Home » مذہب و تمدن مولانا ابوالحسن علی ندوی کی نظر میں
اردو کتب تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات

مذہب و تمدن مولانا ابوالحسن علی ندوی کی نظر میں

“مذہب و تمدن” مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ۱۹۴۲ میں لکھا گیا ایک مقالہ ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی تحریک و فرمائش پر لکھا اور وہاں ایک علمی مجلس میں اساتذہ ، طلبہ اور دہلی کے اہل علم و ذوق کے سامنے پڑھا گیا۔ مجلس نشریات اسلام کراچی نے اس کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔یہ ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے.

مولانا ندوی کہتے ہیں کچھ مشترک سوالات ہیں جن کے جوابات کی بنیاد پر مذہب ، فلسفہ اور تمدن کی بنیاد ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں
اس دنیا کا آغاز و انجام کیا ہے؟
کیا اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ہے؟
اس زندگی کے بارے میں کیا ہدایت ہے؟
کائنات کی تخلیق اور اس کا نظم و ضبط کون چلا رہا ہے؟
انسان کا اس کائنات میں کیا کردار ہے اور حیثیت ہے؟
کیا انسان آزاد ہے یا کسی کے ماتحت ؟
کیا وہ کسی طاقت کو جوابدہ ہے؟

یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات کے اگر ہم جواب کی طرف آئیں تو اس میں ہم پہلے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

پہلا ذریعہ حواس ہیں جو حصول علم کا ایک بڑا ذریعہ ہے مگر اس کی اپنی حدود ہیں یہ ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں جن کو یہ دیکھ ، سن اور محسوس نہیں کر سکتے۔ یہاں پر مولانا ندوی کہتے ہیں کہ ہر چیز کا موجود ہونے سے لازم نہیں آتا کہ وہ محسوس بھی ہو۔ ہم روزمرہ زندگی میں بھی یہ رویہ اختیار کرتے ہیں اس لیے فقط حواس کی بنیاد پر کسی چیز کا انکار کرنا ناصرف انسان اور جانور میں امتیاز کو ختم کر دیتا ہے بلکہ اس سے علم و تمدن کی عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا ندوی نے یہ مثال دی ہے
ہم ظلم ، جھوٹ ، خیانت اور دوسرے اخلاقی جرائم کی قباحت کا محض حواس سے ادراک نہیں کر سکتے اس کے لیے ایک اخلاقی وجدان یا مذہبی ایمان کی ضرورت ہو گی
اس لیے حواس ان سوالات جو کہ شروع میں لکھے گئے ہیں کا جواب دینے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ اس حدود سے ماوراء سوال ہیں۔

حصول علم کا دوسرا ذریعہ عقل ہے۔ مولانا ندوی نے بتایا ہے کہ عقل اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنے سے کمتر چیزوں کی محتاج ہے۔ جہاں انسان کے حواس کام نہ کر سکتے ہوں جہاں اس کے پاس معلومات کا ذخیرہ نہ ہو وہاں عقل بے بس ہو جاتی ہے۔
عقل کسی بھی معاملے میں فیصلہ دستیاب شدہ علوم کی بنیاد پر کرتی ہے۔ اس کی مثال مولانا ندوی یہ دی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی زبان کے حروف (alphabet) سے ہی واقف نہیں وہ لاکھ عقل و قیاس سے کام لے اس زبان کی ایک سطر نہیں پڑھ سکتا۔

ان سوالات کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے جس طرح یہاں حواس بے بس ہیں ایسے ہی عقل بھی معقول پوزیشن میں نہیں کہ ان کا جواب دے سکے۔ وہ ان مسائل کی تشریح بھی نہیں کر سکتی ایسے ہی اس کو ان باتوں کا انکار کا بھی حق حاصل نہیں کیونکہ وہ اس رسائی سے باہر ہے۔ کسی نابینا کو حق نہیں ہے کہ وہ بینا کے مشاہدات کا انکار کرے۔
مولانا ندوی کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت متجسس اور غیر قانع واقع ہوئی اس لیے اس نے ان مسائل پر عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے ظن و قیاس سے کام لیا اور ان کے جواب دینے کی کوشش کی، ان قیاس آرائیوں اور عقلی موشگافیوں کا نام فلسفہ ہے.

فلسفہ کے بارے میں مولانا ندوی گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علمی دنیا میں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ فلسفہ جیسے علم جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عقل و منطق پر مشتمل ہے نے ایسے مسائل میں بحث کی ہے جس کی مبادی اولیہ بھی اس کو حاصل نہیں تھی۔ نوع انسانی کے لائق ترین افراد ایک ایسی منزل کے پیچھے سرگرداں رہے جس کا ان کو نشان راہ بھی حاصل نہیں تھا۔
اس باب میں دوسری حیرت انگیز چیز یہ کہ تنقید کی کھلی آزادی کے باوجود بہت کم ہی لوگوں کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا۔ ان میں ایک بڑا نام امام غزالی رح کا مولانا ندوی نے ذکر کیا ہے۔ جنہوں نے تہافت الفلاسفہ میں فلاسفہ کے الہیاتی علوم کی بابت لکھا کہ یہ محض تخمینات ہیں جن کی کوئی اساس نہیں ۔
دوسرے عالم جنہوں نے فلاسفہ کی علمی بے بضاعتی کو محسوس کیا وہ علامہ ابن خلدون رح ہیں ۔ وہ امام غزالی رح کی طرح مابعد الطبیعی فلسفی نہیں تھے مگر ایک زرخیز اور بقول مولانا ندوی سائنٹفک ذہن لیکر آئے تھے۔ اپنے مقدمہ میں انہوں نے فلسفہ کے اوپر جا بجا نقد کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ عقل ایک ترازو ہے جس کے فیصلے یقینی ہیں مگر آپ توحید ، آخرت ، نبوت وغیرہ جیسے مسائل کو عقل کے ترازو میں نہیں تول سکتے وہ عقل سے ماوراء ہیں۔
مغرب میں ایمونل کانٹ نے خود فریبی کا پردہ چاک کیا اور اس کی حدود بہت جرات سے وضاحت کی۔

فلسفہ کے مقابلے میں ایک اور فلسفہ جو مذہب کی حمایت میں آیا جس کو علم الکلام کہتے ہیں اس کے اوپر بھی مولانا ندوی نے تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فلاسفہ کی طرح انہوں نے بھی عقلی موشگافیوں سے کام لیا حالانکہ دونوں کے نتائج فکر اور مقاصد ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
مولانا کہتے ہیں کہ مذہبی فلاسفہ میں سب سے روشن خیال معتزلہ تھے جنہوں نے خدا کو انسان پر اور عالم آخرت پر دنیا کو قیاس کر کے انسان کے احکام اور اس دنیا کے قوانین کی رو سے آزادنہ بحث کی اور عقل کی حدود کو مطلقاً نظر انداز کر دیا۔ معتزلہ کی اس غلطی کو استاد احمد امین جو کہ معتزلہ کے مداح تھے نے بھی ذکر کیا اور بتایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو انسان پر قیاس کر کے اس کو عالم کے قوانین کا تابع بنا دیا۔

عقلیت و فلسفہ کے مقابلے میں ایک قدیم تحریک اشراق اور روحانیت کی ہے۔ مصر اور ہندوستان اس کے مرکز رہے ہیں۔ اس تحریک و نظام کے بنیادی اصول کی مولانا ندوی نے کچھ یوں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

“حق اور یقین کی دریافت کے لیے حواس،عقل،علم ،قیاس، استقراء برہان و استقلال، تحلیل و تنقید قطعاً مفید نہیں بلکہ مضر ہیں۔ صداقت و حقیقت کے یقینی حصول کے لئے مشاہدہ شرط ہے۔ اور یہ مشاہدہ صرف نور باطن، صفائی نفس اور ایک ایسے اندرونی حاسہ کو بیدار کر دینے سے ممکن ہے۔جو روحانیت اور ماورائے طبیعات کا اسی طرح ادراک کرتا ہے جس طرح یہ ظاہری آنکھیں ظاہری چیزوں کا ادراک کرتی ہیں ”

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ندوی کہتے ہیں کہ اشراق اور فلسفہ میں ایک ہی روح اور ایک ہی ذہنیت کام کرتی ہے کہ ہم حقیقت کو اپنی کوششوں سے معلوم کرلیں گے۔ مولانا نے لکھا ہے اہل کشف آور اشراق کے علوم میں اتنا تناقص پایا کہ جس کی نظیر شاید صرف فلسفہ میں مل سکے ۔
اشراق بھی حواس ، عقل اور فلسفہ کی طرح ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہے اور اس کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان موضوعات کی تشریح کرے یا ان کا انکار کرے۔

اس کے بعد مولانا ندوی نے دنیا کے تین تمدن اور نظام حیات پر گفتگو کی ہے۔
سب سے پہلے حسی تمدن جو کہ دنیا کا مقبول ترین اور قدیم ترین تمدن ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ اس میں کسی گہرائی ، عقلی ترقی یا ایثار و قربانی کی ضرورت نہیں اس لیے یہ عام انسانوں کے لیے اپنے اندر کشش رکھتا ہے۔
حسی تمدن میں ہر ایسی چیز کا انکار ہوتا ہے جس کی تصدیق مجرد حواس ظاہری سے نہ ہو اگر انکار نہ بھی ہو تو بھی وہ چیز بے وقعت ہوتی ہے۔ اس اصول کے تحت کسی بن دیکھی طاقت کا یقین پیدا نہیں ہوتا جو حواس سے بالاتر ہو۔ اگر اس کا اعتقاد موجود بھی ہو تو اس کا دماغ اور عملی زندگی میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔
حسی استدلال کسی ایسی زندگی کا بھی انکار کرتا ہے جو مرنے کے بعد ہو۔ موت کا چونکہ انسان مشاہدہ کرتا ہے اس لیے اس سے انکار ممکن نہیں۔ موت کا اقرار اور حیات بعد الموت کے انکار سے یہ نظریہ سامنے آتا ہے کہ انسان نے جو کامیابی سمیٹنی ہے وہ اسی ہی دنیا میں سمیٹنی ہے اس کے حصول کے لیے وہ کسی اخلاقی بندشوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ جوابدہی کا خوف نہیں رکھتا، اس لیے وہ حصول لذت کے ہر ہر طریقے کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔یہاں اخلاق کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔
اس تمدن میں محسوسات میں بھی قرض سے زیادہ نقد اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تمدن انسان کے لیے ایسا نظام زندگی تجویز کرتا ہے جو اپنی روح اور مقصد میں خالص حیوانی زندگی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ حیوانی زندگی سے مراد جنگل کا نظام نہیں ہے۔ یہ تمدن انسان کی زندگی کو پر راحت بنانے کے لیے یہ تمدن انسان کو سب سے زیادہ مادی وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔
اس کے بعد مولانا ندوی نے قوم عاد جو کہ بلند پایہ عمارات بناتے تھے، قوم لوط جن کی جنسی لذت کی کوئی حد نہیں تھی، قوم ابراہیم جو اصنام پرستی میں ترقی کر رہے تھے، مدین جو تجارت میں کسی قسم کی اخلاقیات کو نہیں مانتے تھے وغیرہ کا حوالہ دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ تمام تمدن حسی تمدن تھے اور یہاں مادی ترقی بھی اپنے عروج پر تھی۔ اس مادی ترقی نے ان کے اخلاق و کردار کو مسخ کر دیا تھا۔
عرب کا جاہلی تمدن بھی ایک حسی تمدن تھا۔ اس حسی تمدن کا اپنا حسی علم الاخلاق ہوتا ہے۔ جہاں دلیری و جنگجوئی کو بہترین مردانہ خصائل گردانا جاتا ہے خواہ بے مقصد کیوں نہ ہو۔ جاہلیت میں اتحاد و تعاون کی بنیاد حق و باطل نہیں بلکہ قوم پرستی اور جماعتی عصبیت کار فرما ہوتی تھی۔ جاہلیت میں یہ جملہ عام بولا جاتا تھا کہ

اپنے بھائی کی ہر حال میں مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو خواہ وہ مظلوم

ایک جاہلی شاعر کا شعر ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ

“اگر میں نے اپنے بھائی کی ظالم ہونے کی حالت میں مدد نہ کی تو میں اس کی مظلوم ہونے کی حالت میں بھی کیا خاک مدد کروں گا”

رومی و یونانی تمدن بھی مادی و حسی تمدن تھا اور موجودہ مغربی تمدن بھی رومی تمدن کی ترقی یافتہ شکل ہے

حسی تمدن کے بعد مولانا ندوی نے عقلی تمدن پر گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ تاریخ میں ایسے کسی تمدن کا وجود نہیں ملتا جو خالص عقل کی بنیاد پر قائم ہوا ہو، عقلی تمدن دراصل حسی تمدن سے مختلف نہیں ہے۔ جن تمدنوں کو عقلی و علمی تمدن کہا جاتا ہے ان کو اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو وہ حسی و مادی تمدن ہی ہے۔
حسی و مادی تمدن میں اکثر چیزیں عقل سے مشورہ لیے بغیر وجود میں آ جاتی ہیں بعد میں عقل ان کو سند جواز دیتی ہے۔ یونان میں عصمت فروشی کا پیشہ ہو، جاہلیت عرب میں دختر کشی ہو یا پھر ہندوستان میں رسم ستی، اس وقت کے عقلا نے اس کے جواز کے لیے دلیلیں تراشیں۔ آج بھی ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینا ہی یا پھر شادی کے بغیر ساتھ رہنا اس کو جواز فراہم کرنے والے اپنی عقلی دلیل رکھتے ہیں۔
حسی تمدن کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے یہاں مذہب کا اثر کمزور ہوتا ہے اور قوم پرستی اور وطنیت کا جذبہ زیادہ غالب آ جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال عرب لیگ ہے۔
یورپ میں بھی مذہب کمزور ہوا اور قوم پرستی پر مبنی اتحاد بنے۔ کیونکہ یہ مادی طور پر زیادہ فائدہ مند ہیں۔ ایسا نہیں کہ پورا ہے پورا یورپ لامذہب ہے مگر یورپ کا حقیقی مذہب مادہ پرستی ہے ۔

مولانا ندوی نے اس کے بعد اشراقی تمدن اور اس کے اوصاف کا بھی جائزہ لیا ہے۔یہ تمدن حواس کی مخالفت پر کھڑا ہوتا ہے لہذا جسم اور اس کے متعلقات سے ناصرف غفلت برتی جاتی ہے بلکہ اس کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس تمدن میں تخریب کا کام تو ہو سکتا تعمیر قطعاً نہیں۔ حسی بنیاد اپنا تمدن بہت آسانی سے قائم کر سکتی ہے جبکہ روحانیت خالصہ و اشراقی بنیاد پر قائم تمدن کی کامیابی بہت مشکل ہے۔اس لیے اشراقی فلسفہ کو قبول کرنے والوں نے اپنی نجی زندگیاں مادی اصولوں پر گزاریں جیسے کہ اشوک جو عقیدت مند بدھ مگر کامیاب فاتح اور حکمران تھا۔ قسطنطین نے مسحیت کو قبول کیا تو بت پرست روم کی جاہلیت کو جمع کیا۔ یہ تمدن جہاں بھی گیا اس نے اس سے قحط سالیاں ہوئیں ، تعلیم کا نظام بگڑ گیا ، شہریت کے آثار مفقود ہو گئے قرون وسطی کا یورپ ایسا ہی ایک تمدن جس کے خلاف بغاوت ہوئی یوں کلیسا اور رہبانیت کو شکست ہوئی اور یورپ مادیت پر ایسا گرا جیسے کو فاقہ زدہ انسان کھانے پر گرتا ہے۔

اس کے بعد مولانا ندوی نے اگلے باب میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی عقل و اشتباہ پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کی راہنمائی کی ہے اور اس کو راہنمائی دینے کے لیے اس نے چند انسان منتخب فرمائے ہیں جو انسانوں کو سیدھا راستہ بتاتے ہیں۔ یہ انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ان لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور ان سوالات کا جواب ان کے پاس ہے۔ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے لیے ایک عالم منکشف ہوا ہے جس سے وہ بہت سی چیزیں جان لیتے ہیں جو عام انسان نہیں جان سکتا۔
یہاں پر مولانا ندوی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی خصوصیات بیان کی ہیں کہ ان کی سیرت بالکل بے داغ ہوتی ہے اور ان کا اخلاقی معیار بھی سب سے بلند ہوتا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام صحیح الدماغ ،کامل العقل اور سلیم الفطرت انسان ہوتے ہیں
وہ غیبی امور میں ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں جن کا ماخذ معاصر انسانوں کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ اپنے زمانے کے اصطلاحی علوم سے واقفیت کا اظہار نہیں کرتے۔
وہ ابتداء ہی سے اخلاقی طور پر ممتاز اور اخلاقی کمزوریوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔
ان پر حق دفعتہً اور کاملاً منکشف ہوتا ہے۔ عمر اور علم کی زیادتی سے ان کے حقائق میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
ان کا اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد ان کی پشت پر ہوتی ہے۔ان کی صداقت کے لیے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو کہ طبیعی اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں ۔

یہ (انبیاء کرام علیہم السلام) اخلاق ، عبادات، معاملات ، تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ کے بارے میں ایسا حکیمانہ نظام پیش کرتے ہیں جو دنیا کے تمام حکماء پیش نہیں کر سکے اس سے بہتر نظام دنیا کے تجربے میں نہیں آیا۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کو بھی حواس و تجربہ سے قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حواس اور تجربہ نفس نبوت کی شہادت فراہم نہیں کر سکتے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات میں ان سوالوں کے جواب موجود ہیں اور الہامی کتابیں اس پر شاہد ہیں مگر قرآن مجید کے سوا کوئی بھی الہامی کتاب تحریف سے محفوظ نہیں ہے ۔ اس کے بعد مولانا ندوی نے مندرجہ ذیل عنوانات پر قرآنی آیات پیش کر کے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب دئیے ہیں
۱.خدا کی صفات اور اس کے کام (سورہ الحشر ۲۲ تا ۲۴)
۲.دنیا کی پیدائش اور اس کا نظام (سورہ اعراف ۵۴)
۳.خدا کی بادشاہی اور اس کی طاقت و فرمانروائی (سورہ یونس ۳۱), (سورہ مومنون ۸۴ تا ۸۹)، (سورہ النحل ۵۲), (سورہ آل عمران ۸۳)
۴. یہ کارخانہ عبث پیدا نہیں کیا گیا اور اس کی آفرینش بے مقصد وہ بے فائدہ نہیں (سورہ ص ۲۷), (سورہ آل عمران ۱۹۰ تا ۱۹۱)
۵. انسان کی زندگی بے مقصد نہیں وہ اس دنیا میں آزاد نہیں (سورہ قیٰمہ ۳۶) ، (سورہ مومنون -۱۱۵)
۶. موت و زندگی کا مقصد انسان کی آزمائش ہے (سورہ ملک ۲) ,(سورہ یونس ۱۴)
۷.دنیا کی آرائش انسان کے امتحان کے لیے ہے (سورہ کہف ۷)
۸.انسان اشرف المخلوقات ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل ۷۰) (سورہ التین ۹)
۹. انسان زمین پر خدا کا نائب ہے (سورہ بقرہ ۳۰)
۱۰. انسان اللہ کے خزانوں کا اللہ کی طرف سے آمین ہے۔(سورہ حدید ۷)
۱۱.زمین پر جو کچھ ہے وہ انسان کے لیے پیدا کیا گیا ہے. (سورہ بقرہ ۲۹)
۱۲. انسان خدا کی بندگی کے لئے ہے.(سورہ الذرایات ۵۵ تا ۵۷)
۱۳. اللہ کی پیدا کی ہوئی نعمتیں انسان کے استعمال ہی کے لیے ہیں (سورہ اعراف ۳۲)
۱۴.کھانا پینا گناہ نہیں، اسراف گناہ ہے (سورہ اعراف ۳۱)
۱۵. تمام انسان ایک انسان کی نسل ہیں ایک دوسرے پر فضیلت صرف تقوی سے ہو سکتی ہے (سورہ حجرات ۱۳)
۱۶. اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں اس دنیا کے اعمال کی جزا ملے گی اور ذرہ زرہ کا حساب ہوگا.(سورہ زلزال ۷ اور ۸) (سورہ یونس ۴)
۱۷. دنیا کی زندگی بے حقیقت اور فانی ہیں اور آخرت کی زندگی حیات جادوانی ہے. (سورہ عنکبوت ۶۴)
۱۸ اخرت میں انجام نیک لوگوں کا ہے جو اس دنیا میں اپنی برائی اور بگاڑ نہیں چاہتے (سورہ القصص ۸۳)

یہ الہامی تمدن کے بنیادی اصول ہیں جو کہ حسی، عقلی اور اشراقی تمدن سے نہ صرف اجمال میں مختلف ہیں بلکہ تفصیل میں بھی مختلف ہیں۔ جس طرح آم کی گٹھلی اور املی کے بیج میں اختلاف اس طرح اس کے پتیوں اور پھل میں اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف درختوں کے پھلنے پھولنے سے اور پرانا ہونے سے دور نہیں ہوتے۔
ان دونوں تمدنوں میں کوئی بھی جوہری مشابہت نہیں پائی جاتی اگر کہیں محسوس ہو تو اس کا مطلب کہ یا تو آپ سے غلطی ہوئی ہے یا پھر اس تمدن کسی دوسرے تمدن کی پیوند کاری کی گئی ہے۔ الہامی تمدن کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔
مولانا ندوی کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلامی تمدن خالص نہیں رہا اس میں کبھی تو جاہلیت عرب کی پیوندکاری ہوئی ، کبھی یونانی اور ایرانی اشراقیت کی اور کہیں مادہ پرستی کی۔ اس لیے جب اسلامی تمدن کا لفظ جب بولا جائے تو ہمارے ذہن میں دمشق و بغداد ، غرناطہ و قرطابہ ، اصفہان و سمر قند اور لکھنؤ و دہلی آتے ہیں۔ یہ خالص اسلامی تمدن نہیں تھے ان میں بہت سی چیزیں حکمرانوں و امراء کے اسراف اور اسلامی اصولوں کی مخالفت کی یادگار ہیں جیسے کہ مقبروں کی تعمیر کے بارے میں مولانا ندوی نے لکھا ہے یہ اسراف کے زمرے میں آتا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اس طرح الہامی و اسلامی تمدن میں موسیقی کی ترقی اور اس کی سرپرستی ناممکن ہے۔

یہاں پر مولانا ندوی نے ماسوائے خلافت راشدہ کے تیس سالوں کے تمام مسلم دور حکمرانی سے ایک طرح سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اس پر کچھ سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ اس دور میں ہونے والی فتوحات جہاد میں شمار ہوں گی یا نہیں جبکہ قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حدیث میں آئی ہے۔ پھر حدیث میں تین قرون کے خیر ہونے کی خبر ہے۔ ان دور میں مدون ہونے والے اسلامی علوم اور کتب بھی تو اس ہی تمدن کی دین ہیں۔ ٹھیک ہے مولانا ندوی نے مکمل برات کا اظہار نہیں کیا مگر غالب عنصر کو دیکھا جانا چاہیے پھر جب اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی توسیع ہو رہی تھی تو وہاں کے رہنے والوں کی بود و باش اور کلچر میں سے فقط ان ہی چیزوں کو ختم کیا گیا جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف تھیں۔ باقی چیزیں اسی تہذیب میں جذب ہو کر نئی شکل اختیار کرتی رہی۔ اس لیے جہاں انہوں نے مسلم مورخین جو اس تمدن پر فخر کرتے ہیں پر نقد کیا وہاں مولانا ندوی کے اپنے نتائج فکر پر بھی تنقید کی گنجائش موجود ہے۔

مولانا ندوی الہامی تمدن کے خدو خال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انسان جو مانتا ہو کہ حاکمیت فقط اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہ آزاد و خود مختار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کا پابند ہے تو اس کی طرز زندگی اور طرزِ فکر میں انقلابی تبدیلی آتی ہے۔ اس کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اہم محسوس ہوتا ہے۔
یہاں مصنف نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی دور خلافت کے واقعات نقل کیے ہیں جس میں ان کی خدا خوفی اور جواب آخرت کا تصور بہت واضح نظر آتا ہے۔
یہاں پر مولانا ندوی نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے ضرار بن ضمرہ رح کی زبانی وہ حال بیان کیا ہے جو انہوں نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر بیان کیا تھا۔
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میری خلافت و حکومت کی حقیقت کیا ہے بس اتنی کہ تین آدمی سفر میں ہوں ، وہ اپنے میں سے ایک کو اپنا خرچ سپرد کر دیں اور اس کو اپنے کاموں کا منتظم بنا دیں۔
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ عام باورچی خانے کا گرم کیا ہوا پانی استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔
اس تمدن میں اخلاقی اصول اضافی نہیں بلکہ دائمی اور غیر متزلزل ہوتے ہیں۔یہاں شرم و حیا، شرافت و پاکدامنی، تہذیب و اخلاق، وعدے کی پاسداری،سچائی اور امانت ہر حال میں پسندیدہ جبکہ جھوٹ و عہد شکنی، بے حیائی اور فحاشی ہر حال میں ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہیں۔ یہاں کسی کی حمایت و مخالفت کا معیار ذاتی پسند و نا پسند اور قوم و قبیلہ نہیں بلکہ حق و باطل ہوتا ہے۔
اشراقی تمدن کے برخلاف یہاں ترک دنیا اور رہبانیت کی بھی گنجائش نہیں ، خود کشی خواہ بتدریج ہو یا دفعتہً دونوں ہی حرام ہیں ، یہاں مردانگی غار میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنا نہیں زندگی کی کشا کش ، بازاروں کے شور و غوغا اور کاروبار کی مصروفیت کو خدا کو نہ بھولنا جوانمردی ہے۔

آخر میں مولانا ندوی نے لکھا ہے کہ انسان کے پاس اب دو ہی راستے ہیں وہ مادی تمدن کو ترجیح دیتا ہے یا پھر الہامی تمدن کو۔ اگر تو اس کا انتخاب مادی تمدن ہے تو یہ آسان راستہ ہے کیونکہ یہ تمدن دنیا کے بڑے رقبے پر حکمران ہے۔ اس لیے آپ کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیں
اگر آپ کا انتخاب الہامی تمدن ہے تو آپ کو سخت جدوجہد کرنا پڑے گی ، اپنی خواہشات افکار و خیالات کی قربانی دینی ہو گی جو حسی تمدن میں رہنے کی وجہ سے آپ کی زندگی کا جز بن گئی ہیں ۔ آپ کو اپنا پورا نظام تعلیم اور نظام تربیت اس مقصد کے تابع و ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ یہ مشکل اور کٹھن راستہ ہے۔اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ یہ کام بعد والے لوگوں سے لے لے گا ۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی کی یہ کتاب جدیدیت کے مقابل روایتی اسلام کا ایک مقدمہ ہے جس میں بہت صاف گوئی سے جدیدیت اور اس کے ماحصل مادی تمدن سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ جس میں مادی تمدن کی فقط کمزوریاں ہی نہیں اس کی کامیابیوں کا بھی ہے اور اس کو اس کی ترقی و کامیابی کے باوجود اس کے مقابل الہامی تمدن جس میں اس طرح کی مادی ترقی ناممکن ہے کو ترجیح دی گئی ہے۔
یہ کتاب چالیس کی دہائی میں لکھی گئی ہے اب جدید ریاست کا تصور الہامی تمدن کے لیے ایک اور چیلنج ہے کہ اس کے اندر رہ کر کیسے اس کو قائم کیا جا سکتا ہے۔
الہامی تمدن کا کوئی ایک چھوٹا سا معاشرہ ابھی وجود نہیں رکھتا جس کا تقابل کر کے ہم مادی تمدن سے اس کو بہتر ثابت کر سکیں۔ سو یہ جیسے چالیس کی دہائی میں ایک مشکل اور کٹھن کام تھا یہ اب بھی مشکل ہے اور تاحال نامکمل کام ہے۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں