Home » سنی منہج اور حضرت ابوبکر کی حضرت علی پر افضلیت: بعض غلط فہمیوں کا ازالہ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

سنی منہج اور حضرت ابوبکر کی حضرت علی پر افضلیت: بعض غلط فہمیوں کا ازالہ

پس منظر

چند روز قبل فیس بک پر ایک گفتگو کے دوران ایک مختصر تحریر لکھی کہ جو لوگ حضرت ابوبکر صدیق کے مقابلے پر حضرت علی رضی اللہ عنہما کو بحیثیت مجموعی افضل کہتے ہیں ان کی بات اس پہلو سے محل نظر ہے کہ کسی بھی دعوت و تحریک کی کامیابی میں اس کے ابتدائی ایام نہایت کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور جو لوگ اس وقت اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اس میں شریک ہوتے ہیں ان کا مقام ہی الگ ہوتا ہے۔ نبیﷺ کے اعلان نبوت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ 6 سال کے کم سن بچے تھے جبکہ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال کے میچور انسان تھے، آپ ایک کامیاب مالدار تاجر تھے اور مکے میں آپ کو دیت وغیرہ کے حساس مسائل کے فیصلے کرنے کا منصب حاصل تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس معاشرے میں کس حیثیت کے حامل تھے۔ کسی دعوت کے لئے اپنے سٹیکس کو قربان کرنا ہی سب سے کٹھن کام ہوتا ہے اور آپ نے بلا جھجھک یہ کام کیا جبکہ حضرت علی کے سٹیکس بچپن ہی سے آپﷺ کے زیر سایہ اسلام کے ساتھ ڈویلپ ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے حضرت ابوبکر و حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھما کی خدمات کا ذکر بہت نادر انداز سے کیا کیونکہ ان دونوں نے اپنا سب کچھ آپﷺ کی دعوت پر اس وقت نچھاور کردیا جب وہ ابتدائی ایام میں تھی جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دور میں ایک بچے تھے جو ان ابتدائی ایام میں کوئی نمایاں کام سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس تحریر میں کسی کی عمر کو وجہ فضیلت قرار نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی حضرت علی کے ثابت شدہ فضائل کا انکار کیا گیا تھا، بلکہ بات کسی دعوت و تحریک کے ابتدائی و مشکل ایام کے کنٹریبیوشن کی اہمیت کی تھی۔ قرآن مجید میں “السابقون الاولون” (جن میں حضرت ابوبکر و حضرت علی دونوں شامل ہیں) کو آخر دیگر کے مقابلے میں کس وجہ سے زیادہ مرتبے والا قرار دیا گیا ہے؟ فتح مکہ سے قبل و بعد ایمان لانے والوں میں فرق کس بنا پر کیا گیا ہے؟ اسی اصول پر ہم نے ان لوگوں کی رائے پر تنبیہہ کی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مجموعی افضلیت کا دعوی کرتے ہیں۔

نفس مسئلہ

تاہم اس تحریر کو لے کر بعض اہل علم حضرات نے شکوہ کیا کہ ہم قیاس آرائیاں کرکے افضلیت ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اہل سنت کا طریقہ نہیں بلکہ نواصب کا منہج ہے نیز شیخ ابن تیمیہ کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر کہا گیا کہ اس طریقہ بحث کو انہوں  نے فروغ دیا گویا کہ وہ اس کے موجد ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے یہ عنوان بھی دیا کہ ہم حضرت علی رضی الله عنہ کی تنقیص کرنا چاہتے ہیں، ہم الله سے اس خیال کی پناہ چاہتے ہیں۔ مزید دعوی کیا گیا کہ صوفی روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امور باطنہ کی خلافت کا امام مانا جاتا ہے اور حضرت ابوبکر کو ظاہری امور کی خلافت کا اور چونکہ باطنی امور کی خلافت افضل ہے لہذا معلوم ہوا کہ سنی صوفی روایت میں حضرت علی کو افضل کہنے کی رائے پائی جاتی ہےاور اس بنا پر اس رائے کو سنی موقف کے خلاف نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے حنفی شافعی فقہی آراء میں اختلاف جیسا اختلاف سمجھا جانا چاہئے۔ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ چونکہ متکلمین کے نزدیک یہ مسئلہ ہے ہی ظنی لہذا یہاں کسی بھی رائے کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ اس تحریر میں ہم ان امور کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

خلط مبحث سے بچنے کے لئے ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ نصوص سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ثابت فضائل کے ہم منکر نہیں اور نہ ہی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ بعض جزوی پہلووں سے آپ کو خلفائے ثلاثۃ سے زیادہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے تاہم نفس مسئلہ جزوی پہلو سے افضلیت نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی افضلیت ہے۔ اس بحث میں کسی شخصیت کے مجموعی طور پر زیادہ افضل ہونے سے مراد عند اللہ اس کا قرب زیادہ ہونے کا دعوی کرنا ہے اور اہل سنت کا اجماعی موقف ہے کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

1۔ کیا اوائل اسلام میں حضرت ابوبکر کے ایمان لانے میں سبقت کا بیان سنی منہج نہیں؟

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و حضرت علی رضی اللہ عنہما کے ایمان لانے میں سبقت اور اوائل اسلام کے دور میں خدمات کا موازنہ کرکے حضرت ابوبکر کو افضل کہنا، کیا یہ سنی منہج کے خلاف ہے اور کیا یہ قیاس آارئیاں ہیں؟ یہاں ہمیں یہ دکھانے میں غرض ہے کہ اعلان نبوت کے وقت حضرت علی رضی الله عنہ کے چھوٹے بچے ہونے کے پہلو کے تناظر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی افضلیت کے کسی پہلو کو اجاگر کرنے میں ائمہ کلام کو حضرت علی رضی الله عنہ کی توہین و تنقیص کا پہلو نظر نہیں آیا اور نہ ہی یہ ان کے نزدیک قیاس آرائیں ہیں۔آئیے ائمہ کلام سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

علامہ آمدی کی رائے

علم کلام میں علامہ سیف الدین آمدی (م 631 ھ) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس موضوع پر آپ نے ایک مفصل کتاب “ابکار الافکار فی اصول الدین” کے نام سے تحریر کی جو پانچ جلدوں میں چھپی ہوئی میسر ہے۔ اس کی آخری جلد میں آپ مسائل امامت کے مختلف پہلووں پر بحث کرتے ہوئے اس مقدمے کے دلائل سے تعرض کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ سب صحابہ سے افضل تھے۔ اس مقدمے کے حامیین کی جانب سے ایک دلیل آپ یہ لاتے ہیں کہ چونکہ حضرت علی رضی الله عنہ سب سے پہلے ایمان لائے اس لئے وہ سب سے افضل تھے۔ آپ نے جو جواب دیا اس کے تین نکات ہیں:

1)         پہلی بات آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ آپ ایمان لانے والوں میں سب سے سابق ہیں

2)         دوسری بات آپ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ ہی ایمان لانے میں سابق تھے تو بھی محل نزاع میں یہ آپ کے حق میں وجہ فضیلت نہیں اس لئے کہ حضرت علی رضی الله عنہ بچپن میں ایمان لائے جبکہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بعد از بلوغت اور بالغ شخص کا ایمان بچے کے ایمان سے تین وجوہ سے افضل ہے

الف)     اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہوا کہ کیا بچے کا ایمان معتبر بھی ہے یا نہیں جبکہ بالغ شخص کے ایمان کی مقبولیت میں کوئی اختلاف نہیں

ب)       بالغ شخص کا ایمان خود اس کے اپنے لئے اور دوسرے کے لئے زیادہ نفع بخش ہے۔ اپنے لئے اس وجہ سے کہ وہ متعدد شرعی احکام پر عمل کا مکلف ہوتا ہے اور ان پر عمل کی وجہ سے ثواب پاتا ہے جبکہ بچے کا یہ معاملہ نہیں، دوسروں کے لئے اس بنا پر کیونکہ وہ اپنے فہم و ذکا کے ذریعے دوسروں کو اسلام کی دعوت زیادہ مؤثر طریقے سے دے سکتا ہے

ج)        بچے کے مقابلے میں اسلام کے لئے بالغ شخص کی دعوت زیادہ مفید ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اسلام لانے کے بعد حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن وقاص وغیرہ رضی الله عنھم کے ایمان لانے کا سبب بنے جس سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی۔

3)         تیسرا جواب آپ یہ دیتے ہیں کہ اگر ایمان میں سبقت کو نفس مسئلہ میں آپ کے حق میں وجہ فضیلت مان بھی لیا جائے تو اس سے مجموعی افضلیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ صرف اس ایک جہت میں افضلیت ثابت ہوتی ہے۔

امام رازی کی رائے

امام رازی (م 606 ھ) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ علم کلام پر اپنی ایک مفصل کتاب “نھایة العقول فی درایة الاصول” میں آپ مسئلہ امامت سے متعلق مباحث پر ایک باب باندھ کر اس پر بحث کرتے ہوئے فریق مخالف کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ آپ کی بحث کا رخ یہ ہے کہ زیر بحث مقدمے (یعنی “حضرت علی رضی الله عنہ ہی منصوص امام و خلیفہ تھے”) کے لئے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں یا وہ آیات کے غلط مصداق پر مبنی ہیں، یا تحکم پر مبنی ہیں، یا الفاظ اس عمومی مفہوم کے حامل نہیں جن کا دعوی کیا جارہا ہے اور یا پھر وہ ظنی نوعیت کے دلائل ہیں جن سے کسی شخص کے منصوص امام ہونے کا تصور اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علی رضی الله عنہ کے سب سے پہلے و برحق امام ہونے کے لئے پیش کئے جانے والے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ آپ رضی الله عنہ سب صحابہ سے مجموعی طور پر افضل تھے اس لئے آپ ہی امام و خلیفہ برحق تھے۔ اس مقدمے (کہ “حضرت علی رضی الله عنہ سب سے افضل تھے”) کے لئے حامیین جو متعدد آیات و احادیث پیش کرتے ہیں، امام رازی ان پر بحث کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک تبصرہ درج ذیل ہے:

وأما سائر الأحاديث التي ذكروها فهي من باب الآحاد الغريبة، فهي لا تفيد الظن فضلا عن العلم، ثم إنها معارضة بالفضائل المشهورة الواردة في أبي بكر وعمر. وأما الذي ذكروه من اجتماع خصال الفضل في علي رضي اللہ وأن عليا كان في ذلك الوقت صبيا. ولو أنه كان بالغا! ولكن لا شك أن أبا بكر كان شيخا، وانتقال الشيخ عن دينه أشق عليه من انتقال من يقرب سنه من الصبي؛ لأنه أقام ثلاث عشرة سنهّٰ، يقاسي الشدائد، فإن المشركين كانوا يضربونه تارة، ويشتمونه أخرى، واشترى جمعا من المعذبين في اللہ وأنفق عليه الأموال العظيمة

اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ احادیث جو انہوں نے حضرت علی رضی الله عنہ کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے ذکر کیں وہ غریب اخبار احاد میں سے ہیں جن سے غلبہ ظن بھی حاصل نہیں ہوتا، چہ جائیکہ وہ یقین کا فائدہ دیں۔ نیز یہ احادیث ان مشہور فضائل سے معارض ہیں جو حضرت ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے بارے میں وارد ہوئے۔ جہاں تک ان مجموعی خصائص کا تعلق ہے جو حضرت علی رضی الله عنہ کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے پیش کئے گئے، تو بات یہ ہے کہ اعلان نبوت کے وقت حضرت علی رضی الله عنہ بچے تھے اور اگر بالفرض نوجوان بھی مان لئے جائیں تب بھی اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ ایمان لانے کے وقت ادھیڑ عمر شخصیت تھے اور کسی ادھیڑ عمر شخص کا اپنے دین کو ترک کرکے دوسرے دین کو اختیار کرنے کا فیصلہ ایک بچے کے ایسا فیصلہ کرنے سے کہیں زیادہ کٹھن ہوتا ہے، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ تیرہ سال تک مشرکین مکہ کے مظالم کے آگے ڈٹے رہے جو کبھی ھاتھ دراز کرکے انہیں ذد و کوب کرتے اور کبھی زبان دراز کرکے گالم گلوچ کرتے، اور آپ نے مظلومین کی ایک جماعت کو الله کی رضا کی خاطر خرید کر آزاد کیا اور اپنا کثیر مال خرچ کیا۔

قاضی باقلانی کی رائے

آگے بڑھتے ہوئے ایک اور جلیل القدر متکلم قاضی باقلانی (م 403 ھ) کا کلام پیش کرتے ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے لئے بعینہہ وہی بات کہتے ہیں جو امام رازی و امام آمدی نے کہی، یعنی یہ کہ “السابقون الاولون” کی رو سے ایمان لانے والوں کے سردار حضرت ابوبکر ہی ہیں نہ کہ حضرت علی کیونکہ اعلان نبوت کے وقت وہ چھوٹے بچے تھے۔

آپ نے ایک کتاب “مناقب الائمة الاربعة” کے عنوان سے تحریر کی جس کا موضوع خلفائے راشدین کے فضائل ہیں۔ کتاب کا عنوان ہی بتا رہا ہے کہ یہ مناظراتی کتاب نہیں۔ اس میں آپ ایک باب یہ قائم کرتے ہیں: “فی اعظم الفضائل والسبق الی الاسلام والقول فی التفاضل بین ابی ابکر و علی رضی الله عنه”۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ عند اللہ افضلیت کے معاملے میں صرف عقلی دلائل سے فیصلہ کیا جانا ممکن نہیں لہذا لامحالہ سمعی دلائل ہی حجت ہوسکتے ہیں۔[1] پھر آپ کہتے ہیں کہ ایمان لانے میں سبقت کی بحث میں امکانی طور پر چار ہی لوگ امیدوار ہیں: حضرت ابوبکر، حضرت زید بن حارثہ، خباب بن الارث، اور حضرت علی رضی اللہ عنہم۔ اول الذکر تین کے بارے میں اتفاق ہے کہ یہ تینوں حالت بلوغ میں ایمان لائے اور احکام شریعہ کے مکلف ہونے کی بنا پر مدح و مذمت کے احکام کے مستحق تھے۔ پھر آپ بتاتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کیوں کر حضرت زید بن حارثہ و خباب بن الارث سے افضل تھے (موضوع کے اعتبار سے یہاں اس تفصیل کا موقع نہیں)۔ اس کے بعد حضرت علی و حضرت ابوبکر کے مابین موازنہ کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ حضرت علی جب ایمان لائے تو روایات کے اختلاف کے پیش نظر آپ کی عمر پانچ یا سات سال تھی جو ایسی عمر ہے جس میں انسان غیر مکلف ہونے کے سبب احکام شریعہ کے تناظر میں مدح و مذمت کا مستحق ہی نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا اسلام قبول کرنا مکلفین کے اسلام قبول کرنے کی طرح نہیں تھا اور اس لئے اس معاملے میں ان کا الحاق مکلفین کو حاصل ہونے والے درجات کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ اوائل اسلام میں ایمان لانے کی سبقت کی بنا پر جو فضیلت زیر بحث ہے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابل نہیں ہوسکتے۔ اس ضمن میں آگے جا کر آپ حضرت ابوبکر کی افضلیت کے لئے آیت لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ  (وہ لوگ جنہوں نے فتح (مکہ) سے قبل انفاق و قتال کیا وہ برابر نہیں ہوسکتے (ان کے جنہوں نے بعد میں انفاق و قتال کیا)سے  بھی استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کو اس معاملے میں بھی دوہری فضیلت حاصل ہوئی کہ انہیں انفاق و قتال دونوں کا شرف حاصل ہوا۔ اوائل اسلام میں آپ رضی اللہ عنہ کی اس خدمت ہی کے سبب آپﷺ نے فرمایا کہ ہمیں کسی کے مال سے وہ فائدہ نہ ہوا جو ابوبکر کے مال سے ہوا۔ آپ ان امور کا بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت کے سبب متعدد اکابر صحابہ نے اسلام قبول کیا۔

امام ابو معین نسفی کی رائے

بات چل رہی ہے اس پہلو پر کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر افضلیت کا ایک اہم اصولی پہلو اوائل اسلام کے وقت حضرت ابوبکر صدیق کی خدمات کا زیادہ ہونا ہے اور اس معاملے میں حضرت علی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے کہ اس دور میں وہ کم عمر تھے۔ اب تک پیش کردہ حوالہ جات ائمہ اشاعرہ کے تھے۔ آگے بڑھتے ہوئے ماتریدی / حنفی کلامی روایت کے ایک اہم ستون علامہ ابو معین نسفی (م 508ھ / 1114ء) کی رائے علم کلام پر ان کی کتاب “تبصرۃ الادلة” سے ملاحظہ کرتے ہیں (یاد رہے کہ آپ مشہور کتاب “عقائد نسفیة” والے امام ابوحفص نسفی (م 537ھ / 1142ء) سے الگ شخصیت تھے)۔

آپ فصل قائم کرتے ہیں: الکلام فی ان ابابکر افضل الصحابة (اس مسئلے میں بحث کہ حضرت ابوبکر صحابہ میں سب سے افضل ہیں)۔ اس مقدمے پر آپ متعدد دلائل قائم کرتے ہیں جن کی تفصیل دینا یہاں مقصود نہیں۔[2] آیت لَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ (یعنی اگر تم ان کی مدد نہ کرو گے تو کیا ہوگیا، بے شک اللہ نے اس وقت بھی ان کی مدد کی جب کافروں نے انہیں وطن سے نکال دیا جبکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے اور وہ دونوں غار ثور میں تھے جب وہ اپنے ساتھ یعنی ابوبکر سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی) میں حضرت ابوبکر کی فضیلت کے پہلووں کو اجاگر کرنے کے بعد امام نسفی کہتے ہیں کہ اس بات پر اختلاف ہوا کہ بڑی عمر کے لوگوں میں سب سے پہلے اسلام کون لایا جن میں حضرت ابوبکر، حضرت خدیجہ و زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں، ان کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے جو بچپن میں ایمان لائے۔ حضرت ابوبکر کے سبقت ایمان کے افضل ہونے کی وجہ ترجیح مقرر کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ بھلا یہ تینوں حضرت ابوبکر کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ لوگ عام طور پر خواتین، غلاموں اور بچوں کی اقتدا نہیں کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اکابر صحابہ جیسے کہ حضرت عثمان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، عبد الرحمان بن عوف وغیرہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کی محنت سے اسلام کی جانب راغب ہوئے۔ پھر معاملہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مکی دور کے تیرہ سال تک اپنے مال سے نبیﷺ کی نصرت فرماتے رہے جس کی وجہ ہی سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے مال سے جتنا نفع ملا اتنا نفع کسی کے مال سے نہیں ملا، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے مظلوموں کی داد رسی فرمائی جبکہ اس دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کم سنی کے باعث نہ لوگوں کے مقتدا بن سکتے تھے اور نہ ہی اسلام کی نصرت کے لئے مال خرچ کرسکتے تھے۔ امام نسفی پروانہ رسول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمات کے ضمن میں ان کے بعض شخصی پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دور جاھلیت میں بھی حضرت ابوبکر کا شمار صاحب رائے و تدبیر لوگوں میں ہوا کرتا تھا اور اسی مرتبے کے سبب بعض اکابرین مکہ نے ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ مکی زندگی کے پر فتن دور میں آپ رضی اللہ عنہ نے متعدد مصائب کا مردانہ وار سامنا کیا اور اتنے مصائب جھیلنے کے باوجود نہ ان کے عزم و ارادے میں کمزوری آئی اور نہ ہی موقف میں لچک و نرمی پیدا ہوئی، ان مسلسل مصائب سے تنگ آکر نہ کبھی آپ اکتاہٹ کا شکار ہوئے اور نہ اسلام قبول کرنے کے فیصلے پر کسی پچھتاوے کا بلکہ ہر نئے دن رسول خداﷺ کا ساتھ دینے اور اسلام کی نصرت کرنے کے حوالے سے آپ کے عزم و جدوجہد میں اضافہ ہی ہوتا رہا، اور اس دور میں آپ ان کمزور مسلمانوں کا تحفظ کرنے میں پیش پیش رہے جنہیں مکہ میں اپنی خاندانی وجاھت یا کسی مضبوط گروہ کی حمایت کے سبب تحفظ حاصل نہ تھا (یعنی غلام و پسے ہوئے طبقات)۔ اس کے برعکس اس دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسے مصائب و شدائد کا سامنا نہ کرنا پڑا، ایک اس وجہ سے کہ وہ کم عمر تھے اور دوسرا اس وجہ سے کہ دشمن جانتے تھے کہ اس وقت ان کی کاوشوں سے اسلام نہیں پھیلے گا۔

الغرض قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ اوائل اسلام میں ان دونوں حضرات کے مابین اس جہت میں موازنہ کرتے ہوئے حضرت ابوبکر کو افضل کہنا، ائمہ کلام کے نزدیک یہ نری قیاس آرائیاں نہیں بلکہ آیات کا مصداق مقرر کرکے حضرت ابوبکر کی افضلیت طے کرنے میں ان کا ایک اصولی استدلال ہے۔ اس پہلو سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان لازماً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہیں۔ اگر یہ تنقیص و قیاس آرائی ہے تو اہل سنت میں اس کی تاریخ پھر بہت پیچھے تک جاتی ہے۔

2۔ کیا موازنے کا یہ پہلو مناظرانہ اسلوب پر ہے؟

اب تک یہ واضح ہوگیا کہ حضرت علی و حضرت ابوبکر رضی اللہ عنھما میں شخصی تناظر میں موازنہ کرکے حضرت ابوبکر کو افضل کہنا، یہ اہل سنت کا طریقہ کار ہے نیز حضرت ابوبکر صدیق کی اوائل اسلام کی خدمات کا حضرت علی کی اس دور کی خدمات سے بڑھ کر ہونے کو آپ کہ وجہ فضلیت کہنا ان اصولی دلائل میں سے ایک ہے جو اہل سنت کے استدلال کا مدار ہیں۔البتہ درج بالا حوالہ جات کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرنے کے لئے بعض لوگوں نے اپنی جانب سے توجیہہ بنائی کہ ائمہ کلام نے یہ باتیں محض مناظرانہ اسلوب پر کہیں، یہ ان کا اصولی موقف نہیں۔ درج بالا گفتگو کا انداز بحث ہی صاف بتا رہا ہے کہ ائمہ کلام یہ سب کچھ بطور مناظرہ نہیں کہہ رہے تھے بلکہ یہ آیات کا مصداق متعین کرنے کا اصولی استدلال ہے۔ تاہم پھر آئیے دیکھتے ہیں کہ جن ائمہ کی بات کو مناظراتی اسلوب قرار دیا جارہا ہے، کیا وہ خود بھی اسے مناظراتی ہی سمجھتے تھے یا ایک اصولی وجہ فضیلت کے طور پر دیکھتے تھے۔ چونکہ امام رازی کا حوالہ پیش کیا گیا تھا تو آئیے انہی کا کلام دیکھتے ہیں۔

اپنی تفسیر میں آیت “وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ الخ” پر بحث کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ مفسرین کے ہاں “سبقت” کے متعدد اقوال ملتے ہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد “ھجرت و نصرت اسلام” میں سبقت ہے جس کے دلائل آپ کی تفسیر میں دیکھے جاسکتے ہیں (یہ یہاں ہمارا موضوع نہیں)۔ پھر آپ کہتے ہیں:

إِذَا ثَبَتَ هَذَا فَنَقُولُ: إِنَّ أَسْبَقَ النَّاسِ إِلَى الْهِجْرَةِ هُوَ أَبُو بَكْرٍ لِأَنَّهُ كَانَ فِي خِدْمَةِ الرَّسُولِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَكَانَ مُصَاحِبًا لَهُ فِي كُلِّ مَسْكَنٍ وَمَوْضِعٍ، فَكَانَ نَصِيبُهُ مِنْ هَذَا الْمَنْصِبِ أَعْلَى مِنْ نَصِيبِ غَيْرِهِ، وَعَلِيٌّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَإِنْ كَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ إِلَّا أَنَّهُ إِنَّمَا هَاجَرَ بَعْدَ هِجْرَةِ الرَّسُولِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَلَا شَكَّ أَنَّهُ إِنَّمَا بَقِيَ بِمَكَّةَ لِمُهِمَّاتِ الرَّسُولِ إِلَّا أَنَّ السَّبْقَ إِلَى الْهِجْرَةِ إِنَّمَا حَصَلَ لِأَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ نَصِيبُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذِهِ الْفَضِيلَةِ أَوْفَرَ، فَإِذَا ثَبَتَ هَذَا صَارَ أَبُو بَكْرٍ مَحْكُومًا عَلَيْهِ بِأَنَّهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَرَضِيَ هُوَ عَنِ اللَّهِ، وَذَلِكَ فِي أَعْلَى الدَّرَجَاتِ مِنَ الْفَضْلِ وَإِذَا ثَبَتَ هَذَا وَجَبَ أَنْ يَكُونَ إِمَامًا حَقًّا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ، إِذْ لَوْ كَانَتْ إِمَامَتُهُ بَاطِلَةً لَاسْتَحَقَّ اللَّعْنَ وَالْمَقْتَ، وَذَلِكَ يُنَافِي حُصُولَ مِثْلِ هَذَا التَّعْظِيمِ، فَصَارَتْ هَذِهِ الْآيَةُ مِنْ أَدَلِّ الدَّلَائِلِ عَلَى فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَعَلَى صِحَّةِ إِمَامَتِهِمَا

اس کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ سے مدینہ کی جانب ھجرت کرنے میں سب سے اولی حضرت ابوبکر صدیق تھے جو ہر مقام پر آپ کے ساتھ تھے اور اس حوالے سے دیگر سب کے مقابلے میں آپ کو سب سے بڑھ کر منصب میسر آیا۔ یہ بات درست ہے کہ حضرت علی بھی اولین مھاجرین میں شامل تھے لیکن انہوں نے آپ علیہ السلام کے بعد ھجرت کی اور یہ بات بھی درست ہے کہ انہیں مکہ میں اہم امور کے لئے چھوڑا گیا تھا لیکن بات یہ ہے کہ ھجرت میں سبقت حضرت ابوبکر کے حصے آئی اور اسی بنا پر اس فضیلت میں آپ کا حصہ بڑھ کر ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ ہی رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ برحق تھے، اگر ان کی امامت باطل ہوتی تو وہ تعریف نہیں ملامت کے مستحق ہوتے جبکہ وہ اس عظیم منصب کے خلاف ہے جو انہیں ھجرت میں سبقت سے حاصل ہوا۔ الغرض یہ آیت حضرت ابوبکر کی فضیلت اور ان کی امامت کی صحت پر دلیل ہے۔

اس کے بعد آپ اپنے اختیار کردہ معنی پر یہ اعتراض لاتے ہیں کہ آخر سابقون سے مراد ایمان لانے میں سبقت کیوں نہیں؟ آپ جواب دیتے ہیں:

قُلْنَا: السَّبْقُ فِي الْهِجْرَةِ يَتَضَمَّنُ السَّبْقَ فِي الْإِسْلَامِ، وَالسَّبْقُ فِي الْإِسْلَامِ لَا يَتَضَمَّنُ السَّبْقَ/ فِي الْهِجْرَةِ، فَكَانَ حَمْلُ اللَّفْظِ عَلَى السَّبْقِ فِي الْهِجْرَةِ أَوْلَى. وَأَيْضًا فَهَبْ أَنَّا نَحْمِلُ اللَّفْظَ عَلَى السَّبْقِ فِي الْإِيمَانِ، إِلَّا أَنَّا نَقُولُ: قَوْلُهُ: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ صِيغَةُ جَمْعٍ فَلَا بُدَّ مِنْ حَمْلِهِ عَلَى جَمَاعَةٍ فَوَجَبَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَغَيْرُهُ، وَهَبْ أَنَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا فِي أَنَّ إِيمَانَ أَبِي بَكْرٍ أَسْبَقُ أَمْ إِيمَانَ عَلِيٍّ؟ لَكِنَّهُمُ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ مِنَ السَّابِقِينَ الْأَوَّلِينَ، وَاتَّفَقَ أَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى أَنَّ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُو بَكْرٍ، وَمِنَ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ، وَمِنَ الصِّبْيَانِ عَلَيٌّ، وَمِنَ الْمَوَالِي زِيدٌ، فَعَلَى هَذَا التَّقْدِيرِ: يَكُونُ أَبُو بَكْرٍ مِنَ السَّابِقِينَ الْأَوَّلِينَ، وَأَيْضًا قَدْ بَيَّنَّا أَنَّ السَّبْقَ فِي الْإِيمَانِ إِنَّمَا أَوْجَبَ الْفَضْلَ الْعَظِيمَ مِنْ حَيْثُ إِنَّهُ يَتَقَوَّى بِهِ قَلْبُ الرَّسُولِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَصِيرُ هُوَ قُدْوَةً لِغَيْرِهِ، وَهَذَا الْمَعْنَى فِي حَقِّ أَبِي بَكْرٍ أَكْمَلُ، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ حِينَ أَسْلَمَ كَانَ رَجُلًا كَبِيرَ السِّنِّ مَشْهُورًا فِيمَا بَيْنَ النَّاسِ، وَاقْتَدَى بِهِ جَمَاعَةٌ مِنْ أَكَابِرِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَإِنَّهُ نُقِلَ أَنَّهُ لَمَّا أَسْلَمَ ذَهَبَ إِلَى طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَرَضَ الْإِسْلَامَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ جَاءَ بِهِمْ بَعْدَ أَيَّامٍ إِلَى الرَّسُولِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَأَسْلَمُوا عَلَى يَدِ الرَّسُولِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَظَهَرَ أَنَّهُ دَخَلَ بِسَبَبِ دُخُولِهِ فِي الْإِسْلَامِ قُوَّةٌ فِي الْإِسْلَامِ، وَصَارَ هَذَا قُدْوَةً لِغَيْرِهِ، وَهَذِهِ الْمَعَانِي مَا حَصَلَتْ فِي عَلَيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لأنه فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ مَزِيدُ قُوَّةٍ لِلْإِسْلَامِ، وَمَا صَارَ قُدْوَةً فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ لِغَيْرِهِ، فَثَبَتَ أَنَّ الرَّأْسَ وَالرَّئِيسَ فِي قَوْلِهِ: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ لَيْسَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ ۔۔۔ فَظَهَرَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ دَالَّةٌ عَلَى فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ، وَعَلَى صِحَّةِ الْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ قَطْعًا

اس کا مفہوم یہ ہے کہ ھجرت میں سبقت اسلام لانے میں سبقت کو شامل ہے مگر اسلام لانے کی سبقت ھجرت میں سبقت کو شامل نہیں، پس ھجرت میں سبقت مراد لینا یہاں اولی ہے۔ پھر اگر یہ مان بھی لیا جائے ایمان لانے ہی میں سبقت مراد ہے تو یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے ایک جماعت مراد ہے جس میں حضرت علی بھی شامل ہیں۔ اگرچہ علما کا اس بات پر اختلاف ہوا کہ سب سے پہلے ایمان کون لایا لیکن اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر سابقین میں شامل تھے، وہ اس طرح کہ علمائے حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر، خواتین میں حضرت خدیجہ، بچوں میں حضرت علی اور غلاموں میں حضرت زید ایمان لائے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر اس معاملے میں بھی اس جماعت میں شامل تھے جسے جمع کے صیغے میں “السابقون” کہا گیا۔ یہ بات پہلے ہی بیان ہوچکی کہ ایمان لانے میں سبقت کا تعلق دراصل اس بات سے ہے کہ لوگوں کے ایمان لانے سے آپﷺ کے قلب مبارک کو تقویت ملتی تھی اور یہ پہلو حضرت ابوبکر کے ایمان میں زیادہ کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے کیونکہ جب آپ ایمان لائے تو وہ مکہ میں بڑی عمر کی ایک مشہور شخصیت تھے اور ایمان لانے میں اکابر صحابہ کی ایک جماعت نے آپ کی اقتدا کی جیسے کہ حضرت عثمان وغیرہ اور اس معاملے میں آپ دوسروں کے لئے مقتدا کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو حضرت علی کے ایمان لانے میں سبقت سے حاصل نہیں ہوتے کہ اعلان نبوت کے وقت وہ بچے تھے۔ پس معلوم ہوگیا کہ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ کے سردار سوائے حضرت ابوبکر اور کوئی نہیں ۔۔۔ اس پوری بحث کے بعد امام رازی پھر سے کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کی امامت برحق ہونے کی ایک مضبوط دلیل ہے۔

ملاحظہ کیجئے کہ جو بات آپ نے علم کلام کی کتاب میں کہی وہی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہی اور اس پورے انداز بیان سے واضح ہے کہ امام رازی اوائل اسلام میں حضرت علی کے مقابلے میں حضرت ابوبکر صدیق کے ایمان لانے اور خدمات کے پہلو کو مناظرے کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ یہ آپ کے نزدیک حضرت ابوبکر کی ایک اصولی وجہ فضیلت و استحقاق امامت تھی جو اس آیت کا مصداق طے کرنے میں متعلق ہے۔ انہیں مناظراتی اسلوب کی باتیں قرار دے کر ھوا میں اڑانے کی کوشش مفید مطلب نہیں، یہ صرف تحکم ہے۔ آیات و احادیث سے حضرت ابوبکر کی سب صحابہ پر افضلیت کا ایسا استدلال کرنا، یہ اہل سنت کا اصولی منہج رہا ہے جسے بدقسمتی سے “تنقیص علی” کا لیبل لگا کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

الغرض خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ائمہ متکلمین کی یہ بحث نہ مناظراتی اسلوب پر ہے اور نہ قیاس آرائیاں بلکہ ان کے نزدیک یہ متعدد قرآنی آیات جیسے “السابقون الاولون” کے مصداقات سے متعلق ہے جن کی بنا پر ہی وہ حضرت ابوبکر صدیق کی افضلیت کے دلائل لاتے ہیں۔ اسی بنا پر یک بعد دیگرے ائمہ اہل سنت اس پہلو پر بات کرتے ہیں۔

3۔ افضلیت ابوبکر اور صوفی روایت : بعض عبارات پر تبصرہ

اہل سنت کے ائمہ کلام کا اجماعی موقف ہے کہ بعد از انبیاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ سے افضل ہیں۔ اس موقف پر سوالیہ نشان کھڑا کرکے متبادل رائے (یعنی یہ کہ حضرت علی سب سے افضل ہیں) کو سنی رائے قرار دینے کا امکان پیدا کرنے کے لئے صوفی روایت کی بعض عبارات و مقدمات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ آئیے ان کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔

مجدد صاحب کی پیش کردہ عبارت اور اس پر تبصرہ

استدلال کی نوعیت یہ بنائی گئی ہے کہ حضرت مجدد صاحب کے مطابق قرب الہی کا وہ راستہ جسے ولایت کہتے ہیں حضرت علی اور حضرات حسنین سے متعلق ہے اور اس معاملے میں جسے جو فیض ملتا ہے وہ حضرت علی کے واسطے سے ملتا ہے۔ چونکہ صوفی فکر کے مطابق نبی کہ جہت ولایت جہت نبوت (ظاھری شریعت و دعوت و تبلیغ) سے افضل ہے، اور مجدد صاحب نے دیگر مقامات پر فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اس جہت کے امام ہوئے جو امور ظاھرہ سے متعلق ہے، لہذا معلوم ہوا کہ حضرت مجدد الف ثانی حضرت علی کی افضلیت کی بات کررہے ہیں۔ اس سے گویا یہ ثابت ہوا کہ صوفی فکر میں حضرت علی کی افضلیت کی رائے کی گنجائش موجود ہے۔ پھر چونکہ صوفی فکر اہل سنت کی روایت کا حصہ ہے اور مجدد صاحب اس کے ایک بڑے نمائندے ہیں، لہذا اس رائے کو بھی سنی فریم ورک میں قبول کیا جانا چاہئے۔ ایک صاحب نے جاری گفتگو میں یہ بھی فرمایا کہ اس دوگانہ پہلو کی تقسیم (یعنی ایک پہلو سے حضرت ابوبکر امام اور ایک پہلو سے حضرت علی امام) سے مسئلے کا تصفیہ ہوجاتا ہے اور وجہ نزاع جاتی رہی۔ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ صوفی روایت میں یہ ِخیال گویا قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔

اس مقصد کے لئے مجدد صاحب کی درج ذیل عبارت پیش کی گئی:

“دوسرا راستہ قرب ولایت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اقطاب، اوتاد، ابدال و نجبا اور عام اولیاء اللہ سب اسی راہ سے واصل ہوئے ہیں اور راہ سلوک سے مراد یہی راہ ہے، بلکہ جذبہ متعارفہ بھی اسی میں داخل ہے اور توسط اور وسیلہ بھی اسی راہ میں ثابت ہے۔ اس راہ کے واصلین کے پیشوا و سرگروہ اور ان بزرگوں کے فیض کا منبع حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں۔ یہ عظیم الشان منصب آپ سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس مقام میں گویا آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے دونوں مبارک قدم حضرتِ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے سر مبارک پر ہیں اور حضرت فاطمہ وحضرات حسنین رضی اللہ تعالی عنہم بھی اس مقام میں ان کے شریک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر- کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم – نشاءت عنصری سے پیشتر بھی اس مقام کے ملجا وماوی تھے جیسا کہ آپ نشاءت عنصری کے بعد ہیں ۔ اور جس کسی کو بھی اس راہ سے فیض وہدایت پہنچتی ہے وہ سیدنا علی ہی کے توسط سے پہنچتی ہے کیوں کہ آپ اس راہ کے نقطۂ کمال کے قریب ہیں، بلکہ اس مقام کا مرکز آپ سے ہی تعلق رکھتا ہے [مکتوبات امام ربانی- فارسی -دفتر سوم، مکتوب نمبر: ۱۲۳، ۳/247)]

آئیے اس استدلال کی غلطی کو سمجھتے ہیں۔

حضرت مجدد صاحب کی جانب غلط مفروضے کی نسبت

درج بالا استدلال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مجدد صاحب کے نزدیک نبی کی جہت ولایت نبی کی جہت نبوت سے افضل ہے جبکہ مجدد صاحب اس کے قائل ہی نہیں۔ جس طرح فقہی مکاتب فکر کے مابین مسائل پر اختلاف ہوتا ہے، صوفیا کے ہاں اس مسئلے پر اختلاف ہے۔ شیخ ابن عربی کی رائے میں نبی کی جہت ولایت اس کی جہت نبوت سے افضل ہے۔ تاہم اپنی فکر کی سنی فکر سے ھم آھنگی برقرار رکھتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ اس امت میں حضرت ابوبکر صدیق سب سے بڑے ولی ہیں (ہمارے مطالعے کی حد تک شیخ ابن عربی کے ہاں یہ رائے نہیں ملتی کہ امور باطنی کی ولایت علی الاطلاق حضرت علی کو عطا ہوئی)۔ اس کے برعکس مجدد الف ثانی اس رائے کو غلط کہتے ہیں اور ان کے نزدیک جہت نبوت سے متعلق مقامات قرب جہت ولایت سے متعلق مقامات قرب سے اولی ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ حضرات شیخین نبیﷺ کی جہت نبوت کے وارث ہوئے جبکہ حضرت علی جہت ولایت کے (اور حضرت عثمان دونوں کے مابین برزخی کیفیت رکھتے ہیں)۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو مجدد صاحب کے مطابق عند اللہ قرب کے معاملے میں حضرت ابوبکر ہی حضرت علی سے افضل ہیں۔ یوں سمجھئے کہ شیخ ابن عربی اس معاملے کو اپنے طریقے سے سنی رائے سے ھم آھنگ رکھتے ہیں تو مجدد صاحب اپنے طریقے سے اور نفس مسئلہ میں نتیجے کے اعتبار سے دونوں کی رائے میں کوئی فرق نہیں، اگرچہ استدلال کا طریقہ مختلف ہے۔ آئیے مجدد صاحب کی عبارت ملاحظہ کرتے ہیں۔

ہمارے پیش نظر آپ کے “مکتوبات (جلد 1)” کا “مکتوب نمبر 251” ہے جس کا مقصود خلفائے راشدین کی فضیلت، حضرت علی کے بعض خصائص، صحابہ کرام کی تعظیم و توقیر اور ان کے مابین ہوئی مشاجرات کے صحیح محل کا بیان ہے۔ یہ ایک طویل مکتوب ہے جس کے متعلقہ حصے سے ماقبل کا پہلے ہم خلاصہ کرتے ہیں تاکہ اقتباس سمجھنے میں آسانی رہے۔

آپ کہتے ہیں کہ حضرات شیخین ولایت محمدیہﷺ کے درجوں کو پہنچنے کے علاوہ گزشتہ انبیاء کی ولایت کے معاملے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم پر ہیں (صوفی فکر کی رو سے ہر ولی کسی نبی کے قلب یا قدم پر ہوتا ہے) اور دعوت و تبلیغ دین کی جہت میں مراتب نبوت سے جو حصہ انہیں ملا وہ حضرت موسی علیہ السلام کے قدم پر ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہیں، اس لئے ان میں جہت ولایت کی جانب میلان زیادہ ہے۔ حضرات شیخین مراتب کے اختلاف کے موافق نبوت محمدیہﷺ کے مقامات و بوجھ کو اٹھانے والے ہیں جبکہ حضرت علی ولایت محمدیہ کے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں اور اس بنا پر مشائخ کے اکثر سلسلے آپ کی جانب منسوب ہیں۔ اگر شیخین کی افضلیت پر اہل سنت کا اجماع نہ ہوتا تو شاید صوفیا کا کشف حضرت علی کی افضلیت کی جانب راجح ہوتا تاہم مجھ پر (یعنی مجدد صاحب پر) بفضل الہی استدلال کے سوا بذریعہ کشف بھی یہ واضح ہوا کہ حضرات شیخین کا مرتبہ ہی افضل ہے۔ اس کے بعد آپ حضرت ابوبکر کی افضلیت پر متعدد اقوال پیش کرتے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں ہم خوف طوالت کے باعث ان سے صرف نظر کرتے ہوئے آپ کا وہ اقتباس پیش کرتے ہیں جو مقصود ہے (فارسی عبارت یہاں نہیں دی گئی):

“وہ اولیاء جو دعوت خلق کے کام میں مصروف ہیں اور جو ولایت و دعوت کی دونوں اطراف سے حصہ رکھتے ہیں نیز تابعین و تبع تابعین میں سے علمائے مجتہدین ان سب نے کشف صحیح اور اخبار صادقہ کی بنا پر شیخین کے کمالات کو دریافت کیا اور ان کے فضائل کو پہچان کر ان کے افضل ہونے کا حکم لگایا اور اس پر اجماع کیا ہے، اور اس کشف کو جو اس اجماع کے خلاف ظاہر ہو اسے غلط قرار دے کر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ اور ایسے کشف کا اعتبار ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ صدر اول میں حضرات شیخین کی افضلیت ثابت ہوچکی۔ (۔۔۔) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ولایت نبوت سے افضل ہے وہ ارباب سکر و اولیائے غیر مرجوع میں سے ہیں جنہیں مراتب نبوت (یعنی دعوت و تبلیغ و نصرت دین) سے زیادہ حصہ نہیں ملا۔ اور تم نے دیکھا ہوگا کہ اس بندہ ناچیز نے اپنے بعض رسائل میں اس بات کی تحقیق کی ہے کہ (جہت) نبوت (جہت) ولایت سے افضل ہے اگرچہ وہ اسی نبی کی ولایت ہو اور یہی حق ہے، جس نے اس کے خلاف بات کی وہ جہت نبوت کے کمالات سے غافل ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اولیاء کے سب سلاسل میں نقشبندیہ حضرت ابکر صدیق کی جانب منسوب ہیں۔ پس ان میں صحو دیگر سلاسل کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ان کی دعوت بھی کامل تر ہے اور اس لئے حضرت ابوبکر صدیق کے کمالات بھی ان پر زیادہ ظاہر ہوں گے اور ناچار ان کی نسبت سب سلاسل کی نسبت سے بڑھ کر ہوگی۔ (۔۔۔) دیگر تمام ولایتوں کی نسبت اس سلسلے سے نیچے اسی لئے ہے کیونکہ انہیں نبوت کے مراتب سے کم حصہ ملا ہے اور یہ سلسلہ ولایت حضرت ابوبکر کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے ان کمالات سے وافر حصہ رکھتا ہے۔”

اس اقتباس سے واضح ہے کہ آپ کے نزدیک وہ مراتب قرب جو نبی کی جہت نبوت سے متعلق ہیں ان مراتب قرب سے اولی ہیں جو نبی کی جہت ولایت سے متعلق ہیں۔ اور چونکہ حضرات شیخین مراتب نبوت کی وراثت کے امام و خلیفہ ہوئے جبکہ حضرت علی مراتب ولایت کے، لہذا حضرات شیخین حضرت علی سے عند اللہ افضل ہیں اور یہی اہل سنت کا اجماع ہے۔ نیز آپ کے نزدیک سلسلہ نقشبندیہ کی دیگر سلاسل پر فضیلت کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے حضرت ابوبکر سے نسبت ہے جنہیں قرب الہی کے مراتب میں زیادہ بلند مقام میسر آیا۔

حضرت مجدد صاحب کے نزدیک حضرت علی کو شیخین سے افضل کہنا بدعت و گمراہی ہے

اس کے علاوہ اسی جلد کے مکتوب نمبر 266 میں بھی آپ نے اس بات کو دھرایا ہے کہ حضرت ابوبکر ہی سب سے افضل ہیں۔ اس کی تفصیل درج کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:

“الغرض شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور حضرت عثمان کی افضلیت اس سے کمتر ہے، تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ حضرت عثمان کی افضلیت بلکہ شیخین کی افضلیت کے منکر کو بھی کافر نہ کہا جائے بلکہ بدعتی و گمراہ سمجھا جائے کیونکہ ان کی تکفیر میں امت کا اختلاف ہے”

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ مجدد صاحب شیخین کی افضلیت کو یقینی اور اس کے منکر کو بدعتی و گمراہ کہہ رہے ہیں جبکہ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو سنی چوکھٹے میں اختلافی بنانے کی راہ کھول دی ہے نیز وہ اس اختلاف کو فقہی مسائل کے اختلاف کی طرح ظنی سمجھتے تھے۔ حضرت مجدد صاحب نے ایک مستقل رسالہ “رد روافض” کے نام سے بھی تحریر فرمایا جس میں بھی اس مسئلے پر گفتگو موجود ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو شخصیت اس مسئلے پر سنی موقف کی حفاظت میں اس قدر حساس ہے کہ اس کے نزدیک اس مسئلے پر اہل سنت کی رائے کے خلاف کشف لائق اعتبار نہیں، لوگ انہی کے کلام کو سنی موقف دھندلانے کے لئے پیش کررہے ہیں۔ فیا للعجب!

یہ استدلال تلفیق پر مبنی ہے

جو لوگ مجدد صاحب کی اس عبارت سے مسئلہ افضلیت میں دوسری رائے کو سنی رائے ثابت کرنا چاھتے ہیں، ان کا استدلال یوں ہے:

  • ایک بات شیخ ابن عربی کے نظام سے لے لی: یعنی یہ کہ جہت ولایت جہت نبوت سے افضل ہے (شیخ کےہاں امور ولایت میں حضرت علی کی برتری کا تصور موجود نہیں)
  • دوسری بات مجدد صاحب سے لے لی، یعنی یہ کہ حضرت علی امور ولایت کی خلافت کے امام ہیں (ان کے ہاں جہت نبوت جہت ولایت سے افضل ہے)
  • اور پھر ایسا نتیجہ نکال لیا جو دونوں کے ہاں مقبول نہیں

اہل فقہ اسے تلفیق کہتے ہیں، یعنی دو نظام فکر کے مقدمات کو ملا کر ایسا نتیجہ برآمد کرنا جو دونوں کے نزدیک قبول نہیں۔

الغرض معلوم ہوگیا کہ اگر پیش کردہ عبارت کو اس کے ظاہر پر محمول کیا جائے تب بھی حضرت مجدد الف ثانی کے اس کلام میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو ائمہ کلام کے اجماعی موقف کے خلاف ہو۔ ان کا نام لے کر سنی رائے کو دھندلانے اور متبادل رائے کو تصوف کی روایت باور کرانے کی کوشش مفید مطلب نہیں۔

بعض مدعیین کی مشکل

بعض سنی حضرات جو اس نوع کی بات کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علی الاطلاق امور باطنہ کی خلافت و سیادت عطا ہوئی وہ ایک مخمصے کا شکار ہیں، ایک جانب یہ حضرت ابوبکر کو مجموعی طور پر افضل بھی کہتے ہیں اور دوسری جانب  درج بالا دعوی بھی کرتے ہیں۔ ان سے سوال پوچھا جانا چاہئے کہ ان کے نزدیک ظاھری امور کی خلافت افضل ہے یا باطنی امور سے متعلق خلافت؟  اگر یہ باطنی امور کی خلافت کو افضل کہیں تو اس کا مطلب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بحیثیت مجموعی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کہنا ہی ہے۔ اور اگر یہ کہیں کہ ولایت سے متعلق خلافت امور ظاھری کی خلافت سے کم تر ہے تو ا س سے ان کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ نیز یہ بات یوں بھی عجیب ہے کہ اس بحث میں کسی شخص کے افضل ہونے کا مطلب عنداللہ اس کا قرب زیادہ ہونے کا دعوی کرنا ہے اور ولایت دراصل اس قرب الہی ہی سے عبارت ہے۔ حضرت ابوبکر کا سب سے افضل ہونا اس بات کے ہم معنی ہے کہ عند اللہ ان کا قرب سب سے زیادہ ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق صحابہ میں سب سے افضل تو ہوں مگر سب سے بڑھ کر ولی نہ ہوں بلکہ علی الاطلاق ولایت کی امامت و سیادت کسی اور کے پاس ہو؟ اسی لئے تو شیخ ابن عربی کا کہنا ہے کہ اس امت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد سب سے بڑے ولی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔

کیا یہ دعوی تصوف کی روایت ہے؟

کسی قول کی قدر و قیمت کا تعین اس علم و فن کے ماہرین کے ہاں اس کی قبولیت سے لگایا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور باطنی کی خلافت کے اس طرح امام تھےکہ اس معاملے میں انہیں حضرت ابوبکر سے مجموعی افضلیت حاصل ہوگئی،  اس قسم کا قول اہل سنت کی کلامی کتب میں میسر نہ ہونا قابل فہم ہے کیونکہ متکلمین کا منہج بحث ظاہر سے متعلق تھا۔ تاہم تاریخ کے طالب علم کے طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اہل تصوف کی روایت میں اس تصور کا ماخذ تاریخی طور پر کہاں ملتا ہے؟ اس موضوع پر تحقیق کے نکتہ نگاہ سے درج ذیل کتب اہمیت کی حامل ہیں:

1۔ کتاب اللمع، ابو سراج طوسی (م 377 ھ)

2۔ کتاب التعرف، ابوبکر ابراھیم بخاری (م 381 ھ)

3۔ قوت القلوب، شیخ ابو طالب مکی (م 386 ھ)

4۔ حلیۃ الاولیاء و طبقات الأصفياء، شیخ ابو نعیم اصفھانی (م 430 ھ)

5۔ رسالہ قشیریة، عبد الکریم قشیری (م 465 ھ)

6۔ کشف المحجوب، ابو الحسن ھجویری (م تقریبا 470 ھ)

7۔ احیاء العلوم و کیمیائے سعادت، ابوحامد غزالی (م 505 ھ)

8۔ فتوح الغیب و غنیة الطالبین، شیخ عبد القادر جیلانی (م 558 ھ)

9۔ عوارف المعارف، شیخ شہاب الدین سہروردی (م 632 ھ)

10۔ فتوحات مکیة، شیخ ابن عربی (م 638 ھ)

کسی تصور کو علمی روایت قرارد ینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے نشانات اس علم کی تاریخ میں دکھائے جاسکیں ۔ یہ ابتدائی چھ سات صدیوں میں اہل سنت کے صوفی افکار کی نمائندگی کرنے والی مشہور و اہم ترین شخصیات (رحمہم اللہ) کی کتب ہیں۔ ہم نے ان میں سے اکثر کی جانب رجوع کیا مگر یہ تصور ہمیں نہیں مل سکا۔ اگر یہ تصور ان کتب میں موجود نہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ بذات خود اہل تصوف میں یہ بعد کے ادوار میں اختیار کیا جانے والا ایک شاذ قول ہے؟

حضرت نظام الدین اولیاء کی پیش کردہ عبارت اور اس پر تبصرہ

ہم نے سوال پوچھا تھا کہ کیا سنی تصوف کی ابتدائی سات سو سالہ تاریخ میں یہ تصور ملتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت باطنی یعنی ولایت کے علی الاطلاق امام تھے (یہاں تک کہ حضرت ابوبکر بھی اس میں ان کے تابع تھے)؟ اسے ثابت کرنے کے لئے ایک صاحب حضرت نظام الدین اولیاء (م 725ھ / 1325ء) کی جانب منسوب ملفوظات کا ایک حوالہ لائے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج سے واپسی پر آپﷺ نے ایک “خرقہ فقر” خلفائے ثلاثۃ کے بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا کیا۔ اس سے صاحب تحریر نے یہ نتیجہ اخذ کیا:

“حضرت خواجہ کے اس ملفوظ کا مفہوم ومعنی واضح ہے کہ پورا باطنی سلسلہ اللہ تعالی کی جانب سے حضرت علی کو عطا کیا گیا”

اس پر پہلا تبصرہ یہ ہے کہ اس کتاب کی سند میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس میں الحاقی عبارات شامل ہیں اور بعض کے نزدیک کتاب ہی غیر مستند ہے۔ لہذا ایسی غیر مستند کتاب کے حوالے کو پیش کرنا محل نظر ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر کتاب کی سند درست مان لی جائے تب بھی یہ واقعہ زیر بحث مقدمے کے اثبات کے لئے مفید مطلب نہیں کیونکہ یہاں صرف “خرقہ فقر” عطا کئے جانے کا ذکر ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ فقر امور ولایت و تصوف کا صرف ایک باب ہے نہ کہ کل۔ لہذا اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جزوی فضیلت میسر آئی اور اس کا کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ ہی اس بابت سوال تھا کہ یہ عبارت پیش کی جاسکے۔ شاید اس بات کا احساس صاحب تحریر کو بھی تھا اور اس لئے انہوں نے عبارت میں ایک لمبی بریکٹ کا اضافہ کرکے فقر کو اپنی جانب سے تصوف کے ہم معنی قرار دے دیا تاکہ ان کا نتیجہ ثابت ہوسکے:

“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج پر ایک خرقہ (جسے خواجہ صاحب خرقہ فقر کا نام دیا، فقر مصطلحات تصوف میں تصوف کے مترادف ھی سمجھا جاتا ہے یعنی خواجہ کے نزدیک تصوف کا خرقہ یا پورا سلسلہ تصوف) عطا کیا گیا تھا”

تیسری بات یہ کہ یہ ایک واقعہ یا فعل ہے اور فعل معنی پر کن طرق سے دلالت کرتا ہے، اصول فقہ میں اس کی بحث دیکھی جاسکتی ہے۔ چنانچہ بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ حضرت علی کو جو خرقہ عطا کیا گیا وہ خرقہ فقر نہیں تھا بلکہ کوئی “عمومی خرقہ” تھا تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت نظام الدین الاولیاء اس نتیجے کی بات کررہے ہیں جو ہمارے محترم دوست نے اس سے اخذ کرلیا۔

الغرض زیر بحث مقدمے میں پیش کردہ یہ عبارت دو وجہ سے غیر متعلق ہے: ایک تو اس کتاب کی سند ہی مخدوش ہے جس کی بنا پر اسے تصوف کی روایت کے بنیادی ماخذات میں شمار نہیں کیا جاسکتا، دوسرا یہ کہ پیش کردہ اقتباس زیر بحث مقدمے پر استدلال میں مفید ہی نہیں۔

4۔ صوفی روایت ، حضرت ابوبکر اور احوال باطن

ہمارے ہاں سلاسل تصوف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے گویا تصوف کی روایت والے احوال باطنی کے معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو راھنما نہیں سمجھتے۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں کہ ائمہ تصوف نے معاملات تصوف و ولایت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہ کیا ہو بلکہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کا ذکر اس معاملے میں بھی سب سے پہلے لاتے ہوئے انہیں اہل طریقت کا مقتدا و امام بتاتے ہیں۔یہاں ہم تصوف پر ابتدائی دور کی دو کتب سے اقوال پیش کرتے ہیں۔

حضرت ابو نصر سراج طوسی کی رائے

ہمارے پیش نظر ابو نصر السراج الطوسی (م 377 ھ) کی کتاب “اللمع” ہے جسے سنی تصوف کے میسر ماخذات میں قدیم ترین مبسوط کتاب سمجھا جاتا ہے۔ صحابہ کے تذکرے میں دیگر سنی علماء کی طرح آپ بھی حضرت ابوبکر کا ذکر سب سے پہلے لائے ہیں اور حضرت ابوبکر کے تذکرے پر آپ نے جو باب باندھا ہے اس کا عنوان یہ ہے: “اس حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر کہ دیگر اصحاب رسول پر انہیں اپنے احوال کی بنا پر کیسے خصوصیت حاصل ہے نیز ان کے احوال صوفیہ کے لئے کیسے راہنما اصول ہیں”۔ حضرت ابوبکر سے آغاز کرنے کی وجہ ترجیح بیان کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ چونکہ ہدایت کی پیروی صحابہ کے ساتھ مشروط ہے اس لئے ہم باطنی مفاہیم کے تذکرے کا آغاز بھی صحابہ کے تذکرے سے کرتے ہیں اور اس باب میں رسول اللہﷺ کے اس قول سے راھنمائی لیتے ہوئے حضرت ابوبکر کا تذکرہ سب سے پہلے کرتے ہیں کہ “میرے بعد ابوبکر و عمر کی اتباع کرنا”۔ یعنی حضرت ابونصر طوسی کے نزدیک اس حدیث کا تعلق صرف ظاھری امور میں حضرت ابوبکر کی اتباع سے نہیں تھا بلکہ باطنی امور میں بھی اتباع کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق ہی سے ہوگا۔

اس باب میں آپ نے حضرت ابوبکر کے کئی احوال ذکر کئے ہیں، ہم صرف تین کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

1۔        حضرت ابوبکر کا قول ہے کہ اگر آسمان سے آواز آئے کہ صرف ایک ہی شخص جنت میں داخل ہوگا تو مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں اور اگر ندا آئے کہ صرف ایک ہی شخص جھنم میں جائے گا تو مجھے خوف ہے کہ شاید میں ہی ہوں۔ مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ امید و خوف کے حال کا یہ سب سے بڑا مقام ہے جو حضرت ابوبکر کو حاصل تھا۔

2۔         جب ابو العباس ابن عطاء سے پوچھا گیا کہ “کونوا ربانیین” میں ربانیین کا مطلب کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر کی طرح ہوجاؤ۔ جب رسول اللہﷺ کا انتقال ہوا تو سب صحابہ مضطرب ہوگئے مگر ایک آپ رضی اللہ عنہ ہی کا قلب حوصلہ مند رہا اور آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ زندہ ہے۔ “ربانی” کی تعریف یہی ہے کہ انسان کی اپنے رب کی جانب اس طرح لو لگی ہو کہ اس کے قلب پر حوادثات اثر انداز نہ ہوں چاہے مشرق و مغرب الٹ پلٹ ہو جائیں اور یہ حال آپ رضی اللہ عنہ کو سب سے بڑھ کر حاصل تھا۔

3۔         ابوبکر واسطی کہتے ہیں کہ اس امت میں تصوف سے متعلق پہلا جملہ حضرت ابوبکر کی زبان سے جاری ہوا جس سے گروہ صوفیہ نے وہ لطیف معانی اخذ کئے جن میں عقلا الجھے رہے۔ یہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہا گیا جملہ ہے جب رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ ابوبکر اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسولﷺ۔ ابوبکر واسطی کہتے ہیں کہ مجھے اپنی زندگی کی قسم کہ توحید کے حقائق میں اہل توحید کے لئے اس سے بلند تر کوئی اشارہ نہیں۔

باب کے آخر میں آپ حضرت جنید بغدادی کا یہ قول لائے ہیں کہ توحید کے ادراک کے معاملے میں حضرت ابوبکر کے اس قول سے بڑھ کر کوئی بات نہیں کہ اس ذات کے ادراک سے عاجز آجانے کا ادراک ہی سب سے بڑا ادراک ہے۔

حضرت سید علی ھجویری کی رائے

حضرت سید علی ھجویری (م تقریبا 470 ھ)، المعروف داتا گنج بخش لاھور والے، کی کتاب “کشف المحجوب” تصوف کی اہم کتب میں شمار ہوتی ہے۔ آپ نے بھی حضرات صحابہ کے احوال بیان کرنے کے لئے ایک باب باندھا ہے جس کا آغاز آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سے کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر کے ذکر کا آغاز آپ ان القابات سے کرتے ہیں:

“شیخ الاسلام، بعد از انبیاء خیر الانام، خلیفہ پیغمبر، امام و سید اھل تجرید، شھنشاہ ارباب توحید و آفات انسانی سے بعید امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔”

یہاں ہم آپ کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ:

حضرت ابوبکر کے احوال کا تذکرہ تصوف کے باب میں ہوا، اس معاملے میں مشائخ کرام انہیں اپنا پیشوا و امام مانتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عمر ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ جب عمر فاروق جیسی ذی شان ھستی کا آپ کے مقابلے پر یہ حال ہے تو غور کرو کہ دنیا کے لوگ آپ کے مقابلے میں کس درجے پر ہوں گے۔ اس شان کے باوجود حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ ‘دنیا کا یہ ھمارا گھر فانی ہے، ہمارے حالات مستعار ہیں اور ہمارے سانس گنتی کے ہیں اور ہماری سستی بدستور جاری ہے’۔ آپ کی اس بات سے معلوم ہوا کہ چند سانسوں کے بھروسے سرائے فانی میں دل لگا کر غافل ہوجانا حماقت ہے۔ حضرت ابوبکر کے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر اختیاری کو فقر اضطراری پر فوقیت حاصل ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے فقر اختیاری ہی اختیار کیا۔ حضرت ابوبکر ہی افضل البشر بعد الانبیاء ہیں، ان سے آگے بڑھ کر کسی کے لئے قدم اٹھانا روا نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدا بھی تسلیم سے کی اور انتہا تک اسی تسلیم و رضا کا پیکر بنے رہے۔ چنانچہ تسلیم و رضا کے معاملے میں ان کے بعد جتنے بھی لوگ ہوئے سب انہی کو اپنا مقتدا مانتے ہیں اور آپ تمام ارباب تسلیم کے امام اور اہل طریقت کے خاص پیشوا ہیں۔

5۔ “یہ مسئلہ تو ظنی ہے”!

افضلیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مسئلے پر سنی رائے کو متنازع دکھانے کے لئے ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ متعدد متکلمین نے اسے ظنی مسئلہ کہا ہے نیزیہ کہ حضرت ابوبکر کی افضلیت قطعی الثبوت و قطعی الدلالت دلائل سے ثابت نہیں۔ ان دوستوں کی بحث سے معلوم ہوتا ہے گویا ان کا مفروضہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں مخالف رائے (یعنی حضرت علی کی مجموعی افضلیت) کی بھی اہل سنت کے چوکھٹے میں اسی طرح موجود ہے جسے فقہی آراء میں اختلاف کی گنجائش ہے۔

یہاں تفصیل کا موقع نہیں، بس اصول سمجھ لیجئے۔ متکلمین کے کسی قول کو استعمال کرنے سے قبل متکلمین سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ ظنی مسئلے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ متکلمین و اصولیین جب کسی مسئلے کو قطعی نہیں ظنی کہتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں اختلاف و انکار موجب کفر نہیں اور اہل سنت واقعی یہی کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا منکر کافر نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر ظنی مسئلے میں ہر مخالف رائے سنی رائے بھی ہوتی ہے۔ معتزلہ کے ساتھ درجنوں مسائل میں اختلاف ہوا جن میں سے اکثر ظنی ہیں (مثلا یہ کہ صفات عین ذات ہیں یا غیر ذات، اور ایسی کئی مثالیں ہیں، اسی طرح خوارج کے ساتھ قطعی سے کم تر مسائل پر اختلاف ہوا جو موجب کفر نہیں) لیکن ان کی رائے کو سنی رائے نہیں سمجھا جاتا۔ اصولیین تقریبا سارے ہی فقہی مسائل کو فروعات و ظنی کہتے ہیں۔ تو کیا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی فقہ کے کسی بھی قول (مثلا قروء کا مطلب طہر) کو اٹھا کر حنفی رائے کہنا شروع کردیا جائے؟ اور جب نقد ہو اور دلیل پوچھی جائے کہ یہ حنفی رائے کیسے ہے تو جوابا کہہ دیا جائے: یہ ظنی مسئلہ ہے۔

صورت مسئلہ کو سمجھنے کے لئے یاد رکھئے کہ مسائل تین طرح کے ہیں:

1۔ وہ جن میں انکار و اختلاف سے ابدی عقاب کا خطرہ ہے، یہ موجب تکفیر ہوتے ہیں

2۔ وہ جن میں انکار و اختلاف سے موقت عقاب کا خطرہ ہوتا ہے، یہ موجب فسق و موجب بدعت ہوتے ہیں

3۔ وہ جن میں اختلاف سے گناہ لازم نہیں آتا، انہیں فروعات کہا جاتا ہے۔ اول الذکر دو کے برخلاف ان مسائل میں حق عنداللہ ایک ہی ہوتا ہے یا متعدد، اس پر اختلاف ہوا۔ احناف سمیت بعض دیگر کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں بھی حق عند اللہ ایک ہی ہوتا ہے البتہ دلیل ظنی ہونے کی وجہ سے دلیل سے اختلاف کرنے والا مخالف گنہگارہ نہیں ہوتا بلکہ مجتہد ہوتا ہے اور اپنے اجتہاد پر ایک اجر پاتا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں عند اللہ حق متعدد ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ان میں ہر مجتہد مساوی طور پر مصیب ہوتا ہے۔

اب نفس مسئلہ کو یوں سمجھئے کہ مثلاً احناف نے قروء کا مطلب حیض سمجھا اور وہ اسے ہی حق کہتے ہیں۔ لیکن پھر جب ہم نے دیکھا کہ غیر احناف نے اس سے طھر مراد لیا اور اس مراد لینے والوں کو ابتداء سے اہل سنت کے چوکھٹے میں قبول کیا گیا تو معلوم ہوا کہ طھر مراد لینا اگرچہ غیر حنفی رائے ہے مگر اسے غیر سنی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ حضرت ابوبکر کی مجموعی افضلیت کا مطلب یہ کہنا ہے کہ بعد از انبیاء آپ رضی اللہ عنہ کو عند اللہ سب سے زیادہ قرب حاصل ہے۔ تو جن لوگوں کا دعوی ہے کہ یہ مسئلہ تیسری قسم کے معنی میں ظنی ہے انہیں دکھانا ہوگا کہ اہل سنت کے ائمہ کلام و اصول نے ابتداء ہی سے اس مسئلے پر دوسری رائے (یعنی عند اللہ حضرت علی کے حضرت ابوبکر سے زیادہ قرب ہونے) کو بھی سنی رائے قبول کیا ہے۔ یاد رہے کہ نفس مسئلہ جزوی افضلیت نہیں بلکہ مجموعی افضلیت سے متعلق ہے، یہاں کسی مبہم عبارت یا قول سے بات نہیں بن سکتی کہ فلاں قدیم کتاب میں ایک قول درج ہے، یہاں تک کہ اس سے بھی نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باطنی امور کی خلافت ملی کیونکہ یہ بھی مجموعی افضلیت کی رائے پر صریح نہیں جیسا کہ ہم دیکھے چکے۔ جس بھی قول کی بات کی جائے گی اس کا اس پہلو سے تجزیہ کیا جائے گا کہ نفس مدعا پر استدلال کے لئے وہ مفید مطلب بھی ہے یا نہیں۔

آخر میں ہم ان دوستوں کو ان کے اصول کی منطق پر ایک تنبیہہ بھی کرنا چاہیں گے کہ یہ اصول پھر بہت دور تک جائے گا  اس لئےکہ مشاجرات صحابہ کے باب میں حضرت علی رضی الله عنه کے حق پر ہونے کا مسئلہ بھی ظنی دلائل ہی سے ثابت ہے، بلکہ یہ تو چھوڑئیے اگر صحابہ کی درجہ بندی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پہلا نمبر ہونا اگر قطعی مسئلہ نہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چوتھا نمبر ہونا کیا قطعی مسئلہ ہے؟ اگر کوئی کہے کہ مثلاً ان کا نمبر پانچواں یا آٹھواں ہے تو پھر؟ اس چوتھے نمبر کو آپ متکلمین کے پیمانے پر کس قطعی دلیل سے ثابت کریں گے؟ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی باطنی امور کی خلافت کیا قطعی دلائل سے ثابت ہے؟ اور کوئی بات کو مزید آگے بڑھا کر کہہ سکتا ہے کہ یزید کے مقابلے پر دیگر صحابہ سے اختلاف کرتے ہوئے حضرت حسین رضی الله عنه کے اقدام کی صحت بھی اس اصول پر ظنی مسائل میں سے ہے۔ الغرض یہ دو دھاری اصول جب دوسری طرف سے کاٹے گا تو آپ کو بھی زخم دے گا۔ کسی مسئلے کا ظنی ہونا اس کی مخالف رائے سنی رائے ہونے کے ہم معنی نہیں ہوتا۔

[1]  یہاں غور کیجئے کہ آپ بحث کی اٹھان ہی اس اصول پر رکھ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی افضلیت کی بحث اصلاً نصوص پر مبنی ہے نہ کہ محض ترتیب خلافت پر جیسا کہ بعض لوگوں کی جانب سے یہ کہا جانے لگا ہے۔

[2]  یہاں بھی یہ بات نوٹ  کیجئے  کہ ان کی دلیل یہ نہیں ہے کہ “چونکہ حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ تھے بس اس لئے وہ سب سے افضل تھے”۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں