Home » سنت عملیہ اور اخبار آحاد کا فرق
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث کلام

سنت عملیہ اور اخبار آحاد کا فرق

اخبار آحاد کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے حوالے سے جناب مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ خبر واحد اور سنت میں اس بنیاد پر فرق کرنا درست نہیں کہ خبرِ واحد کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا ، جبکہ سنت عملیہ کے ابلاغ کا اہتمام کیا گیا ہے، کیونکہ ’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو کام ہوتے تھے، ان میں کس کو تواترِ عملی کے ساتھ جاری رکھنا ہے اور کسے نہیں رکھنا، یہ عموماً خود نبی کریم ﷺ نے طے نہیں فرمایا۔ کبھی کبھا ر ایسا ہوا کہ آپ نے یہ طے فرمادیا کہ اسے سنتِ رائجہ بنانا ہے یا نہیں۔ مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ خود تعیین فرمادیتے کہ میرے زمانے میں جو طریقہ چل رہا ہے اسے سنتِ جاریہ بنانا ہے یا نہیں۔ “
سوال میں ’’سنت عملیہ“ سے مراد وہ تمام اعمال لیے گئے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں انجام دیے، تاہم غامدی صاحب کی اصطلاح کے مطابق ’’سنت “ کا مفہوم یہ نہیں ہے۔ دونوں اصطلاحوں کا فرق پیش نظر ہو تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ سوال میں جن اعمال کو’’سنت عملیہ“ کہا گیا ہے، یہ معلوم ہے کہ ان کو آگے نقل کرنا یا نہ کرنا کلیتاً‌ امت پر منحصر نہیں چھوڑا گیا تھا، بلکہ بہت بڑے حصے کی تعلیم وتلقین اور ترویج اس انداز سے کی گئی تھی (اور بہت سی چیزوں کی اہمیت کے متعلق زبانی تصریحات بھی کی گئیں) کہ امت نے اس کو دینی ذمہ داری سمجھ کر تواتر سے آگے نقل کیا۔ مثلاً‌ نماز کی رکعات یا اذان کے کلمات یا عید کے موقع پر اذان واقامت نہ کہنا وغیرہ، یہ سب اتفاقاً‌ یا محض تکوینی طور پر یا امت کی اجتہادی صواب دید سے بالتواتر نقل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے نقل کو شارع کی منشا سمجھ کر انھیں نقل کیا گیا۔
یہ نکتہ اگر واضح ہو جائے تو غامدی صاحب کا نقطہ نظر بھی بڑی حد تک قابل فہم ہو جائے گا۔ وہ ’’سنت “ کی اصطلاح میں صرف انھی اعمال کو شامل کرتے ہیں جن کے متعلق خود شارع کی منشا یہی تھی کہ ان کو امت اجتماعی طور پر آگے بھی نقل کرے، چاہے یہ منشا مختلف تاکیدات سے واضح کی گئی ہو یا مختلف دیگر قرائن ودلائل سے یہ منشا امت کے اجتماعی فہم کا حصہ بنائی گئی ہو۔
اس کے علاوہ وہ تمام اعمال جنھیں شارع نے امت کے اجتماعی عمل کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ وہ اتفاقاً‌ یا تکوینی طور پر یا صحابہ کی اپنی جستجو اور جذبے کی وجہ سے عمومی عمل کا حصہ بن گئے، وہ غامدی صاحب کی اصطلاح کے مطابق ’’سنت “ میں شامل نہیں ہیں، اگرچہ ان کے شیوع یا رواج پر انھیں فی نفسہ کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ مثلاً‌ باجماعت قیام رمضان شارع کی اپنی منشا نہیں تھی، لیکن صحابہ کے اجتہاد سے اس نے یہ صورت اختیار کر لی۔ غامدی صاحب ایسے تمام امور کو ’’اسوہ حسنہ“ میں شمار کرتے ہیں۔
دونوں کیٹگریز میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ’’سنت’’ کی عمومی تبلیغ وترویج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرض منصبی تھا اور اس سطح پر اس کے ابلاغ کے بغیر آپ ’’بلغ ما انزل الیک من ربک“ کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی طرح جب ’’سنت “ کی اس حیثیت میں امت نے آپ سے تلقی کی تو امت بھی پابند تھی کہ اسے اسی حیثیت سے آگے منتقل کرے۔ یہ امت کی صواب دید پر منحصر نہیں تھا۔
اس کے برخلاف ’’اسوہ حسنہ’’ کے تحت آنے والے اعمال کی تبلیغ واشاعت نہ حضور کی ذمہ داری تھی اور نہ امت پابند تھی کہ ان سب کو محفوظ کر کے آگے منتقل کرے۔ اس دائرے میں تکوینی عمل یا امت کی صواب دید یا ترجیح وغیرہ کے عوامل بالکل اہم ہیں اور ایسے کئی امور ان عوامل کے تحت عام تعامل کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ تاہم شارع کے نقطہ نظر سے وہ تعامل وشیوع کی بنیاد پر ’’اسوہ حسنہ“ کے زمرے سے نکل کر ’’سنت “ کے زمرے میں شامل نہیں ہو جاتے۔
اس دوسرے دائرے کی چیزوں کو غامدی صاحب ایک مفہوم میں ’’دین “ میں شامل کرتے ہیں اور ایک مفہوم میں نہیں کرتے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ دین صرف قرآن اور سنت میں منحصر ہے تو مراد یہ ہے کہ دین کا وہ حصہ جس کی ترویج واشاعت حضور کی ذمہ داری تھی، وہ صرف قرآن اور سنت میں ہے۔ اخبار آحاد اس دین کا حصہ نہیں تھے، اس لیے ان کی ترویج واشاعت بھی نہیں کی گئی۔ تاہم اس مفہوم میں وہ اخبار آحاد سے ثابت اسوہ حسنہ کو بھی دین میں شمار کرتے ہیں کہ یہ سنت متواترہ کی اساس پر قائم ہیں اور اسی کی تشریح وتفصیل یا تفریع کے ضمن میں اللہ کے نبی کے فہم یا عمل کو بیان کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے ان کو دین کے وسیع تر مفہوم سے خارج نہیں کیا جا سکتا اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ جس تک یہ قابل اطمینان ذریعے سے پہنچ جائیں، وہ دانستہ ان کو نظرانداز کر سکتا ہے۔
دراصل ذخیرہ حدیث کی دینی نوعیت اور اہمیت سے متعلق جدید دور میں تین چار نمایاں رجحانات ہیں:
پہلا یہ کہ اس میں بیان ہونے والے احکام وتشریحات “یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک” کا لازمی حصہ ہیں اور یہ ذخیرہ اگر ہمارے پاس نہ ہوتا تو گویا دین نامکمل حالت میں ہوتا۔ اصلاً‌ یہ ابن حزمؒ کا نقطہ نظر ہے جسے علمائے اہل حدیث نے اختیار کیا ہے۔ البتہ جدید دور کے احناف کے عمومی بیانیے سے بھی یہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔
دوسرا یہ کہ دین کی اساسی تعلیمات اور احکام تو قرآن اور متواتر سنت میں محفوظ ہیں، لیکن دین کی تفصیلی نقشہ گری میں احادیث کا بہت اہم کردار ہے، اس لیے اس ذخیرے کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موقف کسی قدر فرق کے ساتھ مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کی تحریروں میں نمایاں ہے۔
تیسرا یہ کہ اخبار آحاد “ما انزل اللہ” کا حصہ نہیں، چنانچہ اس ذخیرے کی کوئی بنیادی دینی اہمیت نہیں اور اس کی جمع وتدوین کی تاریخ بھی مشکوک ہے۔ اس لیے دینی علم وتحقیق میں اس کی طرف رجوع یا استفادہ سے گریز ہی بہتر ہے۔ یہ موقف عموماً‌ اہل قرآن نے اختیار کیا ہے۔ ماڈرنسٹ اہل فکر میں سے اقبال اور فضل الرحمن کے ہاں بھی یہی رجحان ہے۔
ان میں سے دوسرے موقف میں اس بنیادی نکتے کے حوالے سے ایک طرح کا اغماض پایا جاتا ہے کہ اپنی دینی اہمیت کے باوجود کیا اخبار آحاد اس “ما انزل اللہ” میں شامل ہیں جس کا ابلاغ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی تھا؟ یعنی اگر یہ ذخیرہ محفوظ نہ کیا جاتا تو کیا رسول اللہ کا دین امت کے پاس ناقص حالت میں موجود ہوتا؟ غامدی صاحب نے دراصل اس اغماض کو دور کرتے ہوئے اس تصریح کو موقف میں شامل کر دیا ہے کہ اخبار آحاد کا ابلاغ حضور کی ذمہ داری نہیں تھی اور جس دین کو آپ امت تک پہنچانے کے مکلف تھے، اس کا کوئی حصہ بھی خبر واحد پر منحصر نہیں۔
اسی پہلو سے، غامدی صاحب ایک پہلو سے اخبار آحاد میں دین پائے جانے کی نفی کرتے ہیں، یعنی وہ دین جس کا ابلاغ پیغمبر پر لازم تھا، اور دوسرے پہلو سے اخبار آحاد کو دین میں شامل کرتے ہیں، یعنی دین کی وہ شرح وتوضیح جو اللہ کے رسول نے کی اور جس کا درجہ اور حیثیت کسی عام فقیہ اور عالم کی بات کی نہیں ہے کہ اس کی صحت پر اطمینان ہو جانے کے بعد اسے نظر انداز کیا جا سکے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں