفرما تھے وہاں کچھ علمی نوعیت کی چیزیں بھی سامنے آئیں، مثلاً مفتوحہ ممالک میں بہت سی نایاب دستاویزات و مخطوطات ملے جن میں سے کچھ ایسی زبانوں میں تھی جو کہ ناپید تھیں ان کے اوپر تحقیق ہوئی اور تاریخ کے کئی مزید گوشوں سے دنیا روشناس ہوئی۔ہراری نے اس پر ہنری رولسن جس نے ایران میں قدیم مشرق وسطی کے حوالے سے ملے مخطوطات پر تحقیق کی اور ولیم جونز نام کے ایک انگریز نے بنگال میں کچھ سنسکرت کے مسودات پر تحقیق کی اور سنسکرت اور لاطینی زبان میں مماثلت کا کھوج نکالا۔ ایسے ہی لسانیات کے شعبہ میں مزید ترقی کی راہیں کھلیں۔ یعنی کہ سائنسی انقلاب میں فقط ایجادات ہی نہیں بلکہ نئی علوم اور ان کی شاخیں بھی وجود میں آتی گئیں۔
جیسے کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ تصوراتی حقائق اور تصوراتی قوانین کی بدولت انسان نے بہت کچھ حاصل کیا ایسا ہی ایک اور انقلابی تصور معیشت کے میدان میں اس دور میں سامنے آیا جو کہ ترقی یا گروتھ کا تصور تھے۔ اس نے دنیا کی مالی حالت ہی بدل ڈالی، اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے راہ نکالی۔ ایڈم اسمتھ کے پیش کردہ سرمایہ دارانہ نظام پر بھی ہراری نے کافی تفصیل سے لکھا ہے،اور اس کے کچھ نظریات پر تنقید بھی کی ہے۔ اسمتھ سرمایہ دار کو مکمل آزاد چھوڑنے کی بات کرتا ہے کہ جتنا زیادہ وہ منافع کمائے گا اس کے مثبت اثرات نیچے والے طبقات پر بھی پڑیں گے۔کیونکہ زیادہ منافع کے صورت میں اس کے زیر انتظام ملازمین کو تنخواہ بھی زیادہ ملے گی اور اس سے ان کی حیثیت بھی بہتر ہو گی۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ سیاست اور حکومت کو معیشت میں مداخلت نہیں کرنے دینی چاہیے۔ معیشت کے معاملات سرمایہ دار کے سپرد کر دینے چاہیے جبکہ اس کے برعکس سرمایہ دار کا سیاست و حکومت میں کردار کو ضروری ہے۔

ہراری کہتے ہیں کہ سرمایہ دار اور دولت مند میں فرق ہے۔ سرمایہ دار اپنا منافع دوبارہ کاروبار میں لگاتا ہے تاکہ اس پر مزید منافع کمائے جبکہ دولتمند اس کو ضروری نہیں جانتا اس لیے فرعون کے پاس کثیر سونا تھا مگر وہ سرمایہ دار نہیں تھا کیونکہ وہ اس کو سرمایے میں لگانے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ فری مارکیٹ کا نظریہ بھی کیپٹلزم کی دین ہے اور اس فری مارکیٹ کی خاطر 1840 میں برطانیہ نے چین سے جنگ چھیڑ دی کیونکہ چین نے برطانوی منشیات کو اپنے ملک میں آنے سے روکا تھا جبکہ اس وقت کے کثیر برطانوی امراء کے مالی مفادات منشیات کی تجارت سے وابستہ تھے، لہذا برطانیہ نے تجارتی رکاوٹوں کا بہانہ بنا کر چین سے جنگ چھیڑ دی۔

اس ہی کیپٹلزم کے زیر اثر ایک اور تصور بھی پروان چڑھا جس کو کریڈٹ یا ادھار کہتے ہیں۔سرمایہ دار نے اپنا مال بیچنے کے لیے کریڈٹ ایجاد کیا جہاں کم آمدنی والے افراد بھی سرمایہ دار سے ادھار پر اس کا مال خرید سکتے تھے اور بعد میں اس کو پیسے دے سکتے تھے۔ پھر اس ہی کیپٹلزم کے زیر اثر ایک اور نظریہ کنزیومر ازم Consumerism کا سامنے آیا، اس نے سب سے پہلے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگائی۔ اس نے ہر شخص کی پسند کو دوسرے سے الگ کر دیا۔ پہلے بچے والدین کی مرضی سے چیزیں خریدتے تھے اس کے بعد بچے اپنے والدین کی پسند کے محتاج نہیں رہے بلکہ اب تو اپنی زندگی کا جیون ساتھی بھی وہ اپنی مرضی سے چننے لگے اور والدین نے اپنی اس کمزور ہوتی گرفت کو قبول کر کے سرینڈر کر لیا۔ پہلے جب سب ایک گھر میں رہتے تھے تو بڑے بڑے کمرے ہوتے تھے اور سب ایک جگہ سوتے تھے، اب ہر بچے کا الگ الگ کمرہ ہوتا ہے جس کو وہ اپنی مرضی سے سجاتا ہے۔
سامراج جو ممالک فتح کرتا تھا اس کے پیچھے سرمایہ دار کا اپنا منافع ہوتا تھا اس لیے وہ فوج کو پیسے دیتے تھے اور پھر مفتوحہ زمین کے خام مال اور معدنیات سے اپنی دولت میں اضافہ کرتے تھے۔ یہ صورتحال آج بھی ہے کئی جنگوں کے پیچھے سرمایہ دار کھڑے ہوتے ہیں جن کے کاروباری مفادات کی بھینٹ دوسرے ملک چڑھ جاتے ہیں۔ اور یہ سرمایہ دار ہی اصل فیکٹر ہوتے ہیں جو حکومت کو گراتے اور چلاتے ہیں۔ لیکن ہراری کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر برائیوں کے باوجود ہمیں اس میں رہنا ہے۔ جیسے کہ زرعی انقلاب کے زمانے میں انسان مجبور تھا کہ وہ واپس شکار کی طرف نہیں جا سکتا تھا۔
سائنسی انقلاب کے ذریعے ہی صنعتی انقلاب آیا۔ ہمارے ہاں صبح نو سے شام پانچ بجے تک کام کرنے کا ٹرینڈ صنعتی انقلاب کی بدولت ہے۔ پھر سائنسی انقلاب نے توانائی کے معاملے میں ناقابلِ یقین انقلاب برپا کیا۔ جس کی بدولت صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ بجلی اور انجن کی ایجاد نے انسان کی سوچ ہی بدل ڈالی۔ پہلے زمانے کا فرد اپنے علاقے سے کچھ کلومیٹر دور جا کر بھی کئی کئی دنوں بعد لوٹتا تھا اب محض دو دنوں کے اندر انسان پوری دنیا کا چکر لگانے کے قابل ہو گیا۔

بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دور جدید میں جنگی اموات بڑھ گئیں ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلے ادوار کی نسبت بہت کم ہو گئی ہیں۔ ایٹم بم کے استعمال کے بعد دنیا اب اس حوالے سے محتاط ہو گئی ہے۔ اس لیے ایٹم بم بنانے والے امن کے انعام کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے مزید تباہ کن جنگوں کا راستہ روک ڈالا ہے۔

کتاب کے آخری صفحات میں کہ انسان کا مستقبل کیا ہوگا پر بھی ہراری نے بات کی ہے جس میں اس نے Genetic engineering کا ذکر کیا ہے۔ اس بارے میں بھی سائنس کی ترقی حیران کن ہے۔ اب ننتھڈرل کی نسل کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کو ایک زمانے میں ہومو سیپین نے مٹا ڈالا۔ اب سروگیسی بھی ایک عام سی چیز ہو گئی ہے،مطلب infertility والے مسائل پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا۔ اس کے علاوہ مزید کھوج جاری ہے اور خود سائنس دانوں کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہماری آخری منزل کیا ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کے حوالے سے ایک تازہ مثال انسان کے اندر سور کا دل اور گردے کا ٹرانسپلانٹ ہونا ہے۔ اب مزید جانوروں کے اعضاء کی پیوندکاری کے اوپر بھی تحقیق کی جا رہی ہے، اگر وہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو معلوم نہیں کہ آگے آنے والا انسان آج کے انسان سے کس قدر مختلف ہوگا۔ یہ حیران کن سفر تیزی سے جاری ہے اور جاننے کی پیاس ایسی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔سائنسدان اب تک اپنے مقاصد کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ہراری کہتے ہیں کہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ خود انسان کو نہیں معلوم کہ وہ کیا چاہتا ہے اور یہ بے سمت تلاش نامعلوم انسان کو کہاں لے جائے گی۔

سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس قدر غیر معمولی ترقی کرنے اور حیران کن ایجادات کے ذریعے اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے بعد کیا انسان مطمئن یا خوش ہے۔ کیونکہ اس کی مسلسل کھوج تو اس کی بے چینی کا پتہ دیتی ہے، ٹھیک ہے سائنسی آلات نے انسان کو بہت سی سہولتیں فراہم کی ہے مگر سکون کا ملنا ایک اور بات ہے۔ میرے ذہن میں ان حیران کن سفر کی روداد پڑھتے خیال آیا کہ یہ اتنی وسیع کائنات یقیناً کسی بہت ہی عظیم خالق کا پتہ دیتی ہے۔ اور پھر انسان کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھلے وہ بے سکون ہو مگر اپنے لیے وہ نئے راستے کس طرح وہ نکال رہا ہے اور مزید حیران کرتا جا رہا ہے۔ مگر سوال پھر اٹھتا ہے کہ اس کے اس سفر کا مقصد کیا ہے اور کیا اس کا بھی کچھ اختتام بھی ہے؟ اور کیا سائنسی انقلاب کے بعد بھی انسان کی تاریخ میں کوئی اور انقلاب کا امکان ہے جس کے مقابلے میں سائنسی انقلاب دقیانوس لگے۔
ہراری کی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس کی ہر بات مانی بھی نہیں جا سکتی مگر جس طرح سے اس نے اپنی بات بیان کی ہے اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ انسان کی اس حیران کر دینے والی تاریخ کو اس نے واقعی بہت کمال سے بیان کیا ہے۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں