ڈاکٹر محمد رحمان
اس ضمن میں تین پہلوؤں پر بات کرنے کی ضرورت ہے
1) علمی
2) عملی
3) نفسیاتی
1) علمی میدان
علمی سطح پر الحاد دو طریقے سے حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے
الف) بڑے سوالات کے ذریعے
ب) جدید سائنس اور مذہبی تعلیمات میں اشکالات کے ذریعے
الف) بڑے سوالات کے ذریعے
پہلا طریقہ خالص فلسفیانہ میدان ہے جہاں کائنات اور خالق کائنات کے وجود پر بحث کی جاتی ہے۔ پہلے طریقے میں جدید الحاد، سب سے پہلا کام یہ کرتا ہے کہ وہ فلسفے کی نفی کر کے بڑے سوالوں کے جواب سائنس کے ذریعے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ ان سوالات کا دائرہ کار سائنسی حدود سے آگے کا ہے اس لیے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی الحاد کو فلسفیانہ دلائل کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں وہ بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ اگرچہ الحادی مبلغین اپنی سی کوشش کرتے ہیں لیکن فلسفے کا ایک عام طالب علم بھی اس کھوکھلے پن کو آسانی سے پہچان سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر کائنات کے خودبخود وجود میں آنے کا دفاع یہ لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ اگر خدا خودبخود وجود میں آ سکتا ہے تو کائنات کیوں نہیں ۔ یہ بات ہمیں صرف ایک عام ملحد سے ہی سننے کو نہیں ملتی بلکہ جدید الحاد کے روحِ رواں رچڑڈ ڈاکنز ، ڈینیئل ڈینٹ اور لارنس کراس وغیرہ سب یہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ انفینٹ ریگریس کی دلیل سے واقف ہیں تو جان سکتے ہیں کہ علمی طور پر انکی اس دلیل کا کیا میعار ہے۔
جدید الحاد کا طریقہ واردات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ جیسے ڈیزائن آرگومنٹ ہی خدا کے وجود کی واحد دلیل ہے جسے جدید سائنس رد کر چکی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ خدا کے وجود کے دلائل پر کئی صدیوں سے نبرد آزما ہے اور علم الکلام، خدا کے وجود کو اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار کر چکا ہے کہ علمی سطح پر الحاد مکمل طور پر بے بس نظر آتا ہے اور صرف ایسے لوگوں کو ہی متاثر کرنے میں کامیاب ہے جو ان دلائل سے واقف نہیں۔
ہمارے ہاں اس ضمن میں غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ علم الکلام کے ذریعے جدید الحاد کا رد کیا جا سکتا ہے جبکہ جدید الحاد ان دلائل کو اپیسٹیمیک ایروگینس (epistemic arrogance ) کے ذریعے ایسے نظر انداز کر دیتا ہے جیسے انکی اہمیت ہی نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سطح پر آپ الحاد کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن پر ہیں لیکن سائنس کی چکاچوند سے متاثر اذہان کے ساتھ انہیں کی زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل اور مستند سائنس میں ایسا کچھ نہیں جو الحاد کو بنیاد فراہم کرتا ہو۔ مسلہ یہ ہے کہ الحاد نے پاپولر سائنس کے ذریعے سائنس پر نا جائز قبضہ کر رکھا ہے۔پاپولر سائنس کے ذریعے پھیلائے گئے الحادی تصورات کا توڑ تبھی ممکن ہے جب سائنس پر الحاد کا ناجائز قبضہ ختم کیا جائے ۔
دانائی مومن کی میراث ہے لیکن بدقسمتی سے ہم دانائی کے ایک بہت بڑے حصے کا صرف اس وجہ سے انکار کر دیتے ہیں کہ اس میں مغربی ممالک ہم سے آگے ہیں۔ سائنس کا کلی طور پر انکار الحاد کا تدارک نہیں بلکہ الحاد کو ایندھن فراہم کرنے جیسا ہے۔ اصل سائنس نوجوان کے دل میں سائنس کی افادیت پیدا کرتی ہے اور پاپولر سائنس اس افادیت کا استعمال کرتے ہوئے الحاد کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اصل سائنس کو پاپولر سائنس سے الگ رکھا جائے اور یہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب ہم سائنس کو اسکے اوریجنل ماخذ سے پڑھنے کے قابل ہوں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب آپ وسعت نظری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائنس کے خلاف عہد وپیمان باندھنے کے بجائےاسے سیکھنے پر توجہ دیں۔
ب) جدید سائنس اور مذہبی تعلیمات کا تعارض
جدید الحاد کو جتنی کامیابی اس طریقہ سے ملی ہے شاید ہی کسی اور طریقے سے ملی ہو۔ یہاں پر الحاد بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کے خدا کی نفی تو نہیں کی جا سکتی لیکن مذہبی خدا کا رد با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے وہ مذہبی تعلیمات اور جدید سائنس میں تعارض ثابت کر کے یہ دلیل دیتا ہے کہ نعوذباللہ وہ کیسا خدا ہے جسے اپنی تخلیق کا خود ہی علم نہیں ۔
گلیلیو اور چرچ کا تنازعہ ہو، کائنات کی عمر کا معاملہ یا نظریہ ارتقا یہ ایسے عوامل تھے جنہوں نے مغرب میں مذہب کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان معاملات میں کامیابی دیکھتے ہوئے الحاد نے وطیرہ یہ اپنایا کہ ہر چیز کی من مانی تشریح کر کے من گھڑت اشکالات قائم کرنے کی کوشش کی ۔مذہب اور سائنس میں تعارض کےزیادہ تر معاملات اسی قبیل کے ہیں ۔ بچ جانے والے معاملات میں بھی مذہبی تعلیمات کی اصل روح متاثر کیے بغیر ،تھوڑا سا غور وفکر کرنے پر مذہب اور سائنس میں آسانی سے تطبیق ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے یہ وہ جگہ ہے جہاں کچھ نادان دوست اپنی روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان تشریحات پر اصرار کرتے ہیں جو موجودہ علمی تناظر میں قابلِ قبول نہیں ۔
سائنسی نظریات ہوں یا مذہبی تعلیمات ، انکی تشریح کے لیے ایک خاص علمی پس منظر چاہیے ہوتا ہے۔ کسی نظریے یا تعلیم کی تشریح تب تک ہی درست رہتی ہے جب تک وہ علمی پس منظر درست رہتا ہے ۔ ایک نظریہ پس منظر کا محتاج ہے اور پس منظر کی درستگی نظریہ کی مرہون منت، جو نئی معلومات کی بنا پر مکمل طور پر غلط ہو سکتا ہے چنانچہ سائنسی نظریات ہوں یا قدرتی مظاہر کے بارے میں مذہبی تعلیمات دونوں کی تشریحات میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ مذہب پسندوں میں کچھ طبقات ایسے ہیں جو کئی صدیاں پہلے کے تعلیمی پس منظر میں کی گئی تشریحات کے قائل ہیں اور فطری مظاہر کے بارے میں مذہبی تعلیمات کو موجودہ علمی پس منظر میں دیکھنا نہیں چاہتے جسکا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہب کی یہ تشریحات سائنس سے متصادم نظر آتی ہیں ۔ دوسری طرف سائنسی علوم میں ایسی معلومات ہو سکتی ہیں جو موجودہ علمی پس منظر کے حساب سے مذہب سے متصادم ہوں لیکن پیراڈایم شفٹنگ کے بعد جب انہیں ایک نئے زاویے سے دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس میں مطابقت نظر آئے۔
زمین کی حرکت کی ہی مثال لے لیں۔ اگر آپ آج بھی زمین کو ساکن ثابت کرنے پر تلے رہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش کریں کہ یہ خدا کا فرمان ہے تو آج کا نوجوان نہ صرف آپ پر ہنسے گا بلکہ نعوذباللہ خدا کو جھوٹا سمجھے گا۔
یہ صرف ایک مثال ہے اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جو آج کے نوجوان میں شکوک وشبہات پیدا کر کے اسے اسلام سے دور کرتی ہیں ۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں ہمارا لائحہ عمل بس یہی ہے کہ سائنسی طریقہ کار میں موجود خامیوں کو بنیاد بنا کر پوری کی پوری سائنس کا انکار کر دیا جائے، ان چیزوں کا بھی جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ آپ کے اس مؤقف پر آپ کو آپ کے اردگرد موجود لوگوں سے داد تحسین مل سکتی ہے، ہو سکتا ہے شبہات میں مبتلا دو چار لوگ آپ کے اس موقف سے قائل بھی ہو جاتے ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ الحاد انہی چیزوں کو اٹھا کر نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرتا ہےاور جب ایک بار نوجوان اس چنگل میں پھنس جاتے ہیں تو پھر صحیح اور مستند تعلیمات بھی مذاق بن کر رہ جاتی ہیں۔ آپ اپنے اپنے مسلک، اپنے اپنے فرقے کی لڑائی لڑ سکتے ہیں لیکن ایک لڑائی جیتنے کے لئے جنگ ہار جانا کوئی عقل مندی کا کام نہیں ۔
اس چیز کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ لوگ ان اشکالات کو دور کرنے کا بیڑہ انفرادی طور پر اٹھانا شروع ہو گئے ہیں اور کچھ لوگ ایک درجہ آگے بڑھ کے سائنس کی ہر چیز قرآن سے برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہر ایرہ غیرہ اٹھ کر دیںی تعلیمات کی من مانی تشریح کر کے مذہب کو نقصان پہنچائے، مستند علماء کرام کو چاہیے کہ ان معاملات پر تحقیق کا بیڑہ خود اٹھائیں۔ ایسی مثالیں میری نظر میں ہیں جہاں لوگ یہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں بھی خرابی یہی ہے کہ وہ لوگ سائنس کا علم اصل سائنسی ذرائع کی بجائے پاپولر سائنس یا میڈیا پر موجود آرٹیکلز پڑھ حاصل کرتے ہیں اور انہیں وہی نظر آتا ہے جو پاپولر سائنس والے انہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ جب پاپولر سائنس والے ہر چیز پر اپنا رنگ چڑھا کر دکھاتے ہیں تو ہمیں ہر چیز مذہب مخالف نظر آتی ہے اور ہم ہر چیز پر فتوے لے کر نکل پڑتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب چرچ بہت طاقتور تھا اور ہر چیز کو طاقت کے زور پر دبا سکتا تھا لیکن چرچ کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا اور آج صدیوں پرانے واقعات پر چرچ معذرت خواہانہ رویہ اپنانے پر مجبور ہے۔ اس سے پہلے کہ چرچ کی طرح، مذہب کا وجود خطرے میں دیکھ کر، دو چار دہائیوں بعد ہمیں اپنے آج کے موقف پر رجوع کرنا پڑے ، بہتر یہی ہے کہ ہم آج ہی وہ موقف اپنائیں جس کے لیے بعد میں صفائیاں نہ دینا پڑیں ۔
2) عملی پہلو
جسم کو مسخر کرنے کے لیے تلوار کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ذہن کو مسخر کرنا چاہتے ہیں تو ایسا صرف اخلاق اور کردار کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور کردار کے معاملے آج کل ہمارا ہاتھ ذرا تنگ جا رہا ہے۔ اخلاق اور کردار سے بڑھ کر کوئی چیز ذہن کو متاثر نہیں کرتی۔ آپ جتنا مرضی بہترین فلسفہ لے آئیں جب تک آپ اس فلسفے پر خود عمل نہیں کرتے تب تک آپ کسی دوسرے کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ وہ اس فلسفے پر عمل کرے؟ ایک انگلش محاورہ ہے کہ
What you do sounds so loud in my ears, I can’t hear what you say.
بحثیت مجموعی ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس سے بھی بڑھ کر فرقہ ورانہ مناظرہ بازی نے ہماری حالت یہ کر دی ہے کہ زیادہ تر نمائندگان مذہب کے ذہن جدل کی کفیت سے باہر نہیں نکل پاتے۔ منبر پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے کی عادت تو دہائیوں پرانی ہے لیکن اب یہ چیز فیس بک اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے ہر ایک کے سامنے ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ذی شعور انسان آپ کی بات کو سیریس لے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ وہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اللہ نے دیسی ملحدین کی صورت میں ہماری اخلاقی کوتاہیوں کا اثر زائل کرنے کا بندوبست کر دیا ورنہ اس میدان میں ہمیں بہت مار پڑتی۔اللہ نے تو ہمیں اہل کتاب کے معاملے میں بھی تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ کا حکم دیا ہے اور ہم اپنے ہم مذہب بھائیوں کو بھی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
(3نفسیاتی پہلو
دعوت دین کے لیے اللہ ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے ہر مسلے کا حل خوف کی لاٹھی پر ڈال دیا ہے۔ ایک طالب علم دین بیزاری کا شکار ہو کر ہمارے پاس آتا ہے اور ہم اشکالات رفع کرنے کی بجائے خدا خوفی کی تلقین کر کے اسے رخصت کر دیتے ہیں۔ جس کے ذہن میں خدا کا تصور ہی مشکوک ہے اسکے ذہن کو آپ مشکوک تصور کا خوف کیسے دلا سکتے ہیں؟ آپ مرض شناسی کرتے ہیں کہ الحاد کی وجہ دین سے دوری ہے لیکن دیکھنا تو یہ چاہیے کہ وہ دین سے دور ہوا کیوں؟
بچہ پانچ چھ سال کا ہوتا ہے اور ہم قرآن کی تلاوت سکھانے کے لیے اسے جسمانی اذیتیں دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ مذہب کے ساتھ جو تعلق پیار محبت کے جذبات سے شروع ہونا چاہیے اسے ہم جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے شروع کرتے ہیں ۔وہ نوجوانی میں قدم رکھتا ہے ہم اسکی جائز جسمانی ضروریات کے تمام راستے موقوف کرکے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکیزگی کے تمام تقاضے پورے کرے۔ فحاشی اور عریانی کے سدباب کے لیے تو ہر کوئی بات کرتا نظر آتا ہے کتنے لوگ ہیں جو جائز ذرائع کی فراہمی کی اہمیت زور دیتے نظر آتے ہیں؟ وہ نفس سے مجبور ہو کر کوئی غلط قدم اٹھاتا ہے ہم اس کے سر پر خوف کی لاٹھی مسلط کرتے ہیں۔ وہ ذہنی کشمکش کا شکار ہوتا ہے اور ذہنی سکون کا ایک ہی طریقہ بچتا ہے کہ وہ اس لاٹھی کا ہی انکار کر دے۔
شریعت نے ہر ایک کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق سہولت فراہم کی ہے لیکن ہم ہر شخص کو پہلے قدم پر ہی تابعین کے درجے پر پہنچانے کے درپے ہیں اور جنت جہنم کے فیصلے صادر کرنے کے شوقین ہیں۔ جب ہم مذہب کو بوجھ بنا کر لادنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ پہلا موقع ملتے ہی اس بوجھ کو اتار پھینکتے ہیں ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پہلا موقع کیا ہے؟ وہ پہلا موقع یہی جزا سزا کے تصور پر سوال ہے کہ اگر خدا نے میری تقدیر پہلے سے لکھ رکھی ہے تو پھر میرے اعمال پر سزا کیوں؟ کتنے ملحدین ہیں جو باقی معاملات میں اگر لاجواب ہو بھی جائیں تو وہ یہ سوال اپنی گٹھی میں باندھ کے رکھتے ہیں کہ خدا کو انسانوں کا بار کیو کرنا کیوں پسند ہے۔ہماری غلطی ہے ہی یہی کہ ہم بچپن کی مار سے شروع کرتے ہیں اور ساری زندگی خوف کی تلوار لٹکائے رکھتے ہیں۔ خدا سے پیار اور محبت کا تعلق پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔
الحاد کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن مذہب کی پابندیوں سے نجات چاہتا ہے علمی مباحث تو صرف اسے cognitive dissonance سے فرار کی راہ فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہر ایک کو تابعین، تبع تابعین کے درجے تک پہنچانے کی بجائے شرعی فرائض کے ساتھ ساتھ شریعت کی جانب سے فراہم کی گئی سہولیات سے من وعن متعارف کروائیں۔ اگر کسی میں صرف فرض ادا کرنے کی سکت ہے تو نوافل چھوڑنے پر گناہ گار ٹھہرانے کی بجائے اسکی حوصلہ افزائی کریں کہ کم از کم فرض تو ادا کرتا رہے۔
تکبر ایک بڑا گناہ ہے۔ جب شیطان انسان کو گناہوں پر آمادہ نہیں کر پاتا تو وہ اسے نیکی کے غرور میں مبتلا کر دیتا ہے اور انسان خود کو لاشعوری طور پر ولی اللہ کے درجےسے شروع کر کے قطب ، ابدال غوث کے درجے سے ہوتے ہوئے خدا سمجھ بیٹھتا ہے جہاں وہ خیال کرتا ہے کہ سب کو اسکی سوچ سمجھ کے مطابق چلنا چاہیے کیونکہ اسکی سوچ خدا کی سوچ ہے۔انسانوں کے جنت جہنم اور درجات کا فیصلہ وہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر جہاں اسکا بس چلتا ہے وہ اسے زبردستی تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جو آپ کو اپنے اردگرد مذہب بیزاری اور مولوی سے نفرت نظر آتی ہے اسکے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ نیکی کے غرور میں مبتلا ہیں جہاں وہ لا شعوری طور پر اپنی محدود سوچ کو خدا کی سوچ بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کے اس رویے کی وجہ سے ان سے دور بھاگتے ہیں۔ ہم اپنے ہی دینی بھائیوں کی کردار کشی کرتے ہیں انہیں کمتر سمجھتے ہیں انکے درجات متعین کرتے ہیں اور الحاد اپنی صفوں میں آنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔
اس تحریر میں میرا مدعا یہ نہیں کہ نیکی کی دعوت نہ دی جائے یا برائی سے منع نہ کیا جائے بلکہ یہ ہےکہ اس کام میں حکمت کا پہلو مدنظر رکھا جائے۔ ہر معاملے میں خدائی فوجدار بننے کی بجائے ان معاملات کا تعین کیا جائے جہاں شریعت آپ کو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دیتی ہے۔ اور اگر یہ پہلے ہی متعین شدہ ہے تو سب کو اسکی تعلیم دی جائے کیونکہ عملی طور پر تو ایسا نظر آتا ہے کہ معاشرہ ان اداب سے مکمل نابلد ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کھڑے ہو کر پانی پی رہا ہو تو دوسرا اسے وہیں ٹوک اسکی عزت نفس مجروح کرنا باعثِ ثواب سمجھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد رحمان نے یونیورسٹی آف کانٹیبریا ، سپین سے پارٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر علمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے