شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری بدایونیؒ نے حدیث افتراق امت جس میں سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر دی کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی جن میں ایک فرقہ ناجی اور باقی ناری ہوں گے کا تحقیقی جائزہ لیا ہے جس کو دارالاسلام لاہور نے شائع کیا ہے۔
یہ حدیث صحاح ستہ کی تین کتابوں جامع ترمذی ،سنن ابو داؤد اور سنن ابن ماجہ میں موجود ہے اس کے ساتھ امام احمد حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں بھی اس کو درج کیا ہے یہ حدیث 18 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے
حدیث میں یہ آیا ہے کہ
“سارے فرقے جہنمی ہوں گے سوائے ایک فرقے”
شیخ اسید الحقؒ کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جز مختلف الفاظ سے آیا ہے مگر سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ کچھ علماء نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے جن میں ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی اور ڈاکٹر محمد عمارہ شامل ہیں مگر ان کے اعتراضات انتہائی کمزور ہیں اور ایسی بے وزن دلیلوں سے حدیث کی صحت مشکوک قرار نہیں دی جا سکتی۔
مصنف بتاتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں امت ایک سے زیادہ معنی میں استعمال ہوا ہے بنیادی طور پر امت کو ہم امت اجابت اور امت دعوت میں تقسیم کرتے ہیں۔
امت اجابت سے مراد اہل ایمان جبکہ امت دعوت سے مراد باقی تمام انسان ہیں جنہوں نے سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لایا۔
اب مذکورہ حدیث میں افتراق امت کی جو خبر ہے وہ امت اجابت سے ہے یا دعوت؟
اس حوالے سے علماء کی مختلف آراء ہیں،مصر کے محدث علامہ شیخ محمد ابرہیم الحسنی الکتانی اور جامعہ الازہر کے اصول الدین کلیہ کے استاد ڈاکٹر محمد المسیر نے امت سے مراد امت دعوت لیا ہے۔یہ دونوں حضرات شیخ اسید الحق رح کے استاد ہیں۔جبکہ ان کے برعکس کئی اور جید علماء جن میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالحئی لکھنؤی رحمہ اللہ نے امت اجابت مراد ہے۔خود مصنف نے بھی امت اجابت والی رائے کو راجح قرار دیا ہے۔
حدیث میں مذکور۷۳ کے عدد کے بارے میں بھی علماء کی آراء مختلف ہیں،کسی نے اس سے مراد فرقوں کی اصولی تقسیم لی ہے پھر ان کے تحت فرعی،مصنف نے اس حوالے سے ایک دلچسپ بات نقل کی ہے کہ شیعہ عالم میر باقر نے صرف اہل تشیع کے 73 فرقے تسلیم کیے ہیں،اور ان میں سے فرقہ امامیہ کو ناجی فرقہ قرار دیا ہے۔جبکہ اہل سنت اور معتزلہ وغیرہ کو وہ ان کو امت دعوت میں شمار کرتے ہیں ناکہ امت اجابت میں۔
اس عدد کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بعینہ ۷۳ مراد لینا نہیں بلکہ مبالغہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے زیر بحث حدیث کی ایک عجیب وغریب تاویل کی اس نے کہا کہ اس حدیث میں اسلام کو ۷۳ فضائل اور خوبیوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جبکہ یہود میں ۷۱ اور نصاریٰ میں ۷۲ فضائل کا ذکر ہے۔اس نے محدثین کو تنگ نظر کہا اور یہ بھی کہا کہ ان کا فہم اعلیٰ ظرفی اور وسیع النظری کے سخت خلاف ہے۔گولڈ زیہر کی کتاب کا جواب مصر کے ایک اور بہت بڑے عالم شیخ محمد الغزالی نے دیا مگر مصنف لکھتے ہیں ان کی بحث اور بھی زیادہ عجیب و غریب ہے تاہم اس حوالے سے مصنف نے کوئی تفصیل نہیں لکھی۔
افتراق امت کے حوالے سے ایک حدیث اور ہے جو کے اس مشہور حدیث کے خلاف ہے۔اس حدیث کے مطابق صرف ایک فرقہ دوزخی ہوگا اور باقی سب جنتی ہوں گے یہ روایت حافظ دیلمی رح کی کتاب مسند الفردوس میں موجود ہے۔مصنف نے اس روایت کی اسنادی حیثیت کا جائزہ لیا ہے اور اس کے ایک روای یاسین الزیات پر ائمہ فن نے جرح کی اور اس کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی ،ملا علی قاری ،امام سیوطی ،قاضی شوکانی اور امام ابوالحسن علی بن محمد بن عراق الکنانی رحمہم اللہ جیسے علماء و محدثین نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ کسی کی دوزخی ہونے کے دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔
١۔ خلود فی النار یعنی کے داٸمی جہنم میں
٢۔کسی کو دوزخ میں ڈالا جاٸے،اس کے گناہوں کی سزا کے بعد شفاعت یا پھر رب کریم کے فضل سے اسے دوزخ سے نکال دیا۔اس کو دخول فی النار کہا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیر بحث حدیث میں دوزخی سے مراد کون سی صورت ہے؟
اس پر مصنف لکھتے ہیں
“بعض غیر محتاط اور متشدد لوگوں نے یہاں “خلود فی النار” مراد لے کر فرقوں کی تکفیر کے دائرے کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے اکابر علمائے اہلسنت نے محتاط موقف اختیار کرتے ہوئے یہاں صرف “دخول فی النار” مراد لیا ہے ان کے نزدیک یہ ۷۲ فرقے ضال و مضل ہونگے کافر نہیں ہوں گے اور بہ ہر حال ان کو امت اسلامیہ کا حصہ سمجھا جائے گا”
مصنف نے اپنے موقف کے حق میں امام غزالی ، امام ابوالحسن اشعری ،امام ابو المظفر اسفرائنی ،امام بیہقی ،شیخ عبدالحق محدث دہلوی ، شیخ مجدد الف ثانی ،محقق دوانی ،شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، مولانا عبدالحئی لکھنؤی ،شیخ الاسلام انوار اللّٰہ فاروقی رحمہم اللہ اور مولانا مدنی میاں کھچوچھوی کی عبارات کا سہارا لیا ہے۔ایسے ہی مشہور عالم شیخ ابن تیمیہ نے بھی ان ۷۲ فرقوں کو کافر کہنے میں احتیاط کی ہے۔اور حدیث کے الفاظ میں بھی ان کو امت مسلمہ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے بعد اہل قبلہ کی تکفیر کے مسئلے پر مصنف نے لکھا ہے کہ یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے اور تکفیر کا حکم کرنے کے لئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین پر متفق ہوں اس کے آگے امام غزالی کے حوالے سے مصنف نے مزید تصریح کردی ہے کہ اصول ایمان تین عقائد ہیں۔ عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت۔
مصنف نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے علماء کا طریقہ کار یہ ہے حتی الامکان کسی بھی قول کی تاویل کی جائے تاکہ تکفیر سے زبان روکی جائے۔
آخر میں مصنف نے ایک دفعہ پھر اپنے موقف کو دہرایا ہے کہ ان کے نزدیک فرقہ ناجیہ کے مقابل باقی ۷۲ فرقے اہل بدعت میں شمار ہوتے ہیں ان کو ہم گمراہ اور فاسق تو کہہ سکتے ہیں مگر ان کے لیے کفر کا قول نہیں کریں گے اور وہ دخول فی النار کے مستحق ہو گے۔
ایک شبہ جو یہاں پیدا ہوسکتا ہے اس کا بھی مصنف نے ازالہ کردیا کہ کچھ فرقے جن کو ملت اسلامیہ نے بالاجماع اسلام سے خارج قرار دیا ہے کیا وہ ان ۷۲ فرقوں میں شمار ہونگے جیسا کہ ماضی میں سبائیہ جوکہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا قائل تھا اور دور حاضر میں قادیانی فرقہ جو کہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے۔تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ فرقے ان ۷۲ فرقوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اہل کفر میں شمار ہوں گے اور اپنے کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے۔
مصنف نے شیخ فضل رسول بدایونی رحمہ اللہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ مبتدعین کی تین قسمیں ہیں
اول جس کی گمراہی حد کفر کو پہنچ گئی ہو۔اس کا حکم ویسا ہی ہوگا جیسا کہ باقی کافروں کا ہے
دوم جس کی گمراہی حد کفر کو نہ پہنچی ہو مگر وہ لوگوں کو اپنی بدعت کی طرف بلاتا ہو۔ایسے لوگوں سے عوام کو منتفر کیا جائے گا اور ان سے بغض و عداوت کا اظہار کیا جائے گا۔ان سے سرعام سلام کرنا بھی منع ہے لیکن تنہائی میں بغرض اصلاح سلام کا جواب دیا جائے گا۔اگر گمان ہوکہ تنہائی میں بھی زجر و توبیخ معاون ہوگی تو وہ اختیار کی جائے گی۔
سوم وہ مبتدع جو دعوت و تبلیغ کی طاقت و صلاحیت نہ رکھتا ہو اس کے ساتھ سختی کی بجائے لطف و محبت والا رویہ کیا جائے گا اور راہ حق کی تلقین کی جائے گی اور نہ ماننے کی صورت اعراض کیا جائے گا۔
معلوم ہوا کہ کچھ اہل علم حضرات نے شیخ اسید الحق رح کی اس تشریح سے اختلاف کرتے ہوٸے ”خلود فی النار“ کا قول کیا ہے۔ان کے دلاٸل کا مطالعہ چونکہ میں نہیں کر سکا۔اس لیے کوٸی حتمی راٸے دینے سے پہلے شیخ اسید الحق رح کی وضاحت سے اختلاف مشکل نظر آ رہا ہے اور پھر جب شیخ اسید الحق رح کی تحقیق کو کٸی جلیل القدر علمإ کی تحقیقات کا سہارا ہے تو اطمینان قلب کا کافی سامان ہے۔
اللہ تعالیٰ مصنف کی کاوش قبول کرے اور ان کی مرقد پر اپنی انوار کا ظہور فرمائے۔۔ آمین
کمنت کیجے