کانٹ کے بارے میں بعض اہل مذہب کی جانب سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ بتایا کہ عقل سے ذات باری کا علم و ادراک ممکن نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” جانے نہ جاسکنے” سے کیا مراد ہے؟
اگر مطلب یہ ہے کہ عقل سے ذات باری سے متعلق “ما ھی” (یعنی ماہیت) نیز “کیف” (یعنی جنس، کیفیت و صورت) وغیرہ کا ادراک ممکن نہیں تو یہ بات متکلمین کو بالکل صراحت و وضاحت کے ساتھ معلوم تھی جس پر امام رازی (م 606ھ ) کی تحریر سے ہم نے ایک شہادت پیش کی تھی۔ اس حوالے سے یہاں قاضی باقلانی (م 403 ھ / 1013ء) رحمہ اللہ کی عبارت بھی ملاحظہ کیجئے۔ سائل پوچھتا ہے:
فَإِن قَالَ قَائِل فخبرونا عَن الله سُبْحَانَهُ مَا هُوَ (اگر کوئی کہے ہمیں بتائیں کہ اللہ کی ماہیت کیا ہے؟)
قيل لَهُ إِن أردْت بِقَوْلِك مَا هُوَ مَا جنسه فَلَيْسَ هُوَ بِذِي جنس لما وصفناه قبل هَذَا (اسے کہا جائے گا اگر ” ماھو” سے تمہاری مراد اس کی جنس ہے تو وہ اس کی کوئی جنس نہیں جس سے وہ متصف ہو)
آپ کا سائل مزید سوال پوچھتا ہے:
فَإِن قَالَ قَائِل وَكَيف هُوَ (ہمیں بتائیے کہ وہ ذات کیسی ہے)
قيل لَهُ إِن أردْت بالكيفية التَّرْكِيب وَالصُّورَة والجنسية فَلَا صُورَة لَهُ وَلَا جنس فنخبرك عَنهُ(مفہوم: اگر کیفیت سے تمہاری مراد ترکیب، صورت و جنس ہے تو اس ذات کی صورت و جنس نہیں کہ اس کا بتایا جاسکے)
چنانچہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کانٹ کی سوفسطائیت ذدہ ٹرانسنڈنٹل آئیڈئیل ازم کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کانٹ کا مقصد یہ کہنا ہے کہ اس ذات کے موجود ہونے پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی تو یہ بات قطعی طور پر غلط ہے جیسا کہ دلیل حدوث کی روشنی میں متعدد مرتبہ اسے واضح کیا جاچکااور کانٹین فلسفے کے ذریعے اس کا کوئی توڑ ممکن نہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مباث الہیات میں کانٹ کا کنٹریبیوشن کیا تھا؟
کانٹ اور اس کے متاثرین اپنی غلط فہمی کی بنا پر “وجود ثابت ہونے” اور “وجود کی ماہیت و کیفیت” میں خلط ملط کرتے ہیں جبکہ متکلمین اس غلطی کے مرتکب نہیں ہوتے اور انہیں الگ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یہاں ہم امام غزالی کی کتاب “الاقتصادفی الاعتقاد” سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جس سے زیر بحث سوال پر مزید روشنی پڑے گی۔ متعلقہ مقام پر امام صاحب گروہ مجسمہ کے ساتھ سوال و جواب کی صورت ذات باری کے تنزیہی تقاضوں پر متکلمین کے اس مقدمے کا دفاع کررہے ہیں کہ ذات باری چونکہ زمان و مکان سے ماورا اور اس کی خالق ہے لہذا اس کے لئے عالم کے اندر و باہر دونوں کا اطلاق درست نہیں کیونکہ اندر و باہر ہونا اس وجود کی خاصیت ہے جو “جسم” ہو اور نتیجتاً اتصال و انفصال کو قبول کرتا ہوجبکہ ذات باری جسم ہونے سے پاک ہے (اگر وہ جسم ہو تو حادث اور نتیجتاً معلول ہوگا)۔ اس رائے کے مخالفین گروہ مجسمہ و کرامیہ والے تھے جن کا اصرار تھا کہ ذات باری کے لئے جہت ثابت کرنا لازم ہے، بصورت دیگر وہ ذات معدوم ہوجائے گی کہ نہ وہ کائنات کے اندر ہوگی اور نہ باہرنیز ایسی ذات قابل فہم بھی نہ ہوگی۔ گویا ان کے مطابق ذات باری کو اگر موجود ماننا ہے تو اس کے لئے جہت کی کیفیت ثابت ماننا ضروری ہے کہ اگر کیفیت ثابت نہیں تو وجود بھی ثابت نہیں ہوگا (آگے چل کر یہ رائے شیخ ابن تیمیہ (م 728 ھ) بھی اختیار کرتے ہیں)۔ یہی خلط مبحث متاثرین کانٹ کے ہاں پایا جاتا ہے کہ وہ “زمان و مکان سے ماورا وجود کی کیفیت کے عدم ادراک” کو اس وجود کے ثابت نہ ہوسکنے کے ہم معنی کہنے لگتے ہیں۔ اب گفتگو ملاحظہ کرتے ہیں۔
مجسمہ کا پہلا سوال: جہت کا انکار کرنا ایک ناممکن و احمقانہ بات کرنا ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک ایسے وجود کا دعوی کرنا ہے جو نہ ان چھ جہات کے اندر ہو اور نہ اس سے باہر، نہ ان سے متصل ہو اور نہ الگ
نفي الجهة يؤدي إلى المحال، وهو إثبات موجود تخلو عنه الجهات الست ويكون لا داخل العالم ولا خارجه ولا متصلاً به، ولا منفصلاً عنه، وذلك محال
مفہوم: جہت کی نفی سے محال لازم آتا ہے،کیونکہ اس کا مطلب ایسے موجود کا اثبات کرنا ہے جو چھ جہات سے ماوراء ہے اور جو نہ عالم میں داخل ہے اور نہ خارج، نہ اس سے متصل ہے اور نہ منفصل اور یہ محال ہے
جواب: ایسا وجود جو “اتصال” کو قبول کرتا ہے، یقینا اس کے اعتبار سے یہ بات کہنا درست ہے کہ اس کا متصل و منفصل نیز اندرون و بیرون دونوں سے ماوراء ہونا محال ہے۔ تاہم جو وجود “اتصال ” کی شرط ہی پر پورا نہ اترے، یعنی دلیل سے یہ معلوم ہوچکا ہو کہ وہ متصل نہیں ہوسکتا، تو اس کے لئے اتصال و انفصال نیز اندرون و بیرون دونوں سے ماوراء ہونا محال نہیں۔ ناقد کایہ اعتراض اسی نوعیت کا ہے کہ کسی وجود کا قدرت و عجز دونوں سےماوراء ہونا محال ہے، یعنی کوئی شے یا قادر ہوگی اور یا عاجز، اسی طرح یا وہ عالم ہوگی اور یا جاھل۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ جو شے دو متضاد میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھے اس کے بارے میں یہ ماننا ضروری ہے کہ وہ ان دو میں سے کسی ایک سے متصف ہو، لیکن جو دونوں سے متصف ہونے کی شرط ہی پوری نہ کرے اس پر دونوں کا عدم اطلاق جائز ہوتا ہے۔مثلا جمادات پر علم و جہالت دونوں کا اطلاق درست نہیں، یعنی وہ دونوں سے ماوراء ہیں اس لئےکہ علم کی شرط حیات ہے۔ جو شے حیات سے متصف نہیں اس کے لئے علم و جہالت دونوں الفاظ کا استعمال نہ کرنا محال نہیں ہوگا (مثلا دیوار نہ عالم ہے اور نہ جاہل، اس لئے اسے عالم و جاہل دونوں نہ ماننا محال نہیں)۔ پس اسی طرح جس وجود کے لئے “اتصال ” کا تصور ہی ناممکن ہو اس کے لئے جہت سے ماوراء ہونا عقلاً قابل فہم ہے نہ کہ محال ۔
دوسرا سوال : جہات سے ماوراء ایسا وجود ہونا محال ہے (فإن زعم الخصم أن ذلك محال وجوده)
جواب: دلیل حدوث میں قطعی طور پر ایسے وجود کو ثابت کیا جاچکا جو یہ کہتی ہے کہ ہر متحیز (spatial thing)حادث ہے اور حادث کے لئے محدث درکار ہے۔ پس ان دو مقدمات سے یہ ثابت ہوچکا کہ ایسا وجود ہونا عقلاً لازم ہے جو متحیز نہ ہو ، لہذا اس اعتراض کا کوئی مطلب نہیں کہ ایسا وجود محال ہے
تیسرا سوال: جس وجود کو تم نے دلیل سے ثابت کیا ہے، وہ ناقابل فہم ہے
قال الخصم إن مثل هذا الموجود الذي ساق دليلكم إلى إثباته غير مفهوم
مفہوم: مخالف کا کہنا ہے کہ جس قسم کے موجود کو تم نے دلیل سابق سے ثابت کیا ہے وہ ناقابل فہم ہے
جواب: یہاں “ناقابل فہم” کے دو امکانی معنی ہیں۔ اگر مراد یہ ہےکہ اس ذات کا تصور و تخیل وھم میں نہیں آتا تو یہ بات درست ہے (وھم متکلمین کی اصطلاح ہے جس سے مراد عقل کی وہ فیکلٹی ہے جو زمانی و مکانی تصورات سے متعلق ہے) کیونکہ تصور کا مطلب “حصول صورۃ الشئی فی الذھن” (یعنی ذہن میں کسی شے کی صورت گری) ہوتا ہے اور وھم میں وہی شے متصور ہوسکتی ہے جو جسم ہو اور رنگ و مقدار وغیرہ کی اعراض (یعنی کیٹیگریز) سے متصف ہو ، جو شے ان سے متصف ہی نہ ہو اس کا خیال ممکن نہیں ہوتا۔ وھم میں کسی شے کا خیال و تصور عام طور پر حاسہ بصارت سے حاصل ہونے والے مشاہدے سے مانوسیت و ہم آہنگی لئے ہوتا ہے اور کسی شے کا وھم میں یہ تصور کہ “وہ کیسی ہے” اس مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ناقد “ناقابل فہم ” سے ایسی نا معقول بات ہونا مراد لیتا ہے جو دلیل کی رو سے نا قابل معلوم و ناقابل ثابت ہو ، تو یہ تحکم و لغو بات ہے کیونکہ اس کی دلیل دعوی اول میں دی جاچکی اور کسی شے کے معقول ہونے کا مطلب یہی ہے کہ عقلی دلیل اسے موجود قرار دے اور اس کا انکار نہ کرسکے۔ آپ کی عبارت ملاحظہ ہو:
ما الذي أردت بقولك غير مفهوم؟ فإن أردت به أنه غير متخيل ولا متصور ولا داخل في الوهم فقد صدقت، فإنه لا يدخل في الوهم والتصور والخيال إلا جسم له لون وقدر، فالمنفك عن اللون والقدر لا يتصوره الخيال، فإن الخيال قد أنس بالمبصرات فلا يتوهم الشيء إلا على وفق مرآه ۔۔ وإن أراد الخصم أنه ليس بمعقول، أي ليس بمعلوم بدليل العقل فهو محاذ إذا قدمنا الدليل على ثبوته ولا معنى للمعقول إلا ما اضطر العقل إلى الأذعان للتصديق به بموجب الدليل الذي لا يمكن مخالفته
مفہوم: غیر مفہوم سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ خیال و تصور اور وھم میں داخل نہیں تو تمہاری بات درست ہے کیونکہ وھم ، تصور و خیال میں وہی شے آتی ہے جو رنگ و مقدار و غیرہ سے متصف جسم ہو ، پس جو شے رنگ و مقدار سے ماوراء ہو وہ خیال میں متصور نہیں ہوا کرتا۔ خیال قابل دید اشیاء کی انسیت سے ہوتا ہے اور شے اسی طرح حاصل شدہ تصور سے متوھم ہوتی ہے ۔ ۔۔ اور اگر ناقد کی مراد یہ کہنا ہےکہ وہ وجود اس معنی میں نامعقول ہے کہ وہ دلیل عقلی سے معلوم بھی نہیں ہوسکتا تو یہ لغو بات ہے کیونکہ اس کے اثبات کی دلیل ہم پیچھے پیش کرچکے ہیں اور کسی شے کے معقول ہونے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ عقل دلیل کی بنا پر اس کی تصدیق پر مجبور ہو اور اس کی مخالفت سے عاجز ہو۔
غور کیجئے کہ امام غزالی اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ خدا کی ذات کا “تصور ” قائم کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ ناقد کے اعتراض کا جواب اس عدم امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے دے رہے ہیں۔
اس کے بعد آپ ناقد کی جانب سے سوال قائم کرتے ہیں کہ جو قابل تصور نہیں وہ موجود بھی نہیں:
چوتھا سوال: فإن قال الخصم فما لا يتصور في الخيال لا وجود له (اگر ناقد کہے کہ جس کا خیال ممکن نہیں وہ موجود بھی نہیں)
آپ کہتے ہیں کہ اگر مخالف کا دعوی یہ ہے کہ جس شے کا وھم میں “تصور” قائم نہ ہوسکے وہ موجود بھی نہیں، تو ہم کہیں گے کہ خود تمہارے “تصور” کا تصور بھی ممکن نہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ علم، قدرت، خوشبو و آواز ان میں سے بھی کسی شے کا “تصور” ممکن نہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص مثلا “آواز” کا تصور قائم کرنا چاہے تو اس کے وھم میں مقدار و رنگ کے تصورات در آئیں گے۔ یہی حال تمام انسانی جذبات جیسے کہ خوف، محبت ، خوشی، غم وغیرہ وغیرہ کا ہے کہ ان کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہی ذہن رنگ و مقدار کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے مگر ہم ان سب اشیاء سے متعلق ان امور کی نفی کرنے کے باوجود بھی ان کے وجود کے قائل ہیں۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ کسی شے کا وھم میں متصور ہوسکنا اس کے وجود کی لازمی شرط نہیں اور جن کا دعوی یہ ہے کہ ایسا وجود محال ہے ان کے پاس اس دعوے کی دلیل اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ وھم میں متصور نہیں جبکہ یہ محال کی تعریف نہیں ۔ امام رازی مجسمہ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا تم یہ نہیں مانتے کہ خود مکان کسی مکان میں ہوئے بغیر موجود ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ عقلاً وجود خارجی کے تین امکانات ہیں: وہ جو متحیز ہو (یہ جوہر و جسم ہے)، وہ جو متحیز میں حال ہو (یہ اعراض ہیں) اور وہ جو نہ متحیز ہو اور نہ اس میں حال ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجود صرف اول الذکر دو قسم کا ہوتا ہے وہ دعوی بلا دلیل کررہے ہیں۔ اگر دلیل عقلی اس تیسری قسم کے موجود ہونے کے وجوب کا تقاضا کرے تو اسے لازماً موجود مانا جائے گا اور اگر اس کے موجود ہونے کے خلاف کوئی دلیل موجود نہ ہو تو اسے صرف ممکن مانا جائے گا لیکن بلادلیل اسے غیر موجود یا محال کہنا غیر عقلی رویہ ہے۔ پس جو اس کے محال ہونے کا دعوی کررہے ہیں وہ کوئی ایسی عقلی دلیل پیش کریں جس کی رو سے ایسے وجود کے اثبات سے عقلی استحالہ لازم آئے۔
آخر کانٹین فکر کا اٹھایا ہوا کونسا سوال ہے جو اس گفتگو کی بازگشت نہ ہو؟ اسی لئے بار بار یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مباحث الہیات پر کانٹ کا کنٹریبیوشن کیا ہے؟
کمنت کیجے