از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
مولانا ضیاء الدین سنامی اور شیخ المشائخ:
یہ بات پہلے سے بتائی جا چکی ہے کہ شیخ المشائخ کی ولادت اگر 636 میں ہوئی ہے، جیسا کہ میر خورد کرمانی نے سیر الاولیاء میں آپ کی عمر کا حساب لگا کر اُس کا تعین کیا ہے، تو مولانا ضیاء الدین سنامی کی پیدائش 640 میں ہوئی ہے۔ عمر میں صرف 4 سال کا فرق ہے، دونوں میں معاصرت ہے۔ تصریح تو کہیں نہیں ملی مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ دونوں درجۂ فضل میں ایک استاد کے شاگرد ہیں۔ دونوں میں کوئی معاصرانہ چشمک نہیں ہے لیکن قاضی ضیاء الدین برنی نے تاریخ فیروز شاہی میں اپنی متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے اور مولانا سنامی کو شیخ المشائخ کا مخالف بنا دیا ہے۔ قاضی برنی لکھتے ہیں: “یہ تنگ نظر (مولانا سنامی) اور بے انصاف شخص شیخ المشائخ نظام الدین کے آستانہ کا، جو لوگوں کے پیشوا ، قطبِ وقت اور اپنے زمانے کے غوث تھے، حسد اور رشک کی وجہ سے مخالف تھا۔ اِس لئے اکثر عوام کے دل اُس سے متنفر ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس پر عذاب اور مصیبتیں نازل ہوئیں۔ آخر کار دنیا سے اس کا نام و نشان مٹ گیا”۔[1]
عذاب اور مصیبت کی برنی نے کوئی تفصیل نہیں بتائی لیکن جہاں تک اِس دعوے کا تعلق ہے کہ عوام کے دل اُن سے متنفر ہو گئے تھےاُ س کی تردید تو خود برنی کی اِس بات سے ہے جو اُس نے مولانا سنامی کے درسِ قرآن کے بارے میں خود بتائی ہے کہ مولانا ضیاء الدین سنامی کے درس و وعظ میں دو دو تین تین ہزار بلکہ اِس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔ [2]
خود انصاف فرمایئے کہ کسی کے درسِ قرآن میں تین ہزار سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی والہانہ اور عقیدت مندانہ شرکت کانام فریفتگی ہے یا اُس سے بیزاری و نفرت؟ شاید ضیاء الدین برنی کی زبان میں اِس کا نام نفرت ہو، ورنہ دنیا تو اُسے عشق و شیفتگی اور محبت ہی کے نام سے پکارتی ہے۔ مؤرخین میں سے کوئی بھی برنی کی ہمنوائی نہیں کرتا۔ مولانا سنامی کی بے ہمتائیوں کا یہ حال تھا کہ جو نظر پڑتی اور جو کان بات سنتا، نگاہ میں سرور اور دل کی حلاوت کے سوا کچھ محسوس نہ کرتا۔ سورج کو کروڑوں آنکھیں دیکھتی ہیں لیکن ہر آنکھ کو روشن نظر آتا ہے، کوئی نہیں کہتا کہ روشن نہیں ہے۔ خوبصورت انسانوں کے بارے میں سب کی رائے متفق ہوتی ہے۔ جو ایک حسین چہرے کو دیکھے گا وہی کہے گا جو سب کی زبانوں پر ہے۔ آنکھوں سے نظر آنےو الی چیزوں میں سب آنکھوں والے ایک حکم اور ایک زبان ہوتے ہیں۔ یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ تین تین چار چار ہزار آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور روزانہ دیکھ رہی ہیں اور سب کو خوبی ہی خوبی نظر آ رہی ہے۔ نظر والے اہلِ علم جتنے تھے اور ارباب بصیرت جس قدر تھے سب کا بالاجماع فیصلہ یہی تھا کہ دیانت و تقوی میں مولانا سنامی کا اپنے زمانہ میں مثیل نہ تھا۔ بے نظیر تقوی اور بے مثال دیانت کا شاہکار تھے۔ شاہ عبد الحق نے شیخ المشائخ کے بارے میں لکھا ہے کہ:در تعظیم ِمولانا دقیقہ فارغی نہ گذاشتے یعنی ” مولانا( سنامی) کی تعظیم وتکریم میں کوئی دقیقہ فرگذاشت نہ کرتے” [3] ۔
خود شیخ المشائخ کا مولانا سنامی کے بارے میں کیا تأ ثر تھا یہ بھی شخ عبد الحق ہی کی زبان سے سنیئے اور پھر اِس ترازو میں قاضی برنی کی بات کو تول کر فیصلہ کیجئے کہ حق کیا اور کدھر ہے؟ اخبار الاخبار میں ہے:
مولانا ضیاء الدین کی مرض ِوفات میں شیخ المشائخ اُن کی عیا دت کے لئے تشریف لے گئے۔ عیادت کے بعد باہر تشریف لائے تو اندر سے آواز آئی کہ مولانا رحلت فرما گئے۔ شیخ المشائخ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: ” شریعت کا حامی ایک ہی مردِ مجاہد تھا افسوس کہ آج وہ بھی نہ رہا”۔[4]
یہاں مجھے پورا واقعہ نہیں بتانا ہے، واقعہ کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ یہاں صرف مولانا سنامی کے بارے میں شیخ المشائخ کے قلبی تأثرات کو بتانا ہے۔ ایک طرف برنی کی متعصبانہ ذہنیت پر مبنی رویے اور دوسری طرف شیخ المشائخ اور شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی شہادت۔ ان خوبانِ عہد کے حسن و جمال کون رد سکتا ہے، وہ یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ مولانا سنامی میں تقوی و دیانت جمالِ بے داغ ہے۔ شیخ المشائخ کی اِس بے لاگ شہادت کو سرسری طور پر پڑھ کر آگے نہ بڑھ جایئے بلکہ غور کیجئے کہ شیخ المشائخ اپنے مخاطبوں کو کیا سمجھا رہے ہیں ؛ یہی نا کہ ضیاء الدین برنی کے پیش کردہ 46 علماء [5]میں بلکہ دہلی کے تمام اساتذہ و فضلا میں صرف اور صرف ایک مولانا ضیاء الدین سنامی ہی کی ذات ِ گرامی ہے جو بدعت کے مقابلے میں حمایتِ سنت اور ساسانی قانون کے مقابلے میں حمایتِ شریعت کا علم اٹھائے ہوئے ہے۔ حامیٔ شریعت ہونے کا اِس کے سوا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ مولانا سنامی نے پوری زندگی درس و تدریس کے ذریعےصرف رد ّبدعات کا ہی کام نہیں کیا بلکہ غلام خاندان کے ساسانی نظریۂ حکومت کے خلاف جہاد میں مشغول رہے۔ التمش، محمود، بلبن اور علاء الدین کے سیاسی نظریات آپ پڑھ چکے ہیں۔ اُسی کے خلاف مولانا سنامی نے زندگی بھر کام کیا۔ یہی اُن کا محبوب مشغلہ اور زندگی کا بڑا مقصد رہا۔ اِسی موضوع پر انہوں نے علمی کام کیا ہے۔
بہرحال یہ ضیاء الدین برنی کی خام خیالی ہے کہ وہ مولانا سنامی کو شیخ المشائخ کا مخالف بتا رہا ہے۔ شرعی مسائل پر روک ٹوک ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نام مخالفت نہیں ہوتا۔ یہ بات تو اب ایک بے غبار حقیقت بن کر سامنے آ گئی ہے کہ شیخ المشائخ مولانا ضیاء الدین سنامی کا کس قدر احترام کرتے تھے۔ تو سرراہِ یہ بھی معلوم کر لیجئے کہ مولانا ضیاء الدین سنامی شیخ المشائخ کے کس قدر عقیدت مند تھے۔ مولانا حامد جمالی سیر العارفین میں لکھتے ہیں:
“مولانا ضیاء الدین سنامی سے منقول ہے کہ علاء الدین خلجی نے ایک دن قرا بیگ کو شیخ المشائخ کی خدمت میں روانہ کیا اور عرض کی کہ بہت عرصہ ہوا کہ میں نے ایک بہت بڑا لشکر اپنے برادر الغ خان کی معیت میں ورنگل کی طرف روانہ کیا۔ اور ورنگل جنوب کی طرف ہے۔ وہاں سے کوئی خط نہیں آیا ہے۔ اس وجہ سے بہت متفکر ہوں اور چاہتا ہوں کہ خود ورنگل کی طرف لشکر لے کر جاؤں اوروہاں کے حالات معلوم کروں۔ اگر حضرتِ شیخ قدم رنجہ فرمائیں اور اپنی شمعٔ جمال سے میرے گھر کو رونق بخشیں تو میں حضور کی رائے کی مطابق عمل کروں۔ سلطان کے دل میں یہ بات تھی کہ اس بہانے حضرت شیخ کو گھر بلائے اور اُن کی ملاقات سے عزت حاصل کرے”[6]۔
واقعہ تو تاریخِ فیروز شاہی میں بھی بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ مجھے یہاں بیانِ واقعہ کی تفصیلات بتانی مقصود نہیں۔ صرف یہ دکھانا ہے کہ مولانا جمالی نے یہ واقعہ مولانا ضیاء الدین سنامی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور مولانا سنامی کا شیخ المشائخ کے بارے میں یہ واقعہ بیان کرنا مولانا سنامی کی گہری عقیدت کا مظہر ہے اور اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ مولانا جمالی کو بھی ضیاء الدین برنی سے شیخ المشائخ کے بارے میں اتفاق نہیں ہے۔ اگر مولانا سنامی کے قلب میں شیخ المشائخ کی محبت اور عقیدت نہ ہوتی اور ویسے ہی مخالف ہوتے جیسے برنی بتا رہا ہے تو وہ واقعہ اِس جوش و خروش سے کبھی بیان کرتے؟ مولانا سنامی کی احتسابی کاروائی میں برنی کو شیخ المشائخ کی مخالفت نظر آ رہی ہے اور شیخ المشائخ کو اس احتسابی عمل میں اپنی مخالفت نہیں بلکہ شریعت اور اللہ کے دین کی حمایت محسوس ہو رہی ہے۔
یہ بات کہ شیخ المشائخ کے مولانا سنامی مخالف ہیں قاضی ضیاء الدین برنی کی اپنی ہی تراشیدہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے:
“یہ تنگ نظر اور بے انصاف شخص شیخ الاسلام نظام الدین کے آستانے کاحسد و شک کی وجہ سے مخالف تھا”۔
حالانکہ صورت حال یہ نہیں ہے۔ بے شک مولانا ضیاء الدین سنامی کی احتسابی گرفت کا نشانہ شیخ المشائخ بھی تھے۔ مگر خود شیخ المشائخ مولانا سنامی کی احتسابی گرفت سے نالاں نہ تھے بلکہ اِس گرفت کو شریعت اور قانون کا تقاضا سمجھتے تھے۔ شیخ ِمحدّث نے اخبار الاخبار میں لکھا ہے:
“جب مولانا سنامی مرض ِوفات میں مبتلا ہوئے تو شیخ المشائخ اُن کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ مولانا سنامی کو جب معلوم ہوا تو اپنی دستار شیخ المشائخ کے لئے راستہ میں بچھا دی۔ شیخ المشائخ نے مولانا سنامی کی دستار زمین سے اٹھا کر آنکھوں سے لگا لی۔ جب شیخ المشائخ گھر میں تشریف لے گئے تو مولانا سنامی نے شرم کے مارے آنکھیں نہیں ملائیں۔ شیخ المشائخ اٹھ کر باہر آئے تو شور مچ گیا کہ مولانا اللہ کو پیارے ہو گئے۔ شیخ المشائخ روتے جاتے اور فرما تے جاتے :” یک ذات بود حامی شریعت ، حیف کہ آن نیز نماند”۔
ترجمہ: “ایک ہی ذات گرامی شریعت کی حمایت کرنے والی تھی، افسوس کہ وہ بھی نہ رہی”[7]۔
علماء اور مشائخ میں اختلاف کے باجود دونوں کی لگاوٹ کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ مگر ضیاء الدین برنی کو اصرار ہے کہ وہ تو شیخ المشائخ کے مخالف تھے۔ بیچارے ضیاء الدین برنی کو کون سمجھائے کہ غیر شرعی اعمال پر نکیر شیخ المشائخ کی مخالفت نہیں بلکہ اللہ کے دین کی وہ حمایت ہے جس کا اعزاز خود شیخ المشائخ کر رہے ہیں اور جس کی طرف محدث دہلوی نے لفظ نکیر منکر سے اشارہ کیا ہے۔ محدث دہلوی نے ضیا نخشبی کے تذکرے میں یہ لطیفہ لکھا ہے:
“شیخ المشائخ کے زمانے میں تین ضیاء تھے۔ ایک ضیاء سنامی جو شیخ کےمنکر تھے۔ دوسرے ضیاء برنی جو معتقد اور مرید تھے، تیسرے ضیا نخشبی جو منکر تھے نہ مرید[8]“۔
منکر کا مطلب یہی ہے کہ غیر شرعی اعمال اور بدعات پر نکیر کرتے تھے اور اُن خانقاہی رسوم کا احتساب کرتے تھے جن کی اللہ کے دین میں کوئی سند نہیں ہے۔ اور یہی اللہ کے دین کی وہ حمایت ہے جس کا شیخ المشائخ نے علی رؤوس الاشہاد اعلان کیا ہے۔ یہ شیخ المشائخ کی مخالفت نہیں بلکہ مقامِ عزیمت ہے اور عمل کا وہ درجہ ہے جو قرآن میں افتاء سے برتر ہے۔ اس میں کام کرنے والا صرف وصول پر قانع نہیں ہوتا بلکہ وہ اعلانِ حق میں سب سے آگے نکل جانا چاہتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جو صالحین سے آگے شہدا کا ہے۔
غور فرمائیے کہ شیخ المشائخ یہ کیوں فرما رہے ہیں کہ : “یک ذات بود حامی شریعت ، حیف آن نیز نماند”۔
مطلب یہی ہے کہ علاء الدین کے زمانے میں جس قدر علما ء تھے ، اور اُس عہد کی علمی تاریخ کا یہ امتیازی نشان ہے کہ اُس میں جس پایہ کے علماء دہلی اور اُس کے اطراف میں موجود تھے اُس کی مثال بعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مولانا نور الحق لکھتے ہیں:
“اہل فضل اور دل کے گروہ جتنے اس عہد میں جمع ہو گئے تھے کسی عہد میں نہیں ہوئے تھے اور نہ آئندہ توقع ہے” [9]۔
ضیاء الدین برنی کا بیان ہے کہ اِن علماء میں سے ہر ایک علامۂ وقت تھا اور اپنے فن کا ایسا امام سمجھا جاتا تھا کہ اس وقت کی اسلامی دنیا یعنی بخارا، سمرقند، بغداد، مصر، خوارزم، دمشق، تبریز، اصفہان، رے اور روم میں بھی اس کا ثانی نہیں مل سکتا تھا۔ علم کا کوئی شعبہ ہو، منقولات و معقولات کا کوئی گوشہ ہو، تفسیر ہو یا فقہ اور اصول ِفقہ، اصولِ دین ہو یا لغت کلام ہو یا منطق، ہر فن میں کامل دستگاہ رکھنے والے یہاں مولانا تھے۔ بعض علما تو امام غزالی اور امام رازی کی ذہانت اور تبحر کے مالک تھے۔ فقہ کے ایسے ایسے ماہرین موجود تھے کہ ابو یوسف اور محمد شیبانی کا رتبہ ان کو حاصل تھا۔ برنی نے ان علما میں سے کچھ کے نام بھی لکھے ہیں۔ علما کی اس پُر ہجوم نگری یعنی دہلی میں شیخ المشائخ کا یہ کہنا کہ شریعت کی حمایت کرنےو الی ایک ہی ذات تھی، افسوس وہ بھی نہ رہی، بڑا معنی خیز ہے۔ یعنی اُن میں سے کوئی بھی مرد ِمیدان نہ تھا جو رسوم و بدعات کے خلاف آواز بلند کرتا۔ کوئی بھی منکرات پر نکیر کرنے والا نہ تھا۔ کوئی بھی سرکار کو چنگیزی قوانین سے ہٹا کر شریعتِ محمدی کی حمایت کرنے والا نہ تھا۔ سب اصحابِ رخصت تھے۔ عزیمت اور دعوت کے میدان میں قائم علی الحق صرف ایک ذات تھی، وہ بھی افسوس اللہ کو پیاری ہو گئی۔ یہ اُن ہی کا کام تھا کہ نبوت، شریعت کو جس حال اور جس شکل میں بھی چھوڑ کر گئی ہے اُس کی حفاظت کرے اور اُس میں فرق نہ آنے دے۔ اُس دور میں شیخ المشائخ کی نگاہ میں صرف مولانا سنامی کی ذاتِ گرامی حمایت ِشریعت کی علمبردار تھی۔ اور بقول مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ:
كان شديد النكير على أهل البدع. [10]
صرف یہی نہیں لکھا بلکہ لکھا ہے کہ اِس معاملے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ کسی سے نہ ڈرتے تھے اور نہ کسی ملامت گر کی ملامت کا اُن کو کوئی خوف ہوتا تھا۔
یہ کسی مؤرخ یا مولوی کی نہیں بلکہ شیخ المشائخ کی شہادت ہے اور بیان کرنےو الے شاہ عبد الحق محدث ہیں کہ علماء، اساتذہ اور مشائخ کی موجودگی میں جب کہ سب درس و تعلیم اور اشغال و اذکار میں لگے ہوئے ہیں، صرف مولانا سنامی کی ایک ذات اپنے مواعظ کے ذریعے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ننگی تلوار بن کر اللہ کے دین کی نگرانی کر رہی ہے۔ بلا شبہ خانقاہوں میں مجاہدات و ریاضتوں کے حلقے قائم ہیں اور مساجد میں تلاوت ِقرآن اور وظائف کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ مدارس میں تعلیمی حلقے پورے جوبن پر ہیں لیکن شریعت کی حمایت میں اگر کوئی شاہراہ عام پر ڈنکے کی چوٹ پر اعلانِ حق کر رہا ہے تو وہ صرف مولانا ضیاء الدین سنامی ہیں۔ شیخ المشائخ نے اِس ایک فقرے میں مولانا سنامی کی ساری زندگی کا لبِ لباب اور عطر نکال کر پیش کر دیا ہے۔ اور یہ صرف مولانا سنامی کا چہرہ نہیں بلکہ اُس دور کے سارے مشائخ، سارے علماء، سارے واعظین اور سارے امراء کا چہرہ ہے۔ گویا یہ تصویر کا ایک رخ نہیں بلکہ دونوں رخ ہیں۔
یہ تھے مولانا سنامی جن کو ضیاء الدین برنی نے شیخ المشائخ کا مخالف بنا کر تاریخ فیروز شاہی میں پیش کیا ہے۔
[1] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ،ص:356
[2] ۔ مرجعٔ سابق ۔
[3] ۔ اخبار الاخیار ، شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ ، ترجمہ ،مولانا سبحان محمود اور مولانا محمد فاضل، محولہ بالا، ص: 239
[4] ۔ مرجعٔ سابق۔
[5]۔ دیکھئے مرجعِ سابق ص: 352- 354
[6]۔ سیر العارفین حامد بن فضل اللہ جمالی ، ُردو ترجمہ، ایوب قادری مرکزی، اُردو بورڈ، لاہور 1976، ص: 105
[7]۔ اخبار الاخیار ، محولہ بالا، ص: 239
[8] ۔ خبار الاخیار ، محولہ بالا، ص: 230
[9]۔ تصوف وصوفیہ اور ہندوستان میں اُن کی برکات، مولانا نور الحق، کتب خانہ الفرقان، لکھنوء، تاریخِ اشاعت نہ دارد، ص: 77۔
[10] ۔ نزہۃ الخواطر، مولانا عبد الحی، محولہ بالا ج2، ص: 182
کمنت کیجے