الہیات سے متعلق علم کلام کے منہج پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کیا وجود باری پر ایسی قطعی دلیل پیش کی جاسکتی ہے جس میں شک و شبہے کی سرے سے کوئی گنجائش نہ ہو؟ اگر نہیں تو یہ علم گویا مفید مقصد نہیں۔ یہ اشکال بعض اہل مذہب کی جانب سے بھی دھرایا جاتا ہے۔
تبصرہ
ہم کہتے ہیں کہ اگر اس سے مراد کوئی ایسی دلیل ہے جس سے انکار کا کسی کو بایں معنی یارانہ نہ ہو کہ اس دلیل کے بعد اسے رد کرنے کا امکان و اختیار انسان کے پاس ختم ہوجائے تو ایسی دلیل ممکن نہیں کیونکہ اس دنیا میں انسان کے پاس اختیار ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ لیکن اگر انسانی علم و عمل کی بنیاد یہی معیار ہے تو شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جس پر شک کرنے والوں نے کوئی شک نہ ظاہر کردیا ہو، یہاں تک کہ لوگوں نے خود اپنے ہونے پر بھی فلسفیانہ انداز میں شکوک و شبہات پیش کردئیے۔ سائنس کا پورا ڈسکورس پرابلم آف انڈکشن کی بنا پر ظنی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان سب دائروں میں عقل و استدلال کا راستہ بند کردے؟ تو جس نے اپنے قلبی حال کی بنا پر حقیقت کا انکار کرنا ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ انکار کرنے والوں نے انبیاء کے معجزے دیکھ کر بھی انکار کیا۔
بات یہ ہے کہ کسی معلوم سے متعلق اپنے علم و ادراک کی سچائی کے حوالے سے انسان خود کو مختلف درجات پر پاتا ہے۔ اصل بات اس ادراک کا سو فیصد یا پچانوے فیصد وغیرہ قطعی ہونا نہیں ہے کہ قطعیت کو ماپا نہیں جاسکتا بلکہ وہ احکام ہیں جو آپ اس ادراک کے ساتھ دنیاوی معاملات میں جاری کرتے ہیں۔ متکلمین و اصولیین نے اس پر اجتہاد کے ابواب میں منظم طور پر بحث کی ہے۔ ان احکام کے اعتبار سے انہیں درج ذیل درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ حصر یوں ہے:
معلوم سے متعلق ادراک یا (الف) بدیہی ہوگا اور (ب) یا نظری
الف) بدیہی ہو تو اس کا انکار کرنے والا مکابر کہلاتا ہے۔ اس کی مثال بدیہی نوعیت کے حقائق ہیں جیسے کہ وجودکا تصور، جمع بین النقیضین محال ہونا، حادث کے لئے محدث کا لزوم وغیرہ۔ ان حقائق کے بارے میں کسی وقت عدم توجہ کہ بنا پر سہو کا امکان اگرچہ موجود ہوتا ہے تاہم توجہ دلانے پر وہ زائل ہوجاتا ہےاور اس کے لئے لمبے چوڑے استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر توجہ دلانے کے باوجود بھی مخالف بات نہ مانے تو عند اللہ رعایت کا مستحق نہ ہوگا
ب) اگر نظری ہو تو دو میں سے کسی ایک حال پر ہوگا، متعلقہ دلیل قطعی ہوگی یا ظنی
• اگر قطعی تو وہ دو حال پر ہوگی:
– انکار کرنے والا ایسا گنہگار کہلائے کہ ابدی عذاب کے خطرے سے دوچار ہو۔ اس کی مثال ذات باری کا وجود اور نبوت محمدیﷺ کے دلائل ہیں (یہ معاملہ تکفیر کے باب سے متعلق ہے)
– یا ایسا فاسق کہ وقتی عذاب کے خطرے سے دوچار ہو، اسکی مثال ذات باری کے دیدار کے امکان کا انکار کرنا ہے
• اگر دلیل ظنی ہو تو دو امکانی باتیں ہوسکتی ہیں:
– ان معاملات میں صرف ایک ہی رائے عند اللہ درست ہو اور اس لئے صرف ایک ہی مجتہد مصیب ہو اور اس سے اختلاف کرنے والا غلطی پر ہو لیکن وہ عند اللہ گنہگار نہ ہو بلکہ بوجہ اجتہاد ایک اجر کا مستحق ہو
– اس معاملے میں عند اللہ حق متعین نہ ہو اور اس لئے عند اللہ دونوں آراء رکھنے والے مصیب و ماجور (یعنی اجر کے مستحق) ہوں
تقریباً تمام فقہی اختلافات ظنی دلائل کے تحت آتے ہیں۔
چنانچہ اصولیین یوں بحث کرتے ہیں کہ اختلاف کرنے والا یا آثم (گنہگار) ہوگا یا نہیں ہوگا؛ آثم ہے تو یا ابدی جہنم کے خطرے سے دوچار ہوگا یا نہیں ہوگا، اگر گنہگار نہیں تو یا مصیب ہوگا یا نہیں ہوگا؛ اگر غیر مصیب ہے تو ماجور ہوگا یا نہیں۔
یہ وہ احکام ہیں جو ہم اس دنیوی زندگی کے اعتبار سے جاری کرتے ہیں اور اسی کے مطابق قانونی معاملات کرتے ہیں۔ رہا روز آخرت میں معاملہ تو وہ اللہ جانے اور اس کا کام کہ آیا کسی شخص کے پاس واقعی کوئی ایسا قابل لحاظ عذر تھا یا نہیں کہ وہ رعایت کا مستحق ہو۔ چنانچہ سائل کو چاہئے کہ وہ “سو فیصد قطعی” جیسی باتیں کرنے کے بجائے یہ بتانے پر توجہ کرے کہ اپنے اعتبار سے وہ منکر باری تعالی پر کیا حکم جاری کرتے ہیں؟ ہمارے نزدیک ذات باری کے وجود پر دلائل قطعی نوعیت کے ہیں، اگرچہ ان دلائل کے نظری نوعیت کے ہونے کی بنا پر کسی کو شبہ لاحق ہوسکتا ہے۔
کمنت کیجے