مسلمانوں کی کلامی فکر کے اندر علم کی بحث میں احکام عقلیہ کو اہمیت حاصل ہے، یہ احکام تین ہیں: وجوب (necessity)، امکان (possibility) اور استحالہ (impossibility)۔ متکلمین کا ماننا ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں، یعنی ایسا ممکن نہیں کہ جو اس عالم میں محال عقلی ہے وہ کسی دوسرے عالم میں ممکن ہو جائے یا اس کے برعکس، اسی طرح مثلاً جو واجب ہے وہ محال ہوجائے (ایسا اس لئے کہ مثلاً اگر کسی حال میں محال کا ممکن ہونا جائز ہے تو پھر وہ محال ہے ہی نہیں بلکہ ممکن ہے کیونکہ محال کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ “ہونا” قبول ہی نہیں کرتا)۔ بعض اہل علم احباب سے یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ صوفیا احکام عقلیہ کی اس تقسیم کو نہیں مانتے بلکہ بذریعہ کشف وہ ایسے انقلاب حقائق کے امکان کا ادراک ہونے کے مدعی ہیں کہ جسے اس زندگی میں ہم محال عقلی سمجھتے ہیں وہ صرف اس دنیاوی زندگی کے لحاظ سے عائد کردہ حکم ہے، دوسرے عالم میں یہاں کا محال ممکن ہوسکتا ہے۔ تاہم محقق صوفیا کا کلام اس دعوے کے برعکس ہے۔ یہاں ہم “الفتوحات المکیة” سے شیخ ابن عربی (م 638 ھ / 1240 ء) کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے اس معاملے میں ان کا زاویہ نگاہ واضح ہوجاتا ہے۔ اس اقتباس کی تفہیم کے لئے یہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کے نزدیک عالم کی ہر شے ازل سے علم باری میں ثابت ہے اور اس ثبوت کو وہ وجود کا ایک درجہ کہتے ہیں نہ کہ عدم محض کہ اس درجے پر اشیاء ایک دوسرے سے ممیز ہوتی ہیں اور یہ تمیز قائم ہونا بھی وجود کا درجہ ہے۔ ذات باری کے علم میں متحقق ان اعیان (entities) کو وہ “اعیان ثابتة” کہتے ہیں اور ان اعیان پر اسمائے الہیہ (جو کہ ذات باری کی ایک تجلی یا تعیین یا مرتبہ وجود ہی ہے) کی تجلیات سے عالم کی صورت ان کا ظہور ہوتا ہے۔ اعیان ثابتة اور اس عالم میں ان کے ظہور کے لئے شیخ کا استدلال اس نوع کی آیات سے ہے:
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴿الحجر: 21﴾
(اور کائنات کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے متعین مقدار کے مطابق نازل کرتے ہیں)۔
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (یس: 82)
(اور اس کا امر تخلیق بس یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو پیدا کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے ‘ہوجا’، تو وہ جاتی ہے)
یعنی “کن” کا حکم باری ایک شے کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور وہ شے اعیان ثابتة کی صورت اشیاء کا ازلی ثبوت ہے۔ شیخ کے ہاں صرف محال عقلی یا ذاتی “صفر درجہ وجود” ہے۔ اب اقتباس ملاحظہ کیجئے:
اعلم أن التجلي الإلهي دائم لا حجاب عليه ولكن لا يعرف أنه هو وذلك أن الله لما خلق العالم أسمعه كلامه في حال عدمه وهو قوله كن وكان مشهودا له سبحانه ولم يكن الحق مشهودا له وكان على أعين الممكنات حجاب العدم لم يكن غيره فلا تدرك الموجود وهي معدومة كالنور ينفر الظلمة فإنه لا بقاء للظلمة مع وجود النور كذلك العدم والوجود فلما أمرها بالتكوين لإمكانها واستعداد قبولها سارعت لترى ما ثم لأن في قوتها الرؤية كما في قوتها السمع من حيث الثبوت لا من حيث الوجود فعند ما وجد الممكن انصبغ بالنور فزال العدم وفتح عينيه فرأى الوجود الخير المحض فلم يعلم ما هو ولا علم أنه الذي أمره بالتكوين فأفاده التجلي علما بما رآه لا علما بأنه هو الذي أعطاه الوجود فلما انصبغ بالنور التفت على اليسار فرأى العدم فتحققه فإذا هو ينبعث منه كالظل المنبعث من الشخص إذا قابلة النور فقال ما هذا فقال له النور من الجانب الأيمن هذا هو أنت فلو كنت أنت النور لما ظهر للظل عين فإنا النور وأنا مذهبه ونورك الذي أنت عليه إنما هو من حيث ما يواجهني من ذاتك ذلك لتعلم أنك لست أنا فإنا النور بلا ظل وأنت النور الممتزج لإمكانك فإن نسبت إلى قبلتك وإن نسبت إلى العدم قبلك فأنت بين الوجود والعدم وأنت بين الخير والشر فإن أعرضت عن ظلك فقد أعرضت عن إمكانك وإذا أعرضت عن إمكانك جهلتني ولم تعرفني فإنه لا دليل لك على أني إلهك وربك وموجدك إلا إمكانك وهو شهودك ظلك وإن أعرضت عن نورك بالكلية ولم تزل مشاهدا ظلك لم تعلم أنه ضل إمكانك وتخيلت أنه ظل المحال والمحال والواجب متقابلان من جميع الوجوه فإن دعوتك لم تجبني ولم تسمعني فإنه يصمك ذلك المشهود عن دعائي فلا تنظر إلي نظرا يفنيك عن ظلك فتدعي أنك أنا فتقع في الجهل ولا تنظر إلى ظلك نظرا يفنيك عني فإنه يورثك الصمم فتجهل ما خلقتك له فكن تارة وتارة وما خلق الله لك عينين إلا لتشهدني بالواحدة وتشهد ظلك بالعين الأخرى وقد قلت لك في معرض الامتنان ألم نجعل له عينين ولسانا وشفتين وهديناه النجدين أي بينا له الطريقين طريق النور والظل إما شاكرا وإما كفورا فإن العدم المحال ظلمة وعدم الممكن ظل لا ظلمة (2 / 303)
مفہوم: جان لو کہ تجلی الہی ابدی ہے اور اس پر کوئی حجاب نہیں لیکن لوگ اس معاملے کی نوعیت کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذات باری نے جب عالم کی تخلیق کی تو حالت عدم میں اسے اپنا یہ خطاب سنایا: “ھوجا”، ذات باری اس حال میں بھی عالم کا مشاھدہ کرنے والی تھی تاہم عالم رب تعالی کا مشاھد نہیں تھا کیونکہ عالم امکان پر عدم کا پردہ طاری تھا اور اس لئے وہ وجود کے ادراک سے محروم تھا۔ جیسے روشنی اندھیرے کو دور کردینے والی ہے کہ روشنی کے ہوتے ہوئے ظلمت کا بقا ممکن نہیں، یہی معاملہ وجود اور عدم کا ہے۔ جب ذات باری نے ممکن الوجود کو اس کے امکان وجود اور (بوجہ وجود مطلق کا عکس ہونے) ظاہر ہوسکنے کی استعداد کی بنا پر “ھونے” کا حکم دیا تو اس نے اس ھونے کو دیکھنے میں تندہی سے کام لیا کیونکہ اس میں (بصیر و سمیع کا عکس ہونے کی بنا پر) دیکھنے اور سننے کی صلاحیت قبول کرنے کی استعداد تھی، اس کی یہ استعداد (اس حال میں) بااعتبار وجود نہ تھی بلکہ بااعتبار ثبوت تھی۔ جب ممکن الوجود نے اپنے ہونے کو پایا تو وہ گویا روشنی کے مس ہونے سے رنگ دار ہوگیا اور عدم زائل ہوگیا نیز اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے جان لیا کہ وجود تو خیر محض ہے لیکن اسے یہ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہے نیز اسے (ظاھر) ھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ تجلی حق نے اسے اس معاملے کی حقیقت سکھائی لیکن یہ علم نہیں دیا کہ وجود مطلق نے اسے وجود عطا کردیا ہے۔ روشنی (یعنی وجود) سے رنگ دار ہونے کے بعد ممکن الوجود نے اپنے بائیں جانب دیکھا تو عدم کو پایا۔ پھر جب اس نے معاملے پر غور کیا تو دیکھا کہ یہ عدم اس سے پھوٹ رہا ہے جیسے جسم جب روشنی کے روبرو ہو تو اس کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اس نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو دائیں جانب سے روشنی (یعنی وجود مطلق) سے آواز آئی: یہ عدم تم ہو (یعنی یہ تمہاری حقیقت ہے)، اگر تم بھی روشنی (یعنی وجود) ہوتے تو (تمہارے عدم کی) یہ پرچھائی نہ ہوتی، میں وہ روشنی ہوں جو اس سائے کو ختم کرنے والی ہے۔ یہ جو نور (وجود) تمہیں میسر ہے یہ اس بنا پر ہے کہ تمہارا چہرہ میری جانب ہے اور اس سبب ہی تمہیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ تم “میں” (یعنی وجود مطلق) نہیں ہوسکتے کہ میں نور بلا سایہ (عدم) ہوں اور تم بوجہ اپنے امکان ملاوٹ ذدہ نور ہو۔ اگر تم اپنا رخ میری جانب کرو گے تو مجھے پاؤ گے اور اگر اپنا رخ عدم کی جانب کرو گے تو اسے پاؤ گے کیونکہ تم وجود اور عدم کے مابین معلق ہو اور اسی لئے تم خیر و شر کے مابین ہو۔ اگر تم اپنے سائے سے بھاگنے کی کوشش کرو گے تو یہ عین اپنی حقیقت یعنی ممکن ہونے سے فرار کی بات ہوگی اور اگر تم نے اپنی حقیقت یعنی ممکن الوجود ہونے سے فرار کی کوشش کی تو تم مجھ سے جاہل و غافل ہوجاؤ گے اور مجھے کبھی نہ پہچان سکو گے کیونکہ تیرے پاس اپنے ممکن الوجود ہونے کے سوا یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ میں تمہارا الہ، رب اور پیدا کرنے والا ہوں اور اس (ممکن الوجود) کے ادراک کا طریقہ اپنے سائے کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اور اگر تم سائے کے مشاہدے میں ہمہ وقت مشغول ہو کر روشنی سے کلی طور پر منہ موڑ بیٹھے تو تمہیں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ یہ دراصل تمہارے امکان کا سایہ ہے (کیونکہ روشنی ہی سے سایہ مفہوم ہو سکتا ہے)۔ اس حال میں تمہیں یہ محسوس ہوگا گویا یہ محال کا سایہ ہے، واجب اور محال ہر لحاظ سے متضاد ہیں، (اگر تم محال ہوتے) اور اس حال میں تمہیں حکم دیتا (کہ “ھوجا”) تو تم اسے سن کر اس پر لبیک نہ کہتے کیونکہ محال ہونے کا حال تمہیں میری پکار سننے سے بہرا کردیتا۔ پس اپنی نگاہ کو میری جانب اس طرح نہ ٹکا کہ تجھ سے تیرے سائے کا شعور و ادراک ختم ہوجائے کیونکہ اس حال میں تو یہ کہے گا “تو میں ہے” اور ایسا دعوی جہالت میں پڑجانا ہے (کیونکہ ممکن واجب نہیں ہوسکتا)، اور نہ ہی اپنے سائے میں اس طرح گم ہوجا کہ تجھے مجھ سے بے شعور کردے کہ پھر تو بہرہ ہوجائے گا اور یہ جان نہ سکے گا کہ تجھے کیوں پیدا کیا۔ پس کبھی تو ایک شعور کا حامل ہو اور کبھی دوسرے کا (یعنی ‘نفی و اثبات’ یا ‘ھو ولا ھو’ کا مجموعہ بن جا)۔ الله نے تجھے دو آنکھیں اسی لئے عطا کیں کہ ایک سے تو اس کی جانب دیکھے اور ایک سے سائے کی جانب۔ اور ہم نے بطور احسان یہ بات تمہیں بتائی ہے کہ کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں، زبان اور دو ھونٹ نہیں بنائے اور اسے دو راستوں کی ھدایت نہیں دی، یعنی اس کے لئے دو راستے واضح کئے: ایک نور کا اور دوسرا سائے کا کہ اپنے رب کا شکر گزار ہو یا کفران نعمت کرے، اس لئے کہ محال وہ عدم ہے جو نرا اندھیرا ہے (اور اس لئے وہ نور وجود کو قبول ہی نہیں کرسکتا) جبکہ ممکن وہ عدم ہے جو سائے کی مانند ہے نہ کہ اندھیرے۔”
شیخ نے “الفتوحات المکیة” میں کئی مقامات پر اس موضوع پر مختلف انداز سے لکھا ہے نیز “فصوص الحکم” میں بھی اس پر بات کی ہے اور آپ کے معتبر شارحین جیسے کہ داؤد قیصری (م 751 ھ / 1350 ء) وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں۔
کمنت کیجے